اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرتے نہیں, دلوں میں بستے ہیں: منور حسن

قیصرانی

لائبریرین
نا ایسا نہ کیا کیجیے۔ بری بات۔ اچھے بچے چاٹا نہیں کرتے۔ :bighug:
آپ نے ہی آفر کی تھی چاٹنے کی۔ اب دیر کاہے کی؟
ویسے یہ بہت مزے کی بات ہے کہ جب لاجک نہ بنے تو اس طرح بات گھما دی جائے تاکہ تبلیغی جماعت کے خود کش حملوں کی بات دب جائے، ہے نا؟
 

ساقی۔

محفلین
جان جاندار کی نکالی جاتی ہے، ان کی نہیں جو "زومبی" کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوں
واضح رہے کہ محفل کے قوانین کاپی پیسٹ سے نہیں روکتے، ہم اراکین ان زمبیوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کا کام ہی کاپی پیسٹ کی شکل میں پیسے حلال کرنا ہوتا ہے :)
ضرور آپ "فواد ڈیجی ٹل" کی بات کر رہے ہیں ۔:lovestruck:
 

قیصرانی

لائبریرین
ضرور آپ "فواد ڈیجی ٹل" کی بات کر رہے ہیں ۔:lovestruck:
تصویری شکل میں کاپی پیسٹ کی بات ہو رہی ہے۔ فواد باقاعدہ امریکی حکومت کی طرف سے بات کرتے ہیں۔ آپ کو اگر طالبان نے مقرر کیا ہے تو بسم اللہ۔ اپنا نکتہ نظر بیان کیجئے کہ تبلیغی اجتماع میں "سلنڈر کیسے فاٹا" :)
 

ساقی۔

محفلین
آپ نے ہی آفر کی تھی چاٹنے کی۔ اب دیر کاہے کی؟
ویسے یہ بہت مزے کی بات ہے کہ جب لاجک نہ بنے تو اس طرح بات گھما دی جائے تاکہ تبلیغی جماعت کے خود کش حملوں کی بات دب جائے، ہے نا؟

اب بات آپ گھمائیں گے پا ۔۔۔ جی۔۔۔۔(پا ۔۔جی کو اس لیئے علیحدہ کر کے لکھا ہے کہ کہیں آپ "پاجی" نہ پڑھ لیں۔)

اچھا ذرا دکھایے کہاں میں نے "چاٹنے" کا لکھا ہے؟ اب بات مت گھمایے گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اب بات آپ گھمائیں گے پا ۔۔۔ جی۔۔۔ ۔(پا ۔۔جی کو اس لیئے علیحدہ کر کے لکھا ہے کہ کہیں آپ "پاجی" نہ پڑھ لیں۔)

اچھا ذرا دکھایے کہاں میں نے "چاٹنے" کا لکھا ہے؟ اب بات مت گھمایے گا۔
پہلے میرا سوال تھا، جس کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔ دل چاہے تو دستخط بنا لیجئے :)
باقی پوری قوم ہی دیکھ رہی ہے کہ خود کش حملہ آوروں پر اب آفت پڑی ہے تو پورے ملک سے خود کش دھماکے ختم ہو گئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے نا ویسے؟ یا شاید چائنا کے بٹن چیک ہو رہے ہوں گے؟
 

ساقی۔

محفلین
پہلے میرا سوال تھا، جس کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔ دل چاہے تو دستخط بنا لیجئے :)
باقی پوری قوم ہی دیکھ رہی ہے کہ خود کش حملہ آوروں پر اب آفت پڑی ہے تو پورے ملک سے خود کش دھماکے ختم ہو گئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے نا ویسے؟ یا شاید چائنا کے بٹن چیک ہو رہے ہوں گے؟

جنہوں نے دستخط بنایا ہے ان کا جواب تو ابھی تک نہیں دیا آپ نے ۔۔ اتنے قرضے اچھے نہیں ہوتے۔۔پہلے ان کا تو جواب دیجیے۔




















توانوں نیند آ رہی ہو گی ۔۔۔ اچھا فیر گڈ نائٹ۔سانوں معاف کر کے سونا۔ ساڈے واسطے ہدایت دی دعا وی کرنا رب سچے اگے۔
شب بخیر
 

قیصرانی

لائبریرین
جنہوں نے دستخط بنایا ہے ان کا جواب تو ابھی تک نہیں دیا آپ نے ۔۔ اتنے قرضے اچھے نہیں ہوتے۔۔پہلے ان کا تو جواب دیجیے۔




















توانوں نیند آ رہی ہو گی ۔۔۔ اچھا فیر گڈ نائٹ۔سانوں معاف کر کے سونا۔ ساڈے واسطے ہدایت دی دعا وی کرنا رب سچے اگے۔
شب بخیر
اپنے اپنے قرض اپنے اپنے ذمے :)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
طالبان ہی کیا یہ قوم بھی اب بھول چکی ہے کہ اسلام میں جہاد کا مطلب صرف ہتھیار اٹھا کر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا نہیں ہے۔ جہاد زمانے کی ضروریات اور لوازمات کے مطابق ہوتا ہے۔ تب دنیا صرف ہتھیاروں کی زبان سمجھتی تھی۔ عقل، دلیل اور منطق سے عاری۔ علم کے حصول کی خواہش ہی ناپید تھی۔ تب کی عظیم الشان بادشاہتیں اور سلطنتیں افرادی قوت اور ہتھیاروں کی کثرت سے پہچانی جاتی تھیں۔ اسلام دلیل لے کر آیا لیکن بھس بھرے دماغ اسے قبول نہ کر سکے اور الٹا اس پر چڑھ دوڑے۔تب جہاد کے ذریعے انہیں سبق سکھایا گیا۔لیکن اسلام جس علم اور دلیل و منطق پر یقین رکھتا تھا اسے بھی بعد میں جاری کیا گیا۔
الحمیاری، ابراہیم الفزاری،جابر بن حیان، الاصمعی،الخوارزمی، الجاحظ،الکندی،ابن الہیثم، الفارابی اور اگر مکمل فہرست لکھنے بیٹھوں تو صفحوں کے صفحے بھر جائیں غرض یہ کہ کتنے ہی اعلیٰ اور بلند پائے کے مسلم سائنس دانوں نے اپنے اپنے شعبوں میں انقلاب پیدا کیا، نئی جہتیں عطا کیں اور کئی نے تو بہت سے شعبے خود بنا ڈالے۔ کیا یہ سب مسلمان نہ تھے؟ ۔۔۔یقینا تھے۔ تو ایسا ہر ایک بندہ میری نظر میں مجاہد ہے جس نے اپنے ان شعبوں میں جہاد کیا۔آج کی جدید سائنس کو وجود دینے والوں کی فہرست کے پہلے ناموں میں آپ کو مسلمان نظر آئیں گے۔یہی وہ شمعیں ہیں جن کی روشنی غیر اقوام نے حاصل کی اور محنت و جستجو کرتے ہوئے افلاک کی بلندیوں کو چھو کر ان سے بھی باہر نکل گئے۔
مانا کہ جنگی صلاحیت ، ہتھیار اور افرادی قوت اب بھی بہت بڑا لوازمہ ہیں لیکن آج کی سب سے بڑی قوت علم و تحقیق ہے۔ بجائے اس کے کہ اجتہاد کر کے نئے علوم اور ان کی تحقیق کے لئے راہیں ہموار کی جائیں، نئی نسل کو کٹر مذہب کے نام پر اب بھی جہالت کی پرانی غاروں میں دھکیلا جارہا ہے۔ ہر نئی چیز کو سمجھنے کے بجائے اس پر کفر کے فتوے لگ جاتے ہیں۔ اور اسی روش میں گردنیں بھی کاٹی جاتی ہیں اور اپنے برانڈ کا اسلام بھی چمکایا جاتا ہے۔
باقی رہے طالبان تو خدا انہیں ہدایت دے۔اور اگر ایسے ہیں کہ کسی طرح ہدایت کی طرف آ ہی نہیں سکتے تو نیست و نابود کرے انہیں اور ایسی ہر ایک طالبانی سوچ کو۔

خدا مسلمانوں کو اپنی حالتِ زار پر غور کرنے اور اپنے حقیقی ہتھیار یعنی علم و تحقیق و دلیل و منطق کی سعی کرنے کی توفیق دیں ۔ آمین
 

کاشفی

محفلین
کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ۔۔۔۔
صبح کو : امریکہ چاند پر پہنچا ہی نہیں سب ڈرامہ ہے
شام کو :جب وہ چاند پر گئے تو انہیں اذان کی آواز آئی سبحان الله
 

Fawad -

محفلین
اسامہ میرا ہیرو نہیں تھا ۔ لیکن بہت سے لوگوں کا ہیرو تھا۔ اور بہت سے لوگوں کے لئے دہشت گرد۔ پہلے امریکہ نے ہی اس کو ہیرو بنایا اور اسے روس کے خلاف استعمال کیا۔ جب اس نے امریکہ کو آنکھیں دکھائیں تو وہی امریکہ کے لئے دہشتگرد بن گیا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقائق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔


برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟


افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القائدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے اپنے ليڈر ايمن الظواھری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرق الاوسط" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔


ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔


ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقائق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔


برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟


افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القائدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے اپنے ليڈر ايمن الظواھری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرق الاوسط" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔


ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔


ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
اگر امریکی فلم چارلی ولسنز وار میں بیان کی گئی کہانی کو درست سمجھیں تو آپ کی بات درست لگتی ہے۔ :)
لیکن بہت سے سابقہ فوجی جرنیل اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغان جنگ (روس کے خلاف) کے دوران اسامہ امریکی آنکھ کا تارا تھا۔
 

حسینی

محفلین
اب تو منور حسن صاحب نے اسامہ جیسے دہشت گرد کو "سید الشہداء" قرار دیا ہے۔۔۔

یقینا یہ بات حضرت امام حسین اور حضرت حمزہ علیہما السلام کی توہین ہے۔۔۔۔ کہ اس جیسے دہشت گرد ان کے والا لقب دیا جا رہا ہے۔۔
منور حسن جیسے پڑھے لکھے جاہل لوگ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں برابر کے شریک ہیں۔۔
 
آپ طالبان کا نام لے کر دہشت گردی کرنے والوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں جب کہ میری نظر میں اچھا اور برا طالبان نہیں Exist کرتا۔ میرے نزدیک دونوں کا حل گولی یا ڈرون ہے۔ یہی بنیادی نکتہ ہے جہاں آپ اور میں راہ بدل دیتے ہیں
غیر متفق
 

فرحت کیانی

لائبریرین
994105_649401121767629_1281023547_n.jpg
غزنوی بهائی آپ بهی حسن نثار کی تحریر کو سنجیدگی سے لیتے ہیں؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اس میں کوئ شک نہیں کہ "خوف"، "ہلاکت" اور "دہشت گردی" وہ اصطلاحات ہيں جو ہميشہ تاريخ کے صفحات ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ استعمال کی جائيں گي۔ ان کی فلاسفی، خيالات اور روش نے دنيا بھر کے ہزاروں افراد کی زندگيوں میں محض تباہی، بربادی اور غم کے دريچے کھولے۔ ميں نے نہيں سمجھ سکا کہ کوئ بھی ايسے شخص کی زندگی کی "کاميابيوں" کا فاتحانہ جشن تو درکنار، اس کا ذکر بھی کيسے کر سکتا ہے۔ اسامہ بن لادن کی تعريف کرنے والوں نے انتہائ مجرمانہ انداز ميں اس حقیقت کو نظرانداز کر ديا کہ دنيا کے عام شہريوں بالخصوص افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کی زندگياں آج القائدہ کے فلسفے سے جنم لينے والی پرتشدد دہشت گردی کی خونی مہم کے باعث خوف و خطر سے دوچار ہيں۔ اسامہ بن لادن کی ذات کے بارے ميں الفاظ کے گورکھ دھندے کے ذريعے زمين و آسمان کے قلابے ملانے کی بجائے منور حسن صاحب اگر القائدہ کے حوالے سے محض بنيادی تحقيق بھی کر ليتے تو ان پر يہ واضح ہو جاتا کہ مذہبی لبادے اور سوچ کے آڑ ميں بن لادن کا اصل چہرہ کيا ہے۔

القائدہ کی جانب سے کيے جانے والے حملوں کی تاريخ اور ان کی تفاصيل پر ايک سرسری نگاہ بھی ڈالیں تو يہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ اسامہ بن لادن کی "مغرب کی صہيونی قوتوں" کے خلاف نام نہاد مقدس جنگ کی سب سے بھاری قیمت مسلمانوں نے ہی ادا کی ہے۔


http://www.freeimagehosting.net/uploads/003ed9c7b4.jpg

003ed9c7b4.jpg


ميں نہيں سمجھ سکا کہ امت مسلمہ کے ليے ايسی کونسی امید کی کرن يا بہتری کے مواقع اسامہ بن لادن نے پيدا کیے جن کا حوالہ ديا جا سکے۔ يقينی طور پر ايسی کسی کاميابی کا تذکرہ تو حاليہ بيان ميں موجود نہيں ہے۔ ليکن ايک مقدس مذہبی جدوجہد کی آڑ ميں پاکستان کے سکولوں، ہسپتالوں، بازاروں اور حتی کہ جنازوں اور مسجدوں ميں جو خاک و خون کی ہولی کھيلی جا رہی ہے وہ يقينی طور پرايک ايسا جرم ہے جس کے لیے انھيں ہميشہ ياد رکھا جائے گا۔


پرتشدد دہشت گردی کا ناسور اسامہ بن لادن کی واحد حقيقی وراثت ہے اور اس گناہ کے ليے تمام انسانيت، مذہبی وابستگی سے قطع نظر انھيں کبھی معاف نہیں کرے گی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
منور حسن صاحب کی پستی عقل پر ہنسی آتی ہے۔۔۔ معلوم نہیں دہشت گرد کو ہیرو بنانے میں ان کو کیا مزا آتا ہے؟؟
اسامہ اک دہشت گرد تھا۔۔۔ اور بھاگ کر چھپتے ہوئے اس کی موت ہوئی ہے۔۔ اگر صحیح مجاہد ہوتے تو لڑتے ہوئے "شہید" ہو جاتے۔
پتا بھی نہیں کہ مرا ہے یا امریکہ میں چھپا بیٹھا ہے۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
آخر امریکہ سے اتنی نفرت کیوں ہے؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميرا آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا 80 کی دہائ ميں جب امريکہ افغانستان میں سويت فوج کے مقابلے ميں مجاہدين کی مدد کر رہا تھا تو کيا پاکستان ميں امريکہ مخالف جذبات کی شدت ميں کوئ کمی آئ تھی؟ جہاں تک مجھے ياد پڑتا ہے سب سے مشہور امريکہ مخالف نعرہ "امريکہ کا جو يار ہے – غدار ہے، غدار ہے" اسی دور ميں منظر عام پر آيا تھا جب امريکہ ايک جارح فوج کے مقابلے ميں ايک مسلمان ملک کی مدد کر رہا تھا۔


جہاں تک آپ کا يہ سوال ہے کہ پاکستانی امريکہ سے نفرت کيوں کرتے ہيں تو اس کے ليے آپ پاکستان کی کسی بھی سياسی جماعت کی اعلی قيادت کا جائزہ لےليں، وہ ہر پبلک فورم اور ہر عوامی اجتماع ميں "امريکہ سے نفرت" کا ٹکٹ ضرور استعمال کرتے ہيں ليکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کے ليئے وہ تمام آسائشيں ضرور سميٹتے ہيں جو امريکی معاشرہ اپنے ہر شہری کو ديتا ہے۔ امريکہ سے نفرت کے يہ نعرے محض عوام کی توجہ اپنی ناکاميوں سے ہٹانے کے ليے تخليق کيے جاتے ہيں۔ کسی بھی قوم کی تقدير کے ذمہ دار "بيرونی ہاتھ" نہيں بلکہ اس ملک کے سياستدان ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قآنون سازی کے ذريعے اس ملک کی تقدير بناتے ہيں۔


يہی وجہ ہے کہ 1985 سے لے کر اب تک آپ کوئ بھی اسمبلی اٹھا کر ديکھ ليں، کوئ بھی سياسی جماعت اپنے کسی منشور، پروگرام اور عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے ليے عوام کے سامنے جوابدہ نہيں کيونکہ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے۔
اور يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ امريکہ سے نفرت کرنے سے پہلے آپ کو وہ تمام مالی امداد نظرانداز کرنا ہو گی جو امريکہ نے پچھلے 60 برسوں کے دوران تعمير وترقی کے ضمن ميں پاکستان کو دی ہے۔ اسی طرح سال 2005 کے زلزلے کے بعد امريکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد، فوجی سازوسامان اور سکالرشپس بھی نظر انداز کرنا ہوگی۔ يقينی طور پر اگر آپ ان تاريخی حقائق کو نظرانداز کر ديں تو پھر امريکہ سے نفرت کرنے ميں حق بجانب ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top