از گل نوخیزاختر

نیلم

محفلین
انگلش ونگلش:
------------------

مجھے بچپن سے ہی انگریزی میں فیل ہونے کا شوق تھا لہذا میں نے ہر کلاس میں اپنے شوق کا خاص خیال رکھا۔ ویسے تو مجھے انگریزی کوئی خاص مشکل زبان نہیں لگتی تھی ، بس ذرا سپیلنگ ، گرائمراور Tenses نہیں آتے تھے۔ مجھے یاد ہے جو ٹیچر ہمیں کلاس میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے وہ بھی کاٹھے انگریز ہی تھے، دو سال تک ’’سی۔۔۔یو ۔۔۔پی۔۔۔’’سپ‘‘ پڑھاتے رہے، مشین کو ’’مچین‘‘اور نالج کو ’’کنالج‘‘ کہتے رہے۔ایسی تعلیم کے بعد میری انگریزی میں اور بھی نکھا ر آگیا، مجھے یاد ہے میٹرک کے داخلہ فارم میں جب ایک کالم میں ’’Sex ‘‘ لکھا ہوا تھا تو میں کافی دیر تک شرماتے ہوئے سوچتا رہا کہ ایک لائن میں اتنی لمبی تفصیل کیسے لکھوں؟؟؟فارم کے پہلے کالم میں اپنا نام انگریزی میں لکھنا تھا لیکن انگریزی سے نابلد ہونے کی وجہ سے مجھے یہ نام لکھنے کے لیے اسلام آباد کا سفر کرنا پڑا کیونکہ فارم پر لکھا ہوا تھا’’Fill in capital ‘‘۔انگریزی فلمیں دیکھتے ہوئے بھی مجھے کہانی توسمجھ آجاتی تھی، سٹوری پلے نہیں پڑتی تھی۔سکس ملین ڈالر مین ، نائٹ رائڈر، چپس، ائیر وولف اور کوجیک جیسی مشہورِ زمانہ فلمیں میں نے صرف اور صرف اپنی ذہانت سے سمجھیں اور انجوائے کیں۔

آج سے کچھ سال پہلے تک مجھے یقین ہوچکا تھا کہ میں فارسی، عربی ، پشتو اور اشاروں کی زبان تو سیکھ سکتا ہوں لیکن انگریزی نہیں،لیکن اب جو حالات چل رہے ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یا تو مجھے انگریزی آگئی ہے، یا سب کو بھول گئی ہے۔کچھ بھی ہو، میری خوشی کی انتہا نہیں، اب سارے سپیلنگ بدل گئے ہیں اور دو تین لفظوں میں سما گئے ہیں۔ اب Coming لکھنا ہو تو صرف cmg سے کام چل جاتا ہے۔گرل فرینڈ GF ہوگئی ہے اور فیس بک FB بن گئی ہے۔ اب کوئی انگریزی کا لمبا لفظ لکھنا ہو تو اُس سے پہلے کے چند الفاظ لکھ کر ہی ساری بات کہی جاسکتی ہے، میں نے ساڑھے تین سال کی’’ٹیوشن بامشقت‘‘ کے بعد unfortunately کے سپیلنگ یاد کیے تھے، آج کل صرف Unfort سے کام چل جاتاہے یعنی جہاں سے مشکل سپیلنگ شروع وہیں پہ ختم۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن اب تو اس مختصر انگریزی میں بھی ایسی ایسی مشکلات آن پڑی ہیں کہ کئی دفعہ جملہ سمجھنے کے لیے استخارہ کرنا پڑتاہے۔ابھی کل مجھے ایک دوست کامیسج آیا، لکھا تھا’’U r inv in bk crmy‘‘ میں نے حیرت سے میسج کو پڑھا، اللہ جانتا ہے تین چار دفعہ مجھے شک گذرا کہ اُس نے مجھے کوئی گندی سی گالی لکھی ہے، دل مطمئن نہ ہوا تو ایسی ہی انگلش لکھنے اور سمجھنے کے ماہر ایک اور دوست سے رابطہ کیا، اُس مردِ مجاہد نے ایک سیکنڈ میں ٹرانسلیشن کردی کہ لکھا ہے You are invited in book’s ceremony۔۔۔!!!
انگریزی سے نمٹنے کا ایک اوراچھا طریقہ میرے ہمسائے شاکر صاحب نے نکالا ہے، جہاں جہاں انہیں انگریزی نہیں آتی وہاں وہ اطمینان سے اُردو ڈال لیتے ہیں۔مثلاً اگر کھانا کھاتے ہوئے اُنہیں کسی کا میسج آجائے تو جواب میں لکھ بھیجتے ہیں’’پلیز اِس ٹائم ناٹ ڈسٹرب، آئی ایم کھانا کھائینگ‘‘۔ ایک دفعہ موصوف کو فیس بک پر ایک لڑکی پسند آگئی، فوراً لکھا’’آئی وانٹ ٹو شادی وِد یو۔۔۔آر یو راضی؟‘‘۔ لڑکی کا جواب آیا’’ہاں آئی ایم راضی، بٹ پہلے ٹرائی ٹو راضی میرا پیو تے بے بے ‘‘۔آج کل یہ دونوں میاں بیوی ہیں اوراکثر اسی انگریزی میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، تاہم اب وہ درمیان میں اُردو کی بجائے پنجابی بولتے ہیں اور ایک جملہ بار باردہراتے ہیں’’ آئی سیڈ کھصماں نوں کھا ، یور سارا خاندان اِز چول‘‘۔
انگریزی کے بدلتے ہوئے رنگ صرف یہیں تک محدود نہیں، اب تو کوئی صحیح انگلش میں جملہ لکھ جائے تو اُس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگتا ہے، ماڈرن ہونے کے لیے انگریزی کا بیڑا غرق کرنا بہت ضروری ہوگیاہے ،میں تو کہتا ہوں انگریزی کی صرف ٹانگ ہی نہیں، دانت بھی توڑ دینے چاہئیں ، اِس بدبخت نے ساری زندگی ہمیں خون کے آنسو رُلایا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب انگریزی لکھنے کے لیے گرائمراورTenses بھی غیر ضروری ہوگئے ہیں۔یعنی اگر کسی کو کہنا ہو کہ ’’میں تمہارا منتظر ہوں، تم کب تک آؤ گے؟‘‘ تو بڑی آسانی سے اِسے چٹکیوں میں یوں لکھا جاسکتا ہے m wtg u cm whn?۔۔۔!!!
دنیا مختصر سے مختصر ہوتی جارہی ہے، کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ اور اب آئی پیڈ میں سما چکے ہیں، موٹے موٹے ٹی وی اب سمارٹ ایل سی ڈی کی شکل میں آگئے ہیں، ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی نے لے لی ہے،انٹرنیٹ ایک چھوٹی سی USB میں سمٹ چکا ہے

ایسے میں انگریزی کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی، اُردو کا حل تو ’’رومن اُردو‘‘ کی شکل میں بہت پہلے نکل آیا تھا، اب انگریزی کی مشکل بھی حل ہوگئی ہے۔اب جو جتنی غلط انگریزی لکھتاہے اُتنا ہی عالم فاضل خیال کیا جاتا ہے، اگر آپ کو کسی دوست کی طرف سے میسج آئے اور اُس میں That کی بجائے Dat لکھا ہو توبیہودہ سا قہقہہ لگانے کی بجائے ایک لمحے میں سمجھ جائیں کہ آپ کا دوست ایک ذہین اور دنیا دار شخص ہے جو جدید انگریزی کے تمام تر لوازمات سے واقف ہے۔میں سمجھتا تھا کہ شاید انگریزی میں اُردو اور پنجابی کا تڑکا ہمارے ہاں ہی لگایا جاتا ہے لیکن میر اخیال غلط ثابت ہوا، سعودیہ میں مقیم میرا بھانجا بتا رہا تھا کہ یہاں کے عربی بھی انگریزی کا شوق پورا کر رہے ہوں تو جہاں جہاں انگریزی آنکھیں دکھاتی ہے وہاں یہ عربی کا لفظ ڈال لیتے ہیں، مثلاًاگر انگریزی میں کہنا ہو کہ یہ میرا گھر ہے تو بڑے آرام سے کہہ جاتے ہیں ’’ھذا مائی ہوم‘‘۔

انگریزی اتنی آسان ہوگئی ہے لیکن بڑے دکھ کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ یہ آسان انگریزی صرف ہماری عام زندگیوں میں ہی قابل قبول ہے، انگریزی کا مضمون پاس کرنے کے لیے تاحال اُسی جناتی انگریزی کی ضرورت ہے جوخود انگریزوں کو بھی نہیں آتی۔پتا نہیں آج کل کی رنگ بدلتی انگریزی میں اب پرانی انگریزی کی کیا ضرورت رہ گئی ہے؟ پہلے کبھی لگتا تھا کہ ساری دنیا میں انگریزی کی اشد ضرورت ہے، دنیا سے رابطے کے لیے انگریزی بولنا اور لکھنا بہت ضروری ہے ، لیکن اب تو لگتا ہے عالمی رابطے کے لیے کوئی نئی زبان ہی وجود میں آرہی ہے، یہ زبان کسی نے نہیں بنائی، نہ اِس کے کوئی قواعد ہیں ، بس یہ خوبخود بن گئی ہے اور لگ رہا ہے کہ کچھ عرصے تک باقاعدہ ایک شکل اختیار کرجائے گی، یہ زبان سب سمجھ سکتے ہیں،لکھ سکتے ہیں لیکن شاید بول کبھی نہیں سکیں گے کیونکہ یہ ’’شارٹ ہینڈ‘‘ کی وہ قسم ہے جو کسی کالج یا انسٹی ٹیوٹ میں نہیں پڑھائی جاتی۔اِس زبان میں خوبیاں تو بہت ہیں لیکن ایک کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی، یہ جذبات سے عاری زبان ہے، یہ چند لفظوں میں دو ٹوک بات کرنے کی عادی ہے، اس زبان میں کسی کی موت پر v sad لکھ دینا ہی کافی سمجھا جاتاہے، یہ محبتوں اور احساسات سے محروم زبان ہے۔ میں یہ زبان کچھ کچھ سیکھ چکا ہوں، لیکن استعمال کرنے سے گھبراتا ہوں، پتا نہیں کیوں مجھے لگتاہے اگر میں نے بھی یہ زبان شروع کردی تومجھ میں اور روبوٹ میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔

از گل نوخیز اختر
 

نیلم

محفلین
امریکہ کےلیےاماں جیراں کی بددعائیں. . . (گل نوخیز اختر)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اماں جیراں ایک یونیورسل ٹروتھ ہے۔سیاست کا جتنا اُسے پتا ہے اِتنا تو شائد خود سیاست کوبھی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ اماں کی دوچیزیں محلے میں بڑی مشہور ہیں۔۔۔۔۔ پہلی چیز ہے بددعائیں۔۔۔۔۔اور دوسری بھی یہی ہے۔۔۔۔۔!!!اماں”بددعا سپیشلسٹ“ہے۔۔۔۔۔
میں اماں کی بددعاوں کا بہت قائل ہوں کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اماں کی بددعاوں کو رنگ لاتے دیکھا ہے، ابھی پچھلے دنوں اماں نے محلے کی ایک لڑکی کولڑائی کے دوران بددعا دی تھی کہ۔۔۔۔۔”جا۔۔۔۔۔اللہ کرے تو کسی گھٹیا ، شرابی اور جواری کے ساتھ بیاہی جائے۔۔۔۔۔ “سنا ہے دودن بعد ہی لڑکی کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی کا رشتہ آگیا۔جب تک اماں کے دل سے کوئی پوری طرح سے نکل نہ جائے،اماں بددعانہیں دیتی۔ اُس کا کہنا ہے کہ بددعا کے لیے نفرت،پہلی شرط ہے اور نفرت بھی وہ جوخلوص ِدل سے کی جائے۔ عراق پرامریکی بمباری کے روز سے اماں مسلسل مجھ سے رابطے میں ہے، روزتازہ صورتحال پوچھتی ہے اور میں روز اُسے بتاتا ہوں کہ اماں آج امریکہ اتحادیوں نے بغداد پر تین سو میزائل فائر کیے۔۔۔۔۔ آج بصرہ پر ڈیزی کٹر بم مارا گیا۔۔۔۔۔آج ام قصر میں لڑائی جاری ہے۔۔۔۔۔اماں بڑے غورسے یہ خبریں سنتی ہے، کل اس نے اِسی طرح جنگ کی تازہ ترین صورتحاک سننے کے بعد ایک ہنکارہ بھرا اور عینک درست کرتے ہوئے مجھ پوچھا!
”یہ بتا۔۔۔۔۔ یہ امریکہ اچھا کررہا ہے یابرا۔۔۔۔۔؟؟؟“
میں گھبراگیا۔۔۔۔۔اور اِدھراُدھر دیکھ کر محتا ط لہجے میں کہا۔۔۔۔۔”بس اماں۔۔۔۔۔یہ تو نہیں پتا کہ کون برا کررہا ہے۔۔۔۔۔لیکن بہرحال عراق کے ساتھ براہورہاہے“
اماں نے تیکھی نظروں سے میری طرف دیکھا اور قریب پڑا ہوا جھاڑو اُٹھا لیا۔۔۔۔۔”ابے منحوس ۔۔۔۔۔ سیدھی طرح سے بتا کہ امریکہ اچھا کررہاہے برا۔۔۔۔۔؟؟؟“
میری جان نکل گئی۔۔۔۔۔میں نے جلدی سے گھگھیا کرکہا۔۔۔۔۔”بب۔۔۔۔۔برا کررہا ہے ۔۔۔۔۔ بہت براکررہاہے ۔۔۔۔۔امریکہ۔۔۔۔۔“

”ہوں۔۔۔۔۔“اماں نے کچھ سوچا اور پھر جھاڑو نیچے رکھ کر جھولی پھیلالی۔۔۔۔۔میں کانپ گیا۔۔۔۔۔یہ اماں کا خاص سٹائل تھا اور اِس کاایک ہی مطلب تھا کہ اب اماں کی بددعا شروع ہونے والی ہے۔میں نے جلدی سے اماں کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔۔۔”خدا کے لیے میرے واسطے بددعا نہ کرنا۔۔۔۔۔پہلے ہی دودن سے بڑے اُلٹے سیدھے خواب آرہے ہیں۔۔۔۔۔“
اماں نے جھولی مزید پھیلائی اور میری طرف دیکھ کرآنکھ مارتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔”یہ خصوصی بددعا تیرے لیے نہیں،امریکی اتحادیوں کے لیے ہے۔۔۔۔۔دیکھتا جا۔۔۔۔۔اب”بددعا“عرش پہ جاتی ہے اثر لانے کو ۔۔۔۔۔“اماں گنگنائی اور پورے خشوع وخضوع کے ساتھ شروع ہوگئی۔۔۔۔۔!!!

اللہ کرے۔۔۔۔۔امریکیوں کے ٹینکوں میں کیڑے پڑیں
اللہ کرے۔۔۔۔۔صدربش کے تالومیں چھالا نکل آئے
اللہ کرے۔۔۔۔۔اتحادی فوجیوں کو بواسیر ہوجائے
اللہ کرے۔۔۔۔۔رمزفیلڈکی ایک اور شادی ہو۔۔۔۔۔ شادی کی رات وہ دلہن کا گھونگھٹ اُٹھائے۔۔۔۔۔آگے سے صدام نکل آئے
اللہ کرے۔۔۔۔۔سارے امریکی فوجی اپنے جہازوں کی طرح ”جہاز“ ہوجائیں
اللہ کرے۔۔۔۔۔بش ،پیزا کھائے تو اُسے ”گوئے“ کا سواد آئے
اللہ کرے۔۔۔۔۔کولن پاول کے لوٹے میں مرچیں پڑیں
اللہ کرے۔۔۔۔۔جوامریکی فوجی ”بصرہ“ میں داخل ہو، اُسے خسرہ“نکل آئے
اللہ کرے۔۔۔۔۔پینٹاگون کی”پینٹ“۔۔۔۔۔گون ہوجائے
اللہ کرے۔۔۔۔۔کوفی عنان کا نام۔۔۔۔۔ ”بیوقوفی عنان“پڑجائے
اللہ کرے۔۔۔۔۔ٹومی فرینکس کویکدم یاد آجائے کہ اُس کا باپ”کون کون“ ہے
اللہ کرے۔۔۔۔۔صحرائی بچھو امریکی فوجیوں کی پینٹوں میں گھس کر”اِنی“ پادیں
اللہ کرے۔۔۔۔۔گدھوں کی عالمی ریس ہو۔۔۔۔۔ سی این این فرسٹ اور بی بی سی سیکنڈ آئے

قارئین سرکار!
یہ سراسر اماں جیراں کی بددعائیں ہیں جو میں نے جوں کی توں آپ تک پہنچادی ہیں،اگراِن میں سے ایک بھی بددعا قبول ہوگئی تو کم از کم میں تو اماں کے ہاتھ پر فوراَ بیعت کرلو ں گا۔
 

نیلم

محفلین
ہمیں امریکہ پسند نہیں :

قارئین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آج کے دور میں بھی بے شمار ایسے لوگ ہیں، جنھیں امریکہ سے زیادہ پاکستان پسند ہے. میں نے ایسے لوگوں کی فہرست ترتیب دی ہے.
میرا خیال ہے انھیں امریکہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر پسند نہیں:

بے نظیر
اس لئے کہ امریکہ میں پاکستان نہیں ہے.

نواز شریف
اس لئے کہ وہ لوگ جہاز میں چارپائی نہیں رکھنے دیتے.

امجد اسلام امجد
اس لئے کہ وہاں اردو سائنس بورڈ نہیں.

قتیل شفائی
اس لئے کہ وہاں پیسوں کی ملتی ہے.

عباس تابش
اس لئے کہ وہاں پشاور نہیں

فاخرہ بتول
اس لئے کہ وہاں انگلش بولی جاتی ہے.

سعد الله شاہ
اسلئے کہ وہاں دولے شاہ کے چوہے نہیں ہوتے.

وصی شاہ
اس لئے کہ امریکن لڑکیاں "کنگن" نہیں پہنتیں.

نوشی گیلانی
اس لئے کہ وہاں عباس تابش بھی آتا جاتا ہے.

فرحت شاہ عباس
اس لئے کہ صدر بش نے مجھے فلیپ نہیں لکھ کر دیا.

جنرل پرویز مشرف
اس لئے کہ وہاں جمہوریت ہے.

معین قریشی
اس لئے کہ امریکہ میں اکثریت عقل مندوں کی ہے.

آصف زرداری
اس لئے کہ وہاں میری حکومت نہیں.

انعام الحق جاوید
اس لئے کہ مزاحیہ شاعری سمجھ نہ آنے کے باوجود لوگ ہنستے ہیں.

احمد فراز
اس لئے کہ وہاں انگریزی کے مشاعرے نہیں ہوتے.

از گل نوخیز اختر، شرارتی، صفحہ نمبر 26 ، 27
 

نیلم

محفلین
از گل نوخیز اختر، شرارتی، صفحہ نمبر ،37

امریکی قوم میں جراثیمی حملے کے ڈر نے ایسا خوف پیدا کر دیا ہے کہ انتھراکس سے بچاؤ کے لئے وہ ہاتھ بھی دستانے پہن کر دھونے لگے ہیں.

تازہ ترین خبروں کے مطابق انتھراکس کا یہ وائرس نہ صرف امریکی طیارہ بردار جہاز تک پہنچ گیا بلکہ امریکہ میں مختلف لوگوں کو بذریعہ ڈاک بھی بھیجا جا رہا ہے.نتیجہ یہ ہے کہ اب امریکیوں نے اپنی ڈاک ہی کھولنا بند کر دی ہے.

دہشت زدہ قوم کا یہ حال ہے کہ کہیں ذرا سا ٹالکم پاوڈر بھی دیکھ لیں تو ان کی چیخیں "خطا" ہو جاتی ہیں.

سپر پاور کے شہری آج کل جراثیم سے اتنے محتاط نظر آتے ہیں کہ انہوں نے " سر عام محبت" بھی ترک کر دی ہے.

اصل میں امریکی قوم بڑی وہمی ہے. اتنی زیادہ کہ کئی لوگوں کا وہم ہی سے انتقال ہو جاتا ہے.

انھیں یقین ہے کہ القاعدہ ان پر جراثیمی حملہ ضرور کرے گی، یہ اپنے اس نادیدہ دشمن سے خوفزدہ ہیں جو صرف مارتا ہی نہیں خود بھی مر جاتا ہے.

سیانے کہتے ہیں کہ سانپ سے زیادہ سانپ کا خوف انسان کو مار دیتا ہے. اور جب خوف اس سطح پر پہنچ جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ایک سردار جی کے ساتھ ہوا تھا.

سردارجی اپنے دوست کے ساتھ ایک جنگل سے گزر رہے تھے. اچانک فائر کی آواز سنی، سردار جی نے جلدی سے اپنے دوست کا جائزہ لیا اور پوچھا " گولی تمہیں لگی ہے؟"
"نہیں" دوست نے حیرانی سے کہا.
"ہا ئے مر گیا..... پھر مجھے ہی لگی ہوگی." سردار جی نے چیخ ماری اور بے ہوش ہو گئے.
 

نیلم

محفلین
بہت بھوک لگی ہے -- گل نوخیز اختر
----------------------------------------
ہمارے ملک میں کچھ لوگ کھانے کے لیے زندہ ہیں، کچھ مزید کھانے کے لیے۔ جہاں چار دوست مل کر بیٹھ جائیں یہی اہم مسئلہ ڈسکس ہونا شروع ہوجاتاہے کہ کھانا کہاں سے کھایا جائے؟ آپ راہ چلتے کسی بندے سے پوچھ کر دیکھئے، یا وہ کھانا کھانے جارہا ہوگا، یا کھا کر آرہا ہوگا۔ شادی بیاہوں سے لے کر مہمانوں کی خاطر تواضح تک ، کھانا سوسائٹی کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ جہاں کھانا نہیں ہوتا وہاں گلے شکوے شروع ہوجاتے ہیں۔ رشتے دار اُس وقت تک مہمان نوازی کو تسلیم ہی نہیں کرتے جب تک انہیں کھانا نہ کھلایا جائے۔ موسم خوشگوار ہو تو ہر ایک کے منہ سے یہی نکلتا ہے ’’باہر چل کر کچھ کھاتے ہیں‘‘۔ ہر گھر میں صبح و شام ایک ہی جملہ گونجتا ہے۔۔۔
’’آج کیا بنایا ہے؟۔۔۔۔۔۔ آج کیا بنانا ہے؟‘‘ کسی یار دوست کی کامیابی کی خبر ملے تو منہ سے فوراً نکلتا ہے ’’یار اب ٹریٹ پکی‘‘۔ ہماری اکثر ضرورتیں بھی کھانے کے متعلق ہی ہیں، دفتر میں اگر بیوی کا فون آجائے تو عموماً یہی اطلاعات سننے کو ملتی ہیں کہ انڈے ختم ہوگئے ہیں، ڈبل روٹی اوررس لیتے آنا،اچار بھی تھوڑا سا رہ گیا ہے۔۔۔!!!

بھوکا بندہ بہت خطرناک ہوتاہے ، شائد اسی لیے ہم ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہتے ہیں، لیکن فرق کوئی نہیں پڑ رہا۔ کھانے کی ہر جگہ پر بے تحاشا رش منتظر ہوتاہے، چھپڑ ہوٹل سے فائیو سٹار ہوٹل تک ہر میز بُک ہوتی ہے، سڑک کنارے ریڑھی پر تکے کبابوں والوں سے لے کر باربی کیو ریسٹورنٹس تک سیخیں گوشت سے پُر ہوتی ہیں لیکن ہماری بھوک مٹنے میں ہی نہیں آتی۔ کھانا سامنے آتے ہی ہمارا سارا صبر دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے، ہمارا پیٹ بھرا بھی ہوا ہو تو ہم ایک دو لقمے چکھ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے،
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی کی معاشی خوشحالی کے لیے بھی’’کھاتے پیتے‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ ہمارے ہاں اچھا کھانا وہ نہیں ہوتا جو ہمیں اچھا لگے، بلکہ اچھے کھانے سے مراد مہنگا کھانا لیا جاتاہے۔ بے شمار لوگ دال بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن اُنہیں ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ ’’کبھی اچھا کھانا بھی کھا لیا کرو‘‘۔
آئیے دیکھتے ہیں اچھا کھانا کیا ہوتاہے، ہمارے ہاں چائنیز کھانوں کو بہت اچھا کھانا کہا جاتا ہے، لہذا اِنہی پر بات کرتے ہیں تاہم کہیں کہیں ’’غیر چائنیز‘‘ ڈش بھی ڈسکس کرجاؤں تو درگذر کیجئے گا، یاد رہے کہ اِن کھانوں کے اجزائے ترکیبی میں نے ’’آپا سرداراں کا دستر خوان‘‘ سے لیے ہیں۔

1 ۔ایگ فرائڈ رائس: ۔ ابلے ہوئے پھیکے چاولوں میں گاجر، بند گوبھی، شملہ مرچ اوردیگر لوازمات کے ساتھ تلے ہوئے انڈے شامل ہوتے ہیں، یہی چیز گھر میں بنی ہوئی ہو توبکواس کہلاتی ہے، تاہم کسی چائنیز ریسٹورنٹ میں جاکر کھائی جائے تو اچھا کھانا کہلاتی ہے۔۔۔!!!

2 ۔منچورین: ۔ بون لیس چکن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جنہیں چکن اور کیچ اپ کی گریوی کے ساتھ مکس کیاہوتاہے، اِسے عموماً ایگ فرائڈ رائس کے ساتھ کھایا جاتاہے، تاہم میرے جیسے کئی نابلد ، تلوں والے نان کے ساتھ بھی نوش فرما جاتے ہیں۔یہ بھی اچھے کھانے میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کے پیسے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

3 ۔چکن جنجر: ۔ بون لیس چکن، ادرک، پیاز ، لہسن وغیرہ وغیرہ،یاد رہے کہ اس کا نام ’’جنجر‘‘ ہے ، یعنی شروع میں ’’ج‘‘ آتا ہے’’ک‘‘ نہیں

4 : ۔چکن چاؤمین ; ۔ چائنیز گاجر، شملہ مرچ اور بند گوبھی کے تعاون سے نوڈلز شامل کی جاتی ہیں اور کچھ ایسے مصالحے شامل کیے جاتے ہیں جن کے نام چھن چھنگلو، چلوسک ملوسک ٹائپ کے ہوتے ہیں، سنا ہے اصل لفظ ’’چوا۔مین‘‘ ہے، لیکن فسادِخلق کے ڈر سے اِسے چاؤمین بولا جاتاہے۔۔۔بڑی اچھی بات ہے۔

5 : ۔ پیزا: ۔اگرچہ یہ چائنیز آئٹم نہیں لیکن اچھے کھانوں میں شمار ہوتاہے، میلے ٹھیلوں پر جو تین چار گز کا’’ قتلمہ‘‘ ملتا ہے یہ اُسی کی جدید شکل ہے، لیکن قتلمہ اچھے کھانے کی ذیل میں نہیں آتا، اچھا کھاناپیزا ہی کہلائے گا۔

6 ۔زِنگر برگر: ۔ یہ عجیب و غریب برگر ہوتاہے، سٹوڈنٹ لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے اِسی کی شرط لگاتے ہیں، یہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی، تاہم جو برگر جتنا بڑا ہوتاہے وہ اتنا ہی اچھا کھانا شمار ہوتاہے، پہاڑی سائز کا وہ برگر جسے کھانے کے لیے دو دفعہ منہ کھولنا پڑے وہ انتہائی امیر ہونے کی نشانی کہلاتاہے۔

7 ۔پران ; ۔ یہ عجیب و غریب ڈش ہے، کئی دفعہ تو جھینگے کو تھوڑا سا ہلایا جائے تو موصوف ایک ٹانگ بھی ہلا کر جواب دے دیتے ہیں، اِسے کھاتے ہوئے دل و دماغ میں فاسد خیالات کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے، تاہم لوگوں کی اکثریت اسے شوق سے کھاتی ہے ، کئی میرے جیسے ھی ہیں جو گردن اکڑا کر ’’پران‘‘ کا آرڈر کرتے ہیں اور پھر نظر بچا کر میز کے نیچے پڑی باسکٹ میں پھینک کر ڈکار مارتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

8 ۔شاشلک;۔ بون لیس چکن، پیاز ، شملہ مرچ ، چائنیز گاجروغیرہ کو ایک سیخ میں پرو کر تھوڑا سا سیک دیا جائے تو جو چیز تیار ہوتی ہے اُسے شاشلک کہا جاتاہے۔یہ ساری چیزیں اگر ہانڈی میں پکا کر کھائی جائیں تو غریبانہ کھانا کہلاتی ہیں، تاہم سیخ میں گرم کرکے یہ شاشلک بن جاتی ہیں اور سٹیٹس سمبل میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

ان کھانوں کے علاوہ بھی ہر ریسٹورنٹ والے نے اپنے ذاتی اور ہولناک نام رکھے ہوئے ہیں ،کھانے وہی ہوتے ہیں تاہم اُن میں عجیب و غریب تجربے کرکے اُنہیں نیا نام دے دیا جاتاہے ۔لوگ چار گنا زیادہ پیسے دے کر یہ کھانا کھاتے ہیں اورخوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کھانا کھایا ہے۔ اِن کھانوں کے نام کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں۔چکن بوم بوم ، جو جو برگر، جرمن پراٹھا، افریقن دال ماش، کینیڈین چاول چھولے، اٹالین دودھ سوڈا، سائبرین گول گپے، برٹش مگرمچھ، امریکن حلوہ پوری وغیرہ وغیرہ۔۔۔!!سچی بات تو یہ ہے کہ جو مزا دیسی کھانوں میں ہے وہ کسی اور میں نہیں، یہی وجہ ہے کہ میرے جیسے بندے باہر سے یہ ’’اچھاکھانا‘‘ کھا بھی آئیں تو گھر آتے ہی سب سے پہلے ’’براکھانا‘‘ کھاتے ہیں، اُسی سے پیٹ بھرتاہے، اُسی سے بھوک مٹتی ہے۔

میرے محلے میں ایک ’’انڈر کنسٹرکشن امیر‘‘ صاحب رہتے ہیں، ہر ہفتے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا کھانا کھانے ہوٹل جاتے ہیں، تاہم واپسی پر ہر دفعہ ان کے گھر لڑائی ہوتی ہے کہ جتنے پیسوں میں یہ کھانا کھایا ہے اتنے میں ہفتے بھر کا چکن آجانا تھا۔کھانا جسم کی اہم ضرورت ہے، لیکن جب یہ جسم کی بجائے روح کی ضرورت بن جائے تو پھر ہاتھ نہیں رُکتا، ایک سائنسی تحقیق کے مطابق جوشوہر قسم قسم کے کھانے کھاتے ہیں وہ اپنی بیویوں کے ساتھ باوفا نہیں ہوتے کیونکہ مختلف اقسام کی بوٹیاں چکھنا ان کی طبیعت کا حصہ بن جاتاہے۔بڑی عجیب و غریب Logic ہے، کئی بیویاں بھی تو نت نئے کھانے پسند کرتی ہیں۔میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ تحقیق غلط ہے، چیک کرلیں، اگر میں ہار گیا تو پکا وعدہ ، ڈنر میری طرف سے ہوگا۔
 

نیلم

محفلین
سبحان اللہ۔۔۔ گل نوخیز اختر

میں کل سے دھاڑیں مار مار کر ہنس رہا ہوں اور زارو قطار قہقہے لگارہا ہوں۔میرا ایک دوست پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہے اور میٹرک کی اردو کی کلاس پڑھاتاہے ‘ اس نے اپنے سٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جواب میں جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ املاء سے تشریح تک سٹوڈنٹس نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔میں نے اپنے دوست کی اجازت سے اِن پیپرز میں سے اپنے کالم کے لیے نقل ماری ہے‘ اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ بھرا ہوا ہے۔ سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر ’چونک‘ میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی ’چونک ‘ میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی ’باجائے‘ وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔!!!‘‘اگلا شعر تھا

رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں ’مہندی حسن‘ نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔‘‘ تیسرا شعر تھا۔۔۔!!!

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیا۔۔۔پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ ’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔۔۔!!!اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک ’پونچا‘ ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام ’دار‘ پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے سوئے مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں ’دار ‘ تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔!!!‘‘ اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

جواب تھا کہ ’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی ’محارت‘ سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں کہ خدا آرام سے ہم سے پوچھ لے کہ اے میرے بندے آخر تم اور کتنی ’اُنچی‘ منزلیں بنانا چاہتے ہو۔۔۔؟؟؟‘‘ اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا ۔۔۔!!!
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ ’’اس شعر میں حامد میرنے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں’ٹک‘ بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولا کرو‘‘۔اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا۔۔۔!!!

محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر کمند ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں۔۔۔‘‘۔
آخری شعر یہ تھا۔۔۔!!!

نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے

علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور انتقام لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ UPS ہے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کوفوری طور پر‘ نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر میں شاعر نے ڈھکے چھپے لفظوں میں واضح کر دیا ہے کہ جب تک ’کالا باغ نشیمن‘نہیں بنے گا‘ بجلی کا ’ماسالا‘ حل نہیں ہوگا۔
 
سبحان اللہ۔۔۔ گل نوخیز اختر

میں کل سے دھاڑیں مار مار کر ہنس رہا ہوں اور زارو قطار قہقہے لگارہا ہوں۔میرا ایک دوست پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہے اور میٹرک کی اردو کی کلاس پڑھاتاہے ‘ اس نے اپنے سٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جواب میں جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ املاء سے تشریح تک سٹوڈنٹس نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔میں نے اپنے دوست کی اجازت سے اِن پیپرز میں سے اپنے کالم کے لیے نقل ماری ہے‘ اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ بھرا ہوا ہے۔ سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر ’چونک‘ میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی ’چونک ‘ میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی ’باجائے‘ وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔ !!!‘‘اگلا شعر تھا

رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں ’مہندی حسن‘ نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔ ‘‘ تیسرا شعر تھا۔۔۔ !!!

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیا۔۔۔ پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ ’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔۔۔ !!!اگلا شعر یہ تھا۔۔۔ !!!

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک ’پونچا‘ ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام ’دار‘ پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے سوئے مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں ’دار ‘ تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔ !!!‘‘ اگلا شعر یہ تھا۔۔۔ !!!

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

جواب تھا کہ ’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی ’محارت‘ سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں کہ خدا آرام سے ہم سے پوچھ لے کہ اے میرے بندے آخر تم اور کتنی ’اُنچی‘ منزلیں بنانا چاہتے ہو۔۔۔ ؟؟؟‘‘ اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا ۔۔۔ !!!
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ ’’اس شعر میں حامد میرنے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں’ٹک‘ بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولا کرو‘‘۔اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا۔۔۔ !!!

محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر کمند ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں۔۔۔ ‘‘۔
آخری شعر یہ تھا۔۔۔ !!!

نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے

علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور انتقام لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ UPS ہے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کوفوری طور پر‘ نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر میں شاعر نے ڈھکے چھپے لفظوں میں واضح کر دیا ہے کہ جب تک ’کالا باغ نشیمن‘نہیں بنے گا‘ بجلی کا ’ماسالا‘ حل نہیں ہوگا۔


واہ واہ، کیا یہ آپ نے خود لکھا ہے، زبردست
 
Top