اردو کے کچھ الفاظ سے متعلق مدد چاہئے












آپ ٹھیک فرمودہ، جناب! ہم کو شک پڑیدہ در پڑھیدن۔
معذرت قبول فرمودئیے!
toothless-chuckle-smiley-emoticon.gif
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ظاہراً معلوم می شود کہ شما "اُسترہ" نہ خواندید جس طرح من لکھیدم۔ ہمانا جملہ ابیات را وزن پورا ہست و ہیچ کمی بیشی نیست۔
لکھیدم۔:) بسیار خوب، استاذِ گرامی، ایں چیست، ہست کہ است؟
ایک غلط فہمی کی بنا پر ایک دوست کو لگا کہ شاید کوئی ایک شعر وزن سے خارج ہے۔ میں نے مذاقاً جواب دیا ہے، کہ ایسا کچھ نہیں۔ پوری غزل وزن میں ہے!

اس گلابی فارسی کا ترجمہ یہ ہوا:

"ظاہر میں لگتا ہے کہ آپ نے اُس طرح (اسے میں نے مذاق میں "استرہ" لکھا) سے نہیں پڑھا، جیسے میں نے لکھا ہے۔ بلا شبہ تمام اشعار وزن میں ہیں اور کوئی کمی بیشی نہیں۔"
 
ایک موٹا سا اُصول یاد رکھیے:
حرفِ ما قبل مکسورہو تواملا کچھ اس طرح ہوگا: لِیے، دِیے، کِیے، جیے،سِیے وغیرہ
اورحرفِ ماقبل مفتوح ہو توہمزہ سے لکھا جائے گا: گئے، پئے، مئے، وغیرہ
فارقلید بھائی یہ اصول تو واقعی بہت موٹا ہے، ما قبل مکسور؟؟ اور مفتوح؟؟؟ نہ فھمیدن بھائی جان
 
ایک غلط فہمی کی بنا پر ایک دوست کو لگا کہ شاید کوئی ایک شعر وزن سے خارج ہے۔ میں نے مذاقاً جواب دیا ہے، کہ ایسا کچھ نہیں۔ پوری غزل وزن میں ہے!

اس گلابی فارسی کا ترجمہ یہ ہوا:

"ظاہر میں لگتا ہے کہ آپ نے اُس طرح (اسے میں نے مذاق میں "استرہ" لکھا) سے نہیں پڑھا، جیسے میں نے لکھا ہے۔ بلا شبہ تمام اشعار وزن میں ہیں اور کوئی کمی بیشی نہیں۔"
ارے جناب بس استرہ کے علاوہ تو سارا سمجھ گئے، لطف اندوز ہوئےآپ دونوں کی گلابی تکرار سے۔ اور استرہ کو بھی اجتماعی معانوں میں گول ہی کر گئے پھر،
میں نے تو داد دی تھی آپ کی گلابی فارسی کی :) بس لگا کہ یہاں ہست کی جگہ است ہونا تھا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ارے جناب بس استرہ کے علاوہ تو سارا سمجھ گئے، لطف اندوز ہوئےآپ دونوں کی گلابی تکرار سے۔ اور استرہ کو بھی اجتماعی معانوں میں گول ہی کر گئے پھر،
میں نے تو داد دی تھی آپ کی گلابی فارسی کی :) بس لگا کہ یہاں ہست کی جگہ است ہونا تھا۔
اوہ۔ اب سمجھا۔ جناب گلابی کا یہی تو فائدہ ہے۔ دماغ کو حرکت میں لائے بغیر جو جی میں آئے لکھتے چلے جاتے ہیں۔ شاید آپ کے علم میں نہ ہو، یہ شغل ایک پچھلے دھاگے میں شروع کیا تھا۔ اب جب تک اس کا نیا پن ختم نہیں ہو جاتا، یونہی مزہ دیتا رہے گا۔ اور ہم لکھتے رہیں گے۔ جب بور ہو گئے تو کچھ نیا ڈھونڈ لیں گے!
 

حسان خان

لائبریرین
فارقلید بھائی یہ اصول تو واقعی بہت موٹا ہے، ما قبل مکسور؟؟ اور مفتوح؟؟؟ نہ فھمیدن بھائی جان

اُن کا کہنا یہ ہے کہ جہاں پیچھے والے حرف پر زیر کی حرکت ہو گی وہاں یے کے ساتھ لکھا جائے گا، اور جہاں پیچھے والے حرف پر زبر کی حرکت ہو گی وہاں ہمزہ آئے گا۔
 

فاتح

لائبریرین
شاید آپ احباب اس سے استفادہ کرنا چاہیں:
املا نامہ (طبع ثانی) مرتبہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ
ہمزہ کے باب میں چھٹا حصہ دیکھیے
(6) ہمزہ یا ی
ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دقّت یہ ہے کہ چاہیے میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور جائیے میں کیوں لکھنا چاہیے، یا کئی، گئے اور گئی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے، لیکن کیے، لیے، اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ کسرہ اور اعلان کی ی (نیم مصوّتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے۔ چنانچہ چاہِ+یے، لِ+یے، دِ+یے میں بالتّرتیب ہ، ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مصوّتے تک جانے سے پہلے زبان ی کے مخرج سے گزرتی ہے، جس سے ی کا شائبہ پیدا ہو جانا لازمی ہے۔ اس کے بر عکس کَ+ئی، گَ+ئے، گَ+ئی میں کسرہ نہیں بلکہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شائبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئے ہیں، اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئیں، وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔ اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا:
اگر حرفِ ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آئے گا، ی لکھی جائے گی، جیسے کِیے، دِیے، لِیے، جِیے، سنیے، چاہِیے

فعل کی تعظیمی صورتیں دیجِیے و لیجِیے اسی اصول کے تحت ی سے لکھی جائیں گی:
دیجِیے، لیجِیے، کیجِیے، اُٹھیے، بولِیے، بیٹھِیے، کھولِیے، تولِیے
باقی تمام حالتوں میں ہمزہ لکھا جائے گا۔

وہ تمام فعل جن کے مادّے کے آخر میں الف یا واؤ آتا ہے، اس اصول کے تحت ہمزہ سے لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک حرفِ علّت تو مادّے کا، دوسرا تعظیمی لاحقے اِیے کا، (فرما اِیے، جا اِیے) مل کر اپنی اپنی آواز دیتے ہیں، اس لیے ہمزہ کے استعمال کا جواز پیدا ہو جاتا ہے:
فرمائیے، جائیے، آئیے، کھوئیے، سوئیے
اسی طرح گئے، گئی، نئے میں یائے سے پہلا حرف مفتوح ہے۔ چنانچہ ان لفظوں کو بھی ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔
 
اب جملے کا ایک حصہ ہے "کیا کیا ہے" اعراب بغیر یہ چار طرح سے کہا جا سکتا ہے۔ " کیا کِیا ہے" " کِیا کیا ہے" ،" کیا کیا ہے" اور "کیا، کیا ہے"

جناب امجد میانداد صاحب۔
آپ نے جو چار صورتیں لکھی ہیں، ان میں پہلی دو سیاق و سباق کے مطابق برابر درست ہیں اور دوسری دو بلا جواز ہیں۔
سیاق و سباق کو نظر انداز کرنے میں آخر کچھ تو کجی آئے گی نا۔
 
ایک موٹا سا اُصول یاد رکھیے:
حرفِ ما قبل مکسورہو تواملا کچھ اس طرح ہوگا: لِیے، دِیے، کِیے، جیے،سِیے وغیرہ
اورحرفِ ماقبل مفتوح ہو توہمزہ سے لکھا جائے گا: گئے، پئے، مئے، وغیرہ

محترمی فارقلیط رحمانی صاحب۔ یہ ’’مئے‘‘ والی بات؟۔۔۔
اس میں تو ہمزہ ہے ہی نہیں، اسی طرح:شَے : (چیز)، لَے: (سُر، تال، لے)، کَے: (کتنے)، ہَے: (فعل ناقص)، طَے: (معاملہ طَے ہو گیا)۔ ان میں سے ہمزہ کسی کا بھی جزو نہیں ہے۔
 
شَے : (چیز)، لَے: (سُر، تال، لے)، کَے: (کتنے)، ہَے: (فعل ناقص)، طَے: (معاملہ طَے ہو گیا)۔ ان میں سے ہمزہ کسی کا بھی جزو نہیں ہے۔​

کچھ احباب لکھتے ہیں: ’’مئے لالہ فام‘‘ یہ درست نہیں ہے۔ اس میں ہمزہ اضافت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے تو اس کو ’’مےءِ لالہ فام‘‘ لکھئے۔ یعنی ہمزہ اضافی لفظ کے آخر میں آئے گا، نہ کہ اس کے اندر۔ یار لوگ تو ’’والیءِ شہر‘‘ کو بھی ’’والئی شہر‘‘ بنا ڈالتے ہیں! وہ اُن کا ذوق ہے، اصل تو ’’والی‘‘ ہے اور ہمزہ اضافت کا ہے، اگر واقع ہو گا تو لفظ کے بعد واقع ہو گا۔ اسے لام اور یاے کے درمیان لے جانا درست نہیں ہے۔
 
کمپیوٹر کے دور میں ایک مسئلہ فانٹ کا بھی آیا ہے۔ اگر میں ہاتھ سے لکھتا ہوں تو ہمزہءِ اضافت کو لفظ میں کسی بھی جگہ آسانی سے لکھ سکتا ہوں، اور اگر کمپیوٹر پر لکھنا ہے تو وہاں تو ایک ’’مشینی ترتیب‘‘ درکار ہے۔ کہیں لکھا جاتا ہے، کہیں نہیں لکھا جاتا، کہیں لفظ کی شکل بگڑ یا بدل جاتی ہے تو پھر میرے جیسا ’’کاتب‘‘ ’’اپنی نظر اور صوابدید‘‘ کو معیار سمجھ بیٹھتا ہے جو کہیں ’’ثواب‘‘ اور کہیں ۔۔۔!

صواب اور ثواب سے یاد آیا: ایک ہے خالی دندانہ ۔۔۔ خاص طور پر قرآنِ کریم کی کتابت میں، وہ اردو فانٹ بنانے والے یا تو بنا نہیں سکے یا اُس طرف کسی کی سوچ نہیں گئی۔
یہاں میرے لئے اسے درست لکھنا ممکن نہیں۔
جیسے ’’و ما اَدرٰیک‘‘ میں ہے۔ یہاں ی کے نقطے نہیں ہوتے۔ اور الھٰیکم التکاثر۔ یہاں بھی ی کے نقطے غیرموجود جانئے۔ کوئی تو ’’ادراکَ‘‘ لکھ دیتا ہے، کوئی ’’الھاکم التکاثر‘‘ ۔ حالانکہ یہ کوئی حل نہیں ہے۔

اہلِ ہنر توجہ فرمائیں۔
 
"ظاہر میں لگتا ہے کہ آپ نے اُس طرح (اسے میں نے مذاق میں "استرہ" لکھا) سے نہیں پڑھا، جیسے میں نے لکھا ہے۔ بلا شبہ تمام اشعار وزن میں ہیں اور کوئی کمی بیشی نہیں۔"

بات سمجھ میں آ گئی تھی حضرت! کاشف عمران۔ بہت شکریہ اس گلابیات کے لئے۔
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی اس کی طرف آ نے مجھے بہت پہلے توجہ دلائی تھی۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ کئی فانٹس میں یہ مکسورہ یا مقصورہ (دونوں ظرح لکھا دیکھا ہے، درست کیا ہے؟) کی یہ شکل ضرور ہے۔ لیکن اردو کی بورڈس میں اس کی ضرورت سمجھی بھی نہیں گئی ہے۔ عربی کی بورڈس میں تلاش کرنے کی ضڑؤڑٹ مجھے محسوس نہیں ہوئی
 
آسی بھائی اس کی طرف آ نے مجھے بہت پہلے توجہ دلائی تھی۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ کئی فانٹس میں یہ مکسورہ یا مقصورہ (دونوں ظرح لکھا دیکھا ہے، درست کیا ہے؟) کی یہ شکل ضرور ہے۔ لیکن اردو کی بورڈس میں اس کی ضرورت سمجھی بھی نہیں گئی ہے۔ عربی کی بورڈس میں تلاش کرنے کی ضڑؤڑٹ مجھے محسوس نہیں ہوئی


بجا ارشاد، جناب الف عین صاحب۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی؛ نہیں بلکہ بارہا اردو لکھتے لکھتے اس میں کلام اللہ سے اقتباس کی ضرورت آ جاتی ہے، وہاں (اس یائے غیر منقوط پر) میں خود کو بے بس پاتا ہوں۔

ایک تھوڑی سی بات عرض کر دوں، شاید کسی طور کام آ جائے۔ یہ خالی دندانہ در اصل ’’الفِ مقصورہ‘‘ کا ہے: اعلٰی، ادنٰی، اَولٰی، کَفٰی وغیرہ۔ قرآنِ کریم کے خط میں جہاں کہیں یہ لکھنے میں (اپنے مابعد سے) متصل ہو وہاں یاے کے نقطے نہیں لگائے جاتے اور خالی دندانہ رہ جاتا ہے۔ ہم عجمیوں کو شاید اس تفریق و توضیح کی چنداں ضرورت اس لئے بھی نہیں ہوتی کہ ہمارے پاس نسخے ہوتے ہی اعراب والے ہیں۔ عربوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عام طور پر اعراب کے محتاج نہیں ہوتے، جیسے ہم اردو، پنجابی، فارسی میں اعراب کے بغیر بھی درست پڑھ لیتے ہیں۔ تاہم چونکہ معاملہ اللہ کے کلام کا ہے اس لئے میری حساسیت کو کسی دلیل کی احتیاج نہیں۔ کہ ہمیں تو اس کے ایک ایک نقطے، شوشے، الف، ہمزہ کو بعینہٍ نقل کرنا ہوتا ہے۔ جیسا ہم اس مقدس کتاب کے نسخوں میں دیکھتے ہیں۔

ایک تجویز ہے (میری اپنی سمجھ بوجھ کی حد تک) اگر قابلِ عمل ہو تو!۔۔
ہمارے اردو کی بورڈ پر یاے کی دو صورتیں ہیں ’’ی‘‘ اور ’’ے‘‘۔ یہ دونوں صورتیں اپنے ماقبل سے تو متصل ہو جاتی ہیں، اور پہلی صورت ’’ی‘‘ اپنے مابعد سے بھی، تاہم دوسری صورت ’’ے‘‘ اپنے مابعد سے متصل نہیں ہوتی۔ اگر کسی طور ایسا ہو سکے کہ یہ اپنے مابعد سے متصل ہو جائے اور اس اتصال کی صورت میں اس کے نقطے غائب ہو جائیں تو شاید مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

دیگر احباب سے بھی اس نکتے پر گپ شپ لگائیے گا۔ بہت آداب۔
 
وڈی ے کا متصل نہ ہونا یونیکوڈ کے قوانین کی وجہ سے ہے. (میرے علم کے مطابق)

شکریہ دوست ، مجھے کمپیوٹر کی اِن باتوں کا واقعی کوئی علم نہیں ہے۔ ایک بات میرے ذہن میں تھی، کہہ دی۔ اہلِ ہنر دیکھ لیں پتہ نہیں یہ قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔ میرا خیال ہے اِن پیج ایک ’’آزاد‘‘ سافٹ ویئر ہے، وہاں شاید کچھ ہو سکے۔
 

فاتح

لائبریرین
کچھ احباب لکھتے ہیں: ’’مئے لالہ فام‘‘ یہ درست نہیں ہے۔ اس میں ہمزہ اضافت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے تو اس کو ’’مےءِ لالہ فام‘‘ لکھئے۔ یعنی ہمزہ اضافی لفظ کے آخر میں آئے گا، نہ کہ اس کے اندر۔
بدہ ساقی مئے باقی کہ در جنّت نخواہی یافت
 
بدہ ساقی مئے باقی کہ در جنّت نخواہی یافت
ب دہ سا قی (مفاعیلن)
مَ ےِ با قی (مفاعیلن) ۔۔۔۔۔ یہاں ’’ے‘‘ مکسور پر اشباع ہے یعنی زیر کو کھینچ کر یاے کے برابر لمبا کر دینا۔ ہمزہ کا محض اشتباہ ہو رہا ہے۔
ک در جن نت (مفاعیلن)
ن خا ہی یا ف (مفاعیلان)
 

فاتح

لائبریرین
ب دہ سا قی (مفاعیلن)
مَ ےِ با قی (مفاعیلن) ۔۔۔ ۔۔ یہاں ’’ے‘‘ مکسور پر اشباع ہے یعنی زیر کو کھینچ کر یاے کے برابر لمبا کر دینا۔ ہمزہ کا محض اشتباہ ہو رہا ہے۔
ک در جن نت (مفاعیلن)
ن خا ہی یا ف (مفاعیلان)
یعنی آپ کی رائے میں کسی بھی حرف پر اگر زیر ہو تو یہ ایک قاعدہ ہے کہ اس زیر کو کھینچ کر ایک مکمل حرف کے مطابق وزن دیا جا سکتا ہے؟
 
یعنی آپ کی رائے میں کسی بھی حرف پر اگر زیر ہو تو یہ ایک قاعدہ ہے کہ اس زیر کو کھینچ کر ایک مکمل حرف کے مطابق وزن دیا جا سکتا ہے؟

خوش رہئے فاتح صاحب۔ میرے ذہن میں کوئی اشتباہ نہیں۔ میں اس کو ٹھیک طور پر بیان نہیں کر پایا، شاید۔

دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
Top