اردو ویب کلاسک - کہانی کیسے آگے بڑھی

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: سیفی

shoiab safdar نے کہا:
سیفی میاں معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو آپ نے اپنے “بڈھے“ کہے جانے کا
اور دوسرا “اسمگلر“ لکھے جانے کا غصہ اتارا ہے
بہر حال خوب کہانی چلی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب۔۔۔۔۔۔میری تحریر میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔غصہ اتارنے والی۔۔۔۔میں تو کہانی کا رخ دیکھ کر بات آگے بڑھا گیا۔۔۔۔۔تاہم اگر آپکو یا کسی صاحب کو اعتراض ہو تو میں اپنے الفاظ واپس لے لیتا ہوں۔۔۔۔(قطع و بریدہ کر کے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعجاز صاحب۔۔۔۔ آپ کی بات دل کو لگتی ہے۔۔۔
نسیم حجازی کے ناول اگرچہ نوجوانوں کو پسند ہوں لیکن سنجیدہ اور صاحب الرائے اشخاص ان ناولوں کو اسی وجہ سے پسند نہیں کرتے کہ ایک باب اگر تاریخی حقائق کا ہوتا ہے تو اسے کے ساتھ دوسرا عشق کے داستان سموئے ہوئے۔۔۔۔چنانچہ انکو بطورِ حوالہ نہیں استعمال کیا جاسکتا

بقولِ انشاء جی۔۔۔۔۔۔ناول کی اقسام برائے فروخت دستیاب۔۔۔۔
50 فیصد تاریخ اور 50 فیصد عشق
30 فیصد تاریخ اور 70 فیصد عشق
وغیرہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم


فیصل صاحب لگتا ہے کہ میدان چھوڑ گئے ہیں
میداں سے بھاگنا مجھے اچھا نہیں لگتا بس ذرا انتظار کہ انٹرنیٹ پرپابندیاں ہیں رسمی طور پر ۔


ابھی یہ لوگ کھڑے ہی تھے کہ سائرن کی آواز سنائی دی۔۔۔سب لوگ ادھر متوجہ ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچانک تین طرف سے پولیس کی گاڑیاں آئیں اور انہیں گھیر لیا ۔ دھڑا دھڑ پولیس کے جوان اترے اور انہیں گھیرتے ہوئے ایک دائرہ بنا لیا ۔ انسپکٹر جیس کو ایک دم سے پسینہ آگیا۔

ادھر ان گاڑیوں میں سب سے اگلی گاڑی میں سے ایک انسپکٹر نکلا اور آتے ہی اس نے جیس کو ایک ہاتھ مارا جو گردن پر لگا۔
اب جیس صاحب لڑکھڑا کئے اور پھسل کر مجھ پر گر کئے ۔ میں ان کو سنبھال رہا تھا کہ وہ انسپکٹر بولا۔
انسپکٹر : اوئے پولیس کے رضاکار ہوکر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
جیس : سرجی معاف کردیں غلطی ہو گئی۔

انسپکٹر : ایک اور ہاتھ دیتے ہوئے او یہ بتا یہ گاڑی کہاں سے لی ۔ کہاں سے چرائی ہے ۔ ۔ ؟
جیس: سرجی ایک دوست کی ہے ہائی لکس تھی اس لیئے اس پر رنگ کروا لیا اور اس پر پولیس لکھ لیا۔
انسپکٹر جعل ساز انسان ۔ اتنے شریف انسانوں کو مرغا بناتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آئی ۔

اوئے تم لوگ اندھے ہو اسکے کندھے پر پولیس کے ساتھ کیو آر بھی لکھا ہوا ہے تمھیں نظر نہیں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

نبیل سرجی ان کی اینٹری ہی بڑی خوفناک تھی اور وردی دیکھ کر تو ہم سب کے چھکے چھوٹ گئے تھے لہذا اس ہلچل میں کسی کو خیال ہی نہیں رہا کہ ان کے کندھے پر غور سے پڑھ سکیں۔ اوپر سے ان کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔

میں : سرجی اصل میں انہوں نے تیاری ہی بڑی کی ہوئی تھی اور ہمیں سوچنے سمجھنے کا موقع نہ مل سکا ۔ یہ سارا قصور اس موئے فارق مفت گیم کا ہے۔
جیس : سرجی اصل میں ہمیں ایسا سیفی نے کہا تھا کہ اسطرح آنا اور میری شادی رکوا دینا کیونکہ میں کوکب سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔
انسپکٹر : اگر اعجاز اختر نہ ہوتے تو ان بچونگڑوں کو آج لٹنے سے کوئی نہ بچا سکتا تھا۔ اب چلو سب تھانے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیس کو تو میں ایک دو رات اپنا مہمان بنا کر رکھوں گا۔ باقی اوئے کیا نام ہے تیرا یہ ذرا بندوق تو دکھا اپنی ۔ ۔ ۔
نقلی کنسٹیبل : سرجی ہمیں جیس صاحب نے کہا تھا کہ آپ لوگوں کا آڈیشن ہے ہم تو فلموں میں کام کے متلاشی ہیں ۔ یہ بندوق بھی شاہنور اسٹوڈیو سے کرائے پر لی ہوئی ہے۔ لکڑی کی بنی ہے مگر کام ایسا زبردست ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ نقلی ہے۔

خیر ابھی تو چلو تھانے وہاں چل کر میں تم سے تفصیلی تفتیش کرتا ہوں اور جیس ۔ اور سیفی تم لوگ خود کو دھوکہ دہی ۔ سرکاری ملازم کی بھیس بدلنے۔ عوام کو ہراساں کرنے ۔ پرائیویٹ گاڑی کو سرکاری رنگ و روغن کروانے ۔ پولیس سے بحث کرنے ۔ ایک افسر سے بدزبانی کرنے کے جرم میں حراست میں لیتا ہوں۔ تمھیں جو کچھ کہنا ہے تھانے چل کر کہنا۔

اب اصلی پولیس والوں نے نقلی پولیس والوں کو اٹھا اٹھا کر اپنی گاڑیوں میں عزت سے بٹھایا اور مجھے انکی گاڑی میں بٹھا کر ایک سپاہی ساتھ کردیا کہ گاڑی چلا کر تھانے پہنچا دوں۔

کوئی پندرہ منٹ کے بعد ہم تھانے پہنچ گئے۔ کاغذی کاروائی میں لگ بھگ ایک گھنٹہ لگ گیا اور جیس اور سیفی دونوں کو حوالات میں ڈال دیا گیا۔
اب میں نے انسپکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ کو یہ اطلاع کس نے دی ۔ ۔ ۔ ؟

انسپکٹر : اصل میں جب اعجاز اختر صاحب انکی وین سے اترے تو انکی نظر جیس کے کندھے پر پڑی جہاں لکھا ہوا تھا۔ پولیس کیو آر یعنی پولیس قومی رضاکار۔ اب اعجاز صاحب کی مہربانی کہ انہوں نے سیدھا ون سیون پر فون کر کے یہ اطلاع دے دی کہ اس اس طرح سے یہ سین ہوا ہے اور آپ لوگوں کو انہوں نے یہاں چھوڑا ہے۔ اب جیس کی بدقسمتی کہ اس نے آپ لوگوں پر غیر انسانی تشدد کرنے کا فیصلہ کیا جس سے وہ زیادہ دور نہ جاسکا اور قانون کے ہتھے چڑھ گیا۔ ۔ ۔ ۔

اب آگے کوئی اور چلائے
ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کو میرا اسلوب تکلم نہ لگے مگر اس وقت دفتر کے کام کا پریشر ہے اور جلدی میں ایسا لکھ دیا ہے ۔ یہ خلاصہ ہے اسکی تفاصیل میں تدوین کے ذریعے ردوبدل کر دوں گا جونہی فارغ ہوا امید ہے ساتھیوں کو برا نہ لگے گا
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

اعجاز اختر نے کہا:
کہانی کی دونوں شاخیں ساتھ ساتھ چلتی رہتیں تو نسیم حجازی یا صادق سردھنوی جیسے اسلامی تاریخی ناولوں کا مزا آ جاتا ۔۔۔

اعجاز اختر صاحب، چونکہ یہ ایک طرح کا کھیل ہے تو میری ناقص رائے کے مطابق ایک تھریڈ میں کہانی کا ایک ہی دھارا ٹھیک ہے۔ اس کی مثال شاید مصرعہ لگائیں والے تھریڈ کی طرح ہے جس میں ایک ہی طرح مصرعہ چل رہا ہے۔ نئی کہانی یا کسی اور طرح مصرعہ کے لیے اور تھریڈ شروع کیے جا سکتے ہیں۔ کہانی والے کھیل میں تو فیصل بازی لیجاتے نظر آرہے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: افتخار راجہ

تھانے میں شعیب صفدر اپنا کالا کوٹ اور ہاتھ میں ایک فائل پکڑے انسپکٹر کے دفتر سامنے ٹہل رہے تھے اور جیسی کی ان پر نظر پڑتے ہو اسکے چہرہ پر رونق آگئی، جبکہ انسپکٹر ہراساں سا ہوگیا۔ انسپکٹر دفتر میں داخل ہوتے ہوئے حوالدار کو حکم سنایا کہ ان جعل سازوں کو حوالات میں بند کردو، مگر شعیب نے فائل میں سے ایک کاغذ نکال کر انسپکٹر کی میز پر رکھ دیا اور اپنے مخصوص انداز میں پیچھے کو گھومتے ہوئے حوالدار کو ہاتھ کے اشارہ سے تحکمانہ روک دیا۔

انسپکٹر کاغذ کو گھورتا رہا اور پھر کرسی کی پشت پر خود کو پٹختےہوئے بولا: “ وکیل صاحب اس بار تو آپ اپنے بندہ کو لے جائیں مگر میں اسے چھوڑوں گا نہیں، اس نے محکمہ کے ساتھ بدماشی کرنے کی کوشش کی ہے“۔ اچانک ہی فون کی گھنٹی بجی اور انسپکٹر نے فوراُ فون اٹھایا، کون؟ دوسری طرف سے ایک نہایت پریشان زنانہ آواز آئی : سر میں صائمہ بول رہی ہوں؟ کون صائمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اب کوئی اور صاحب؟ میرا کہانی نویسی کا کوئی تجربہ نہیں ہے مگر میں نے فیصل کو جواب مصرع دینے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال دیکھئے کب خربوزے کو دیکھ کے خربوزہ رنگ پکڑتا ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

کسی زمانے میں فورم کی کانٹ‌ چھانٹ کے دوران یہ تھریڈ بھی غلطی سے ڈیلیٹ ہو گیا تھا۔ اتفاق سے میرے پاس محفل فورم کے بہت پرانے ڈیٹا کی بیک اپ موجود تھی۔ وہاں سے ہی میں نے اس تھریڈ کو واپس لانے کی کوشش کی ہے۔ یہ سلسلہ سیفی کی ایک پوسٹ پر مصرعہ لگانے سے شروع ہوا تھا۔ میں نے ہر پوسٹ کے اوپر اس کے مصنف کا نام بھی لکھ دیا ہے۔

والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
شارق۔۔۔ آپ یہاں۔۔:grin:
آج تو ہماری عید ہو گئی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور یہاں آتے رہیں گے۔
 

اجنبی

محفلین
یہ بہت اچھا سلسلہ تھا۔ آج بہت عرصہ بعد اسے پڑھا تو پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ محض تین سال گزرے ہیں، پر لگتا ہے کہ بیسیوں سال گزر گئے۔
 

فخرنوید

محفلین
السلام علیکم!
چلیں آج سے ایک نئی کہانی شروع کرتے ہیں ۔ براہ مہر بانی اس میں اپنے کمنٹس نا دینا بس کہانی آگے بڑھا دینا۔

کہانی بعنوان :
وہ کون تھا۔​

وہ چھت پہ کھڑی پہروں سوچتی رہی کہ آخر کس نے اس کے تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں گُم تھی کہ
نیچے سے اس کی امی کی آواز سنائی دی اور وہ ان کی آواز پہ لبیک کہتی ہوئی اپنی سوچوں کو منطقی انجام تک پہنچائے بنا نیچے امی کے پاس چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ارےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے
کیا یاد کروا دیا۔۔۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا زمانے تھے کہ جب ہم قصہ غم پر سوار
دوڑتے تھے ع۔۔۔۔۔۔۔۔اشقانہ زرم گاہ حسن میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب موڈ بناکر لکھوں گا اس قصے کا انجام کبھی
شاید ایسے ہی آجائیں شارق اور اپنے راجہ جی
 
فخر نوید! اپنی کہانی کے لیے الگ تھریڈ شروع کرلیں اسی فورم میں۔ یہ تھریڈ تو اردو ویب کلاسک کہانی کا تھا۔۔۔ اور یہ کہانی بھی کیا خوب کہانی تھی۔۔۔۔
 
تحریر: افتخار راجہ

تھانے میں شعیب صفدر اپنا کالا کوٹ اور ہاتھ میں ایک فائل پکڑے انسپکٹر کے دفتر سامنے ٹہل رہے تھے اور جیسی کی ان پر نظر پڑتے ہو اسکے چہرہ پر رونق آگئی، جبکہ انسپکٹر ہراساں سا ہوگیا۔ انسپکٹر دفتر میں داخل ہوتے ہوئے حوالدار کو حکم سنایا کہ ان جعل سازوں کو حوالات میں بند کردو، مگر شعیب نے فائل میں سے ایک کاغذ نکال کر انسپکٹر کی میز پر رکھ دیا اور اپنے مخصوص انداز میں پیچھے کو گھومتے ہوئے حوالدار کو ہاتھ کے اشارہ سے تحکمانہ روک دیا۔

انسپکٹر کاغذ کو گھورتا رہا اور پھر کرسی کی پشت پر خود کو پٹختےہوئے بولا: “ وکیل صاحب اس بار تو آپ اپنے بندہ کو لے جائیں مگر میں اسے چھوڑوں گا نہیں، اس نے محکمہ کے ساتھ بدماشی کرنے کی کوشش کی ہے“۔ اچانک ہی فون کی گھنٹی بجی اور انسپکٹر نے فوراُ فون اٹھایا، کون؟ دوسری طرف سے ایک نہایت پریشان زنانہ آواز آئی : سر میں صائمہ بول رہی ہوں؟ کون صائمہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

اور اب کوئی اور صاحب؟ میرا کہانی نویسی کا کوئی تجربہ نہیں ہے مگر میں نے فیصل کو جواب مصرع دینے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال دیکھئے کب خربوزے کو دیکھ کے خربوزہ رنگ پکڑتا ہے


آواز: جی میں صائمہ شاہ بات کر رہی ہوں ۔ اپنے سید نور صاحب کی اہلیہ اور چوڑیاں فلم کی اداکارہ ۔
انسپکٹر: جی فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی ۔ ۔ ۔؟
صائمہ : وہ جی صبح سے بتی گئی ہوئی ہے ۔ الیکشن قریب ہیں ۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ہمارے کوٹھے پر کوئی ٹپ کے گیا ہے ۔ ۔
انسپکٹر: آپ فکر ناں کرو جی میں ابھی ٹیم بھیجتا ہوں ذرا پتہ نوٹ کرا دیں اپنے گھر کا ۔۔۔!
صائمہ : ہما بلاک اقبال ٹاؤن میں شیل پٹرول پمپ کے سامے والی گلی میں کلچوں والی دکان کے پچھواڑے گھر ہے جی ہمارا ۔
انسپکٹر: ٹھیک ہے جی دس پندرہ منٹ میں کوئی ناں کوئی آجائے گا ۔ آپ اپنے گھر کے دروازے اچھی طرح بند کرلیں اور کسی کے کہنے پر دروازہ ناں کھولیئے گا ۔ جب تک پولیس ناں پہنچ جائے ۔

فون بند کرکے انسپکٹر محرر سے مخاطب ہوتا ہے ۔
اوئے غلام رسول دو بندے اس پتے پر بھیج دو ۔ ایویں بی بی لگتا ہے ڈر گئی ہے ۔ حوصلہ تسلی کرا کے آجائیں ۔

میں اس گفتگو کے دوران تھانے سے باہر آنے کی اجازت لے کر باہر آنے لگا ۔ اور باہر پہنچتے ہی چنگ چی کے انتظار میں کھڑا ہو گیا ۔ (جب کہانی شروع ہوئی تھی تب بسیں چلتی تھیں اب تو بس چنگ چی ہی دکھتی ہے)
دس پندرہ منٹ انتظار کے بعد جو دیکھا تو دور سے ایک پرانی ہونڈا ففٹی پر انڈے رکھے کوئی چلا آرہا تھا غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شارق مستقیم چلا آرہا ہے ۔ اپنا روزنامہ بوریت بند کرنے کے بعد اس نے انڈوں کا کاروبار شروع کردیا تھا ۔ میں نے اسے ہاتھ دیا تو اس نے موٹر سائیکل روک کر مجھے انڈوں کی ٹوکری جھولی میں رکھنے کو کہا اور میں اس کے پیچھے بیٹھ کر گھر کی طرف رواں دواں چلا جا رہا تھا۔ اچانک تیز بریک کی آواز آئی اور میں نیچے گرتا چلا گیا ۔۔۔

اوئے اب تو کوئی اس کہانی کو آگے چلا دے
 

سیما علی

لائبریرین
صائمہ : ہما بلاک اقبال ٹاؤن میں شیل پٹرول پمپ کے سامے والی گلی میں کلچوں والی دکان کے پچھواڑے گھر ہے جی ہمارا ۔
انسپکٹر: ٹھیک ہے جی دس پندرہ منٹ میں کوئی ناں کوئی آجائے گا ۔ آپ اپنے گھر کے دروازے اچھی طرح بند کرلیں اور کسی کے کہنے پر دروازہ ناں کھولیئے گا ۔ جب تک پولیس ناں پہنچ جائے ۔

فون بند کرکے انسپکٹر محرر سے مخاطب ہوتا ہے ۔
اوئے غلام رسول دو بندے اس پتے پر بھیج دو ۔ ایویں بی بی لگتا ہے ڈر گئی ہے ۔ حوصلہ تسلی کرا کے آجائیں ۔
صائمہ نور صاحبہ واقعی ڈر گئیں ہونگیں ۔۔۔اب ان لوگوں کو خواب میں بھی شوٹنگز ہی آتی ہونگیں اور ڈر ا دیتی ہونگیں ۔۔۔۔
آپکے گرتے ہی انڈے بھی ٹوٹ گئے ۔۔۔۔اور شارق مستقیم صاحب کے آنسو۔ تھے کہ رکنے کا نام نہ لیتے تھے
آخر کار بڑی مشکل سے رونا کسی طرح کم ہوا تو ہم نے کہا
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
😊😊😊😊😊
 
صائمہ نور صاحبہ واقعی ڈر گئیں ہونگیں ۔۔۔اب ان لوگوں کو خواب میں بھی شوٹنگز ہی آتی ہونگیں اور ڈر ا دیتی ہونگیں ۔۔۔۔
آپکے گرتے ہی انڈے بھی ٹوٹ گئے ۔۔۔۔اور شارق مستقیم صاحب کے آنسو۔ تھے کہ رکنے کا نام نہ لیتے تھے
آخر کار بڑی مشکل سے رونا کسی طرح کم ہوا تو ہم نے کہا
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
😊😊😊😊😊
جی جی وہ تو اتنا ڈر گئی تھیں کہ تین دن تک پیر جھاڑو والی سرکار سے ماتھے پر دم کرواتی رہیں پھر مودے چھتری نے کالا ککڑ وہ بھی باؤ حنیف والا بٹ کڑاہی سے زبح کروا کر رشید چرسی کو کھلایا پھر جا کر صائمہ بی بی کو آرام نصیب ہوا
 

سیما علی

لائبریرین
جی جی وہ تو اتنا ڈر گئی تھیں کہ تین دن تک پیر جھاڑو والی سرکار سے ماتھے پر دم کرواتی رہیں پھر مودے چھتری نے کالا ککڑ وہ بھی باؤ حنیف والا بٹ کڑاہی سے زبح کروا کر رشید چرسی کو کھلایا پھر جا کر صائمہ بی بی کو آرام نصیب ہوا
شکر ہے آرام تو نصیب ہوا ورنہ بیچاری صائمہ بی بی کے ساتھ جو شاہ صاحب نے کیا وہ ایک ککڑ تو کیا 50 بکرے بھی ذبح ہوں تو غم غلط نہ ہو 🤓🤓🤓🤓🤓
یہ جتنی خوش نظر آتیں بیچاریاں اتنی دُکھی ہوتیں ہیں ۔۔
 
سچ کہا وہ کیا خوب گانا ہے ۔ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ۔۔۔۔
ہر مسکان کی تہہ میں درد ضرور ہوتا ہے ، اپنا نہ بھی ہو تو کسی نہ کسی کا ضرور ہوتا ہے
 
Top