ماہی احمد
لائبریرین
السلام علیکم یا اہل اردو محفل!!!
آداب ، آداب، آپ کو بھی آداب، آپ کو بھی (باآوازِ بلند خط پڑھنے والا ہاتھ کا چلو بنا کر سب کو آداب کہے اور بزرگوں سے سر پر پیار لے)۔ امید کرتی ہوں کہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے سب بالکل ٹھیک ہوں گے، روحانی طور پر بھی، جسمانی طور پر بھی اور ہر طرح سے۔ جو گر کوئی بیمار ہے تو اس کے لئیے ڈھیروں دعائیں، اللہ آپ کو جلد صحت یاب کرے اور آپ پھر سے ہمارے درمیان اپنے انھیں پرانے رنگوں کے ساتھ موجود ہوں جو کہ آپ کا خاصہ تھے اور ہر دل میں گھر کئیے ہوئے تھے۔
کچھ دنوں سے محفل کا ماحول کچھ تناؤ کا شکار دکھائی دیا، ایک دو جگہوں پر کچھ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور کئی دل دُکھے۔ تو میں نے سوچا ذرا ماحول کو ہلکا پھلکا کیا جائے کوئی دو چار ادھر اُدھر کی باتیں ہوں، تھوڑا مزہ کرتے ہیں۔ ویسے تو کینٹین میں مینگو پارٹی ہو گی ہی جس کے متعلق میں نے سوچا کہ اتوار کا دن مناسب ہے کہ سب اس دن چھٹی منا رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہئیے تھا نا۔ چلیں پھر آج میں آپ سب کو ایک کہانی سناتی ہوں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک بہت بڑا باغ تھا، بہت بڑا۔ اس میں طرح طرح کے رنگ رنگ کے اور ہر نسل کے بے تحاشا پھول تھے اور باغ کے اطراف میں لمبے لمبے سفیدے کے درخت بھی۔ اس باغ کا حسن دیکھنے جو کہ محض ان پھولوں پر ہی مشتمل نہ تھا بلکہ مختلف پھلوں کے درخت اور ایک ندیا بھی تهی، جو چاند کی چاندنی میں یوں دکھائی دیتی گویا چاندی بہتی آ رہی ہے، دور دور سے ہر طرح کے جاندار آتے تھے۔ کبھی تتلیاں، کبھی پرندے، کبھی گلہریاں، کبھی جگنو اور بہت سے جانور (اب کئی شرارتی دماغ سوچ رہے ہوں گے کہ جب ہاتھی اور ذرافے آئیں ہوں گے تو کیا ہوا ہو گا، تو ہونا کیا تھا کچھ بھی نہیں وہ آئے سیر کی چلے گئے) خیر تو ہم بات کر رہے تھے کہ دور دراز کے علاقوں سے مختلف جانور اس باغ کی سیر کو اور اسے دیکھنے کو آتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ وہاں باغ میں ایک الو آ کر بیٹھ گیا، اور اپنی بٹن جیسی گول گول آنکھوں کو گھما گھما کر باغ کو غور گور سے دیکھنے لگا۔ وہیں اس شاخ کی ساتھ والی شاخ پر ایک مینا آ کر بیٹھی، باغ کے حسن نے اس کی طبیعت کو سرشاری بخشی تو وہ لگی گنگنانے، الو کو یہ بات پسند نہ آئی۔ مینا سے پوچھنے لگا، او مینا! کیا ہوا تجھے جو یوں گانے لگی؟ مینا نے وہی جواب دیا کہ خوبصورتی سے بہت متاثر ہوں، دیکھ تو خدا کی شان کیسا حسین باغ بنا ڈالا، طرح طرح کے پھول اور طرح طرح کے پھل، اس پر چار چاند لگاتی وہ ندیا جو باغ کے عین بیچ سے بل کھاتی جا رہی ہے، کیا ہی تعریف ہو اِس کی اور اُس ذات کی جس نے اسے بنایا۔ اب الو ذرا زیادہ ہی باریک بین تھا، اسے باغ کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی خامیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس نے مینا سے کہا، او مینا! تو کیا پاگل ہے؟ یا باؤلی ہو گئی ہے؟ ایک عام سے باغ ہے، بلکہ عام سے بھی کچھ کم ہی سمجھ، جن پھولوں کی تو تعریف کر رہی ہے دیکھ ایک بار غور سے کیسے ان کی پتیاں کناروں سے جلنے لگیں اور ان کے کانٹے کتنے بھدے ہیں، اور وہ دیکھ جس ندیا کا تو ذکر کر رہی ہے، کیا حسن ہے اس میں؟ پانی ہی تو ہے جو بہے جا رہا ، اور یہ تمام پھل؟ کسی کا ذائقہ نہیں اچھا کوئی کچا ہے، کوئی زیادہ پک چکا۔ غرض یہ کہ الو لگا باغ کی برائیاں نکال نکال کر مینا کے سامنے بیان کرنے۔ اب مینا سے برداشت نہ ہوا اس نے الو کو کھری کھری سنا ڈالیں، الو بھی کچھ مزاج کا تیز نکلا، لگا طرح طرح کی الٹی سیدھی ہانکنے، یہ شور سن کر باغ کے باقی تمام پرندے اور تتلیاں اور جگنو اور جانور بھی وہاں پہنچ گئے، کوئی الو کی بات سے متفق تو کوئی مینا کی بات کی تائید کرے۔ وہاں جو ہلڑ بازی شروع ہوئی تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، خوب مار پیٹ ہوئی خون خرابہ ہوا۔ پھر وہاں ایک گلہری آئی اور اس نے سب کو چپ کروایا۔ جو سب چپ ہوئے تو گلہری نے کہا ارے بھئی لڑتے کیوں ہو؟ جو تم نے کہا وہ بھی ٹھیک ہے جو مینا کہہ رہی ہے وہ بھی ٹھیک ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا ذاویہ نگاہ ہوتا ہے، ہر کسی کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ پر مینا کا اور چند ایک اور پرندوں کا اور کچھ تتلیوں کا اور کچھ جگنوؤں کا دل بہت دُکھا تھا، جب آپ کسی بھی چیز کے متعلق، چاہے وہ کچھ بھی ہو، بہت زیادہ ہوں پوزیسو اور کوئی اس کے متعلق تحقیر آمیز انداز میں بات کرے یا اسے برا کہے یا کچھ بھی منفی تو پھر دل بھی دُکھتا ہے اور وہ شخص جس نے ایسا کچھ کہا ہو آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا بھی ہے۔ سو وہ مینا اور تتلیاں ، اور جگنو اور باقی سب جانور باغ چھوڑ کر چلے گئے، اُدھر الو بھی دلبرداشتہ تھا کہ جو کہا حق تھا تو اتنا برا کیوں مان گئے؟ اس نے بھی فیصلہ کیا باغ چھوڑنا بہتر ہے سو الو اور اس کے ساتھی بھی باغ چھوڑ چلے گئے۔ ان سب کے جانے کے بعد باغ بالکل خالی ہو گیا، باغ کا اصل حسن جن کے دم سے تھا وہ تو جا چکے تھے، سو پھول، پھل، سفیدے کے درخت اور وہ نیلی بل کھاتی ندیا سب بہت اداس تھے، کبھی کبھی کوئی ہوا کا جھونکا آتا اور کوئی ایسی بات سنا جاتا کہ سب کے لبوں پر مسکان آ جاتی پر اس جھونکے کے گزرنے کے بعد پھر وہی ویرانی چھا جاتی۔
مجھے معلوم ہے آپ سب بہت سمجھدار ہیں اور سمجھ گئے ہیں میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں۔ تو پھر جب سمجھ گئے ہیں تو پھر مسکرا دیجیے نا، یہ جو پیشانی پر تیوری کے بل ہیں انہیں دور کیجیے۔ دیکھیں نا دو خالی برتن بھی پڑے ہوں نا ساتھ تو بج اٹھتے ہیں، شور کرتے ہیں۔ میں، آپ ہم سب، ہیں تو پھر انسان ہی نا،دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں،اپنا اپنا نظریہ رکھتے ہیں۔ اور ہمیں کوئی نہیں کہتا کہ ہم یکساں خیالات رکھیں۔ ہمیں تو رب العزت نے بنایا ہی مختلف ہے، ہم سب کو، ایک دوسرے سے، بہت مختلف۔ ۔۔تو پھر خیالات بھی مختلف ہو سکتے ہیں نا! اور اسی طرح رائے بھی۔ میری رائے بہت سے معاملات میں آپ سے مختلف ہو گی، تو پھر کیا مجھے چاہیے کہ میں اس بات پر ناراض ہو جاؤں؟ نہیں نا۔ پر رکیں ذرا، یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، رائے کا اظہار۔ بات یہ نہیں کہ رائے مختلف ہے، بات یہ ہے کہ رائے کا اظہار اس کا انداز ٹھیک نہیں۔ اگر کوئی تحقیر آمیز انداز میں گفتگو کرے تو طبیعت کو برا لگتا ہے نا۔ اور اسی کے بر عکس اگر کوئی آپ سے اتفاق نہیں کرتا مگر وہ اپنی رائے کا اظہار نہایت مناسب الفاظ میں کرتا ہے کہ آپ کو برا بھی نہ لگے تو یہ کتنی اچھی بات ہوتی ہے۔ اچھا چلیں ایک مثال لیں، آپ کہیں جا رہے ہیں، کوئی آپ کو روکتا ہے اور کہتا ہے "یہ کیا گھٹیا لباس پہن رکھا ہے" تو آپ یقینا اس وقت اس کو چار سنا ڈالیں گےکہ ارے بھئی تم ہوتے کون ہو یوں کہنے والے۔ ہو سکتا ہے کچھ ایک ہاتھ بھی جڑ دیں یا کوئی ایک آدھا مُکا۔۔۔ اور اگر کوئی یہی بات نہایت مناسب الفاظ میں کہے کہ بھئی یہ جو لباس ہے یہ ٹھیک ہے لیکن تم پر جچ نہیں رہا، اور اگر اس کا رنگ یہ ہوتا تو یقین مانو بہت زیادہ خوبصورت لگتا تم پر اور تم بہت وجیہ ہو پر اس لباس نے ساری لُکس ہی مار ڈالیں، ہو سکے تو یوں یوں کر کے دیکھو، ایسے ایسے انداز میں ایسا ایسا لباس پہنو، مجھے یقین ہے زیادہ اچھے لگو گے۔ اب بتائیں آپ سوچیں گے کہ نہیں "یار بات تو ٹھیک لگتی ہے" ایک بار جا کر آئینہ تو ضرور ہی دیکھیں گے، ہو سکتا ہے تب آپ کو اس شخص کی بات درست بھی لگے۔ اب دیکھیے کتنا فرق پڑتا ہے۔ بس یہی بات ہے رائے کے اظہار کی۔
اب ایک اور بات، اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی دو لوگ آپس میں کسی بات کو لے کر جھگڑ رہے ہیں تو کیا یہ اچھی بات ہو گی جا کر تالیاں بجانا اور کسی ایک فریق کی حوصلہ افزائی کرنا؟ بے شک آپ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ہیں اور آپ کو اس کی بات درست معلوم ہوتی ہے پر وہ وقت پیٹھ تھپکنے کا نہیں انہیں چپ کروانے کا ہوتا ہے۔ یہ کوئی کبڈی کا میدان نہیں کہ ایک نے اٹھا کر دوسرے کو پٹخا اور آپ نے تالیاں بجائیں اور اپنے الفاظ کے زور پر لگے اس کی پیٹھ تھپکنے گویا کہہ رہے ہوں، ہور زور نال مار، رکھ کے مار ، اِدھروں وی مار اُدھروں وی مار، اج جان نہ دیویں وغیرہ۔ اس وقت آپ کو چاہئیے کہ عقل اور سمجھ سے کام لیں۔ ورنہ نتائج ہمیشہ برے ہی نکلتے ہیں۔ اور ایک اور بات، ارے بھئی میں بھی جانتی ہوں اور باقی سب بھی جانتے ہیں کہ آپ کے پاس بہت معلومات ہیں، آپ کے پاس بہت الفاظ ہیں، آپ دوسرے کا منہ بند کرنے میں ماہر ہیں اور بحث کو خوب اچھی طرح طول دینا جانتے ہیں اور آپ سے تو کوئی جیت ہی نہیں سکتا، پر ایک منٹ، کہیں ایسا تو نہیں اس دوران آپ کی وجہ سے فریق ثانی کا دل دُکھ رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ کی معلومات، آپ کے الفاظ آپ کی صلاحیتیں کسی کام کی نہیں۔ کیا فائدہ ان کا جو خلق خدا کا دل دُکھانے کا باعث ہوں؟ اللہ پاک تو ہو گئے نا ناراض، پھر اگر کوئی آپ کو دل دُکھائے تو آپ دوڑے دوڑے اللہ پاک کے پاس جائیں گے یااللہ پاک دیکھو اس نے زیادتی کی۔ اللہ پاک مہربان ہے، آپ کو تسلی دیتا ہے، کوئی انسان ہو تو کہے "توں آپ کی کیتا سی؟۔۔۔"
یہ اردو محفل ہے، اور اردو تو ایک ایسی میٹھی اور پیاری سی زبان ہے جو ہمیں پیار محبت اور خوشیاں پھیلانے کا درس دیتی ہے۔ آپ ایک کامیاب انسان ہیں، تب نہیں جب آپ ٹکا ٹکا کر جواب اگلے کے منہ پر مارتے ہوں، لیکن تب جب آپ سے ہر دل راضی اور خوش ہو۔ اللہ پاک بھی تو تبھی آپ کو دیکھ کر مسکرائیں گے نا جب آپ کو دیکھ کر کسی انسان کی لبوں پر مسکراہٹ آئے گی۔
اور ہاں یہاں جو کئی لوگ جانے کے لئیے پر تول رہے ہیں نا کہ ہم تو بھئی لگے اس محفل کو الوداع کہنے، اب یہاں گزارہ نہیں ہوتا، پانی سر سے اوپر ہو گیا ہے تو وہ، بلکہ آپ سب، آپ سب میرے ایک سوال کا جواب دیتے جائیں
"کیا چند ایک لوگوں کی سخت باتیں، محفل سے ملنے والی محبت، یہاں گزارے اچھے وقت اور محفلینز کی الفت سے زیادہ اہم ہے؟ زیادہ قیمتی ہے؟"
اگر آپ کا جواب اب بھی "ہاں" ہے تو بس پھر اللہ حافظ۔
یہ سب کوئی قوائد و ضوابط کی فہرست نہ تھی، بلکہ یہ تو بس ایک یاد دہانی تھی، کہ آپ، میں، ہم سب یہاں بس ایک نام پر اکھٹے ہیں اور وہ ہے اردو۔ جس کے زریعے لوگ دلوں میں گھر بھی کر جاتے ہیں اور دلوں سے اُتر بھی جاتے ہیں۔ اور ہم سب چاہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ دوسرے کی گُڈ بُکس میں ہی رہیں۔ تو بس اسی طرح کا ایک طریقہ میں نے بیان کر دیا، جو کہ آپ کو بھی معلوم تھا۔ اب خدارا اگر کسی کو برا لگ گیا ہو یا کسی نازک سی طبیعت پر میرے الفاظ کا بوجھ گراں گزرا ہو تو مجھے بتا دے تاکہ میں اس سے بالکل بھی معافی نہ مانگوں (ارے بھئی جو اوپر اتنی لمبی بات کی وہ یہی تو تھی کہ آپ کا میرا زاویہ نگاہ مختلف ہو سکتا ہے، اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے بھلا؟)۔ خیر اب چلنا چاہئیے۔ پر جانے سے پہلے اشفاق احمد صاحب کی زاویہ سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گی، امید ہے آپ سب اس متعلق غور کریں گے۔
"۔۔۔ میرا پوتا چھوٹا، وہ آ رہا تھا، گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے اسے گود میں اٹھا کے بازو پر بٹھایا۔ میں نے کہا، دیکھو یار کیسا اچھا موسم ہے ذرا دیکھ باہر نکل۔ اس دن موسم بہت اچھا تھا۔ ہمارے بڑے بڑے شیشے تھے۔ آگے درخت لہلہا رہے تھے۔ پودے لگے ہوئے تھے بانس کے، جو زیادہ خوبصورت لگتے تھے۔ کالے سیاہ بادل تھے۔ ان کے اندر سے بادلوں کی تاریں جا رہی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ میرے پوتے کو حسن و جمال میں دلچسپی ہو۔ وہ دیکھے اور اس کو پسند کرے بجائے اس کے کہ، وہ لکڑی کے اور پلاسٹک کے واہیات کھلونوں سے کھیلے، جن میں زیادہ قاتل اور حملہ کرنے والے ہیں۔ پتا نہیں، آجکل ان کو کیا کہتے ہیں، عجیب و غریب۔ ان سے کھیلتا رہتا تھا۔ جب میں نے اسے گود میں اٹھا کر کہا، دیکھو باہر کا منظر اور اس کا حسن، یہ بادل اور پرندے اور یہ درخت اور یہ لہلہاتی شاخیں، تو وہ بالکل نہیں دیکھ رہا تھا اور گھٹن سی اس کی اندر رہے، اور ایک ہی جگہ اس کی نگاہیں مرکوز ہیں، اور گھبرایا ہوا ہے، اور میری گود میں چڑھا ہوا ہے۔ میں نے جب اس کی نگاہوں کو غور سے دیکھا تو وہ شیشے کے پار نہیں جا رہی تھیں۔ میں نے کہا، یہ کیا مسئلہ ہے۔ اتنا معصوم بچہ اور یہاں پر پھنسا ہوا ہے۔ تو خواتین و حضرات!میں نے یہ دیکھا کہ وہ جو بڑا سا شیشہ ، جس میں سے میں اُسے جمال اور خوبصورتی سے متعارف کروارہا تھا، اس شیشے کے ساتھ ایک مری ہوئی مکھی چپکی ہوئی تھی۔ مرگئی ہوگی کب کی۔ جیسے ہم کہتے ہیں چھی چھی لگی ہوئی تھی، اس نے سب کچھ چھوڑ کر ساری کائنات چھوڑ کر سارا حسن و جمال چھوڑ کر اپنی نگاہیں اس چھی چھی پر مرکوز کی تھیں، اور منہ بسور کے بیٹھا ہوا تھا کہ یہ دنیا جو ہے ساری کی ساری چھی چھی ہے، اور مری ہوئی مکھی ہے اور نالائق چیز ہے اور ان ساری چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتاجن سے میرا دادا کرنا چاہتا ہے۔
تو جب مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں ، تو اگر آپ ان کو غور سے دیکھیں کہ ان کا ایک حصہ بالکل چھوٹا سا فریکشن، آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہم نے وہ دھبا پھیلا کر اتنا وسیع تر کرلیا ہوتا ہے کہ پھر وہ اپنے ہمارے اختیار میں نہیں رہتا، اور وہ پھر پھیلا ہوا دھبا ہمارا حکمران بن جاتا ہے، اور جہاں جہاں چاہتا ہے، ہم کو اٹھائے پھرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پچھلی مرتبہ کہا، اگر اللہ کی ذات اور اس کے افعال کو جاننے کی آرزو ہے تو پھر اس کے احکام کے اندر داخل ہونا پڑے گا، اور اس فریکوئنسی کو حاصل کرنا پڑے گاجس فریکوئنسی کو پکڑکر ، اچھی طرح سے اختیار کرکے ہم ان افعال کو سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے ، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ"
ماہی کو خط کے جواب کا اور آپ کے تبصروں کا انتظار رہے گا۔ اللہ پاک آپ سب کو خوش رکھے اور دونوں جہانوں میں آپ سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔
فقط
ماہی
آداب ، آداب، آپ کو بھی آداب، آپ کو بھی (باآوازِ بلند خط پڑھنے والا ہاتھ کا چلو بنا کر سب کو آداب کہے اور بزرگوں سے سر پر پیار لے)۔ امید کرتی ہوں کہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے سب بالکل ٹھیک ہوں گے، روحانی طور پر بھی، جسمانی طور پر بھی اور ہر طرح سے۔ جو گر کوئی بیمار ہے تو اس کے لئیے ڈھیروں دعائیں، اللہ آپ کو جلد صحت یاب کرے اور آپ پھر سے ہمارے درمیان اپنے انھیں پرانے رنگوں کے ساتھ موجود ہوں جو کہ آپ کا خاصہ تھے اور ہر دل میں گھر کئیے ہوئے تھے۔
کچھ دنوں سے محفل کا ماحول کچھ تناؤ کا شکار دکھائی دیا، ایک دو جگہوں پر کچھ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور کئی دل دُکھے۔ تو میں نے سوچا ذرا ماحول کو ہلکا پھلکا کیا جائے کوئی دو چار ادھر اُدھر کی باتیں ہوں، تھوڑا مزہ کرتے ہیں۔ ویسے تو کینٹین میں مینگو پارٹی ہو گی ہی جس کے متعلق میں نے سوچا کہ اتوار کا دن مناسب ہے کہ سب اس دن چھٹی منا رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہئیے تھا نا۔ چلیں پھر آج میں آپ سب کو ایک کہانی سناتی ہوں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک بہت بڑا باغ تھا، بہت بڑا۔ اس میں طرح طرح کے رنگ رنگ کے اور ہر نسل کے بے تحاشا پھول تھے اور باغ کے اطراف میں لمبے لمبے سفیدے کے درخت بھی۔ اس باغ کا حسن دیکھنے جو کہ محض ان پھولوں پر ہی مشتمل نہ تھا بلکہ مختلف پھلوں کے درخت اور ایک ندیا بھی تهی، جو چاند کی چاندنی میں یوں دکھائی دیتی گویا چاندی بہتی آ رہی ہے، دور دور سے ہر طرح کے جاندار آتے تھے۔ کبھی تتلیاں، کبھی پرندے، کبھی گلہریاں، کبھی جگنو اور بہت سے جانور (اب کئی شرارتی دماغ سوچ رہے ہوں گے کہ جب ہاتھی اور ذرافے آئیں ہوں گے تو کیا ہوا ہو گا، تو ہونا کیا تھا کچھ بھی نہیں وہ آئے سیر کی چلے گئے) خیر تو ہم بات کر رہے تھے کہ دور دراز کے علاقوں سے مختلف جانور اس باغ کی سیر کو اور اسے دیکھنے کو آتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ وہاں باغ میں ایک الو آ کر بیٹھ گیا، اور اپنی بٹن جیسی گول گول آنکھوں کو گھما گھما کر باغ کو غور گور سے دیکھنے لگا۔ وہیں اس شاخ کی ساتھ والی شاخ پر ایک مینا آ کر بیٹھی، باغ کے حسن نے اس کی طبیعت کو سرشاری بخشی تو وہ لگی گنگنانے، الو کو یہ بات پسند نہ آئی۔ مینا سے پوچھنے لگا، او مینا! کیا ہوا تجھے جو یوں گانے لگی؟ مینا نے وہی جواب دیا کہ خوبصورتی سے بہت متاثر ہوں، دیکھ تو خدا کی شان کیسا حسین باغ بنا ڈالا، طرح طرح کے پھول اور طرح طرح کے پھل، اس پر چار چاند لگاتی وہ ندیا جو باغ کے عین بیچ سے بل کھاتی جا رہی ہے، کیا ہی تعریف ہو اِس کی اور اُس ذات کی جس نے اسے بنایا۔ اب الو ذرا زیادہ ہی باریک بین تھا، اسے باغ کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی خامیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس نے مینا سے کہا، او مینا! تو کیا پاگل ہے؟ یا باؤلی ہو گئی ہے؟ ایک عام سے باغ ہے، بلکہ عام سے بھی کچھ کم ہی سمجھ، جن پھولوں کی تو تعریف کر رہی ہے دیکھ ایک بار غور سے کیسے ان کی پتیاں کناروں سے جلنے لگیں اور ان کے کانٹے کتنے بھدے ہیں، اور وہ دیکھ جس ندیا کا تو ذکر کر رہی ہے، کیا حسن ہے اس میں؟ پانی ہی تو ہے جو بہے جا رہا ، اور یہ تمام پھل؟ کسی کا ذائقہ نہیں اچھا کوئی کچا ہے، کوئی زیادہ پک چکا۔ غرض یہ کہ الو لگا باغ کی برائیاں نکال نکال کر مینا کے سامنے بیان کرنے۔ اب مینا سے برداشت نہ ہوا اس نے الو کو کھری کھری سنا ڈالیں، الو بھی کچھ مزاج کا تیز نکلا، لگا طرح طرح کی الٹی سیدھی ہانکنے، یہ شور سن کر باغ کے باقی تمام پرندے اور تتلیاں اور جگنو اور جانور بھی وہاں پہنچ گئے، کوئی الو کی بات سے متفق تو کوئی مینا کی بات کی تائید کرے۔ وہاں جو ہلڑ بازی شروع ہوئی تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، خوب مار پیٹ ہوئی خون خرابہ ہوا۔ پھر وہاں ایک گلہری آئی اور اس نے سب کو چپ کروایا۔ جو سب چپ ہوئے تو گلہری نے کہا ارے بھئی لڑتے کیوں ہو؟ جو تم نے کہا وہ بھی ٹھیک ہے جو مینا کہہ رہی ہے وہ بھی ٹھیک ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا ذاویہ نگاہ ہوتا ہے، ہر کسی کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ پر مینا کا اور چند ایک اور پرندوں کا اور کچھ تتلیوں کا اور کچھ جگنوؤں کا دل بہت دُکھا تھا، جب آپ کسی بھی چیز کے متعلق، چاہے وہ کچھ بھی ہو، بہت زیادہ ہوں پوزیسو اور کوئی اس کے متعلق تحقیر آمیز انداز میں بات کرے یا اسے برا کہے یا کچھ بھی منفی تو پھر دل بھی دُکھتا ہے اور وہ شخص جس نے ایسا کچھ کہا ہو آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا بھی ہے۔ سو وہ مینا اور تتلیاں ، اور جگنو اور باقی سب جانور باغ چھوڑ کر چلے گئے، اُدھر الو بھی دلبرداشتہ تھا کہ جو کہا حق تھا تو اتنا برا کیوں مان گئے؟ اس نے بھی فیصلہ کیا باغ چھوڑنا بہتر ہے سو الو اور اس کے ساتھی بھی باغ چھوڑ چلے گئے۔ ان سب کے جانے کے بعد باغ بالکل خالی ہو گیا، باغ کا اصل حسن جن کے دم سے تھا وہ تو جا چکے تھے، سو پھول، پھل، سفیدے کے درخت اور وہ نیلی بل کھاتی ندیا سب بہت اداس تھے، کبھی کبھی کوئی ہوا کا جھونکا آتا اور کوئی ایسی بات سنا جاتا کہ سب کے لبوں پر مسکان آ جاتی پر اس جھونکے کے گزرنے کے بعد پھر وہی ویرانی چھا جاتی۔
مجھے معلوم ہے آپ سب بہت سمجھدار ہیں اور سمجھ گئے ہیں میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں۔ تو پھر جب سمجھ گئے ہیں تو پھر مسکرا دیجیے نا، یہ جو پیشانی پر تیوری کے بل ہیں انہیں دور کیجیے۔ دیکھیں نا دو خالی برتن بھی پڑے ہوں نا ساتھ تو بج اٹھتے ہیں، شور کرتے ہیں۔ میں، آپ ہم سب، ہیں تو پھر انسان ہی نا،دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں،اپنا اپنا نظریہ رکھتے ہیں۔ اور ہمیں کوئی نہیں کہتا کہ ہم یکساں خیالات رکھیں۔ ہمیں تو رب العزت نے بنایا ہی مختلف ہے، ہم سب کو، ایک دوسرے سے، بہت مختلف۔ ۔۔تو پھر خیالات بھی مختلف ہو سکتے ہیں نا! اور اسی طرح رائے بھی۔ میری رائے بہت سے معاملات میں آپ سے مختلف ہو گی، تو پھر کیا مجھے چاہیے کہ میں اس بات پر ناراض ہو جاؤں؟ نہیں نا۔ پر رکیں ذرا، یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، رائے کا اظہار۔ بات یہ نہیں کہ رائے مختلف ہے، بات یہ ہے کہ رائے کا اظہار اس کا انداز ٹھیک نہیں۔ اگر کوئی تحقیر آمیز انداز میں گفتگو کرے تو طبیعت کو برا لگتا ہے نا۔ اور اسی کے بر عکس اگر کوئی آپ سے اتفاق نہیں کرتا مگر وہ اپنی رائے کا اظہار نہایت مناسب الفاظ میں کرتا ہے کہ آپ کو برا بھی نہ لگے تو یہ کتنی اچھی بات ہوتی ہے۔ اچھا چلیں ایک مثال لیں، آپ کہیں جا رہے ہیں، کوئی آپ کو روکتا ہے اور کہتا ہے "یہ کیا گھٹیا لباس پہن رکھا ہے" تو آپ یقینا اس وقت اس کو چار سنا ڈالیں گےکہ ارے بھئی تم ہوتے کون ہو یوں کہنے والے۔ ہو سکتا ہے کچھ ایک ہاتھ بھی جڑ دیں یا کوئی ایک آدھا مُکا۔۔۔ اور اگر کوئی یہی بات نہایت مناسب الفاظ میں کہے کہ بھئی یہ جو لباس ہے یہ ٹھیک ہے لیکن تم پر جچ نہیں رہا، اور اگر اس کا رنگ یہ ہوتا تو یقین مانو بہت زیادہ خوبصورت لگتا تم پر اور تم بہت وجیہ ہو پر اس لباس نے ساری لُکس ہی مار ڈالیں، ہو سکے تو یوں یوں کر کے دیکھو، ایسے ایسے انداز میں ایسا ایسا لباس پہنو، مجھے یقین ہے زیادہ اچھے لگو گے۔ اب بتائیں آپ سوچیں گے کہ نہیں "یار بات تو ٹھیک لگتی ہے" ایک بار جا کر آئینہ تو ضرور ہی دیکھیں گے، ہو سکتا ہے تب آپ کو اس شخص کی بات درست بھی لگے۔ اب دیکھیے کتنا فرق پڑتا ہے۔ بس یہی بات ہے رائے کے اظہار کی۔
اب ایک اور بات، اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی دو لوگ آپس میں کسی بات کو لے کر جھگڑ رہے ہیں تو کیا یہ اچھی بات ہو گی جا کر تالیاں بجانا اور کسی ایک فریق کی حوصلہ افزائی کرنا؟ بے شک آپ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ہیں اور آپ کو اس کی بات درست معلوم ہوتی ہے پر وہ وقت پیٹھ تھپکنے کا نہیں انہیں چپ کروانے کا ہوتا ہے۔ یہ کوئی کبڈی کا میدان نہیں کہ ایک نے اٹھا کر دوسرے کو پٹخا اور آپ نے تالیاں بجائیں اور اپنے الفاظ کے زور پر لگے اس کی پیٹھ تھپکنے گویا کہہ رہے ہوں، ہور زور نال مار، رکھ کے مار ، اِدھروں وی مار اُدھروں وی مار، اج جان نہ دیویں وغیرہ۔ اس وقت آپ کو چاہئیے کہ عقل اور سمجھ سے کام لیں۔ ورنہ نتائج ہمیشہ برے ہی نکلتے ہیں۔ اور ایک اور بات، ارے بھئی میں بھی جانتی ہوں اور باقی سب بھی جانتے ہیں کہ آپ کے پاس بہت معلومات ہیں، آپ کے پاس بہت الفاظ ہیں، آپ دوسرے کا منہ بند کرنے میں ماہر ہیں اور بحث کو خوب اچھی طرح طول دینا جانتے ہیں اور آپ سے تو کوئی جیت ہی نہیں سکتا، پر ایک منٹ، کہیں ایسا تو نہیں اس دوران آپ کی وجہ سے فریق ثانی کا دل دُکھ رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ کی معلومات، آپ کے الفاظ آپ کی صلاحیتیں کسی کام کی نہیں۔ کیا فائدہ ان کا جو خلق خدا کا دل دُکھانے کا باعث ہوں؟ اللہ پاک تو ہو گئے نا ناراض، پھر اگر کوئی آپ کو دل دُکھائے تو آپ دوڑے دوڑے اللہ پاک کے پاس جائیں گے یااللہ پاک دیکھو اس نے زیادتی کی۔ اللہ پاک مہربان ہے، آپ کو تسلی دیتا ہے، کوئی انسان ہو تو کہے "توں آپ کی کیتا سی؟۔۔۔"
یہ اردو محفل ہے، اور اردو تو ایک ایسی میٹھی اور پیاری سی زبان ہے جو ہمیں پیار محبت اور خوشیاں پھیلانے کا درس دیتی ہے۔ آپ ایک کامیاب انسان ہیں، تب نہیں جب آپ ٹکا ٹکا کر جواب اگلے کے منہ پر مارتے ہوں، لیکن تب جب آپ سے ہر دل راضی اور خوش ہو۔ اللہ پاک بھی تو تبھی آپ کو دیکھ کر مسکرائیں گے نا جب آپ کو دیکھ کر کسی انسان کی لبوں پر مسکراہٹ آئے گی۔
اور ہاں یہاں جو کئی لوگ جانے کے لئیے پر تول رہے ہیں نا کہ ہم تو بھئی لگے اس محفل کو الوداع کہنے، اب یہاں گزارہ نہیں ہوتا، پانی سر سے اوپر ہو گیا ہے تو وہ، بلکہ آپ سب، آپ سب میرے ایک سوال کا جواب دیتے جائیں
"کیا چند ایک لوگوں کی سخت باتیں، محفل سے ملنے والی محبت، یہاں گزارے اچھے وقت اور محفلینز کی الفت سے زیادہ اہم ہے؟ زیادہ قیمتی ہے؟"
اگر آپ کا جواب اب بھی "ہاں" ہے تو بس پھر اللہ حافظ۔
یہ سب کوئی قوائد و ضوابط کی فہرست نہ تھی، بلکہ یہ تو بس ایک یاد دہانی تھی، کہ آپ، میں، ہم سب یہاں بس ایک نام پر اکھٹے ہیں اور وہ ہے اردو۔ جس کے زریعے لوگ دلوں میں گھر بھی کر جاتے ہیں اور دلوں سے اُتر بھی جاتے ہیں۔ اور ہم سب چاہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ دوسرے کی گُڈ بُکس میں ہی رہیں۔ تو بس اسی طرح کا ایک طریقہ میں نے بیان کر دیا، جو کہ آپ کو بھی معلوم تھا۔ اب خدارا اگر کسی کو برا لگ گیا ہو یا کسی نازک سی طبیعت پر میرے الفاظ کا بوجھ گراں گزرا ہو تو مجھے بتا دے تاکہ میں اس سے بالکل بھی معافی نہ مانگوں (ارے بھئی جو اوپر اتنی لمبی بات کی وہ یہی تو تھی کہ آپ کا میرا زاویہ نگاہ مختلف ہو سکتا ہے، اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے بھلا؟)۔ خیر اب چلنا چاہئیے۔ پر جانے سے پہلے اشفاق احمد صاحب کی زاویہ سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گی، امید ہے آپ سب اس متعلق غور کریں گے۔
"۔۔۔ میرا پوتا چھوٹا، وہ آ رہا تھا، گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے اسے گود میں اٹھا کے بازو پر بٹھایا۔ میں نے کہا، دیکھو یار کیسا اچھا موسم ہے ذرا دیکھ باہر نکل۔ اس دن موسم بہت اچھا تھا۔ ہمارے بڑے بڑے شیشے تھے۔ آگے درخت لہلہا رہے تھے۔ پودے لگے ہوئے تھے بانس کے، جو زیادہ خوبصورت لگتے تھے۔ کالے سیاہ بادل تھے۔ ان کے اندر سے بادلوں کی تاریں جا رہی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ میرے پوتے کو حسن و جمال میں دلچسپی ہو۔ وہ دیکھے اور اس کو پسند کرے بجائے اس کے کہ، وہ لکڑی کے اور پلاسٹک کے واہیات کھلونوں سے کھیلے، جن میں زیادہ قاتل اور حملہ کرنے والے ہیں۔ پتا نہیں، آجکل ان کو کیا کہتے ہیں، عجیب و غریب۔ ان سے کھیلتا رہتا تھا۔ جب میں نے اسے گود میں اٹھا کر کہا، دیکھو باہر کا منظر اور اس کا حسن، یہ بادل اور پرندے اور یہ درخت اور یہ لہلہاتی شاخیں، تو وہ بالکل نہیں دیکھ رہا تھا اور گھٹن سی اس کی اندر رہے، اور ایک ہی جگہ اس کی نگاہیں مرکوز ہیں، اور گھبرایا ہوا ہے، اور میری گود میں چڑھا ہوا ہے۔ میں نے جب اس کی نگاہوں کو غور سے دیکھا تو وہ شیشے کے پار نہیں جا رہی تھیں۔ میں نے کہا، یہ کیا مسئلہ ہے۔ اتنا معصوم بچہ اور یہاں پر پھنسا ہوا ہے۔ تو خواتین و حضرات!میں نے یہ دیکھا کہ وہ جو بڑا سا شیشہ ، جس میں سے میں اُسے جمال اور خوبصورتی سے متعارف کروارہا تھا، اس شیشے کے ساتھ ایک مری ہوئی مکھی چپکی ہوئی تھی۔ مرگئی ہوگی کب کی۔ جیسے ہم کہتے ہیں چھی چھی لگی ہوئی تھی، اس نے سب کچھ چھوڑ کر ساری کائنات چھوڑ کر سارا حسن و جمال چھوڑ کر اپنی نگاہیں اس چھی چھی پر مرکوز کی تھیں، اور منہ بسور کے بیٹھا ہوا تھا کہ یہ دنیا جو ہے ساری کی ساری چھی چھی ہے، اور مری ہوئی مکھی ہے اور نالائق چیز ہے اور ان ساری چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتاجن سے میرا دادا کرنا چاہتا ہے۔
تو جب مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں ، تو اگر آپ ان کو غور سے دیکھیں کہ ان کا ایک حصہ بالکل چھوٹا سا فریکشن، آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہم نے وہ دھبا پھیلا کر اتنا وسیع تر کرلیا ہوتا ہے کہ پھر وہ اپنے ہمارے اختیار میں نہیں رہتا، اور وہ پھر پھیلا ہوا دھبا ہمارا حکمران بن جاتا ہے، اور جہاں جہاں چاہتا ہے، ہم کو اٹھائے پھرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پچھلی مرتبہ کہا، اگر اللہ کی ذات اور اس کے افعال کو جاننے کی آرزو ہے تو پھر اس کے احکام کے اندر داخل ہونا پڑے گا، اور اس فریکوئنسی کو حاصل کرنا پڑے گاجس فریکوئنسی کو پکڑکر ، اچھی طرح سے اختیار کرکے ہم ان افعال کو سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے ، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ"
ماہی کو خط کے جواب کا اور آپ کے تبصروں کا انتظار رہے گا۔ اللہ پاک آپ سب کو خوش رکھے اور دونوں جہانوں میں آپ سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔
فقط
ماہی
آخری تدوین: