اردو

ابن رضا

لائبریرین
یہاں ایک درجہ بندی کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی اور وہ ہے "غیرمعمولی معلوماتی"
اس تقریر سے کم از کم مجھے تو تاریخی معلومات ملی ہیں۔ مثلاً کہ صرف مغل ہی لٹیرے تھے جبکہ انگریز راج تو تھا ہی قائم ہونے کے لیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک قابل احترام ادارہ تھا جبکہ دوسری طرف ہمارے نصاب ِ تعلیم نے تو تمام حقائق کو مسخ کر رکھا ہے کہ لٹیرے اور حاتم طائی کی پہچان ممکن ہی نہیں رہی۔کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ انگریز نے بھی جو کچھ کیا صرف اپنی سہولت اور راج (عرفِ عام غاصبانہ قبضہ) کے لیے کیا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی بر صغیر میں عوامی بہبود، اردو کی تشکیل و ترقی اور فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد کےلیے حاضر ہوئی تھی۔ اور یہ سب کر کے چل دی اور تب سے سارے کام وہیں کے وہیں ٹھپ۔اب ہر چیز کے الفاظ جو کہ انگریزی میں رائج ہیں ان کے ہوتے ہوئے اردو کے رنگ میں رنگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور تو اور اردو دانوں کی تو دکان ہی بند ہو جائے گی بیچارے اردو کو رنگنے کی بجائے عمارتوں کا رنگ روغن کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں گے۔
بہت ہی غیر معمولی معلوماتی مراسلہ ہے۔

کس کی مانیں اور کس کی نا مانیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ دو ملاؤں میں مرغی حرام کے مصداق ہر چیز سمجھ سے بالا ہو رہی ہے کوئی صاحب ِ علم تصدیق یا تردید فرما کر ہم جیسے اطفالِ مکتب کی رہنمائی کر کے احسان مندکرے ۔ ارے یاد آیا جب اسٹوڈنٹ کا سادہ سا لفظ جو موجود ہے تو طفل مکتب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلیں جی معذرت، غلطی کی معذرت بلکہ ہر چیز کی معذرت بلکہ معذرت ہی معذرت ۔۔ اور مزید یہ
کہ جب
SORRY موجود ہے تو معذرت کی کیا ضرورت ہے۔:idontknow:

استادِ محترم الف عین ، محمد یعقوب آسی ۔
سید شہزاد ناصر ، سید عاطف علی و دیگر محفلین
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
یہاں ایک درجہ بندی کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی اور وہ ہے "غیرمعمولی معلوماتی"
اس تقریر سے کم از کم مجھے تو تاریخی معلومات ملی ہیں۔ مثلاً کہ صرف مغل ہی لٹیرے تھے جبکہ انگریز راج تو تھا ہی قائم ہونے کے لیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک قابل احترام ادارہ تھا جبکہ دوسری طرف ہمارے نصاب ِ تعلیم نے تو تمام حقائق کو مسخ کر رکھا ہے کہ لٹیرے اور حاتم طائی کی پہچان ممکن ہی نہیں رہی۔کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ انگریز نے بھی جو کچھ کیا صرف اپنی سہولت اور راج (عرفِ عام غاصبانہ قبضہ) کے لیے کیا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی بر صغیر میں عوامی بہبود، اردو کی تشکیل و ترقی اور فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد کےلیے حاضر ہوئی تھی۔ اور یہ سب کر کے چل دی اور تب سے سارے کام وہیں کے وہیں ٹھپ۔اب ہر چیز کے الفاظ جو کہ انگریزی میں رائج ہیں ان کے ہوتے ہوئے اردو کے رنگ میں رنگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور تو اور اردو دانوں کی تو دکان ہی بند ہو جائے گی بیچارے اردو کو رنگنے کی بجائے عمارتوں کا رنگ روغن کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں گے۔
بہت ہی غیر معمولی معلوماتی مراسلہ ہے۔

کس کی مانیں اور کس کی نا مانیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ دو ملاؤں میں مرغی حرام کے مصداق ہر چیز سمجھ سے بالا ہو رہی ہے کوئی صاحب ِ علم تصدیق یا تردید فرما کر ہم جیسے اطفالِ مکتب کی رہنمائی کر کے احسان مندکرے ۔ ارے یاد آیا جب اسٹوڈنٹ کا سادہ سا لفظ جو موجود ہے تو طفل مکتب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلیں جی معذرت، غلطی کی معذرت بلکہ ہر چیز کی معذرت بلکہ معذرت ہی معذرت ۔۔ اور مزید یہ
کہ جب
SORRY موجود ہے تو معذرت کی کیا ضرورت ہے۔:idontknow:

استادِ محترم الف عین ، محمد یعقوب آسی ۔
سید شہزاد ناصر ، سید عاطف علی و دیگر محفلین

آپ کی جذباتی تقریر اپنی جگہ لیکن صرف حقائق کو سامنے رکھ کے بات کریں اور مجھے بتائیں کہ ان مسلمان بادشاہوں نے ہمیں سوائے چکلوں، کوٹھوں اور کشیدہ کاری کی ہوئی مسجدوں کے کیا دیا؟ ہاں! ایک واحد فلاحی کام جو کیا گیا وہ شیر شاہ سوری کی جانب سے جی ٹی روڈ بنوانے کا تھا۔
دوسری جانب انگریز کی حکومت نے ہمیں کیا دیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔۔۔ دنیا کی بہترین نہری نظام، ریلوے لائنیں، اردو کی ترویج، وغیرہ وغیرہ
 

فاتح

لائبریرین
ارے یاد آیا جب اسٹوڈنٹ کا سادہ سا لفظ جو موجود ہے تو طفل مکتب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلیں جی معذرت، غلطی کی معذرت بلکہ ہر چیز کی معذرت بلکہ معذرت ہی معذرت ۔۔ اور مزید یہ
کہ جب
SORRY موجود ہے تو معذرت کی کیا ضرورت ہے۔:idontknow:
سٹوڈنٹ کے لیے طفلِ مکتب نہیں بلکہ طالب علم کا لفظ اور سوری کے لیے معذرت کا لفظ پہلےسے موجود ہیں۔۔۔ انہیں کسی نے گھڑ کے شامل نہیں کیا۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
اردو سے محبت کا جذبہ اور مضمون کا انداز اچھا لگا لیکن کسی قدر حقائق کے برعکس ہے۔
1۔ انگریزوں سے قبل ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ملک ہندوستان (تب پاکستان اور بنگلہ دیش اسی ہندوستان کا ہی حصہ تھے) پر غاصبانہ قبضہ کر کے لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے مغل اور تاتاری جن خطوں سے یہاں آئے تھے وہیں کی زبان یعنی فارسی ہمارے ملک پر نافذ کرتے رہے۔
2۔ انگریزوں سے قبل سرکاری زبان فارسی ہوتی تھی۔ آپ کسی بھی عجائب گھر میں چلے جائیں اور تاریخی دستاویزات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو 99 فیصد سے زائد مواد فارسی میں ہی ملے گا جو ہرگز ہندوستان کی زبان نہیں ہے۔
3۔ انگریزوں نے اردو کو تباہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اردو کی ترویج کے سلسلے میں بے انتہا کام کیا ہے۔ اردو نے انیسویں صدی کے آغاز میں بطور سرکاری و دفتری زبان رواج پایا اور یہ انگریزوں کا دور تھا نا کہ مغل لٹیروں کا۔
4۔ اردو کی ترویج میں بطور ادارہ فورٹ ولیم کالج اور بطور شخص جان گلکرائسٹ کا مقام کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اور یہ دونوں ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش راج سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
5۔ جان گلکرائسٹ نے اس دور کے بہترین اردو ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم ر جمع کیا اور ان سے غیر فارسی زدہ یا سہل اردو میں نثر لکھوائی۔ مثلاً میر امن دہلوی کی باغ و بہار وغیرہ۔
6۔ انگریزوں سے قبل تو ہمارے ملک کے قوانین تک غیر زبانوں (فارسی اور پھرانگریزی) میں تھے جنہیں یہاں کے مقامی لوگ سمجھ تک نہ سکتے تھے۔ یہ انگریز ہی تھا جس نے پیسے دے کر ڈپٹی نذیر احمد سے انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ "تعزیراتِ ہند" کروایا اور ہم پاکستانی (جنہیں اردو پر ناز ہے) اپنے قوانین کو اردو میں ڈھالنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں نافذ العمل بے شمار قوانین کا آج تک کبھی اردو میں ترجمہ ہی نہیں کیا گیا اور صرف انگریزی میں ہی لکھے پڑھے جاتے ہیں۔
7۔ اردو میں دیگر زبانوں کے الفاظ اس لیے شامل نہیں ہوئے کہ یہ "لشکری" زبان ہے بلکہ ساری دنیا میں زبانوں کی تشکیل اور ترقی کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ دیگر زبانوں سے نئے الفاظ (جو زبان زد عام ہوں) شامل کیے جا سکیں۔ یوں انگریزی، عربی اور فارسی سمیت دنیا کی ہر زبان ہی "لشکری" ہے۔
8۔ زبانیں دفتروں میں بیٹھ کر گھڑی نہیں جاتیں بلکہ اہلِ زبان سہولت کے مطابق از خود نئے شامل ہونے والے الفاظ کو قبول اور پرانوں کو رد کرتے چلے جاتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ نئے الفاظ انگریزی سے آ رہے ہیں یا فارسی سے یا اطالوی سے۔
آج اگر ہم ایک بھیانک قسم کی جناتی زبان گھڑنے لگ جائیں اور یہ لکھیں کہ
"شمارندہ دراصل ایک ایسے آلہ کو کہا جاتا ہے جو مہیّا کی گئی معطیات کی فہرست (یعنی . برنامج) کے مطابق معطیات پر استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔" (از نام نہاد "اردو" وکی پیڈیا)
اول تو اس جملے کو سوائے اسے گھڑنے والے کے کون سمجھ سکتا ہے اور دوم یہ کہ ان نئے گھڑے گئے الفاظ کو عوامی سطح پر پذیرائی "کیوں" ملے گی؟
ہم نے اگر نئے الفاظ ہی لینے ہیں تو کیوں نہ وہ الفاظ لے لیے جائیں جنہیں ہماری 99 فیصد عوام کسی تردد کے بغیر سمجھ سکتی ہے اور جو پہلے ہی ہماری روزمرہ کی بول چال کا حصہ ہیں اور ہماری زبان میں اپنی جگہ بنا کر قبولیت کا درجہ پا چکے ہیں اور یوں کیوں نہ لکھیں اور بولیں کہ
"کمپیوٹر دراصل ایک ایسے آلہ کو کہا جاتا ہے جو مہیّا کی گئی ڈیٹا کی فہرست (یعنی پروگرام) کے مطابق ڈیٹا کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔"
اردو بولیں، اردو لکھیں، اردو پڑھیں لیکن جناتی اوربھیانک اردو گھڑنے کی سازش مت کریں۔ نئے الفاظ کو قطع نظر انگریی، فارسی اور عربی ماخذ کی بحث میں پڑے خودبخود زبان کا حصہ بننے دیں بجائے زبردستی ٹھونسنے کے۔

لیجیے عثمان بھائی، آپ نے ہمیں ٹیگ (ٹیگ کا کوئی عربی یا فارسی زدہ متبادل کسی نے گھڑ رکھا ہو تو مجھے معلوم نہیں) کیا تھا تو یہ مراسلہ قرض سمجھ کر ادا کر دیا۔ :)
اس طویل مراسلے میں لوگوں کی تان محض مغلوں کو لٹیرا کہنے پر آ کر ٹوٹی ہے۔۔۔ واہ واہ واہ :)
 

عثمان

محفلین
یہاں ایک درجہ بندی کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی اور وہ ہے "غیرمعمولی معلوماتی"
اس تقریر سے کم از کم مجھے تو تاریخی معلومات ملی ہیں۔ مثلاً کہ صرف مغل ہی لٹیرے تھے جبکہ انگریز راج تو تھا ہی قائم ہونے کے لیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک قابل احترام ادارہ تھا جبکہ دوسری طرف ہمارے نصاب ِ تعلیم نے تو تمام حقائق کو مسخ کر رکھا ہے کہ لٹیرے اور حاتم طائی کی پہچان ممکن ہی نہیں رہی۔کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ انگریز نے بھی جو کچھ کیا صرف اپنی سہولت اور راج (عرفِ عام غاصبانہ قبضہ) کے لیے کیا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی بر صغیر میں عوامی بہبود، اردو کی تشکیل و ترقی اور فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد کےلیے حاضر ہوئی تھی۔ اور یہ سب کر کے چل دی اور تب سے سارے کام وہیں کے وہیں ٹھپ۔اب ہر چیز کے الفاظ جو کہ انگریزی میں رائج ہیں ان کے ہوتے ہوئے اردو کے رنگ میں رنگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور تو اور اردو دانوں کی تو دکان ہی بند ہو جائے گی بیچارے اردو کو رنگنے کی بجائے عمارتوں کا رنگ روغن کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں گے۔
بہت ہی غیر معمولی معلوماتی مراسلہ ہے۔

کس کی مانیں اور کس کی نا مانیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ دو ملاؤں میں مرغی حرام کے مصداق ہر چیز سمجھ سے بالا ہو رہی ہے کوئی صاحب ِ علم تصدیق یا تردید فرما کر ہم جیسے اطفالِ مکتب کی رہنمائی کر کے احسان مندکرے ۔ ارے یاد آیا جب اسٹوڈنٹ کا سادہ سا لفظ جو موجود ہے تو طفل مکتب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلیں جی معذرت، غلطی کی معذرت بلکہ ہر چیز کی معذرت بلکہ معذرت ہی معذرت ۔۔ اور مزید یہ
کہ جب
SORRY موجود ہے تو معذرت کی کیا ضرورت ہے۔:idontknow:

استادِ محترم الف عین ، محمد یعقوب آسی ۔
سید شہزاد ناصر ، سید عاطف علی و دیگر محفلین
ہمیں "بس کنڈیکٹر" کو "سٹوڈنٹ" کہہ کر ہی رعایت ملتی رہی ہے۔ آپ ان کے متبادل تلاش کر کے وہی رعایت حاصل کر دکھائیے۔ کوئی روک رہا ہے ؟ :)
مسئلہ یہ ہے کہ نام نہاد احیائے اردو کے مفکرین کی سوئی انگریز اور انگریزی پر اٹک جاتی ہے ورنہ غیر معمولی معلوماتی تبصرے میں یہ بات سمجھنا کوئی ایسا مشکل نہیں۔

ساری دنیا میں زبانوں کی تشکیل اور ترقی کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ دیگر زبانوں سے نئے الفاظ (جو زبان زد عام ہوں) شامل کیے جا سکیں۔ یوں انگریزی، عربی اور فارسی سمیت دنیا کی ہر زبان ہی "لشکری" ہے۔
زبانیں دفتروں میں بیٹھ کر گھڑی نہیں جاتیں بلکہ اہلِ زبان سہولت کے مطابق از خود نئے شامل ہونے والے الفاظ کو قبول اور پرانوں کو رد کرتے چلے جاتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ نئے الفاظ انگریزی سے آ رہے ہیں یا فارسی سے یا اطالوی سے۔
 

عثمان

محفلین
اس موقع پر ہمیں ایک بار پھر " پلاسٹک " یاد آ رہا ہے۔
ہے کوئی جغادری جو اس کا "اردو ترجمہ" فراہم کرے۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
اس طویل مراسلے میں لوگوں کی تان محض مغلوں کو لٹیرا کہنے پر آ کر ٹوٹی ہے۔۔۔ واہ واہ واہ :)
حضور گزارش یہ ہے کہ مغل میرے سسرال والے تو ہیں نہیں کہ مجھے تکلیف ہو۔ آپ مہربانی فرما کر مغل سے پہلے "صرف" کے لفظ سے صرفِ نظر نہ فرمائیں۔ دوسری بات یہ کہ انگریزوں نے ریلوے ٹریک جن غلاموں کا خون بہا بہا کر بچھایا تھا تاریخ کے صفحات تو آج بھی گواہ ہیں کہ یہ سب عوام ِ برصغیر کے لیے فلاحی منصوبے تھے یا اپنے لشکری سازو سامان کی ترسیل و نقل و حمل کے لیے آسانیاں پیدا کی تھیں۔ اسی لیے تو علم رکھنے والوں سے التماس کیا ہے کہ اس بھید کی تصدیق یا تردید فرما کر احسان مند فرمائیں:)
 

عثمان

محفلین
حضور گزارش یہ ہے کہ مغل میرے سسرال والے تو ہیں نہیں کہ مجھے تکلیف ہو۔ آپ مہربانی فرما کر مغل سے پہلے "صرف" کے لفظ سے صرفِ نظر نہ فرمائیں۔ دوسری بات یہ کہ انگریزوں نے ریلوے ٹریک جن غلاموں کا خون بہا بہا کر بچھایا تھا تاریخ کے صفحات تو آج بھی گواہ ہیں کہ یہ سب عوام ِ برصغیر کے لیے فلاحی منصوبے تھے یا اپنے لشکری سازو سامان کی ترسیل و نقل و حمل کے لیے آسانیاں پیدا کی تھیں۔ اسی لیے تو علم رکھنے والوں سے التماس کیا ہے کہ اس بھید کی تصدیق یا تردید فرما کر احسان مند فرمائیں:)
کوئی بھی غاصب آپ کے لیے فلاحی ریاست قائم کرنے نہیں آتا۔ اسے تو اپنا مطلب نکالنا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ کو موازنہ کرنا ہے تو مغلوں کو انگریزوں پر فوقیت کیوں ؟
ایک کو غاصب اور دوسرے کو اپنی تاریخ کا حصہ سمجھنے پر اصرار کیوں ؟
 

فاتح

لائبریرین
حضور گزارش یہ ہے کہ مغل میرے سسرال والے تو ہیں نہیں کہ مجھے تکلیف ہو۔ آپ مہربانی فرما کر مغل سے پہلے "صرف" کے لفظ سے صرفِ نظر نہ فرمائیں۔ دوسری بات یہ کہ انگریزوں نے ریلوے ٹریک جن غلاموں کا خون بہا بہا کر بچھایا تھا تاریخ کے صفحات تو آج بھی گواہ ہیں کہ یہ سب عوام ِ برصغیر کے لیے فلاحی منصوبے تھے یا اپنے لشکری سازو سامان کی ترسیل و نقل و حمل کے لیے آسانیاں پیدا کی تھیں۔ اسی لیے تو علم رکھنے والوں سے التماس کیا ہے کہ اس بھید کی تصدیق یا تردید فرما کر احسان مند فرمائیں:)
آپ اپنے سسرالیوں یا غیر سسرالیوں کے حق میں اس تحقیق کے لیے ایک نئی لڑی کھول کر اس کارخیر کا آغاز فرمائیں۔۔۔ پھر شاید ہم وہاں ریلوے ٹریک کے لیے بنائے گئے دنیا کے سب سے بڑے مصنوعی جنگل چھانگا مانگا کا حوالہ بھی دے دیں گے اگر اس بے ہودہ تحقیق کو پڑھنے کا وقت ملا۔
اس دھاگے کو براہِ کرم موضوع (اردو ) پر ہی رہنے دیں تو احسانِ عظیم ہو گا۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
ہمیں "بس کنڈیکٹر" کو "سٹوڈنٹ" کہہ کر ہی رعایت ملتی رہی ہے۔ آپ ان کے متبادل تلاش کر کے وہی رعایت حاصل کر دکھائیے۔ کوئی روک رہا ہے ؟ :)
مسئلہ یہ ہے کہ نام نہاد احیائے اردو کے مفکرین کی سوئی انگریز اور انگریزی پر اٹک جاتی ہے ورنہ غیر معمولی معلوماتی تبصرے میں یہ بات سمجھنا کوئی ایسا مشکل نہیں۔
حضور ِوالا مذکور مراسلے کی ساری باتیں غیر معمولی نہیں تھی کیوں کہ ان باتوں سے پہلے کسی نہ کسی حوالے سے اتفاق و آشنائی تھی اس لیے تذکرہ و تکرار کی حاجت نہ تھی۔ یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے۔:)
چونکہ اردو سے دلی محبت ہے تو جو باتیں غیر معمولی لگیں ان کی بابت من و عن اظہار کر دیا ۔ باقی مغل جانیں اور آپ جانیں :)
 
آخری تدوین:

محب اردو

محفلین
آپ کی جذباتی تقریر اپنی جگہ لیکن صرف حقائق کو سامنے رکھ کے بات کریں اور مجھے بتائیں کہ ان مسلمان بادشاہوں نے ہمیں سوائے چکلوں، کوٹھوں اور کشیدہ کاری کی ہوئی مسجدوں کے کیا دیا؟ ہاں! ایک واحد فلاحی کام جو کیا گیا وہ شیر شاہ سوری کی جانب سے جی ٹی روڈ بنوانے کا تھا۔
دوسری جانب انگریز کی حکومت نے ہمیں کیا دیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔۔۔ دنیا کی بہترین نہری نظام، ریلوے لائنیں، اردو کی ترویج، وغیرہ وغیرہ
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں سن کر ایک اور بڑا حسن نثار یاد آگیا ہے ۔
سنتے آئے ہیں کہ ماضی ،حال ومستقبل پربڑے گہرےاثرات مرتب کرتاہے ۔ لیکن اب تو یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ حالات کی سختی و نرمی تاریخ پڑھنے والوں کے قلوب و اذہان پر بھی بری طرح اثر کرتی ہے ۔
کبھی وہ وقت تھا کہ جب غیرمسلم بھی مسلمانوں کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے تھے (کیونکہ شاید وہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا ) اور اب یہ حال ہے کہ اپنےہی اپنی مذمت کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہناچاہتے۔(شایداس کیوجہ خود مسلمانوں کا پستی وانحطاط کوپسندکرلیناہے۔)
زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدل گئی ہیں ۔ ورنہ مسلمانوں نےاپنی آئندہ نسلوں کے لیے کچھ کم ورثہ نہیں چھوڑا ۔ ہمارے بڑوں نے ہمارےلیے وہ چھوڑا جوانہیں پسند تھا اورہم وہ چھوڑیں گے جو ہمارا پسندیدہ ہے ۔
آنے والا وقت فیصلہ کرےگا کہ ہمارا انتخاب بہترتھایاہمارےبڑوں کاانتخاب۔
 

فاتح

لائبریرین
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں سن کر ایک اور بڑا حسن نثار یاد آگیا ہے ۔
سنتے آئے ہیں کہ ماضی ،حال ومستقبل پربڑے گہرےاثرات مرتب کرتاہے ۔ لیکن اب تو یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ حالات کی سختی و نرمی تاریخ پڑھنے والوں کے قلوب و اذہان پر بھی بری طرح اثر کرتی ہے ۔
کبھی وہ وقت تھا کہ جب غیرمسلم بھی مسلمانوں کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے تھے (کیونکہ شاید وہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا ) اور اب یہ حال ہے کہ اپنےہی اپنی مذمت کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہناچاہتے۔(شایداس کیوجہ خود مسلمانوں کا پستی وانحطاط کوپسندکرلیناہے۔)
زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدل گئی ہیں ۔ ورنہ مسلمانوں نےاپنی آئندہ نسلوں کے لیے کچھ کم ورثہ نہیں چھوڑا ۔ ہمارے بڑوں نے ہمارےلیے وہ چھوڑا جوانہیں پسند تھا اورہم وہ چھوڑیں گے جو ہمارا پسندیدہ ہے ۔
آنے والا وقت فیصلہ کرےگا کہ ہمارا انتخاب بہترتھایاہمارےبڑوں کاانتخاب۔
پدرم سلطان بود کے نعرے اور جذباتیت کو ایک جانب رکھ کے سوچیے گا کہ برصغیر پر دو غاصبوں (مسلمان حکمران اور انگریز حکمران)کی حکمرانی میں سے عوام کی فلاح کے لیے کس نے کیا کیا۔ اور اس پر ایک الگ لڑی کھول لیجیے گا۔
 

محب اردو

محفلین
پدرم سلطان بود کے نعرے اور جذباتیت کو ایک جانب رکھ کے سوچیے گا کہ برصغیر پر دو غاصبوں (مسلمان حکمران اور انگریز حکمران)کی حکمرانی میں سے عوام کی فلاح کے لیے کس نے کیا کیا۔ اور اس پر ایک الگ لڑی کھول لیجیے گا۔
میرے جیسے جذبات کےمارے ہوؤں کو اسلامی کارناموں کے سوا اور کچھ نظر ہی کیا آتا ہے ۔
ویسے بھی ہم تو بعض خود اپنی قلمکاریاں سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
لہذا اگر آپ جیسا کوئی تاریخ دان اور قلم کار یہ بیڑا اٹھائے تو عوام کو بھی کوئی فائدہ ہو سکتا ہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
میرے جیسے جذبات کےمارے ہوؤں کو اسلامی کارناموں کے سوا اور کچھ نظر ہی کیا آتا ہے ۔
ویسے بھی ہم تو بعض خود اپنی قلمکاریاں سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
لہذا اگر آپ جیسا کوئی تاریخ دان اور قلم کار یہ بیڑا اٹھائے تو عوام کو بھی کوئی فائدہ ہو سکتا ہے ۔
مجھے کیا پڑی ہے بھائی کہ آپ کے من پسند کارناموں پر کام کرنے کا بیڑا اٹھا کر وقت ضائع کروں۔ :)
جو احباب سمجھتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان غاصبوں اور لٹیروں نے انگریز غاصبوں اور لٹیروں سے بہتر فلاحی کام کیے ہیں وہ یہ بیڑا اٹھائیں اور مجھ جیسوں کو جنہیں اس بابت علم نہیں آگاہ فرما کر ثواب دارین حاصل کریں
 

محب اردو

محفلین
مجھے کیا پڑی ہے بھائی کہ آپ کے من پسند کارناموں پر کام کرنے کا بیڑا اٹھا کر وقت ضائع کروں۔ :)
جو احباب سمجھتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان غاصبوں اور لٹیروں نے انگریز غاصبوں اور لٹیروں سے بہتر فلاحی کام کیے ہیں وہ یہ بیڑا اٹھائیں اور مجھ جیسوں کو جنہیں اس بابت علم نہیں آگاہ فرما کر ثواب دارین حاصل کریں
چلیں کوئی بات نہیں ۔ اللہ ہم سب کو مفید اور نیکی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ تحریر ہم نے آج دیکھی۔

ماشاءاللہ ۔۔۔۔!

اردو کے حق میں اُٹھنے والی آواز کو ہم نہ سراہیں ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ بہت خوب ماہی احمد کہ آپ نے اچھی تحریر لکھی۔

جو لفظ انگریزی سے ہمارے ہاں آئے ہیں تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ نئی دنیا سے وابستہ اشیاء اور اصطلاحات مغرب کی ہی مرہونِ منت ہیں سو جس کا بچہ ہوتا ہے نام رکھنے کا حق بھی اُسی کا ہوتا ہے۔ :)

البتہ زبانِ اردو کے اُن وارثوں سے شکوہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ جو اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت ہر ہر چیز کو باعثِ ننگ سمجھتے ہیں۔ اور انگریزی زبان کے استعمال پر قدرت نہ ہوتے ہوئے بھی انگریزی ہی کو باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اردو جن کو وراثت میں ملی اُن کی اکثریت اس کی قدر نہیں کرتی اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر انگریزی کو ہی اپنی معراج سمجھتی ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بین الاقوامی زبان ہونے کے باعث انگریزی زبان کی لیاقت دورِ حاضر کی بڑی ضرورت ہے تاہم اردو کا دامن بھی اتنا تنگ نہیں ہے کہ آج کے معاملات اور ان سے متعلقہ افکار کو ان میں سمویا ہی نہ جا سکے ۔

اس وقت جو سب سے اہم کام انڈیا اور پاکستان کے اردو بولنے والے کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب وہ اردو میں بات کریں تو اردو ہی میں کریں اور انگریزی الفاظ کی بلاجواز آمیزش نہ کریں اور جب انگریزی بولیں تو صرف انگریزی بولیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کسی زبان کے بولنے والے کو اُس زبان پر کتنی گرفت ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس طویل مراسلے میں لوگوں کی تان محض مغلوں کو لٹیرا کہنے پر آ کر ٹوٹی ہے۔۔۔ واہ واہ واہ :)
غزنوی، غوری، اور دیگر کو جو آپ نے چھوڑ دیا تھا۔۔۔ جب مغلوں میں لڑائیاں ہوئیں تو نادر شاہ نے بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔۔۔ اس وقت اسے یہ بھی یاد نہ تھا کہ یہ خون برصغیر کے لوگوں کا ہے یا مسلمانوں کا۔۔۔۔ ویسے تو ہم ان دونوں کو ہی اپنی تاریخ کا حصہ بنانے پر مصر ہیں۔۔۔۔ :D

بلہے شاہ کو بھی کہنا پڑ گیا

در کھلا حشر عذاب دا
برا حال ہویا پنجاب دا
 
Top