چودھری ناصر حسین
محفلین
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا ۔۔۔۔۔۔۔جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیاحضرت آپ کی معذرت قبول فرمائی۔ لیکن میں تو اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر مانتا ہوں۔
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا ۔۔۔۔۔۔۔جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیاحضرت آپ کی معذرت قبول فرمائی۔ لیکن میں تو اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر مانتا ہوں۔
میرے عزیز وہ غزل گو کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟؟؟؟اساتذہ کی فہرست ترتیب دینا تو سمجھ سے بالا تر بات ہوئی کیونکہ اردو ادب کی تاریخ بہت طویل ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ کوئی اساتذہ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی تاریخ دیکھنے سے پتہ چلے گا۔ موجودہ دور میں ہم ان تمام شعراء کو اساتذہ کا درجہ دے سکتے ہیں جو شاعری اس حد تک جانتے ہیں کہ دوسروں کو سکھا سکیں۔
رہی بات اقبال کے شاعر ہونے یا نہ ہونے کی تو میرا فتویٰ اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر اقبال شاعر نہیں تو غالب بھی نہیں ہے ، نہ کوئی اور۔۔۔
شاعر کی تعریف میری نظر میں صرف اتنی ہے کہ جو شعر موزوں کرسکے اور مسلسل کرتا رہے۔۔۔ اس کے اشعار مدلل اور قابل فہم ہوں ۔۔۔ اقبال اس تعریف پر پورے اتر تے ہیں۔ ہاں غزل گوئی کے حوالے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غزل گو نہیں ہیں۔۔۔ وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔
اقبال فلسفہ اسلام اور حقیقت پسندی کے علمبردار ہیں، حقیقت تلخ ہوتی ہے اور غزل میں تلخ زبان استعمال ہوئی ہو تو اکثریت اسے غزل تسلیم نہیں کرتی۔ بہرحال، اقبال کا غزل گو ہونا نہ ہونا ایک الگ بحث ہے جسے چھیڑنایہاں درست نہیں ہے۔۔۔سوال تھا اقبال شاعر ہیں یا نہیں، میرا جواب اس پر اثبات میں ہے۔ پھر سوال ہے کہ اساتذہ میں کس کس کا شمار کیاجائے۔ کیا اقبال کو مانا جائے کہ وہ شاعری کے استاد ہیں۔ ادب کا تقاضا ہے اور منطق کہتی ہے کہ مانا جائے۔ اقبال کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اور ادب کے قدردانوں کا اس پر اختلاف ہے۔ میرا ذاتی خیال (جس سے آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے) یہ ہے کہ اقبال شاعر نہیں تو کوئی بھی نہیں، پھر غزل کیا ، نظم کیا اور قطعات و رباعیات کیا، ادب کی پوری تاریخ کو بھی کوئی بھلا دے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔۔۔اقبال نے غزل کی زبان دوسری استعمال کی ہے، اسی طرح ان کی رباعیات بھی رباعی کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔۔۔ لیکن معانی اتنے بلند ہیں کہ ادب کے ناقدین نے اس طرف انگلی اٹھانے سے عام طور پر اجتناب ہی برتا ہے۔۔۔وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟رہی بات ان کی دلچسپی کی تو ان کا بڑا پن ہے انہوں نے کسرِ نفسی سے کام لیا ہے اور آپ نے اِس کو صداقت تسلیم کر لیا۔۔۔ ۔۔۔
یہ فہرست ہے جو اب تک تجویز کی گئی یا ان بزرگوں کو استاد شعراء کہا گیا۔
میرا نکتہ یہ ہے کہ: بڑا شاعر ہونا، اور بات ہے استاد ہونا اور بات ہے اور فنی حوالے سے سند کی حیثیت رکھنا اور بات ہے (فکری اور نظریاتی اسناد کا معاملہ یہاں نہیں)۔
اگر ان تفریقات کے ساتھ بات کی جائے تو اپنی جسارتیں پیش کئے دیتا ہوں۔ دیکھئے لتاڑیے گا نہیں، جہاں میں نے کچھ نہیں لکھا، اُس کو نفی نہ سمجھئے گا بلکہ میری کم علمی پر مبنی خاموشی گردانئے گا۔
مرزا غالب: بڑا شاعر، استاد، سندمیر تقی میر: بڑا شاعر، استاد، سندمومن: بڑا شاعر، استادمیر درد: بڑا شاعر، استاد، سندذوق: بڑا شاعر، استاد، سندآتش: بڑا شاعر، استاد، سنداحسان دانش: بڑا شاعرجمیل الدین عالی: مشہور شاعراحمد ندیم قاسمی: بڑا شاعر
رئیس امرہوی: بڑا شاعر، استاد
امیر خسرو: بڑا شاعر
ولی دکنی: بڑا شاعر، استاد
مرزا محمد رفیع سودا: بڑا شاعر، استاد، سند
نظیر اکبر آبادی: بڑا شاعر
داغ دہلوی: بڑا شاعر، استاد، سند
فیض احمد فیض: بڑا شاعر
مجید امجد: بڑا شاعر
ن م راشد: بڑا شاعر
قتیل شفائی: بڑا شاعرصوفی تبسم: بڑا شاعرسلیم کوثر: بڑا شاعر
فن میں سند کا معاملہ ذرا توجہ طلب ہے۔ اگر کہیں دو یا زیادہ اسناد میں ٹکراؤ کی کیفیت ہو، تو میرا مشرب ہے کہ ان سب کو درست مانا جائے۔
میرا خیال ہے کہ ان اغلاط کے بارے میں گیان چند نے اپنی کتاب "ابتدائی کلامِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ" میں اشارہ کیا ہے۔میرے خیال میں غالب کو جدید شعراء کی فہرست میں نہ رکھنا ایک نا انصافی ہوگی۔ یقیناً غالب ایک جدید شاعر تھے۔
باقی یہ ہے کہ اقبال کو اساتذہ شعراء میں نہیں رکھا جاسکتا۔ وجہ اس کی کوئی تعصب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کہ اقبال اردو شاعری میں مضامین کی حد تک تو درست مگر زبان و بیان میں اکثر ایسی اغلاط چھوڑ گئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس مقابلے میں میری رائے یہ ہے کہ دور اقبالؔ میں بادشاہ شاعر تو حسرت موہانی ہی ہیں۔ اور یاس یگانہ کو بھی اساتذہ کی فہرست سے خارج کرنا زیادتی ہے۔
اس کے بعد اساتذہ میں قمر جلالوی وغیرہ بھی معتبر شعراء میں سے ایک ہیں۔
اسی طرح داغ دہلوی۔ یا اور دوسرے۔
پھر تو یقناً وصی شاہ بھی اساتذہ شعراء میں شمار ہو گا لیکن عقل کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔اساتذہ کی فہرست ترتیب دینا تو سمجھ سے بالا تر بات ہوئی کیونکہ اردو ادب کی تاریخ بہت طویل ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ کوئی اساتذہ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی تاریخ دیکھنے سے پتہ چلے گا۔ موجودہ دور میں ہم ان تمام شعراء کو اساتذہ کا درجہ دے سکتے ہیں جو شاعری اس حد تک جانتے ہیں کہ دوسروں کو سکھا سکیں۔
رہی بات اقبال کے شاعر ہونے یا نہ ہونے کی تو میرا فتویٰ اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر اقبال شاعر نہیں تو غالب بھی نہیں ہے ، نہ کوئی اور۔۔۔
شاعر کی تعریف میری نظر میں صرف اتنی ہے کہ جو شعر موزوں کرسکے اور مسلسل کرتا رہے۔۔۔ اس کے اشعار مدلل اور قابل فہم ہوں ۔۔۔ اقبال اس تعریف پر پورے اتر تے ہیں۔ ہاں غزل گوئی کے حوالے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غزل گو نہیں ہیں۔۔۔ وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔
سو فیصد متفقاساتذہ کی فہرست ترتیب دینا تو سمجھ سے بالا تر بات ہوئی کیونکہ اردو ادب کی تاریخ بہت طویل ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ کوئی اساتذہ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی تاریخ دیکھنے سے پتہ چلے گا۔ موجودہ دور میں ہم ان تمام شعراء کو اساتذہ کا درجہ دے سکتے ہیں جو شاعری اس حد تک جانتے ہیں کہ دوسروں کو سکھا سکیں۔
رہی بات اقبال کے شاعر ہونے یا نہ ہونے کی تو میرا فتویٰ اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر اقبال شاعر نہیں تو غالب بھی نہیں ہے ، نہ کوئی اور۔۔۔
شاعر کی تعریف میری نظر میں صرف اتنی ہے کہ جو شعر موزوں کرسکے اور مسلسل کرتا رہے۔۔۔ اس کے اشعار مدلل اور قابل فہم ہوں ۔۔۔ اقبال اس تعریف پر پورے اتر تے ہیں۔ ہاں غزل گوئی کے حوالے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غزل گو نہیں ہیں۔۔۔ وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔
حسان خانپھر تو یقناً وصی شاہ بھی اساتذہ شعراء میں شمار ہو گا لیکن عقل کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔
متفق۔میرے عزیز وہ غزل گو کیوں نہیں۔۔۔ ۔؟؟؟؟؟
جناب انہوں نے آ پ کی غزل کو نئے موضوعات دیے ہیں۔ اس سے پہلے تو وہی حسنِ یار ،لب و رخسار ،بلبل گل و گلزار کی باتیں تھیں۔انہوں نے تو انہیں پیما نوں میں نئی شراب ڈالی ہے۔۔۔ ۔۔۔
متفق۔ لیکن پھر تنویر سپرا بھی غزل گو شعراء میں شمار نہیں ہو سکتے حالانہ کہ اُن کے پاس تو باقادہ ٹھوس جواز موجود تھا اپنی تلخی کا۔اقبال فلسفہ اسلام اور حقیقت پسندی کے علمبردار ہیں، حقیقت تلخ ہوتی ہے اور غزل میں تلخ زبان استعمال ہوئی ہو تو اکثریت اسے غزل تسلیم نہیں کرتی۔
ٹھیک کہا۔بہرحال، اقبال کا غزل گو ہونا نہ ہونا ایک الگ بحث ہے جسے چھیڑنایہاں درست نہیں ہے۔۔۔
میری بھی یہی رائے ہے۔سوال تھا اقبال شاعر ہیں یا نہیں، میرا جواب اس پر اثبات میں ہے۔
اس پر تو وہی کہوں گا جو کہ ناصر صاحب نے کہا تھاپھر سوال ہے کہ اساتذہ میں کس کس کا شمار کیاجائے۔ کیا اقبال کو مانا جائے کہ وہ شاعری کے استاد ہیں۔ ادب کا تقاضا ہے اور منطق کہتی ہے کہ مانا جائے۔ اقبال کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اور ادب کے قدردانوں کا اس پر اختلاف ہے۔ میرا ذاتی خیال (جس سے آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے) یہ ہے کہ اقبال شاعر نہیں تو کوئی بھی نہیں، پھر غزل کیا ، نظم کیا اور قطعات و رباعیات کیا، ادب کی پوری تاریخ کو بھی کوئی بھلا دے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔۔۔ اقبال نے غزل کی زبان دوسری استعمال کی ہے، اسی طرح ان کی رباعیات بھی رباعی کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔۔۔ لیکن معانی اتنے بلند ہیں کہ ادب کے ناقدین نے اس طرف انگلی اٹھانے سے عام طور پر اجتناب ہی برتا ہے۔۔۔
آپ نے یہ کہا ہے تو یقیناً کسی ٹھوس جواز کی بنیاد پہ ہی کہا ہو گا لیکن میں اپنی کم علمی کی وجہ سے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔اقبال کو میں الگ رکھتا ہوں اور الگ دیکھتا ہوں۔
اگر میں غلط نہیں ہوں تو ناسخ وہی ہیں، جو آتش کے دور میں تھے اور ان کا مقابلہ کرتے تھے شاعری میں۔ناسخ کو اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن نقاد ان کو اکثر و بیشتر بڑے شعراء کی صف میں شامل نہیں کرتے ۔۔۔ یہ بھی ایک نکتہ ذہن میں رکھیے گا ۔۔۔
اب سمجھ آئی "استاد" کی تعریف شاعری میں۔ایک زمانہ تھا جب واقعی استادی اور شاگردی کی روایت بطریق اھسن قائم تھی۔ اس نسبت سے تمام کلاسیکی شعرا جو شاگردان کرام رکھتے تھے، استاد کہلاتے تھے۔ بعد میں یہ شاگرد ’فارغ الاصلاح‘ قرار دئے جاتے تھے، اور تب وہ خود بھی دوسرے مبتدیوں کی اصلاح کے لئے ‘تیار‘ ہو جاتے تھے۔ اقبال کا کوئی شاگرد میری معلومات کے مطابق نہیں تھا، اس لئے ان لا شمار استاد شعرا میں نہین ہوتا۔ لیکن جدید دور میں احمد فراز ہوں یا ن م راشد، مجید امجد ہوں یا جون ایلیا۔ کسی کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ استاد شعرا جدید دور میں وہی کہے جاتے ہیں جو اس روایت کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ جیسے قمر جلالوی کا نام لیا جا چکا ہے، ناوک حمزہ پوری، نوح ناروی، جوش ملسیانی (جوش ملیح آبادی کے شاگرد تھے تو وہ بھی) وغیرہ۔