اُردو ہے جس کا نام
شاہد احمد خان نے کہا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔اردو کی خوبی یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے الفاظاس میںمل کر اسی کے ہو جاتے ہیں،، آپ کے خیال میں چابی ، الماری وغیرہ کیا اردو کے اپنے الفاظہیں،،بھائی یہ پرتگیزی زبان کے الفاظ ہیں،، کیا آپ انہیںاردو سے نکال سکتے ہیں؟؟؟؟
اور ہاںایک غلط فہمی دور کر لیجئے ، یونیسکو نے اردو کو دنیا کی دوسری سب سے زیادہ بولی جانےو الی زبان نہیں کہا ہے بھائی ، یہ اعزاز مشترکہ طور پر اردو ، ہندی اور ہندوستانی کو حاصل ہے ۔۔۔اب ان تینوںزبانوںکا کیا رشتہ ہے یہ ایک علیحدہ بحثہے ۔۔۔
معذرت محترمین کہ بندہءناچیز یہاں کافی تاخیر سے داخل ہوا ہے
جبکہ یہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے
فیروز اللغات کے حالیہ ایڈیشنز میں پتا نہیں کس سبب ایک اہم مقالہ شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آج سے بیس سال پہلے کے ایڈیشن میں مولوی عبدالحق (غالباََ ؟) کا ایک طویل مقالہ شامل کیا جاتا رہا ہے جو اردو کی تاریخ پر ایک سیرحاصل مضمون کہا جا سکتا ہے۔
موقع ملنے پر اس کو یونی کوڈ میں یہاں پیش کرنے کی کوشش کروں گا میں۔
فی الحال ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے ایک طویل مضمون (جو غالباََ رابطہ میں شائع ہوا تھا) سے کچھ اہم اور مفید اقتباسات یہاں پیش کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں :
-------------------------------
اُردو ... اِس وقت دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے ' یونیسکو' کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر سمجھی اور بولی جانے والی زبانوں میں 'چینی' اور ' انگریزی' کے بعد دنیا کی یہ تیسری بڑی زبان ہے۔
اُردو کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے ہر علاقے اور ہر ملک میں موجود ہیں ۔ اُردو کے اِس حلقہ ء اثر کو دیکھتے ہوئے اِسے انگریزی کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی زبان کہنا مبالغہ نہ ہوگا۔
اُردو ... اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج کی مخلوط زبان ہے ۔ اس کا بنیادی ڈھانچہ مقامی ہے لیکن اس میں مختلف زبانوں کے الفاظ اس کثرت سے اور اس انداز سے داخل ہو گئے ہیں کہ اُردو اپنی اساس میں بین الاقوامی زبانوں کی ایک انجمن بن گئی ہے اور ہر شخص کے لیے ایک کشش رکھتی ہے۔
ایشیائی زبانوں ، خصوصاً عربی ، فارسی ، ترکی ، سنسکرت اور پاکستان اور ہندوستان کی دوسری مقامی بولیوں کے الفاظ کی تعداد بھی اس میں خاصی ہے اور یہ الفاظ روزمرہ کی تقریر و تحریر میں برابربولے اور لکھے جاتے ہیں ۔
اِس سلسلے میں چند نمونے پیش خدمت ہیں ۔
١) عربی :
صندوق ، کرسی ، کتاب ، علاج ... وغیرہ۔
٢) ترکی :
بیگم ، توپ ، اتالیق ، قلی ، قورمہ ، خاتون ۔
٣) فارسی :
گل و غنچہ ، برگ و بار اور آب و خاک ... وغیرہ۔
٤) چینی :
کاغذ ، چائے ، تام جھام ، چوں چوں (چوں چوں کا مربہ )۔
٥) سنسکرت :
پنڈت ، برکھا ، رُت ، رشی ، وید ، کوی ، کویتا ، کریاکرم ، دھرم ... وغیرہ۔
٦) یونانی :
گراموفون ، فون ، ٹیکنیکل ، ایجنٹ ، آپریشن ، لیکچر ، الیکشن ، پائپ ، سرکس ، کانگریس ، کانفرنس ، ووٹ ، ڈراما ، کیمرہ ، کورس ، بکس ، ایلوپیتھی ، آکسیجن ، نمونیہ ، جنکشن ، ڈویژن ، ریگولر ، فیملی ، فوکس ... وغیرہ ۔
(اِن میں سے کچھ براہ راست اور کچھ انگریزی کی معرفت اُردو میں داخل ہوئے ہیں )
٧) پرتگالی :
الماری ، انناس ، تولیہ ، پادری ، چابی ، صوفہ ، صابن ، فالتو ، گرجا ، گودام ، میز ، نیلام ، ورانڈا ... وغیرہ۔
٨) فرانسیسی :
ایڈی کانگ ، پریڈ ، کارتوس ، پارک ، گارڈ ، اردلی ، ٹروپ ... وغیرہ۔
٩) اطالوی :
انفلوئنزا ، ملیریا ، پیانو ، سوڈا ، لاٹری ، لاکٹ ، سائز ، بیلٹ ، بالکنی ... وغیرہ۔
١٠) جرمن :
ڈرل ، اسپرے ، ٹب ، سوئچ ، مگ ۔
١١) اسکنڈے نیویا :
اسکاؤٹ ، ٹفن ، ٹرام ، جمپ ، جمپر ، جرسی ، ٹرسٹ ، فیلو ، کیک ، لفٹ ، لگیج ، کیتلی ... وغیرہ۔
١٢) ولندیزی :
برانڈی ، پلگ ، ڈرم ، ویگن ، گولف ... وغیرہ۔
١٣) انگریزی :
کار ، کالج ، یونی ورسٹی ، لوٹ ، ترپال ، بلڈنگ ، برجس ، پریس ، مشین ، اسکول ، کلاس ، روم ، ٹکٹ ، اسٹیشن ... وغیرہ۔
اُردو کے اس مخلوط مزاج کے نتیجے میں یہ ہوا ہے کہ اردو کے ہر جملے میں کئی کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے ہیں اور ان جملوں کو سننے اور سمجھنے والا ذرا دیر کے لیے یہ محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود بھی اُردو سے مانوس ہے یا کم ازکم اس زبان کے بعض الفاظ سے آشنائی رکھتا ہے۔ یوں یہ احساس اُسے اُردو کے قریب لاتا ہے اور وہ اسے حسبِ ضرورت آسانی سے سیکھ لیتا ہے ۔
تحریر : ڈاکٹر فرمان فتح پوری