صدرِ محترم کی اجازت سے سب سے پہلےاپنا ھدیہ نعت بحضورِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلمزمیں پہ نازشِ انساں محمد عربیفلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربیدکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبیہر ایک درد کا درماں محمدِ عربیتمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربیمٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شبہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربیہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سےتمہاری شان کے شایاں محمدِ عربیشفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحقگواہ آپ کا قرآں محمدِ عربیتمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبیہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربیخلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انوراسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربیماشاءاللہسبحان اللہیہ نعت مجھے کتنی پسند آئی، اس کا اندازہ آپ اس ذاتی میسج سے لگا سکتے ہیں، جو میں نے آپ کو بھیجا ہے۔اب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائےمن موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئےغم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیاراپریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائےزخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبورپریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئےبندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقییہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائےواہ، بہت خوبآخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔(۱)تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسےاگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہتنہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکلہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہتوہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیااگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہتکہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیاروفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت(۲)ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریںہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریںہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہےہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریںتری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوںہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریںہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جاناہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریںتڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہمقریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریںہائے، ہائے، دور کریںکیا بات ہے آپ کی۔داد قبول کریں۔
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:
نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارابخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا رانگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارااگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما رابہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کوکنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ راعجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میںچناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما راغضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسیبہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا راکبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ ساداتکہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا راتخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سےجوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارایہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتےجوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا راشہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہکہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا راحقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغمکہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا رامعذرت کے ساتھ مگر مجھے اس غزل کا اردو میں ترجمہ کر کے دیں۔
اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:
کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیےشوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیےہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیےجا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیےقرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَرشمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیےتا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے نازشوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیےہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہییاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیےواہ جناب کی بات ہے۔ بہت ہی زبردست غزل ہے۔ آخری شعر تو بہت ہی لا جواب ہے۔ داد قبول کریں۔
بہت بہت شکریہ محترم خرم بھائی کہ آپ نے اتنی محبت سے ناچیز کو یاد کیا۔ یہ سر اسر آپ کی محبت ہی ہے ورنہ :
من آنم کہ من دانم
یہاں میں اردو محفل کی انتظامیہ ، مشاعرے کے تمام منتظمین خاص طور پر محترم محمد وارث صاحب اور محترم خلیل الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جن کی زیرِ سر پرستی اتنا اچھا مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو محفل کی انفرادی روایت ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔
اور اب جنابِ صدر اور اساتذہ کرام کی اجازت سے پہلے کچھ چیدہ چیدہ اشعار اورپھر ایک غزل پیش کرنے کی جسارت کروں گا:
سخن ہوں سر بہ سر لیکن ادا ہونے سے ڈرتا ہوںمیں اس قحطِ سماعت میں صدا ہونے سے ڈرتا ہوںمیں ڈرتا ہوں کہ دنیا نا شناسِ حرفِ دل ٹھہریمیں خوشبو ہوں سو ایسے میں ہوا ہونے سے ڈرتا ہوں۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میںجلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میںچمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دلکریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میںشبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماںمہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰فصیلِ ذات سے واپس پلٹ بھی سکتا تھامیں اپنے آپ میں پھر سے سمٹ بھی سکتا تھارفیقِ راہِ عدم تھی ازل سے تنہائیسفر حیات کا باتوں میں کٹ بھی سکتا تھالہو سے میں نے ہی سینچا تھا نخلِ خواہش کوسو میں ہی شہرِ تمنّا اُلٹ بھی سکتا تھا۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اور اب ایک غزل کے کچھ اشعارالگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئےجنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئےطلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیاہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئےبہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میںبہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئےچراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھےپھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئےسخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیاتری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے
آخر میں ایک بار پھر تمام حاضرینِ مشاعرہ اور انتظامیہ کا بہت بہت شکریہ۔
صدرِ محترم کی اجازت سے سب سے پہلےاپنا ھدیہ نعت بحضورِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ھد یہ نعت بحضورِ سرورِ کائینات ( صلی اللہ علیہ و سلمزمیں پہ نازشِ انساں محمد عربیفلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربیدکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبیہر ایک درد کا درماں محمدِ عربیتمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربیمٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شبہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربیہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سےتمہاری شان کے شایاں محمدِ عربیشفیعِ امّتِ مرحوم، ھادی ء برحقگواہ آپ کا قرآں محمدِ عربیتمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبیہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربیخلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انوراسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربیاب اپنے کالج کے زمانے کے کہے ہوئے چند دوھے پیش ہیں۔ہم نے اپنے بھاگ میں لکھے کیا کیا تیر چلائےمن موہن وہ پنچھی یارو، پھر بھی ہاتھ نہ آئےغم کی رینا، غم کے بادل، ہر سو گھور اندھیاراپریت کے دیئے جلیں تو ہر سو اجُیارا ہوجائےزخمی منوا، غم کا بوجھا، چلنے سے مجبورپریتم پریت کی ڈوری لیکر من کو باندھنے آئےبندھن سارے ٹوٹ چکے پر آس کا بندھن باقییہ بندھن بھی نازک بندھن پل میں ٹوٹا جائےآخر میں چند نامکمل غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔(۱)تمہاری اِک نگہِ اِلتفات کو ترسےاگرچہ محفلِ مینا میں ہم بھی آئے بہتنہیں وصال کی حسرت ہمیں مگر وہ شکلہماری چشمِ تمنا میں بس ہی جائے بہتوہ تند خو نہ پسیجا، نہ مان کر ہی دیااگرچہ رو برو ہم اس کے روئے، گائے بہتکہیں وہ پوچھ ہی بیٹھے کہ اُس سے کتنا ہے پیاروفورِ شوق سے ہم کہہ سکیں کہ ھائے بہت(۲)ہمارے حال پہ اتنا کرم ضرور کریںہمیں نہ خود سے نہ خود کو وہ ہم سے دور کریںہمیں پہ دیدہء عبرت نگاہ ٹھہری ہےہمارے حال پہ اتنا نہ اب غرور کریںتری تلاش میں بازو ہمارے شل نہ ہوںہزیمتوں کے یہ دریا جو ہم عبور کریںہمیں قبول ہے سو جاں سے خاک ہو جاناہماری خاک کو سرمہ اگر حضور کریںتڑپ تڑپ کے تمہی کو پُکارتے تھے ہمقریب آؤ ، تمہاری بلائیں دور کریں
شکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:
نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارابخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا رانگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارااگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما رابہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کوکنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ راعجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میںچناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما راغضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسیبہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا راکبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ ساداتکہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا راتخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سےجوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارایہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتےجوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا راشہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہکہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا راحقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغمکہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را
اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:
کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیےشوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیےہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیےجا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیےقرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَرشمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیےتا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے نازشوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیےہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہییاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے
بہت شکریہ جناب۔۔۔ ممنون ہوں اس محبت پرکیا ہی اچھی تضمین ہے اور کیا ہی خوبصورت غزل ہے فاتح صاحب، بہت داد قبول کیجیے جناب
واہ ...سبحان الله ! فاتح صاحب بہت خوبصورت کلام شئیرکیا ہے اپ نےشکریہ خرم صاحب۔ ممنون ہوں۔
پہلے تو حافظ شیرازی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تبرکاً پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور بعد ازاں ایک غزل:
نہ میں حافظ، نہ میں وامق، نہ میں حاتم، نہ میں دارابخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا رانگاہ و جان و تن واروں، لٹا دوں میں جہاں سارااگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما رابہشت اپنی محلہ یار کا ہے جیسے حافظؔ کوکنارِ آبِ رکن آباد و گلگشتِ مصلیٰ راعجب تاثیر تھی اس ناوکِ مژگاں کی جنبش میںچناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوانِ یغما راغضب غازہ کیا ہے کیوں، نگہ میں برہمی کیسیبہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا راکبھی آدم کو جنت سے تو میرؔ از کوچۂ ساداتکہ عشق از پردۂ عصمت بروں آرد زلیخا راتخاطب کر گیا تیرا مجھے ممتاز غیروں سےجوابِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارایہ کیا دورِ خرابی ہے کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتےجوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانا راشہود و شاہد و مشہود کیا ہیں؟ دائرہ، نقطہکہ کس نگشود و نگشاید بہ حکمت ایں معمّا راحقیقی اور مجازی کی حدیں باہم ہوئیں مدغمکہ بر نظمِ تُو افشاند فلک عقدِ ثریا را
اور اب ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:
کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیےشوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیےہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیےجا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیےقرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَرشمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیےتا، کشتگاں کی خاک اُڑا پائے، پائے نازشوقِ طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیےہر سُو فقط ہوَس کی دکانیں تھیں کھُل رہییاروں نے کاروبارِ محبت بڑھا دیے
بہت شکریہ مدیحہ گیلانی صاحبہ۔ اس پذیرائی پر سر تا پا ممنون ہوں۔واہ ...سبحان الله ! فاتح صاحب بہت خوبصورت کلام شئیرکیا ہے اپ نے
حافظ شیرازی کی مشہورِ زمانہ غزل پر تضمین تو آپکی پہچان ہی بن چکی ہے
اور غزل تو قند مکرر کا لطف دے گئی.
بہت سی داد قبول کیجیے
واہ واہ واہ کیا ہی خوبصورت کلام ہے۔ لطف آ گیا۔۔۔ خصوصاً یہ شعر تو حاصلِ کلام ہےبہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔
جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔
سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام
اور اب دو رباعیاں
محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
والسلام
بہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔
جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔
سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام
اور اب دو رباعیاں
محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
والسلام
واہ واہ کیا کہنے وارث صاحب !بہت شکریہ خرم اس عزت افزائی کیلیے۔
جناب صدر اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے۔
سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام
اور اب دو رباعیاں
محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
والسلام