اساتذہ شعراء

اساتذہ کی فہرست ترتیب دینا تو سمجھ سے بالا تر بات ہوئی کیونکہ اردو ادب کی تاریخ بہت طویل ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ کوئی اساتذہ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی تاریخ دیکھنے سے پتہ چلے گا۔ موجودہ دور میں ہم ان تمام شعراء کو اساتذہ کا درجہ دے سکتے ہیں جو شاعری اس حد تک جانتے ہیں کہ دوسروں کو سکھا سکیں۔

رہی بات اقبال کے شاعر ہونے یا نہ ہونے کی تو میرا فتویٰ اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر اقبال شاعر نہیں تو غالب بھی نہیں ہے ، نہ کوئی اور۔۔۔

شاعر کی تعریف میری نظر میں صرف اتنی ہے کہ جو شعر موزوں کرسکے اور مسلسل کرتا رہے۔۔۔ اس کے اشعار مدلل اور قابل فہم ہوں ۔۔۔ اقبال اس تعریف پر پورے اتر تے ہیں۔ ہاں غزل گوئی کے حوالے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غزل گو نہیں ہیں۔۔۔ وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔
میرے عزیز وہ غزل گو کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟؟؟؟:confused2:
جناب انہوں نے آ پ کی غزل کو نئے موضوعات دیے ہیں۔ اس سے پہلے تو وہی حسنِ یار ،لب و رخسار ،بلبل گل و گلزار کی باتیں تھیں۔انہوں نے تو انہیں پیما نوں میں نئی شراب ڈالی ہے۔۔۔۔۔۔
 
وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
رہی بات ان کی دلچسپی کی تو ان کا بڑا پن ہے انہوں نے کسرِ نفسی سے کام لیا ہے اور آپ نے اِس کو صداقت تسلیم کر لیا۔۔۔۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
رہی بات ان کی دلچسپی کی تو ان کا بڑا پن ہے انہوں نے کسرِ نفسی سے کام لیا ہے اور آپ نے اِس کو صداقت تسلیم کر لیا۔۔۔ ۔۔۔
اقبال فلسفہ اسلام اور حقیقت پسندی کے علمبردار ہیں، حقیقت تلخ ہوتی ہے اور غزل میں تلخ زبان استعمال ہوئی ہو تو اکثریت اسے غزل تسلیم نہیں کرتی۔ بہرحال، اقبال کا غزل گو ہونا نہ ہونا ایک الگ بحث ہے جسے چھیڑنایہاں درست نہیں ہے۔۔۔سوال تھا اقبال شاعر ہیں یا نہیں، میرا جواب اس پر اثبات میں ہے۔ پھر سوال ہے کہ اساتذہ میں کس کس کا شمار کیاجائے۔ کیا اقبال کو مانا جائے کہ وہ شاعری کے استاد ہیں۔ ادب کا تقاضا ہے اور منطق کہتی ہے کہ مانا جائے۔ اقبال کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اور ادب کے قدردانوں کا اس پر اختلاف ہے۔ میرا ذاتی خیال (جس سے آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے) یہ ہے کہ اقبال شاعر نہیں تو کوئی بھی نہیں، پھر غزل کیا ، نظم کیا اور قطعات و رباعیات کیا، ادب کی پوری تاریخ کو بھی کوئی بھلا دے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔۔۔اقبال نے غزل کی زبان دوسری استعمال کی ہے، اسی طرح ان کی رباعیات بھی رباعی کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔۔۔ لیکن معانی اتنے بلند ہیں کہ ادب کے ناقدین نے اس طرف انگلی اٹھانے سے عام طور پر اجتناب ہی برتا ہے۔۔۔
 
یہ فہرست ہے جو اب تک تجویز کی گئی یا ان بزرگوں کو استاد شعراء کہا گیا۔
میرا نکتہ یہ ہے کہ: بڑا شاعر ہونا، اور بات ہے استاد ہونا اور بات ہے اور فنی حوالے سے سند کی حیثیت رکھنا اور بات ہے (فکری اور نظریاتی اسناد کا معاملہ یہاں نہیں)۔
اگر ان تفریقات کے ساتھ بات کی جائے تو اپنی جسارتیں پیش کئے دیتا ہوں۔ دیکھئے لتاڑیے گا نہیں، جہاں میں نے کچھ نہیں لکھا، اُس کو نفی نہ سمجھئے گا بلکہ میری کم علمی پر مبنی خاموشی گردانئے گا۔

مرزا غالب: بڑا شاعر، استاد، سند​
میر تقی میر: بڑا شاعر، استاد، سند​
مومن: بڑا شاعر، استاد​
میر درد: بڑا شاعر، استاد، سند​
ذوق: بڑا شاعر، استاد، سند​
آتش: بڑا شاعر، استاد، سند​
احسان دانش: بڑا شاعر​
جمیل الدین عالی: مشہور شاعر​
احمد ندیم قاسمی: بڑا شاعر​
رئیس امرہوی: بڑا شاعر، استاد​
امیر خسرو: بڑا شاعر​
ولی دکنی: بڑا شاعر، استاد​
مرزا محمد رفیع سودا: بڑا شاعر، استاد، سند​
نظیر اکبر آبادی: بڑا شاعر​
داغ دہلوی: بڑا شاعر، استاد، سند​
فیض احمد فیض: بڑا شاعر​
مجید امجد: بڑا شاعر​
ن م راشد: بڑا شاعر​
قتیل شفائی: بڑا شاعر​
صوفی تبسم: بڑا شاعر​
سلیم کوثر: بڑا شاعر​

فن میں سند کا معاملہ ذرا توجہ طلب ہے۔ اگر کہیں دو یا زیادہ اسناد میں ٹکراؤ کی کیفیت ہو، تو میرا مشرب ہے کہ ان سب کو درست مانا جائے۔


 
ایک خصوصی درخواست۔
میرے نام کے ساتھ استاد نہ لکھا جائے، دوستی کے جذبے کے تحت بھی نہیں۔ کہ اساتذہ کی یہ جو جزوی فہرست بنی ہے ان کے ہوتے ہوئے ’’استاد مام دین‘‘ چل سکے تو چل سکے۔
 
یہ فہرست ہے جو اب تک تجویز کی گئی یا ان بزرگوں کو استاد شعراء کہا گیا۔
میرا نکتہ یہ ہے کہ: بڑا شاعر ہونا، اور بات ہے استاد ہونا اور بات ہے اور فنی حوالے سے سند کی حیثیت رکھنا اور بات ہے (فکری اور نظریاتی اسناد کا معاملہ یہاں نہیں)۔
اگر ان تفریقات کے ساتھ بات کی جائے تو اپنی جسارتیں پیش کئے دیتا ہوں۔ دیکھئے لتاڑیے گا نہیں، جہاں میں نے کچھ نہیں لکھا، اُس کو نفی نہ سمجھئے گا بلکہ میری کم علمی پر مبنی خاموشی گردانئے گا۔

مرزا غالب: بڑا شاعر، استاد، سند​
میر تقی میر: بڑا شاعر، استاد، سند​
مومن: بڑا شاعر، استاد​
میر درد: بڑا شاعر، استاد، سند​
ذوق: بڑا شاعر، استاد، سند​
آتش: بڑا شاعر، استاد، سند​
احسان دانش: بڑا شاعر​
جمیل الدین عالی: مشہور شاعر​
احمد ندیم قاسمی: بڑا شاعر​

رئیس امرہوی: بڑا شاعر، استاد


امیر خسرو: بڑا شاعر


ولی دکنی: بڑا شاعر، استاد


مرزا محمد رفیع سودا: بڑا شاعر، استاد، سند


نظیر اکبر آبادی: بڑا شاعر


داغ دہلوی: بڑا شاعر، استاد، سند


فیض احمد فیض: بڑا شاعر


مجید امجد: بڑا شاعر


ن م راشد: بڑا شاعر

قتیل شفائی: بڑا شاعر​
صوفی تبسم: بڑا شاعر​
سلیم کوثر: بڑا شاعر​

فن میں سند کا معاملہ ذرا توجہ طلب ہے۔ اگر کہیں دو یا زیادہ اسناد میں ٹکراؤ کی کیفیت ہو، تو میرا مشرب ہے کہ ان سب کو درست مانا جائے۔




بہت ہی عمدہ فہرست ترتیب دی آپ نے۔ اور کلّی متفق۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرے خیال میں غالب کو جدید شعراء کی فہرست میں نہ رکھنا ایک نا انصافی ہوگی۔ یقیناً غالب ایک جدید شاعر تھے۔
باقی یہ ہے کہ اقبال کو اساتذہ شعراء میں نہیں رکھا جاسکتا۔ وجہ اس کی کوئی تعصب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کہ اقبال اردو شاعری میں مضامین کی حد تک تو درست مگر زبان و بیان میں اکثر ایسی اغلاط چھوڑ گئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس مقابلے میں میری رائے یہ ہے کہ دور اقبالؔ میں بادشاہ شاعر تو حسرت موہانی ہی ہیں۔ اور یاس یگانہ کو بھی اساتذہ کی فہرست سے خارج کرنا زیادتی ہے۔
اس کے بعد اساتذہ میں قمر جلالوی وغیرہ بھی معتبر شعراء میں سے ایک ہیں۔
اسی طرح داغ دہلوی۔ یا اور دوسرے۔
میرا خیال ہے کہ ان اغلاط کے بارے میں گیان چند نے اپنی کتاب "ابتدائی کلامِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ" میں اشارہ کیا ہے۔
لیکن اُس دور کے کلام کا بیشتر حصہ اقبال خود اپنی زندگی میں ہی قلمزد کر چکے ہیں۔ لہٰذا اس پہ تو بات کرنا بیکار ہے۔ اور اگر موجودہ کلام میں ایسی مثالیں ہیں تو میں لازمی اُن کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اساتذہ کی فہرست ترتیب دینا تو سمجھ سے بالا تر بات ہوئی کیونکہ اردو ادب کی تاریخ بہت طویل ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ کوئی اساتذہ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی تاریخ دیکھنے سے پتہ چلے گا۔ موجودہ دور میں ہم ان تمام شعراء کو اساتذہ کا درجہ دے سکتے ہیں جو شاعری اس حد تک جانتے ہیں کہ دوسروں کو سکھا سکیں۔

رہی بات اقبال کے شاعر ہونے یا نہ ہونے کی تو میرا فتویٰ اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر اقبال شاعر نہیں تو غالب بھی نہیں ہے ، نہ کوئی اور۔۔۔

شاعر کی تعریف میری نظر میں صرف اتنی ہے کہ جو شعر موزوں کرسکے اور مسلسل کرتا رہے۔۔۔ اس کے اشعار مدلل اور قابل فہم ہوں ۔۔۔ اقبال اس تعریف پر پورے اتر تے ہیں۔ ہاں غزل گوئی کے حوالے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غزل گو نہیں ہیں۔۔۔ وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔
پھر تو یقناً وصی شاہ بھی اساتذہ شعراء میں شمار ہو گا لیکن عقل کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اساتذہ کی فہرست ترتیب دینا تو سمجھ سے بالا تر بات ہوئی کیونکہ اردو ادب کی تاریخ بہت طویل ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ کوئی اساتذہ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی تاریخ دیکھنے سے پتہ چلے گا۔ موجودہ دور میں ہم ان تمام شعراء کو اساتذہ کا درجہ دے سکتے ہیں جو شاعری اس حد تک جانتے ہیں کہ دوسروں کو سکھا سکیں۔

رہی بات اقبال کے شاعر ہونے یا نہ ہونے کی تو میرا فتویٰ اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر اقبال شاعر نہیں تو غالب بھی نہیں ہے ، نہ کوئی اور۔۔۔

شاعر کی تعریف میری نظر میں صرف اتنی ہے کہ جو شعر موزوں کرسکے اور مسلسل کرتا رہے۔۔۔ اس کے اشعار مدلل اور قابل فہم ہوں ۔۔۔ اقبال اس تعریف پر پورے اتر تے ہیں۔ ہاں غزل گوئی کے حوالے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غزل گو نہیں ہیں۔۔۔ وہ خود فرماتے ہیں میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔
سو فیصد متفق
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرے عزیز وہ غزل گو کیوں نہیں۔۔۔ ۔؟؟؟؟؟:confused2:
جناب انہوں نے آ پ کی غزل کو نئے موضوعات دیے ہیں۔ اس سے پہلے تو وہی حسنِ یار ،لب و رخسار ،بلبل گل و گلزار کی باتیں تھیں۔انہوں نے تو انہیں پیما نوں میں نئی شراب ڈالی ہے۔۔۔ ۔۔۔
متفق۔
اور غزل کا جو معیار اور رنگ اُن کے ہاں ملتا ہے، وہ باقی شعراء کے ہاں بہت مشکل ہے۔
اور بے شک انہوں نے غزل کو وسعت دی ہے، ورنہ یہ تو فقط پری جمالوں تک تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک زمانہ تھا جب واقعی استادی اور شاگردی کی روایت بطریق اھسن قائم تھی۔ اس نسبت سے تمام کلاسیکی شعرا جو شاگردان کرام رکھتے تھے، استاد کہلاتے تھے۔ بعد میں یہ شاگرد ’فارغ الاصلاح‘ قرار دئے جاتے تھے، اور تب وہ خود بھی دوسرے مبتدیوں کی اصلاح کے لئے ‘تیار‘ ہو جاتے تھے۔ اقبال کا کوئی شاگرد میری معلومات کے مطابق نہیں تھا، اس لئے ان لا شمار استاد شعرا میں نہین ہوتا۔ لیکن جدید دور میں احمد فراز ہوں یا ن م راشد، مجید امجد ہوں یا جون ایلیا۔ کسی کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ استاد شعرا جدید دور میں وہی کہے جاتے ہیں جو اس روایت کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ جیسے قمر جلالوی کا نام لیا جا چکا ہے، ناوک حمزہ پوری، نوح ناروی، جوش ملسیانی (جوش ملیح آبادی کے شاگرد تھے تو وہ بھی) وغیرہ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شاہد شاہنواز بھائی
اقبال فلسفہ اسلام اور حقیقت پسندی کے علمبردار ہیں، حقیقت تلخ ہوتی ہے اور غزل میں تلخ زبان استعمال ہوئی ہو تو اکثریت اسے غزل تسلیم نہیں کرتی۔
متفق۔ لیکن پھر تنویر سپرا بھی غزل گو شعراء میں شمار نہیں ہو سکتے حالانہ کہ اُن کے پاس تو باقادہ ٹھوس جواز موجود تھا اپنی تلخی کا۔
بہرحال، اقبال کا غزل گو ہونا نہ ہونا ایک الگ بحث ہے جسے چھیڑنایہاں درست نہیں ہے۔۔۔
ٹھیک کہا۔
سوال تھا اقبال شاعر ہیں یا نہیں، میرا جواب اس پر اثبات میں ہے۔
میری بھی یہی رائے ہے۔
پھر سوال ہے کہ اساتذہ میں کس کس کا شمار کیاجائے۔ کیا اقبال کو مانا جائے کہ وہ شاعری کے استاد ہیں۔ ادب کا تقاضا ہے اور منطق کہتی ہے کہ مانا جائے۔ اقبال کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اور ادب کے قدردانوں کا اس پر اختلاف ہے۔ میرا ذاتی خیال (جس سے آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے) یہ ہے کہ اقبال شاعر نہیں تو کوئی بھی نہیں، پھر غزل کیا ، نظم کیا اور قطعات و رباعیات کیا، ادب کی پوری تاریخ کو بھی کوئی بھلا دے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔۔۔ اقبال نے غزل کی زبان دوسری استعمال کی ہے، اسی طرح ان کی رباعیات بھی رباعی کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔۔۔ لیکن معانی اتنے بلند ہیں کہ ادب کے ناقدین نے اس طرف انگلی اٹھانے سے عام طور پر اجتناب ہی برتا ہے۔۔۔
اس پر تو وہی کہوں گا جو کہ ناصر صاحب نے کہا تھا
سورج میں لگے دھبا، فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے
(اکبر الہ آبادی)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ناسخ کو اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن نقاد ان کو اکثر و بیشتر بڑے شعراء کی صف میں شامل نہیں کرتے ۔۔۔ یہ بھی ایک نکتہ ذہن میں رکھیے گا ۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اقبال کو میں الگ رکھتا ہوں اور الگ دیکھتا ہوں۔​
آپ نے یہ کہا ہے تو یقیناً کسی ٹھوس جواز کی بنیاد پہ ہی کہا ہو گا لیکن میں اپنی کم علمی کی وجہ سے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔
کچھ تفصیل کے ساتھ سمجھا دیں تو نوازش ہو گی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ناسخ کو اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن نقاد ان کو اکثر و بیشتر بڑے شعراء کی صف میں شامل نہیں کرتے ۔۔۔ یہ بھی ایک نکتہ ذہن میں رکھیے گا ۔۔۔
اگر میں غلط نہیں ہوں تو ناسخ وہی ہیں، جو آتش کے دور میں تھے اور ان کا مقابلہ کرتے تھے شاعری میں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک زمانہ تھا جب واقعی استادی اور شاگردی کی روایت بطریق اھسن قائم تھی۔ اس نسبت سے تمام کلاسیکی شعرا جو شاگردان کرام رکھتے تھے، استاد کہلاتے تھے۔ بعد میں یہ شاگرد ’فارغ الاصلاح‘ قرار دئے جاتے تھے، اور تب وہ خود بھی دوسرے مبتدیوں کی اصلاح کے لئے ‘تیار‘ ہو جاتے تھے۔ اقبال کا کوئی شاگرد میری معلومات کے مطابق نہیں تھا، اس لئے ان لا شمار استاد شعرا میں نہین ہوتا۔ لیکن جدید دور میں احمد فراز ہوں یا ن م راشد، مجید امجد ہوں یا جون ایلیا۔ کسی کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ استاد شعرا جدید دور میں وہی کہے جاتے ہیں جو اس روایت کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ جیسے قمر جلالوی کا نام لیا جا چکا ہے، ناوک حمزہ پوری، نوح ناروی، جوش ملسیانی (جوش ملیح آبادی کے شاگرد تھے تو وہ بھی) وغیرہ۔
اب سمجھ آئی "استاد" کی تعریف شاعری میں۔
ورنہ میں سمجھتا تھا کہ شاید اُسے استاد سمجھا جاتا ہے جو کلاسیکل شعراء میں شمار ہوتا ہے یا بہت بڑا شاعر ہو یا مشہور ہو۔
زبردست
 
Top