فیض احمد فیض یقیناً بڑا شاعر ہے، نظریاتی معاملات سے قطع نظر فن میں وہ مثال ہے۔
حبیب جالب کا لہجہ اس کو نمایاں کرتا ہے اور اسے بہت سے ناقدین نے مزدور شاعر کا خطاب دیا ہے۔
ظہور نظر کو نہیں پڑھا۔
احمد فراز اور ناصر کاظمی؛ میں نئے لکھنے والوں کو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اِن دونوں کو پڑھا کریں۔ ان کو پڑھ کر کہنے کی تحریک بھی ہوتی ہے اور ان دونوں کی ایک خوبی نرم لہجے اور فن کاری کا امتزاج ہے۔
ظہور نظر کو نہیں پڑھا تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ شعر کے ایک بڑے منفرد ذائقے سے محروم رہ گئے۔۔۔
احمد فراز اور ناصر کاظمی کا لہجہ جہاں نرم ہے، ان کا لہجہ اس کا الٹ ہے۔۔
اپنے یاروں میں ہوں ظہور نظر
اس کی نظروں میں تنگ دیدہ ہوں
ظہور نظر ترقی پسند شاعر ہے جسے بڑا شاعر کہنا بے جا نہیں۔ کرب اور دکھ کی شدت اس کے بہت سے اشعار سے نمایاں ہے
وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
یہ غزل توگائی بھی گئی، لیکن اس کی مثل کوئی دوسری شاید اس کے کلام میں کوئی اور نہیں۔۔۔ بالکل الگ رنگ میں لکھی ہوئی غزل ہے۔۔کہیں کہیں اردو میں ہندی الفاظ کے امتزاج کے ساتھ۔۔۔۔
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
ترک محبت، ترک تمنا کرچکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
سناٹا جب تنہائی کے زہر میں بجھتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں کیسے بتائیں تمہیں
جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں
پاس ہمارے آکر تم بے گانہ سے کیوں ہو
گر چاہو تو پھر کچھ دوری پر چھوڑ آئیں تمہیں (یہ مصرع کچھ بھول رہا ہے، لیکن بات دوری پر چھوڑ آنے کی ہی کہی ہے ظہور نظر نے)
دور گگن پر ہنسنے والے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ ہاتھ لگائیں تمہیں
انہونی کی چنتا، ہونی کا انیائے نظر
دونوں بیری ہیں جیون کے، ہم سمجھائیں تمہیں
ایک عجیب سی نظم ہے ان کی، جو یاد کرنے میں مجھے کوئی دقت نہ ہوئی ۔۔۔
ریزہ ریزہ ہو کر گرتی
تھر تھر کرتی
اک دیوار کا سایہ
کڑی دھوپ میں
عجب روپ میں
میری جانب آیا
میں نے اس کو
اس نے مجھ کو
سینے سے لپٹایا
دھوپ ڈھلی تو شام وفا نے
عجب سوال اٹھایا
مجھ سے اور دیوار سے پوچھا
کس نے کسے بچایا؟
وہ تو تھی دیوار
سو چپ تھی،
میں بھی بول نہ پایا۔۔۔
اوپر جو مثالیں دی ہیں، یہ صرف وہ ہیں جو مجھے یاد ہیں۔
۔۔۔ ظہور نظر نے آزاد نظم کو پابند بحر کردیا۔ لیکن جس طرح کی نظم انہوں نے لکھی ہے، آج تک کسی اور کے ہاں نہیں دیکھی۔۔۔ کلیات ظہور نظر پڑھے ہوئےمدت ہوچکی ۔ ان کی آزاد نظمیں بڑی طویل ہیں، جنہیں یاد کرنا مشکل تھا۔ اس صنف شاعری کو آپ اردو ادب کا ایک نیا اثاثہ قرار دے سکتے ہیں۔ کچھ نظموں کے محض عنوانات یاد رہ گئے ہیں:
وفا کی زنجیر کب میرے پاؤں میں نہیں تھی ۔۔۔۔ عدوئے برتری رنگ و نسل و ذات اسلام ۔۔۔۔ یہ جنگل کون کاٹے گا؟ ۔۔۔
ہاتھ میرا اے مری پرچھائی تو ہی تھام لے
ایک مدت سے مجھے تو سوجھتا کچھ بھی نہیں
شہر شب میں کون سا گھر تھا، نہ دی جس پر صدا
نیند کے اندھے مسافر کو ملا کچھ بھی نہیں
عمر بھر عمر گریزاں سے نہ میری بن سکی
جو کرے کرتی رہے میں پوچھتا کچھ بھی نہیں
کہاں سے لا کے بچھائیں تمہاری راہ میں پھول
کہ ڈال ڈال تو کیا خال خال کوئی نہ تھا
دل کے زخموں کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں؟
درد ہماری محرومی کا تم تب جانو گے
جب کھانے آئے گی چپ کی سائیں سائیں تمہیں
اُڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم
بیرن شام کا تھام کے دامن روز بلائیں تمہیں