اردو محفل کا مشاعرہ برائے ۲۰۱۲ء ( تبصرہ جات کی لڑی)

محمد بلال اعظم

لائبریرین
صدرِ محترم کی اجازت سے سب سے پہلےاپنا ھدیہ نعت بحضورِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔​
ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلم​
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی​
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی​
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی​
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی​
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘​
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی​
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب​
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی​
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے​
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی​
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحق​
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی​
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی​
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی​
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور​
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی​
ماشاءاللہ
سبحان اللہ
یہ نعت مجھے کتنی پسند آئی، اس کا اندازہ آپ اس ذاتی میسج سے لگا سکتے ہیں، جو میں نے آپ کو بھیجا ہے۔
اب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔​
ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائے​
من موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئے​
غم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیارا​
پریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائے​
زخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبور​
پریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئے​
بندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقی​
یہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائے​
واہ، بہت خوب
آخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔​
(۱)​
تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسے​
اگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہت​
نہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکل​
ہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہت​
وہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیا​
اگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہت​
کہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیار​
وفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت​
(۲)​
ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریں​
ہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریں​
ہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہے​
ہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریں​
تری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوں​
ہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریں​
ہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جانا​
ہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریں​
تڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہم​
قریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریں​
ہائے، ہائے، دور کریں
کیا بات ہے آپ کی۔
داد قبول کریں۔

بس ایک چیز کی کمی محسوس ہوئی، اگر کوئی مزاحیہ غزل بھی ڈال دیتے نمک مرچ لگا کر تو مزہ دوبالا بلکہ شہ بالا ہوجاتا۔
 

مزمل حسین

محفلین
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی

کہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیار
وفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ہائے بہت

جناب محمد خلیل الرحمن صاحب کیا کہنے آپ کے
خوبصورت نعت کے ساتھ ساتھ اتنی شاندار غزل سے نوازنے کے لیے بہت بہت شکریہ
واہ واہ واہ لطف آ گیا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:


نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارا​
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را​
نگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارا​
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را​
بہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کو​
کنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ را​
عجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میں​
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما را​
غضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسی​
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را​
کبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ سادات​
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را​
تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے​
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا​
یہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتے​
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را​
شہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہ​
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا را​
حقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغم​
کہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را​
معذرت کے ساتھ مگر مجھے اس غزل کا اردو میں ترجمہ کر کے دیں۔

اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:

کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیے​
شوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے​
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے​
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے​
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا​
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"​
بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر​
شمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیے​
تا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے ناز​
شوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیے​
ہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہی​
یاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے​
واہ جناب کی بات ہے۔ بہت ہی زبردست غزل ہے۔ آخری شعر تو بہت ہی لا جواب ہے۔
داد قبول کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت بہت شکریہ محترم خرم بھائی کہ آپ نے اتنی محبت سے ناچیز کو یاد کیا۔ یہ سر اسر آپ کی محبت ہی ہے ورنہ :

من آنم کہ من دانم

یہاں میں اردو محفل کی انتظامیہ ، مشاعرے کے تمام منتظمین خاص طور پر محترم محمد وارث صاحب اور محترم خلیل الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جن کی زیرِ سر پرستی اتنا اچھا مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو محفل کی انفرادی روایت ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔

اور اب جنابِ صدر اور اساتذہ کرام کی اجازت سے پہلے کچھ چیدہ چیدہ اشعار اورپھر ایک غزل پیش کرنے کی جسارت کروں گا:
سخن ہوں سر بہ سر لیکن ادا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں اس قحطِ سماعت میں صدا ہونے سے ڈرتا ہوں
میں ڈرتا ہوں کہ دنیا نا شناسِ حرفِ دل ٹھہری
میں خوشبو ہوں سو ایسے میں ہوا ہونے سے ڈرتا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
فصیلِ ذات سے واپس پلٹ بھی سکتا تھا
میں اپنے آپ میں پھر سے سمٹ بھی سکتا تھا
رفیقِ راہِ عدم تھی ازل سے تنہائی
سفر حیات کا باتوں میں کٹ بھی سکتا تھا
لہو سے میں نے ہی سینچا تھا نخلِ خواہش کو
سو میں ہی شہرِ تمنّا اُلٹ بھی سکتا تھا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اور اب ایک غزل کے کچھ اشعار
الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے
طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے
بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے
چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے
سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے

آخر میں ایک بار پھر تمام حاضرینِ مشاعرہ اور انتظامیہ کا بہت بہت شکریہ۔

واہ واہ کیا کہنے احمد صاحب، بہت سی داد آپ کیلیے جناب
 

محمد وارث

لائبریرین
صدرِ محترم کی اجازت سے سب سے پہلےاپنا ھدیہ نعت بحضورِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلم
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی
دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی
مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی
ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی
شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی
تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی
خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی
اب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔
ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائے
من موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئے
غم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیارا
پریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائے
زخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبور
پریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئے
بندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقی
یہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائے
آخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)
تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسے
اگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہت
نہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکل
ہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہت
وہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیا
اگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہت
کہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیار
وفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت
(۲)
ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریں
ہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریں
ہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہے
ہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریں
تری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوں
ہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریں
ہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جانا
ہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریں
تڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہم
قریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریں

لاجواب، کیا خوبصورت کلام ہے خلیل صاحب۔ بہت داد قبول کیجیے محترم
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:


نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارا​
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را​
نگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارا​
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را​
بہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کو​
کنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ را​
عجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میں​
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما را​
غضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسی​
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را​
کبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ سادات​
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را​
تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے​
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا​
یہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتے​
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را​
شہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہ​
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا را​
حقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغم​
کہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را​

اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:

کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیے​
شوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے​
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے​
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے​
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا​
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"​
بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر​
شمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیے​
تا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے ناز​
شوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیے​
ہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہی​
یاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے​

کیا ہی اچھی تضمین ہے اور کیا ہی خوبصورت غزل ہے فاتح صاحب، بہت داد قبول کیجیے جناب
 

فاتح

لائبریرین
تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا
واہ واہ کیا بات ہے جناب فاتح
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"
واہ واہہ واہہ واہ حاصل غزل ہے جناب واہ فاتح
بہت شکریہ اظہر صاحب
 
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:


نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارا​
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را​
نگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارا​
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را​
بہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کو​
کنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ را​
عجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میں​
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما را​
غضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسی​
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را​
کبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ سادات​
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا را​
تخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سے​
جوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا​
یہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتے​
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا را​
شہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہ​
کہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا را​
حقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغم​
کہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را​

اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:

کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیے​
شوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے​
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے​
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے​
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا​
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"​
بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر​
شمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیے​
تا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے ناز​
شوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیے​
ہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہی​
یاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے​
واہ ...سبحان الله ! فاتح صاحب بہت خوبصورت کلام شئیرکیا ہے اپ نے
حافظ شیرازی کی مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تو آپکی پہچان ہی بن چکی ہے
اور غزل تو قند مکرر کا لطف دے گئی.
بہت سی داد قبول کیجیے
 

فاتح

لائبریرین
واہ ...سبحان الله ! فاتح صاحب بہت خوبصورت کلام شئیرکیا ہے اپ نے
حافظ شیرازی کی مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تو آپکی پہچان ہی بن چکی ہے
اور غزل تو قند مکرر کا لطف دے گئی.
بہت سی داد قبول کیجیے
بہت شکریہ مدیحہ گیلانی صاحبہ۔ اس پذیرائی پر سر تا پا ممنون ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔

جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔

سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ

محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

اور اب دو رباعیاں

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں

اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

والسلام
واہ واہ واہ کیا ہی خوبصورت کلام ہے۔ لطف آ گیا۔۔۔ خصوصاً یہ شعر تو حاصلِ کلام ہے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسدؔ
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔

جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔

سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ

محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

اور اب دو رباعیاں

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں

اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

والسلام


واہ
سبحان اللہ، ماشاءاللہ
کیا بات ہے آپ کی وارث بھائی، ایک ایک شعر لا جواب ہے۔
کسی ایک کی تعریف کرنا باقیوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
مجھے آپ کے کلام کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں مل رہے۔
واہ! ماشاءاللہ! سبحان اللہ!
 

سید ذیشان

محفلین
نہایت خوبصورت کلام پیش کیا ہے فاتح بھائی۔ فارسی تو مجھے سمجھ نہیں آتی۔ غزل میں یہ اشعار خصوصاً پسند آئے۔

ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"
 

سید ذیشان

محفلین
محمد وارث بھائی، رباعیاں بہت ہی کمال تھیں۔ آپ کا کلام پہلے نہیں پڑھا، اب پڑھنا نصیب ہوا ہے تو تعریف کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے


واہ واہ واہ۔۔۔ بہت ہی کمال!
 
بہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔

جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔

سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ

محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

اور اب دو رباعیاں

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں

اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

والسلام
واہ واہ کیا کہنے وارث صاحب !
بہت عمدہ کلام پیش کیا ہے اپنے سبحان الله !
رباعیاں بھی خوب ہیں اور غزل تو بہت ہی باکمال ہے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
واہ ! لطف آ گیا
 
Top