اردو محفل کا مشاعرہ برائے ۲۰۱۲ء ( تبصرہ جات کی لڑی)

فاتح

لائبریرین
نہایت خوبصورت کلام پیش کیا ہے فاتح بھائی۔ فارسی تو مجھے سمجھ نہیں آتی۔ غزل میں یہ اشعار خصوصاً پسند آئے۔

ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"
اب کیا کہیں کہ فارسی تو ہمیں بھی سمجھ نہیں آئی، تبھی اردو میں مصرعے لکھ دیے۔ :)
 
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
واہ واہ واہ کیا بات ہے واہ

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
واہ واہ واہ

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
واہ کیا خوبصورت شعر ہے واہ واہ واہ

بہت خوب جناب بہت سی داد آپ کے لیے قبول کیجیے محمد وارث
 
بہت بہت شکریہ محترم خرم بھائی کہ آپ نے اتنی محبت سے ناچیز کو یاد کیا۔ یہ سر اسر آپ کی محبت ہی ہے ورنہ :

من آنم کہ من دانم

یہاں میں اردو محفل کی انتظامیہ ، مشاعرے کے تمام منتظمین خاص طور پر محترم محمد وارث صاحب اور محترم خلیل الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جن کی زیرِ سر پرستی اتنا اچھا مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو محفل کی انفرادی روایت ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔

اور اب جنابِ صدر اور اساتذہ کرام کی اجازت سے پہلے کچھ چیدہ چیدہ اشعار اورپھر ایک غزل پیش کرنے کی جسارت کروں گا:
سخن ہوں سر بہ سر لیکن ادا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں اس قحطِ سماعت میں صدا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں ڈرتا ہوں کہ دنیا نا شناسِ حرفِ دل ٹھہری
میں خوشبو ہوں سو ایسے میں ہوا ہونے سے ڈرتا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
فصیلِ ذات سے واپس پلٹ بھی سکتا تھا
میں اپنے آپ میں پھر سے سمٹ بھی سکتا تھا
رفیقِ راہِ عدم تھی ازل سے تنہائی
سفر حیات کا باتوں میں کٹ بھی سکتا تھا
لہو سے میں نے ہی سینچا تھا نخلِ خواہش کو
سو میں ہی شہرِ تمنّا اُلٹ بھی سکتا تھا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اور اب ایک غزل کے کچھ اشعار
الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے
طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے
بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے
چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے
سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے

آخر میں ایک بار پھر تمام حاضرینِ مشاعرہ اور انتظامیہ کا بہت بہت شکریہ۔

بہت داد قبول فرمائیں۔ تاخیر کے لئے معذرت۔
بہت عمدہ رہی میاں۔ :applause:
 
صدرِ محترم کی اجازت سے سب سے پہلےاپنا ھدیہ نعت بحضورِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلم
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی
اب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔
ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائے
من موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئے
غم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیارا
پریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائے
زخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبور
پریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئے
بندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقی
یہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائے
آخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)
تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسے
اگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہت
نہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکل
ہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہت
وہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیا
اگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہت
کہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیار
وفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت
(۲)
ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریں
ہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریں
ہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہے
ہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریں
تری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوں
ہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریں
ہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جانا
ہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریں
تڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہم
قریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریں

بہت خوب جناب۔ واہ واہ!!
 
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:


نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارا​
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را​
نگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارا​
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را​
بہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کو​
کنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ را​
عجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میں​
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما را​
غضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسی​
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را​
کبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ سادات​
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را​
تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے​
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا​
یہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتے​
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را​
شہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہ​
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا را​
حقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغم​
کہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را​

اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:

کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیے
شوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"
بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر
شمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیے
تا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے ناز
شوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیے
ہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہی
یاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے

اک اک شعر ہی عمدہ ہے فاتح بھائی کیا کمال کلام تھا۔
تعریف کے لئے الفاظ کا تعین ہی نہیں کر پارہا۔ بعض چیزیں محض الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہوتی ہیں۔ اس کلام کی بھی وہی نوعیت ہے۔
ماشا اللہ۔ بہت داد قبول ہو۔ :thumbsup:
 
بہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔

جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔

سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ

محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

اور اب دو رباعیاں

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں

اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

والسلام

بہت عمدہ و اعلی محمد وارث بھائی۔ ایک شعر (آپ کے پسندیدہ شاعر کا ترمیم شدہ)
آپ کے شعر کا احوال کہوں کیا بسمل
جس کے اشعار کم از گلشنِ کشمیر نہیں۔ :)
بہت داد میری جانب سے قبول فرمائیں۔
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
واہ واہ۔
 

مزمل حسین

محفلین
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

اور اب دو رباعیاں

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں

اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے


سبحان اللہ سبحان اللہ
استاد محترم داد کے لیے الفاظ کم پڑ گئے ہیں
اس قدر عمدہ کلام سے نوازنے کے لئے آپ کے شکر گزار ہیں

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
کیا کہنے....!
 

محمد وارث

لائبریرین

محمداحمد

لائبریرین
ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلم
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی
سبحان اللہ سبحان اللہ ۔۔۔! بہت اچھی نعت ہے خلیل الرحمٰن صاحب
جزاک اللہ۔۔۔۔!
اب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔
ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائے
من موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئے
غم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیارا
پریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائے
زخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبور
پریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئے
بندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقی
یہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائے
واہ واہ بہت خوب ہے یہ غزل بھی۔
آخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)
تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسے
اگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہت
نہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکل
ہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہت
وہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیا
اگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہت
کہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیار
وفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت
(۲)
ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریں
ہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریں

ہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہے
ہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریں
تری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوں
ہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریں
ہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جانا
ہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریں
تڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہم
قریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریں

بہت خوب ! عمدہ کلام پیش ہے جناب آپ نے۔ نذرانہ ء تحسین پیشِ خدمت ہے قبول کیجے۔
 
تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہو
سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو
میں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوں​
ہزار وحشتِ موج ِہوا سلامتی ہو​
مری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئی​
صباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہو​
ملال ِ شام ِ مسلسل کی حکمرانی ہے​
الم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہو​
تمام کون و مکاں کے لئے دعائے خیر​
فقط یہاں ہی نہیں جابجا سلامتی ہو​
وہاںبچھانی ہے اک جانماز میں نے بھی​
کنارِ چشمہ ئ حمد و ثنا سلامتی ہو​
میں چل رہا تھا کسی بدکلام بستی میں​
کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو​
سیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبا​
اٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہو​
پڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہے​
سلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہو​
میں خوشہ چین ہوں غالب ترے گلستاں کا
اے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہو
شبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلوئوں سے
اے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہو
یہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آباد
مری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو

بہت عمدہ جناب۔ داد قبول فرمائیں۔۔
 
خرم شہزاد خرم! اس پرجوش استقبال کے لیے بہت شکریہ!
صدر محفل، دیگر شرکائے مشاعرہ خواتین و حضرات آپ سب کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں
ایک مدت ہوئی غزل کہنا ترک کردی، صرف نعت کہتا ہوں لیکن وہ بھی سال بھر میں ایک آدھ ۔۔ اس لیے بہت عرصہ پہلے کے کہے ہوئے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کر کے اجازت چاہوں گا ہوسکتا ہے ان اشعار میں آپ کو فنی خامیاں بھی ملیں اور اگر ایسا ہے تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ غزل کہنا موقوف کر چکا ہوں ، اور اگر کچھ پرانا لکھا ہوا موجود ہے تو کبھی اس پر نظر ثانی یا بہتری کی کوشش ہی نہیں کی۔
احباب کی زیادہ سمع خراشی نہیں کرونگا صرف چند اشعار:

ہاتھ میں لے لے وقت کی باگ
چھوڑ دے بیراگی بیراگ
اک دن تو کوئی آئے گا
آس منڈیر پہ بولے کاگ
گلشن کو جھلسا ڈالے گی
سبز رتوں کی ٹھنڈی آگ
گونگی ہیں نعروں کی زبانیں
بیٹھ گئے جذبوں کے جھاگ
جانے پھر کیا چال چلے گا
اندھے وقت کا بوڑھا گھاگ
آنسو ، درد ، کسک اور یاس
واہ پریمی۔ ۔ ۔ !تیرے بھاگ !
روپ نگر میں پگ پگ شاکر
ڈستے ہیں زلفوں کے ناگ
===================
ہر طرف ہے اداس تنہائی
آگئی مجھ کو راس تنہائی
وہ کہ محو نشاط محفل ہے
اور میرے آس پاس تنہائی
اب یہی چند اپنے ساتھی ہیں
آرزو ، درد ، یاس ، تنہائی
وحشت دل بڑھائی دیتی ہے
آرزو ناشناس تنہائی
================
زخم دل پر اگر نگاہ کریں
میرے عیسیٰ بھی آہ آہ کریں
اب کسے اعتماد منصف پر
آؤ قاتل سے رسم و راہ کریں
اپنی نظروں میں گر کے ہم کیسے
آرزوئے حصولِ جاہ کریں
ہم نہ زردار ہیں نہ حاکم ہیں
کس لیئے ہم سے وہ نباہ کریں
رحمت کر دگار جوش میں ہے
آؤ ہم بھی کوئی گنا ہ کریں
حسن کی بے حجابیاں ’’شاکر‘‘
دل کو آمادۂ گناہ کریں
================

خوب کلام ہے حضرت۔
بہت عمدہ۔ واہ۔
بہت داد قبول فرمائیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہو
سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو​
میں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوں​
ہزار وحشتِ موج ِہوا سلامتی ہو​
مری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئی​
صباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہو​
ملال ِ شام ِ مسلسل کی حکمرانی ہے​
الم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہو​
تمام کون و مکاں کے لئے دعائے خیر​
فقط یہاں ہی نہیں جابجا سلامتی ہو​
وہاںبچھانی ہے اک جانماز میں نے بھی​
کنارِ چشمہ ئ حمد و ثنا سلامتی ہو​
میں چل رہا تھا کسی بدکلام بستی میں​
کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو​
سیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبا​
اٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہو​
پڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہے​
سلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہو​
میں خوشہ چین ہوں غالب ترے گلستاں کا​
اے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہو​
شبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلوئوں سے​
اے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہو​
یہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آباد​
مری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو​


بہت ہی خوب غزلیں ہیں دونوں، داد قبول فرمائیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خرم شہزاد خرم! اس پرجوش استقبال کے لیے بہت شکریہ!
صدر محفل، دیگر شرکائے مشاعرہ خواتین و حضرات آپ سب کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں
ایک مدت ہوئی غزل کہنا ترک کردی، صرف نعت کہتا ہوں لیکن وہ بھی سال بھر میں ایک آدھ ۔۔ اس لیے بہت عرصہ پہلے کے کہے ہوئے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کر کے اجازت چاہوں گا ہوسکتا ہے ان اشعار میں آپ کو فنی خامیاں بھی ملیں اور اگر ایسا ہے تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ غزل کہنا موقوف کر چکا ہوں ، اور اگر کچھ پرانا لکھا ہوا موجود ہے تو کبھی اس پر نظر ثانی یا بہتری کی کوشش ہی نہیں کی۔
احباب کی زیادہ سمع خراشی نہیں کرونگا صرف چند اشعار:

ہاتھ میں لے لے وقت کی باگ
چھوڑ دے بیراگی بیراگ
اک دن تو کوئی آئے گا
آس منڈیر پہ بولے کاگ
گلشن کو جھلسا ڈالے گی
سبز رتوں کی ٹھنڈی آگ
گونگی ہیں نعروں کی زبانیں
بیٹھ گئے جذبوں کے جھاگ
جانے پھر کیا چال چلے گا
اندھے وقت کا بوڑھا گھاگ
آنسو ، درد ، کسک اور یاس
واہ پریمی۔ ۔ ۔ !تیرے بھاگ !
روپ نگر میں پگ پگ شاکر
ڈستے ہیں زلفوں کے ناگ
===================
ہر طرف ہے اداس تنہائی
آگئی مجھ کو راس تنہائی
وہ کہ محو نشاط محفل ہے
اور میرے آس پاس تنہائی
اب یہی چند اپنے ساتھی ہیں
آرزو ، درد ، یاس ، تنہائی
وحشت دل بڑھائی دیتی ہے
آرزو ناشناس تنہائی
================
زخم دل پر اگر نگاہ کریں
میرے عیسیٰ بھی آہ آہ کریں
اب کسے اعتماد منصف پر
آؤ قاتل سے رسم و راہ کریں
اپنی نظروں میں گر کے ہم کیسے
آرزوئے حصولِ جاہ کریں
ہم نہ زردار ہیں نہ حاکم ہیں
کس لیئے ہم سے وہ نباہ کریں
رحمت کر دگار جوش میں ہے
آؤ ہم بھی کوئی گنا ہ کریں
حسن کی بے حجابیاں ’’شاکر‘‘
دل کو آمادۂ گناہ کریں
================




بہت ہی پیاری غزلیں شاکر صاحب،
دل خوش ہو گیا۔
بہت سی داد قبول کریں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:


نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارا​
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را​
نگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارا​
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را​
بہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کو​
کنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ را​
عجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میں​
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما را​
غضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسی​
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را​
کبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ سادات​
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را​
تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے​
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا​
یہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتے​
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را​
شہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہ​
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا را​
حقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغم​
کہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را​

اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:

کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیے​
شوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے​
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے​
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے​
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا​
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"​
بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر​
شمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیے​
تا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے ناز​
شوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیے​
ہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہی​
یاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے​

بہت خوب فاتح بھائی،

ہمیشہ کی طرح خوبصورت کلام پیش کیا ہے آپ نے۔ خاکسار کی جانب سے بہت سی داد حاضر ہے۔

خوش رہیے۔
 
Top