اردو میں مستعمل فارسی محاورات اور ضرب الامثال مع اردو ترجمہ

بادشاہ نے ہزار دینار کی تھیلی ننگ دھڑنگ فقیر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ دامن پھیلا درویش، تو اس نے کیاجواب دیا؟....
’’دامن از کجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘
(میں دامن کہاں سے لائوں ،میرے تن پر تو لباس ہی نہیں)
 
آواز دہل شنیدی و از دور خوش آئی
تم نے دور سے ڈنکے کی آواز سنی اور تم خوش ہوگئے۔
اردو میں اسی طرح کا محاورہ ہے کہ ’’دور کا ڈھول سہانا ہوتا ہے‘‘
 
چاہ کن را چاہ در پیش
گڑھا کھودنے والے کے سامنے بھی گڑھا ہوتا ہے۔
اگر آپ کسی کے لیے کوئی بُرا کام کرتے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی کوئی بُرا ہی سلوک کرے گا۔
 
خر چہ داند قیمت نقل و نبات
گدھا نقل و نبات کی قیمت کیا جانے۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا کام تو صرف بوجھ ڈھونا ہے، اردو میں من و عن اسی طرح کا یہ محاورہ مستعمل ہے کہ ’’بندر کیا جانے ادرک کا سواد‘‘
 
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
اپنی سلطنت کا بھیدبادشاہ ہی جانتا ہے۔
تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود۔
پہلے زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ سانپ کا زہر ایک دَوا تریاق سے زائل کیا جا سکتا ہے۔ کہاوت کا ترجمہ ہے کہ جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا،سانپ کا کاٹا ہوا آدمی مر چکا ہو گا، لفظ عراق، تریاق کا ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے لایا گیا ہے اور دور دراز کے مقام کی علامت ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کا خیال ہو کہ عراق کا تریاق سب سے اچھا اور زود اثر ہوتا ہے، کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی مسئلہ کے حل کے لئے دُور از کار باتیں اور کاروائی کرو گے وہ مسئلہ ہاتھوں سے نکل چکا ہو گا، کسی کام میں فضول دیر لگائی جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
 
شنیدہ کیَ بود مانند دیدہ
سنا ہوا کب دیکھے ہوئے کے برابر ہوسکتا ہے۔
یعنی سنی ہوئی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ہے جب تک اس بات کی حقیقت کے متعلق خود مشاہدہ نہ کیا جائے، کسی واقعے کے بارے میں کوئی شخص اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر کچھ بھی بول سکتا ہے لیکن جب آپ اس واقعے کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں تو آپ کو حقیقت کا علم ہوجاتا ہے اور پوری سچائی سامنے آجاتی ہے، اس لئے کہا جاتا ہے کہ سنی ہوئی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے جب تک اس کی پوری تحقیق نہ ہوجائے۔
 
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
نہ کہیں رُکنے کی جگہ باقی رہی اور نہ کہیں جانے کی کوئی جگہ ہے۔
ایسی باتیں انسان اس وقت کہتا ہے جب وہ بہت عاجز ہوجاتا ہے، یا ایسا مسئلہ اس کے سامنے آجاتا ہے کہ اس کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہوتا۔
 
گر نہ بیند بروز شپہرہ چشم، تکمۂ آفتاب را چہ گناہ؟

اگر دن کی روشنی میں بھی اُلو نہیں دیکھ سکتا تو اس میں سورج کی روشنی کا کیا قصور؟

یہ بہت ہی عمدہ جملہ ہے، مطلب یہ کہ قصور تو ان کی آنکھوں کا ہے کہ وہ انہیں نہیں دیکھ سکتیں، اس کا مفہوم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص فائدہ مند شئے سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو اس میں قصور اس کا ہے، نہ کہ اس فائدہ بخش شے کا۔
 
عاقلاں را اشارا کافیست
عقل مند کو ایک اشارہ کافی ہوتا ہے۔
اس مقولہ کا مطلب ایک عام انسان بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے، جو تھوڑی بہت بھی اردو جانتا ہو، احمق انسان کو ایک ہی بات بار بار سمجھانی پڑتی ہے جبکہ عقلمند شخص آنکھ کے اشارے سے ہی بہت سی باتیں سمجھ لیتا ہے، کچھ اسی طرح کا ایک اور فارسی مقولہ بہت مشہور ہے ’’ہرچہ دانا کند، کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار‘‘ یعنی جو کام ایک عقلمند آدمی کرتا ہے وہی کام ایک نادان انسان بھی کرتا ہے لیکن کافی نقصان اٹھانے اور سخت تکلیف برداشت کرنے کے بعد، اس لئے یہ مثل بھی مشہور ہے کہ ’’نادان کو الٹا بھی تو نادان ہی رہا‘‘
 
ہم خُرمہ وہم ثواب
خُرمے الگ ہاتھ آئے اور ثواب الگ ملے۔
عام طور پر مذہبی محفلوں میں تقریب کے اختتام پر تبرک تقسیم کئے جاتے ہیں، جس کا مقصد حصول ثواب ہوتا ہے، اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ عمل بھی خوب ہے کہ ثواب بھی ملا اور کھانے کے لئے خرمے بھی ہاتھ آئے، اردو میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ اور یہ مقولہ مذکورہ فارسی مثل کی بہترین تشریح ہے، اس لئے عقلمند افراد ایسے کاموں میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ہیں، جس میں ثواب کے ساتھ ساتھ مادی منفعت بھی ہو، ایسے متعدد فارسی محاورے، مقولے، ضرب الامثال اردو میں عام طور پر مستعمل ہیں، جن کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ دوسرے جملے ان مفاہیم کو پوری طرح ادا نہیں کرپاتے جو فارسی مقولے یا محاورے ادا کرتے ہیں۔
 
دستش را توئی حنا گذاشتہ
ہاتھ اور پیروں میں مہندی لگا ہونا۔
ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگے ہونے سے مراد ہے کوئی کام نہ کرنا، تساہل پسند ہونا۔
 
Top