ماہی احمد
لائبریرین
اردو۔۔۔
ایک وقت تھا ہم اسے اپنی شان سمجھتے تھے، اس کے ناز اُٹھاتے تھے، دستار کی طرح سجا کر جب گھر سے نکلتے تھے تو ایک دنیا رک کر دیکھتی تھی۔ ہماری آن بان تھی یہ خوبصورت، میٹھی اور دل کو چھو لینے والی زبان۔ برِصغیر کی زمین ایسی زرخیز تھی کہ یہ وہاں خوب پروان چڑھی۔ شروع میں تو ہندی کے نام سے جانی جاتی رہی مگر بعد میں اسے اپنا نام اردو مل گیا اور ہندی کو ایک الگ زبان کا عہدہ ملا۔بہت عرصہ تک مسلمانوں کے راج کے ساتھ ساتھ اس زبان نے بھی دلوں پر راج کیا اور دماغوں میں پھلی پھولی۔
پھر۔۔۔پھر کیا ہوا؟
مسلمانوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ ہی اس زبان کا بھی زوال شروع ہوا۔ جب انگریز آئے تب اس میں ملاؤٹ شروع ہوئی، بجائے کہ ایک نئی زبان سیکھی جاتی، اسی زبان میں ترامیم ہونے لگیں، اور پھر ایک وقت آیا کہ اسے ایک قلعے میں ڈال کر قلعے کے بڑے بڑے آہنی دروازوں کی زنجیریں کھینچ دی گئیں۔ ان دروازوں کی باریک درزوں سے جو تازہ ہوا کے چند جھونکے اندر جاتے ہیں، اسی میں چند ایک الفاظ آج بھی سانس لے رہے ہیں، مگر اکثر تو قلعے کی مٹی کے ساتھ مل گئے، چھ دفن ہوگئے، کچھ ختم ہو گئے۔ انگریز تو چلے گئے مگر ہماری زبان میں ملاؤٹ کر گئے۔
اور پھر ہم اسے بھول گئے، خود آگے بڑھ گئے، زمانے کے ساتھ دوڑنے لگے، اور یہ اندھیروں میں کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔
میں سوچتی تھی آخر اتنا بڑا خلا کیسے پیدا ہو گیا؟
اردو میں آخری لفظ "پیالہ" ہے۔
اور ہم glass, cup, mug تک پہنچ گئے۔
اردو میں "صراحی" اور "مٹکا" یا "گھڑا" آخری لفظ ہے۔
جبکہ ہم jug تک پہنچ گئے۔
غلطی کہاں ہوئی؟ شاید کہیں یہ وراثت دیتے وقت ہمارے آباؤاجداد سے۔ جب اسے آگے دینے کا وقت آیا تو glass کو گلاس، mug کو مگ اور باقی الفاظ کو بھی یونہی لکھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوئے۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا رہا، حتًیٰ کے ہمارے لیئے ٹی وی، فرج، ٹیلی فون اردو کے ہی لفظ لگنے لگے۔
اب اتنا بڑا خلا آگیا ہے کہ اس کو پُر کرنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ تو وہ زبان تھی جس میں علم و ادب پروان چڑھا، ہم وہ تھے جنہوں نے اسی علم و ادب کی بنیاد رکھی اور آج یہ وقت ہے کہ ہم اس عمارت میں کوڑا چنتے ہیں۔
کچھ احباب کا کہنا ہے کہ اردو میں زبان میں انگریزی الفاظ کا استعمال کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اردو ایک لشکری زبان ہے اور اس کے دامن میں نئے الفاظ کو سمونے کا ظرف رکھتی ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہ وقت اردو کی تشکیل کا نہیں بلکہ اس کے نشونما پانے کا وقت ہے۔
مجھے معلوم ہے میری بات کی تردید ہو گی، تنقید ہو گی
لیکن پھر بھی یہ کہنا چاہوں گی میری زبان، میری اردو اس سب کی حقدار نہیں تھی۔
ایک وقت تھا ہم اسے اپنی شان سمجھتے تھے، اس کے ناز اُٹھاتے تھے، دستار کی طرح سجا کر جب گھر سے نکلتے تھے تو ایک دنیا رک کر دیکھتی تھی۔ ہماری آن بان تھی یہ خوبصورت، میٹھی اور دل کو چھو لینے والی زبان۔ برِصغیر کی زمین ایسی زرخیز تھی کہ یہ وہاں خوب پروان چڑھی۔ شروع میں تو ہندی کے نام سے جانی جاتی رہی مگر بعد میں اسے اپنا نام اردو مل گیا اور ہندی کو ایک الگ زبان کا عہدہ ملا۔بہت عرصہ تک مسلمانوں کے راج کے ساتھ ساتھ اس زبان نے بھی دلوں پر راج کیا اور دماغوں میں پھلی پھولی۔
پھر۔۔۔پھر کیا ہوا؟
مسلمانوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ ہی اس زبان کا بھی زوال شروع ہوا۔ جب انگریز آئے تب اس میں ملاؤٹ شروع ہوئی، بجائے کہ ایک نئی زبان سیکھی جاتی، اسی زبان میں ترامیم ہونے لگیں، اور پھر ایک وقت آیا کہ اسے ایک قلعے میں ڈال کر قلعے کے بڑے بڑے آہنی دروازوں کی زنجیریں کھینچ دی گئیں۔ ان دروازوں کی باریک درزوں سے جو تازہ ہوا کے چند جھونکے اندر جاتے ہیں، اسی میں چند ایک الفاظ آج بھی سانس لے رہے ہیں، مگر اکثر تو قلعے کی مٹی کے ساتھ مل گئے، چھ دفن ہوگئے، کچھ ختم ہو گئے۔ انگریز تو چلے گئے مگر ہماری زبان میں ملاؤٹ کر گئے۔
اور پھر ہم اسے بھول گئے، خود آگے بڑھ گئے، زمانے کے ساتھ دوڑنے لگے، اور یہ اندھیروں میں کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔
میں سوچتی تھی آخر اتنا بڑا خلا کیسے پیدا ہو گیا؟
اردو میں آخری لفظ "پیالہ" ہے۔
اور ہم glass, cup, mug تک پہنچ گئے۔
اردو میں "صراحی" اور "مٹکا" یا "گھڑا" آخری لفظ ہے۔
جبکہ ہم jug تک پہنچ گئے۔
غلطی کہاں ہوئی؟ شاید کہیں یہ وراثت دیتے وقت ہمارے آباؤاجداد سے۔ جب اسے آگے دینے کا وقت آیا تو glass کو گلاس، mug کو مگ اور باقی الفاظ کو بھی یونہی لکھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوئے۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا رہا، حتًیٰ کے ہمارے لیئے ٹی وی، فرج، ٹیلی فون اردو کے ہی لفظ لگنے لگے۔
اب اتنا بڑا خلا آگیا ہے کہ اس کو پُر کرنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ تو وہ زبان تھی جس میں علم و ادب پروان چڑھا، ہم وہ تھے جنہوں نے اسی علم و ادب کی بنیاد رکھی اور آج یہ وقت ہے کہ ہم اس عمارت میں کوڑا چنتے ہیں۔
کچھ احباب کا کہنا ہے کہ اردو میں زبان میں انگریزی الفاظ کا استعمال کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اردو ایک لشکری زبان ہے اور اس کے دامن میں نئے الفاظ کو سمونے کا ظرف رکھتی ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہ وقت اردو کی تشکیل کا نہیں بلکہ اس کے نشونما پانے کا وقت ہے۔
مجھے معلوم ہے میری بات کی تردید ہو گی، تنقید ہو گی
لیکن پھر بھی یہ کہنا چاہوں گی میری زبان، میری اردو اس سب کی حقدار نہیں تھی۔
آخری تدوین: