تحریر: فیصل عظیم
پہلا منظر :
چھت پر گیا تو شام کے سات بج رہے تھے میں بیٹھ گیا اور چارپائی کے پائے کو جوشاندہ پلانے لگا اتنے میں نور کی بارش ہوئی اور سامنے والی کھڑکی میں چاند کی آمد ہوئی ۔
میں نے اسے دیکھتے ہی اسٹائل مارا مگر یہ کیا
اسکے پیچھے کون ہے جسے دیکھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا چلا گیا۔۔۔۔۔
میں نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر غور سے دیکھا تو ایک نیا چہرہ نظر آیا یہ شخص کالی قمیص پہنے ہوئے تھا جس پر دو ستارے اسکے عہدے کی نشان دہی کر رہے تھے اور وہ موبائل پر کسی سے باتیں کرتا کرتا ہنس بھی رہا تھا ۔
صدفے (پہلی چوٹ میں ) سے تو میں گھبرا گیا تھا مگر جب ستارے دیکھے تو جان میں جان آئی کہ یہ پولیس میں نہیں بلکہ شہری دفاع میں ہیں اور شہری دفاع کے رضاکاروں کے ایک گروپ جسے پوسٹ کہتے ہیں (ایک پوسٹ میں عموماََ 139 رضاکار ہوتے ہیں) کے نگران ہیں ۔ اس عہدے کو پوسٹ وارڈن کہا جاتا ہے ۔
اب میں نے سکون سے جوشاندہ کا خاتمہ کیا اور چاند کی طرف پھر سے نظر گھمائی ۔ چاند کا ہلکا سا تعارف کروا دوں یہ خاتون ہمارے سامنے والے گھر میں رہتی تھیں اور انکے والد سرکاری ادارے میں گریڈ اٹھارہ کے افسر تھے ۔ کیونکہ انکا ادارہ کسی ٹھیکہ وغیرہ یا امن و امان سے متعلقہ نہیں تھا اس لئے رشوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ انکی تین بیٹیاں تھیں۔
1۔ نجمہ عمر 23 سال کنیرڈ کالج میں پڑھتی تھیں ۔ نہایت شریف لڑکی تھیں اور کبھی بھی کسی طرح کی شوخی کرتے نہ دیکھی گئیں۔
2۔ ستارہ عمر 21 سال شریر مگر شریف لڑکی تھی کبھی کوئی شکایت نہیں ملی ۔ یہ اسلامیہ کالج کوپر روڈ میں زیر تعلیم تھیں
3۔ کوکب ۔ عمر 19 سال ہر وقت ایک نئی دنیا کی تلاش ۔ ہنس مکھ ۔ شرارتی ۔ نہایت خوبصورت سیرت بھی بری نہیں تھی۔
اب ان میں سے کوکب کبھی کبھی کھڑکی میں آتی تو میں بھی اسے دیکھا کرتا تھا کیونکہ اس عمر میں لڑکوں کو کوئی ہنس کے بھی دیکھ لے تو وہ سمجھتے ہیں کہ مجھے پسند کرتی ہے اس فارمولے کے تحت میں سمجھتا تھا کہ کوکب بھی مجھے پسند کرتی ہے۔
بات سے بات نکلتی کہاں جا پہنچی خیر اب میں نے جوشاندے کا قلع قمع کر دیا تھا اور ادھر بھی ماحول کچھ خراب تھا میں جلدی سے نیچے اترا اور ماجھاں سے لائن ملائی ۔
ماجھاں اس وقت کڑی کے لئے پکوڑے تل رہی تھی ۔ میں جاکر اسکے پاس باورچی خانے میں بیٹھ گیا اور ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈالا۔ پکوڑا کافی گرم تھا مگر پکوڑوں کا مزا تو گرم گرم ہی آتا ہے نا۔۔۔
ماجھاں ( اپنی دونوں بھنوؤں میں سے ایک کو اٹھا کر)
فیصل پتر کیا بات ہے کوئی کام ہے کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
میں : خالہ تو بھی ناں بس ایسے ہی ہے کیا کوئی کام ہو تو ہی میں تیرے پاس آکر بیٹھتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ویسے پکوڑے بڑے مزیدار ہیں ۔
ماجھاں : پتر تجھے اپنے ہاتھوں سے کھلایا ہے ۔ تیری رگ رگ سے واقف ہوں ۔ سچ سچ بتا کیا کام ہے اور ہاں پکوڑوں کی جان چھوڑ دے پھر کہے گا کہ کڑی میں ٹُبی (ڈبکی) لگا کر پکوڑا ملتا ہے ۔
میں : خالہ وہ سامنے والے حمید صاحب ہیں ناں انکے گھر لگتا ہے کوئی مہمان آئے ہوئے ہیں ذرا جا کے پتہ تو کردے کون ہے اور کیوں آیا ہے ۔
ماجھاں : لو کر لو گل میں تو سمجھی کہ پتہ نہیں کیا
ککڑ گڈی تھلے آگیا ہے
میں : خالہ جا ناں ابھی جا کے پتہ کر کے آجا پلییییییییییییییییییییییییز
ماجھاں : او پتر مجھے پتہ ہے وہ نجمہ کے گھر کوئی رشتہ دیکھنے آیا ہے آج ویسے تجھے اس سے کیا ۔۔۔۔۔۔؟
(رشتہ کی بات سن کر میرے ہوش اڑ گئے اور مجھے اندر ہی اندر گھبراہٹ ہونے لگی)
میں : خالہ حق ہمسائے ہیں کسی چیز کی ضرورت نہ ہو ویسے بھی صغریٰ (ان کی آیا) آج کام پر نہیں آئی جا ناں ذرا پتہ کرکے بتا دے پلییییییییییییییییییییییییییز
ماجھاں : اچھا کڑی بنا لوں پھر جاؤں گی ۔
میں : نہیں خالہ ابھی جا ناں
ماجھاں : نہیں پتر ابھی پکوڑے بنا رہی ہوں فارغ ہولوں پھر جاؤں گی ۔
میں : خالہ جا ناں ابھی پلیز پکوڑوں کی بات ہے ناں تو یہ پکوڑے بھی کچے ہیں جب تک پکیں گے تو آ بھی جائے گی اور میں ہوں ناں انکا خیال رکھنے کو میں پلٹتا رہوں گا جب لال ہو جائیں گے نکال دوں گا۔
اب میں نے ماجھاں کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچ کر کچن سے نکال باہر کیا ماجھاں بیچاری کہتی ہی رہی کہ پتر پھر جاؤں گی پھر جاؤں گی مگر میں نے بھی اسکو بھیج کر ہی دم لیا۔
اب میں پکوڑوں کے پاس بیٹھ کر سوچنے لگا ۔ کہ کیا میں بھی عام عاشقوں کی طرح محبوبہ کی شادی پر کرسیاں سیدھی کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
منظر بدل جاتا ہے
گلی میں قناتیں لگی ہوئی ہیں ۔ میں ۔ نبیل ۔ ذکریا ۔ شعیب ۔ شعیب صفدر ۔ سیفی ۔ منھاجین سب لوگ مل جل کر اندر کرسیاں لگا رہے ہیں اچانک شور اٹھتا ہے بارات آگئی آگئی ۔۔۔۔ دوسری طرف سے مولانا اعجاز اختر صاحب ہاتھ میں نکاح کا رجسٹر تھامے نمودار ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بارات آکر کرسیوں پر بیٹھ چکی ہے ۔ میراثی تمام باراتیوں کا دل بہلا رہے ہیں ۔ اچانک شور اٹھتا ہے مبارک ہو مبارک ہو اور چھوہاروں کے چھینٹے لگائے جا رہے ہیں ۔ میں بھی اداس اداس سا اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوں ۔ اچانک ایک عجیب سی بدبو سب کو گھیر لیتی ہے جیسے کچھ جل رہا ہو ۔ میرے دل میں اچانک برا خیال آتا ہے کہ کہیں کوکب نے خود کو ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نہ کرے اور میں وہیں بے ہوش ہو کر گر جاتا ہوں ۔ مگر یہ کیا بدبو ابھی بھی ختم نہیں ہو رہی ۔ بے ہوشی میں بھی مجھے تنگ کر رہی ہے ۔ اچانک میری آنکھ جو اس بدبو اور دھویئں سے نم تھی کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے چولہے پر تیل کی کڑاہی میں کوئیلے تیر رہے ہیں اور ان سے دھواں ہو رہا ہے اب میری سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا میں نے جھٹ جگ پانی کا بھرا اور کڑا ہی میں ڈال دیا ۔ کچھ عجیب و غریب آوازیں آئیں اور ایک دم سے سکون ہو گیا ۔ ادھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور میری روح فنا ہوتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دوسرا منظر :
آنکھوں میں آنسو لیے عاشی بٹ نئی ملازمت کی تلاش میں نکلی تو اسے سامنے ایک ہومیوپیتھک کلینک نظر آیا۔ ہومیوپیتھک کلینک نظر آتے ہیں عاشی بٹ کو بے اختیار پرانا زمانہ یاد آگیا جب ڈاکٹر افتخارراجہ کرشن نگر میں ہومیوپیتھک کلینک کرتے تھے۔ عاشی بٹ کو ان کا طریقہ علاج اور ان کی باغ و بہار شخصیت بے حد پسند تھے۔ وہ ٹھیک ٹھاک بھی ہوتی تو بھی بیماری کا بہانہ کرکے ان کے کلینک چلی آتی۔ ڈاکٹر افتخار راجہ مرض کی تشخیص یوں کرتے تھے جیسے جادو کر رہے ہوں۔ وہ میز پر لکڑی کا فٹا رکھ کر عاشی بٹ کی نبض دیکھتے اور ایک لٹو گھماتے تھے۔ شاید وہ لٹو کے چکر گن کر مرض کی شدت اور اس کے علاج کے لیے دوا تجویز کرتے تھے۔ ان کی دی ہوئی دوا بھی میٹھی گولیوں کی طرح ہوتی نا کہ ایلوپیتھی کی کڑوی کسیلی گولیوں کی طرح۔ عاشی بٹ ان سے ضد کرکے ہمیشہ دگنی ڈوز لے آتی تھی۔
انہی دنوں کو یاد کر تے کرتے عاشی جب اس ہومیو پیتھک کلینک کے دروازے کے پاس پہنچی تو دروازے پر ایک کاغذ چپکا ہوا تھا
ضرورت استقبالیہ کلرک : ایک خوبصورت ۔ خوش گلو ۔ صحتمند استقبالیہ کلرک کی ضرورت ہے جسے مریضوں سے تعامل کا تجربہ ضرور ہو ۔ تقدیم خدمات کے لئے اندر تشریف لائیے ۔
عاشی کے لئے یہ اشتہار ایک نئی زندگی کی نوید تھا اس نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور اندر کی طرف بڑھتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اندر جاتے ہی اسے ایک نئے ہی ماحول کا سامنا کرنا پڑا ۔۔ اللہ یہ کلینک ہے یا کسی بین الاقوامی کارپوریشن کا دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ یہ سوچتے سوچتے جب عاشی آگے بڑھی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک بڑی سی میز کے پیچھے ایک بڑی سی کرسی میں ایک آدمی پھنسا ہوا ہے ۔
اجازت لیکر جب عاشی اند پہنچی تو میز پر لگی ہوئی تختی سے علم ہوا کہ موصوف کا نام ڈاکٹر بشیر الزماں چوھدری ہے اور اپنا نام تخلص میں “بوچی“ رکھتے ہیں ۔
عاشی : سر میں نے باہر لگا ہوا اشتہار پڑھا تو میں اس خدمت کے لئے اپنی خدمات پیش کرتی ہوں
ڈاکٹر بوچی : جی جی خوش آمدید آپ تو اس کرسی کی بالکل صحیح حقدار ہیں آپ بیٹھئے ۔ کاروائی کے لیے چھوٹا سا محادثہ ہو گا اور بس ۔
عاشی : جی سر ۔ ۔ ۔ ؟ حادثہ ۔۔۔؟ِ
ڈاکٹر بوچی : حادثہ نہیں محادثہ خالص اردو میں انٹر ویو کو محادثہ کہتے ہیں دراصل یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے گفتگو ۔
عاشی : جی سر ۔ جی سر ۔ مجھے علم نہیں تھا اس لئے حیران ہو گئی۔
ڈاکٹر بوچی : اچھا تو پہلے کہاں کام کرتی تھیں ۔ ۔ ۔ ؟
عاشی : مصطفی میڈیکل سنٹر
ڈاکٹر بوچی : تعلیم کتنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
عاشی : جی نرسنگ کا ڈپلومہ کیا ہے گنگا رام اسپتال سے ۔
ڈاکٹر بوچی : ہممممممممممم چلو ٹھیک ہے آپ کل سے کام پر آجائیں آپ کا کام صرف اتنا ہوگا کہ ٹیلی فون کا ریکارڈ رکھنا اور نئے مریضوں کی فائیلیں بنانا ہونگی اسکے علاوہ بنیادی تنخواہ آٹھ ہزار روپے ہوگی پندرہ سو روپے آنے جانے کا خرچ اور پانچ سو روپے دیگر اخراجات کے ملیں گے ۔ کیا منظور ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
عاشی : سر میں انکار کیسے کر سکتی ہوں اوقات کار کیا ہونگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ڈاکٹر بوچی : صبح نو بجے سے دو بجے تک اور شام پانچ سے رات آٹھ بجے تک اور ہاں کل اپنے شناختی کارڈ کی کاپی اور تعلیمی اسناد ساتھ لے کر آنا
عاشی : بہت بہتر جناب ۔ اب مجھے اجازت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ڈاکٹر بوچی : ہاں اب آپ جا سکتی ہیں
عاشی وہاں سے نکل کر سیدھی صائمہ کے گھر کی طرف چل دی جہاں اسکا چھوٹا بیٹا برکات اسکے کام کے اوقات میں رہتا تھا ابھی وہ صائمہ کی گلی میں پہنچی ہی تھی کہ اس نے بہت سے لوگوں کو صائمہ کے گھر کے سامنے دیکھا ۔ عاشی گھبرا سی گئی اور اور تیزی سے صائمہ کے گھر کی طرف بڑھتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیجئے دونوں مناظر کا تسلسل لکھ دیا ہے امید ہے آنے والے صاحب ان میں سے کسی ایک کا تسلسل یا دونوں کا تسلسل لکھ کر کہانی کا رخ موڑنے کی کوشش کریں گے ۔