اردو سے محبت کا جذبہ اور مضمون کا انداز اچھا لگا لیکن کسی قدر حقائق کے برعکس ہے۔
1۔ انگریزوں سے قبل ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ملک ہندوستان (تب پاکستان اور بنگلہ دیش اسی ہندوستان کا ہی حصہ تھے) پر غاصبانہ قبضہ کر کے لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے مغل اور تاتاری جن خطوں سے یہاں آئے تھے وہیں کی زبان یعنی فارسی ہمارے ملک پر نافذ کرتے رہے۔
2۔ انگریزوں سے قبل سرکاری زبان فارسی ہوتی تھی۔ آپ کسی بھی عجائب گھر میں چلے جائیں اور تاریخی دستاویزات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو 99 فیصد سے زائد مواد فارسی میں ہی ملے گا جو ہرگز ہندوستان کی زبان نہیں ہے۔
3۔ انگریزوں نے اردو کو تباہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اردو کی ترویج کے سلسلے میں بے انتہا کام کیا ہے۔ اردو نے انیسویں صدی کے آغاز میں بطور سرکاری و دفتری زبان رواج پایا اور یہ انگریزوں کا دور تھا نا کہ مغل لٹیروں کا۔
4۔ اردو کی ترویج میں بطور ادارہ فورٹ ولیم کالج اور بطور شخص جان گلکرائسٹ کا مقام کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اور یہ دونوں ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش راج سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
5۔ جان گلکرائسٹ نے اس دور کے بہترین اردو ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم ر جمع کیا اور ان سے غیر فارسی زدہ یا سہل اردو میں نثر لکھوائی۔ مثلاً میر امن دہلوی کی باغ و بہار وغیرہ۔
6۔ انگریزوں سے قبل تو ہمارے ملک کے قوانین تک غیر زبانوں (فارسی اور پھرانگریزی) میں تھے جنہیں یہاں کے مقامی لوگ سمجھ تک نہ سکتے تھے۔ یہ انگریز ہی تھا جس نے پیسے دے کر ڈپٹی نذیر احمد سے انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ "تعزیراتِ ہند" کروایا اور ہم پاکستانی (جنہیں اردو پر ناز ہے) اپنے قوانین کو اردو میں ڈھالنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں نافذ العمل بے شمار قوانین کا آج تک کبھی اردو میں ترجمہ ہی نہیں کیا گیا اور صرف انگریزی میں ہی لکھے پڑھے جاتے ہیں۔
7۔ اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اس لیے شامل نہیں ہوئے کہ یہ "لشکری" زبان ہے بلکہ ساری دنیا میں زبانوں کی تشکیل اور ترقی کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ دیگر زبانوں سے نئے الفاظ (جو زبان زد عام ہوں) شامل کیے جا سکیں۔ یوں انگریزی، عربی اور فارسی سمیت دنیا کی ہر زبان ہی "لشکری" ہے۔
8۔ زبانیں دفتروں میں بیٹھ کر گھڑی نہیں جاتیں بلکہ اہلِ زبان سہولت کے مطابق از خود نئے شامل ہونے والے الفاظ کو قبول اور پرانوں کو رد کرتے چلے جاتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ نئے الفاظ انگریزی سے آ رہے ہیں یا فارسی سے یا اطالوی سے۔
آج اگر ہم ایک بھیانک قسم کی جناتی زبان گھڑنے لگ جائیں اور یہ لکھیں کہ
"شمارندہ دراصل ایک ایسے آلہ کو کہا جاتا ہے جو مہیّا کی گئی معطیات کی فہرست (یعنی . برنامج) کے مطابق معطیات پر استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔" (از نام نہاد "اردو" وکی پیڈیا)
اول تو اس جملے کو سوائے اسے گھڑنے والے کے کون سمجھ سکتا ہے اور دوم یہ کہ ان نئے گھڑے گئے الفاظ کو عوامی سطح پر پذیرائی "
کیوں" ملے گی؟
ہم نے اگر نئے الفاظ ہی لینے ہیں تو کیوں نہ وہ الفاظ لے لیے جائیں جنہیں ہماری 99 فیصد عوام کسی تردد کے بغیر سمجھ سکتی ہے اور جو پہلے ہی ہماری روزمرہ کی بول چال کا حصہ ہیں اور ہماری زبان میں اپنی جگہ بنا کر قبولیت کا درجہ پا چکے ہیں اور یوں کیوں نہ لکھیں اور بولیں کہ
"کمپیوٹر دراصل ایک ایسے آلہ کو کہا جاتا ہے جو مہیّا کی گئی ڈیٹا کی فہرست (یعنی پروگرام) کے مطابق ڈیٹا کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔"
اردو بولیں، اردو لکھیں، اردو پڑھیں لیکن جناتی اوربھیانک اردو گھڑنے کی سازش مت کریں۔ نئے الفاظ کو قطع نظر انگریی، فارسی اور عربی ماخذ کی بحث میں پڑے خودبخود زبان کا حصہ بننے دیں بجائے زبردستی ٹھونسنے کے۔
لیجیے
عثمان بھائی، آپ نے ہمیں ٹیگ (ٹیگ کا کوئی عربی یا فارسی زدہ متبادل کسی نے گھڑ رکھا ہو تو مجھے معلوم نہیں) کیا تھا تو یہ مراسلہ قرض سمجھ کر ادا کر دیا۔