ابن رضا
لائبریرین
یہاں ایک درجہ بندی کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی اور وہ ہے "غیرمعمولی معلوماتی"
اس تقریر سے کم از کم مجھے تو تاریخی معلومات ملی ہیں۔ مثلاً کہ صرف مغل ہی لٹیرے تھے جبکہ انگریز راج تو تھا ہی قائم ہونے کے لیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک قابل احترام ادارہ تھا جبکہ دوسری طرف ہمارے نصاب ِ تعلیم نے تو تمام حقائق کو مسخ کر رکھا ہے کہ لٹیرے اور حاتم طائی کی پہچان ممکن ہی نہیں رہی۔کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ انگریز نے بھی جو کچھ کیا صرف اپنی سہولت اور راج (عرفِ عام غاصبانہ قبضہ) کے لیے کیا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی بر صغیر میں عوامی بہبود، اردو کی تشکیل و ترقی اور فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد کےلیے حاضر ہوئی تھی۔ اور یہ سب کر کے چل دی اور تب سے سارے کام وہیں کے وہیں ٹھپ۔اب ہر چیز کے الفاظ جو کہ انگریزی میں رائج ہیں ان کے ہوتے ہوئے اردو کے رنگ میں رنگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور تو اور اردو دانوں کی تو دکان ہی بند ہو جائے گی بیچارے اردو کو رنگنے کی بجائے عمارتوں کا رنگ روغن کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں گے۔
بہت ہی غیر معمولی معلوماتی مراسلہ ہے۔
کس کی مانیں اور کس کی نا مانیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ دو ملاؤں میں مرغی حرام کے مصداق ہر چیز سمجھ سے بالا ہو رہی ہے کوئی صاحب ِ علم تصدیق یا تردید فرما کر ہم جیسے اطفالِ مکتب کی رہنمائی کر کے احسان مندکرے ۔ ارے یاد آیا جب اسٹوڈنٹ کا سادہ سا لفظ جو موجود ہے تو طفل مکتب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلیں جی معذرت، غلطی کی معذرت بلکہ ہر چیز کی معذرت بلکہ معذرت ہی معذرت ۔۔ اور مزید یہ
کہ جب
SORRY موجود ہے تو معذرت کی کیا ضرورت ہے۔
استادِ محترم الف عین ، محمد یعقوب آسی ۔
سید شہزاد ناصر ، سید عاطف علی و دیگر محفلین
اس تقریر سے کم از کم مجھے تو تاریخی معلومات ملی ہیں۔ مثلاً کہ صرف مغل ہی لٹیرے تھے جبکہ انگریز راج تو تھا ہی قائم ہونے کے لیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک قابل احترام ادارہ تھا جبکہ دوسری طرف ہمارے نصاب ِ تعلیم نے تو تمام حقائق کو مسخ کر رکھا ہے کہ لٹیرے اور حاتم طائی کی پہچان ممکن ہی نہیں رہی۔کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ انگریز نے بھی جو کچھ کیا صرف اپنی سہولت اور راج (عرفِ عام غاصبانہ قبضہ) کے لیے کیا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی بر صغیر میں عوامی بہبود، اردو کی تشکیل و ترقی اور فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد کےلیے حاضر ہوئی تھی۔ اور یہ سب کر کے چل دی اور تب سے سارے کام وہیں کے وہیں ٹھپ۔اب ہر چیز کے الفاظ جو کہ انگریزی میں رائج ہیں ان کے ہوتے ہوئے اردو کے رنگ میں رنگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور تو اور اردو دانوں کی تو دکان ہی بند ہو جائے گی بیچارے اردو کو رنگنے کی بجائے عمارتوں کا رنگ روغن کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں گے۔
بہت ہی غیر معمولی معلوماتی مراسلہ ہے۔
کس کی مانیں اور کس کی نا مانیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ دو ملاؤں میں مرغی حرام کے مصداق ہر چیز سمجھ سے بالا ہو رہی ہے کوئی صاحب ِ علم تصدیق یا تردید فرما کر ہم جیسے اطفالِ مکتب کی رہنمائی کر کے احسان مندکرے ۔ ارے یاد آیا جب اسٹوڈنٹ کا سادہ سا لفظ جو موجود ہے تو طفل مکتب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلیں جی معذرت، غلطی کی معذرت بلکہ ہر چیز کی معذرت بلکہ معذرت ہی معذرت ۔۔ اور مزید یہ
کہ جب
SORRY موجود ہے تو معذرت کی کیا ضرورت ہے۔
استادِ محترم الف عین ، محمد یعقوب آسی ۔
سید شہزاد ناصر ، سید عاطف علی و دیگر محفلین
آخری تدوین: