اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع

عسکری

معطل
آپ لوگ خوامخواہ ناراض ہورہے ہیں۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی عام ہے۔ خصوصا دہہی سندھ، پنجاب اور سرحد میں۔ سرحد میں تو یہ بہت ہی عام ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے۔

پر پارٹیاں نہیں ہوتی جناب اور امریکیوں کو کیوں کردار سے گرے ہوئے لوگ ملتے ہیں ہمیشہ اور ہمیشہ اخلاق اور ہمارے کلچر سے گری ہوئی پارٹیاں ہی کیوں منعقد ہوتی ہیں؟ کبھی وہاں عرس۔ میلاد۔ شب برات ۔معزور ہنر مند افراد -ہمارے جیسے پردیسی- غریبوں کی مدد کرنے والے ٹرسٹ- یتیموں- بے سہارا- کی پارٹی کیوں نہیں ہوئی آج تک؟ کیوں ہمیشہ یا تو فری پارٹی یا گے پارٹی ؟:rolleyes:
 
ان سب کا صرف ایک ہی علاج ہے۔ عوام اپنا تعلق قران و سنت سے مضبوط کرلے۔ پھر کچھ نہیں ہوگا۔
اگر یہ نہیں کیا تو پھر اگے اگے دیکھ۔
 

ساجد

محفلین
ہمت بھیا ، لواطت کا عمل دنیا کے ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے ، پاکستان کو اس میں کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے۔ آپ جس ملک میں مقیم ہیں اسی میں اپنے ارد گرد کے ماحول پہ نظر دوڑائیں تو آپ یہ وبا پاکستان سے بھی سنگین حالت میں پائیں گے۔
 
ویسے فواڈ اب یہاں نہیں ائے گا۔ امریکہ کہ پالیسی تبدیل ہوچکی ہے۔ اب مائنڈ و ہارٹ نہیں بلکہ بلٹ و بم چلے گا شاید۔
 

عسکری

معطل
ویسے فواڈ اب یہاں نہیں ائے گا۔ امریکہ کہ پالیسی تبدیل ہوچکی ہے۔ اب مائنڈ و ہارٹ نہیں بلکہ بلٹ و بم چلے گا شاید۔

آ جائیں کے سکرپٹ لکھ رہا ہے آدمی جیسے ہی مکمل ہو گا کاپی پیسٹ ٹیم اپنی تن من دھن سے کام کرتے ہوئے 100 فورمز پر پوسٹ کر کے 50 ڈالر کی دیہاڑی کھری کرے گی ۔:laughing::grin:
 

ساجد

محفلین
احباب ، ایسا نہیں ہے کہ سب امریکی اس ہم جنس پرستی کے حامی ہیں۔ اور نہ ہی یہ مسئلہ صرف امریکہ کا ہے۔ نئی تہذیب کے جن گندے انڈوں کا ذکر ہم نے اپنی درسی کتابوں میں پڑھا تھا وہ پورے یورپ اور دونوں امریکاؤں (شمالی اور جنوبی) میں وہاں کے نام نہاد جمہوری نظام کے انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے اپنے مکروہ عزائم پورے کر رہے ہیں۔
یادش بخیر شاید جان میجر کی وزارت عظمی کے دوران ایک برطانوی نے کتیا سے باقاعدہ شادی کی تھی اور جان میجر نے اسے دو جنسوں کے درمیان خوبصورت ملاپ کا نام دیا تھا۔ اٹلی میں باپ کی موت کے بعد بیٹے نے ماں سے شادی کر لی اور عذر یہ بیان کیا کہ مجھے اپنی ماں سے بہت پیار ہے اور میں اسے کسی دوسرے مرد کی ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جرمنی میں شاید آج بھی وہ جوڑا کہیں زندگی گزار رہا ہو گا کہ جو بہن بھائی ہیں اور بچپن میں بچھڑ گئے تھے ۔ شادی کے بعد جب دو بچوں کے ماں باپ بن چکے تھے تب انہیں اس کا پتہ چلا کہ وہ دراصل بہن بھائی ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ رشتہ ختم نہیں کیا ۔
ہم جنس پرستی دنیا کے قدیم ترین جرائم میں سے ایک جرم ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ معاشرے اسے قانونی قرار دے رہے ہیں بلکہ ان سے بھی گھناؤنے جرائم جو درج بالا ہیں ان پہ ان کی اشرافیہ مسرت کا اظہار کرتی ہے اور عوام اس پہ مزید دلیر ہو جاتے ہیں۔ موجودہ امریکی انتظامیہ میں بھی نئی تہذیب کے گندے انڈے بہ کثرت ملتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پہ یہ اس گندگی کو ان معاشروں میں بھی پھیلا رہے ہیں کہ جہاں اس وبا سے نفرت کرنے والوں کی کثرت ہے لیکن یہ تسلیم کئیے بغیر چارہ بھی نہیں کہ اس قسم کے گندے انڈے ، بھلے کم سہی لیکن، ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کی مدد سے یہ اس قسم کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں۔
اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں کیا کچھ ہوتا ہے یہاں لکھ دوں تو مجھ پہ بین لگا دیا جائے گا۔ اگرچہ ایسی سرگرمیوں کو حکومت پاکستان کی مدد حاصل نہیں ہوتی لیکن صَرفِ نظر کا کلیہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ان کی حکومتوں سے ڈالروں کی بھیک ملتی ہے۔ اور دوسرا مسئلہ یہ بھی درپیش ہوتا ہے کہ اگر ایسی محفلیں کسی غیر ملک کے سفارتخانے کی چار دیواری کے اندر ہوتی ہیں تو بین الاقوامی قوانین کے تحت آپ ان کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈال سکتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بھلے ہی ایسی سرگرمیاں ہوتی رہیں، لیکن ہمارا میڈیا ان کو اُچھالنے میں سرفہرست ہوتا ہے۔
 

سویدا

محفلین
ہم ساری دنیا کو دوش دے دیں گے لیکن اپنی اصلاح نہیں کریں گے
اپنے عمل عقیدے اور نظریہ اور فکر کو ہم پتہ نہیں کب درست کریں گے
 

ساجد

محفلین
ہم ساری دنیا کو دوش دے دیں گے لیکن اپنی اصلاح نہیں کریں گے
اپنے عمل عقیدے اور نظریہ اور فکر کو ہم پتہ نہیں کب درست کریں گے
سویدا ، میرا خیال ہے کہ بات نفاذ یعنی Implementation کی ہے۔ عقیدہ ، نظریہ اور فکر میں خرابی نہیں ہے ، عمل میں گڑ بڑ ہے۔ لمبے لمبے بھاشن دینے کے بعد ہم "پلو سرکتے ہی ایمان ڈول جانے" کی حالت میں آ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا مذہبی طبقہ نہ صرف بد عملی اور احساس کمتری کا شکار ہے بلکہ ایک تذبذب کی کیفیت میں رہتا ہے۔ چونکہ مسلم معاشرے میں معاملات اور عبادات میں مذہب کا پہلو نمایاں خیال کیا جاتا ہے لیکن جن کا یہ کام ہے وہ اسلام کے اصولِ تدریج اور حکمت سے دوسروں تک پہنچانے کی بجائے بے صبری اور عدم برداشت کا سہارا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مذہب بیزار عناصر کو ان پہ انگلی اٹھانا آسان ہو جاتا ہے اور وہ اسی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں پہ بھی رکیک حملے کرتے ہیں۔
اسلام انسانی فلاح کے فلسفے کا دوسرا نام ہے ۔ دوزخ کی آگ سے بچا نے کی سعی سے بڑی فلاح کیا ہو گی؟۔ لیکن اس کے لئیے ہمیں حکمت ، تدریج ، استقامت اور اس برداشت کی ضرورت ہے کہ جو طائف کے بازار میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دکھائی یا پھر اس عمل کی کہ جو سر پہ کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی عیادت کی صورت میں ایک روشن مثال بنا اور پھر اس حوصلے کی جس کے تھت مکہ فتح کرنے کے بعد بھی مخالفین کو عام معافی دی گئی۔
لیکن ہمارا "اسلام" فرقہ بازی سے شروع ہوتا ہے تشدد سے نافذ ہوتا ہے اور قتل کے فتوے سے انسان کو "دنیا کے غموں" سے نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں کون ہماری بات سنے گا؟؟؟۔ یہ بات ان "گندےانڈوں" کی سمجھ میں تو آگئی اور لیکن "ناداں مبلغ" کی سمجھ نہیں آ رہی۔ وہ ابھی بھی طرز کہن پہ اڑا ہوا ہے اور نتائج سے غافل ہے کہ مسلم معاشرے اس کی اس غلطی سے بکھر چکے ہیں اور افراد اغیار کی تہذیب قبول کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔
 

سویدا

محفلین
صحیح کہا آپ نے بالکل !
میرا مقصد مذہبی طبقہ کو کچھ کہنا نہیں ہے اور نہ ہی دین پر کسی بھی طبقہ کی اجارہ داری ہے
میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں ہم کب درست ہوں گے
پہلے ہم آزادی کو بلا حدود وقیود خوش آمدید کہتے ہیں پھر اچانک ایک دم مذہبی شدت پسندی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں پھر اس کے بعد اچانک لبرل ازم
ہمارے ملک کی عوام کی تاریخ شروع سے اب تک یہی رہی ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اسلام آباد کے امريکی سفارت خانے ميں جس تقريب کے حوالے سے فورمز پر بحث کی جا رہی ہے اور جسے پاکستانی معاشرے کے خلاف ايک سازش قرار ديا جا رہا ہے، وہ سراسر بہتان اور الزام ہے۔

يہ تقريب دراصل "گلفا" نامی ايک تنظيم کی جانب سے سلسلہ وار تقاريب کے تسلسل ميں منعقد کی گئ تھی۔ يہ تنطيم امريکی حکومت اور بين الاقوامی امور سے متعلق امريکی ايجينسيوں ميں کام کرنے والے ہم جنس افراد اور ان کے خاندانوں کی نمايندگی کرتی ہے۔

حقیقت يہ ہے کہ ہر سال جون کے مہينے کو يہ تنظيم ہم جنس افراد کی معاشرے میں خدمات کے اعتراف ميں "پرائڈ منتھ" کے نام سے مناتی ہے۔

پاکستانی معاشرے کے خلاف منصوبہ بندی کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات اور کہانياں اس ليے بھی بے معنی اور غير منطقی ہیں کيونکہ "پرائڈ منتھ" کے سلسلے ميں دنيا بھر ميں امريکی سفارت خانوں ميں تقريبات کا انعقاد کيا گيا

http://estonia.usembassy.gov/pr_060311.html

http://caracas.usembassy.gov/news-e...ian-gay-bisexual-transgender-pride-month.html

http://chennai.usconsulate.gov/lgbt2011_110624.html

http://bulgaria.usembassy.gov/pr_05262011.html

میں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اسی روز اس حوالے سے خطاب بھی کيا جس ميں اس بات کو اجاگر کيا گيا کہ امريکی حکومت دنيا بھر ميں ہم جنس افراد کے حقوق کی تائيد ميں جون کے مہينے کو اس ايشو سے منسوب کرتی ہے۔

http://www.state.gov/secretary/rm/2011/06/167144.htm

دنيا بھر کے ممالک میں عوامی سطح پر سفارت کاری کے ضمن ميں قونصل خانوں اور سفارت خانوں کی اہم ذمہ داريوں میں يہ شامل ہوتا ہے کہ معاشرے کے ہر گروہ سے تعلقات استوار کيے جائيں تا کہ مختلف ثقافتوں کے مابين گفت وشنید اور بہتر آگاہی کو فروغ ديا جا سکے۔

امريکی سفارت خانے ميں ہونے والی تقريب معاشرے کے ہر طبقے کے ساتھ روادری کے اظہار کے ليے جاری عالمی سفارتی کاوشوں کا حصہ تھی۔ تقريب امريکی سفارت خانے کی چارديواری کے اندر مروجہ سفارتی قواعد وضوابط کے عين مطابق ہوئ جس ميں کسی کو بھی اس کی مرضی کے خلاف شرکت کے ليے مجبور نہيں کیا گيا۔

آخر میں يہ ثابت کرنے کے ليے کہ اسلام آباد کے سفارت خانے میں ہونے والی تقريب صرف پاکستان کے عوام کے ليے منعقد نہيں کی گئ تھی، امريکی حکومت کے مختلف اداروں میں ماہ جون کے دوران گلفا کی جانب سے منعقد کی جانے والی تقاريب کی لسٹ آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

http://mmsweb.a.state.gov/asp/notices/dn_temp.asp?Notice_ID=9677

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
"جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے"

آپ جو بھی کریں وہ "سب ٹھیک ہے"، دوسرا کوئی چُوں بھی کرے تو دہشت گردی کا لیبل لگا کر ٹھکانے لگا دیں۔
 

سویدا

محفلین
فواد صاحب امریکی ریاست کی نمائندگی کرنے والے افراد کسی نہ کسی مذہب کی تعلیمات پر تو اعتقاد رکھتے ہوں گے
ہم جنس پرستی تمام مذاہب کے نزدیک ہی تقریبا گناہ اور غلط سمجھی جاتی ہے
نشہ اور منشیات تو امریکہ کے نزدیک جرم ٹھہرا اور ہم جنس پرستی جائز اور انسانی رواداری
نشہ میں مبتلا لوگوں کو اکٹھا کرکے ان میں نشے کو مزید فروغ دینا اور ان کو تحفظ فراہم کرنا یہ کونسا انصاف ہے
 

سویدا

محفلین
نیز اگر اس قسم کی کوئی تقریب بھی تھی تو امریکہ یہ تقریب اپنے ملک میں بھی منعقد کرسکتا تھا دیگر ممالک کو اس گند میں ملوث کرنے کیا ضرورت تھی جو جو لوگ بھی اس جرم کے عادی اور مبتلا تھے انہیں امریکہ مدعو کرلیا جاتا
بھلے آپ نہ مانیں لیکن امریکہ جان بوجھ کر یہ چاہتا ہے کہ دیگر ممالک کی عوام میں اس کے خلاف رد عمل اور شدت پسندی پیدا ہو تاکہ امریکہ اپنے اہداف اور مقاصد کو پورا کرسکے

خفیہ جنگ کا کُہر...ڈاکٹرملیحہ لودھی
جون 2011ء کو امریکی صدر بارک اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جس اسٹریٹجی کا اعلان کیا وہ اپنے متن کے اعتبار سے تو کافی اہمیت کا حامل ہے لیکن درپردہ ان کا اشارہ اور عندیہ کس طرف ہے اس کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہوگا۔ اس اسٹریٹجی کا بنیادی نکتہ دراصل اس براہ راست اور اہم خطرات سے متعلق ہے جو امریکہ کو القاعدہ سے لاحق ہیں۔
19 صفحات پر مشتمل اسٹریٹجی کی اس دستاویز کو پیش کرتے ہوئے بارک اوباما کے اعلیٰ مشیر برائے انسداد دہشت گردی جان برینن کا کہنا تھا کہ امریکہ کا بہترین جارحانہ رویہ ہمیشہ ہی بیرون ملک بڑی تعداد میں افواج کی تعیناتی نہیں بلکہ فوجی دباؤ کو برقرار رکھتے ہوئے اہداف کے حصول سے متعلق رہا ہے۔ یہ فوجی دباؤ ان گروپوں کے خلاف برقرار رکھا جاتا ہے جو امریکی سلامتی کیلئے خطرہ تصور کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دو ڈھائی برس میں یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ امریکی پالیسی کسی بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے اور اب اس نے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلتوں کے بجائے اس بات کو زیادہ اہمیت اور ترجیح دینا شروع کردی ہے کہ ایسی تمام کارروائیوں کو خفیہ اور پوشیدہ رکھا جائے۔ بہرحال اسٹریٹجی کے حوالے سے کی جانے والی اس دستاویز میں اس اسٹریٹجی پر عملدرآمد کی بابت بہت ہی کم بتایا گیا ہے۔ کیا اس اسٹریٹجی پر کسی خفیہ اور پوشیدہ جنگ کا سہارا لیا جائے گا جس میں مسلح ڈرون حملے اور اسپیشل آپریشن فورسز کی کارروائیاں شامل ہوں گی؟ جان برینن نے اپنی اس دستاویز میں یہ اعتراف ضرور کیا ہے کہ ان کارروائیوں میں بغیر پائلٹ کے فضائی طیارے حصہ لیں گے جو دہشت گردی کے خطرہ کے خلاف ہمارے انوکھے ہتھیار ثابت ہوں گے۔
واشنگٹن پہلے ہی ان خفیہ ڈرون حملوں کو چھ ممالک یعنی افغانستان، پاکستان، یمن، لیبیا، عراق اور صومالیہ میں آزماچکا ہے، ان حملوں کی توسیع ان ممالک کی قومی خودمختاری کے خلاف ایک سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب ہے جو امریکہ کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اسٹریٹجی کی اس دستاویز میں ”علاقائی سیکورٹی شراکت داری“ کی تشکیل و تعمیر پر جو زور دیا گیا ہے وہ حقائق اور واقعات کو دیکھتے ہوئے کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ اسٹریٹجی میں ان خطرات، حدود اور نتائج کا بھی قطعاً کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا جو امریکہ کو ان ممالک کے خلاف خفیہ کارروائیوں کی صورت میں لاحق ہوں گے، جن کے امریکہ کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں اور جن سے امریکہ کی کوئی جنگ نہیں ہے۔ اس بات کا بھی کوئی اعتراف نہیں کیا گیا کہ اگر اس راستے پر عملدرآمد کیا گیا تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے سیکورٹی مقاصد اور اہداف میں نمایاں کمی واقع ہوجائے گی اور ان ممالک میں امریکہ کے خلاف سخت نفرت کے جذبات جنم لیں گے، جن کا تعاون القاعدہ کو ختم کرنے کی غرض سے امریکہ کو درکار ہوگا۔
ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں پر بڑھتے ہوئے انحصار نے بڑی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں کیونکہ اوباما انتظامیہ نے ان حملوں کو دیدہ و دانستہ منتخب کیا ہے اور ہائی ویلیو ٹارگٹس کی مختصر تعداد کی بجائے ان حملوں میں ڈرامائی پیمانے پر کافی توسیع کرکے بڑی تعداد میں لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اوباما انتظامیہ نے یہ منصوبہ جارج بش کی اسٹریٹجی کی جگہ لینے کی غرض سے پیش کی ہے جو اسامہ بن لادن کی وفات کے بعد منظر عام پر آیاہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یہ اسٹریٹجی انتہائی اہم اسٹریٹجک سنگ میل ہے جو القاعدہ کو شکست فاش سے دوچار کرنے کی غرض سے وضع کی گئی ہے۔ اگرچہ القاعدہ اپنی شکست کے خطرے سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی اسے ایک نمایاں خطرہ تصور کیا جاتا ہے جس کے خاتمے کی غرض سے ایسی ہدف یافتہ فورس ضروری ہے جو اس اسٹریٹجی کے عین مطابق ہو۔ جان برینن نے اسٹریٹجی دستاویز کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ القاعدہ کو شکست دینے کیلئے کسی عالمی جنگ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے مخصوص علاقوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ فی الوقت امریکہ نے اپنی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز کررکھی ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کے محفوظ ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب امریکہ کی جانب سے یکطرفہ اقدامات کرتے ہوئے ڈرون طیاروں کے میزائل حملوں میں مزید شدت پیدا کی جائے گی اور پاکستان کے قبائلی اور سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایا جائے گا جس کے سبب پہلے پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہوچکے ہیں۔
ڈرون طیاروں کے ذریعے کئے جانے والے ان حملوں پر امریکی حکومت کا بڑھتا ہوا انحصار نسبتاً ایک کم خرچ طریقہ تصور کیا جارہا ہے جس میں امریکیوں کی زندگی کو قطعی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا کیونکہ ڈرون طیارے بغیر کسی پائلٹ کے پرواز کرتے ہیں۔چونکہ اس امریکی اسٹریٹجی کا ابھی باقاعدہ طور سے کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا گیا لہٰذا اس پر بین الاقوامی قانون کا اطلاق فی الوقت نہیں ہوتا۔ حالانکہ واشنگٹن اس بات پر مصر ہے کہ اسے ان افراد کو ہدف بنانے کا قانونی حق حاصل ہے جو امریکہ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس قسم کے اہداف کو قتل کرنے کا سلسلہ سب سے پہلے اسرائیل نے شروع کیا تھا اور مقبوضہ علاقوں نیز لبنان میں کوئی تین عشروں تک وہ اس حربے پر عمل کرتا رہا تھا۔ بہرنوع وہ فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ چنانچہ اس نے اس طریقے کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ امریکہ نے خفیہ حملوں کی جو تازہ ترین اسٹریٹجی تشکیل دی ہے اس کے تین پہلو خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ان حملوں کی حدود کیا ہوں گی؟ دوم، اس کے عملی نتائج کیا ہوں گے؟ اور سوم، یہ کہ اس قسم کے حملوں کا پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات پر کیا اثر ہوگا؟ اس اسٹریٹجی میں صرف ایک ہی سمت کے بارے میں غوروفکر کیا گیا ہے یعنی کتنے عسکریت پسند اور دہشت گرد ان ڈرون حملوں میں مارے جاتے ہیں؟ اس اسٹریٹجی میں اس چیز کی بابت سوچا ہی نہیں گیا کہ اس کے نتیجے میں مزید کتنے افراد ان دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کرلیں گے؟ علاوہ اس دستاویز میں نظریاتی اور سیاسی سمت کے حل کی جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ وہ کون سے حالات ہیں جو ان دہشت گردوں کو پروان چڑھاتے ہیں؟
امریکن سی آئی اے کے ایک جائزے کے مطابق فی الوقت پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں دو سو سے لے کر تین سو کے قریب القاعدہ کے جنگجو موجود ہیں۔ اگر ایسا ہے تو 2004ء سے لے کر اب تک 257 میزائلوں کے حملے پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں پر کئے جاچکے ہیں جس کے نتیجے میں اس تحریک کے بیشتر لیڈروں اور ارکان کا خاتمہ ہوجانا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
امریکی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے یہ ڈرون حملے جنگجو نیٹ ورکس کو یہ ترغیب فراہم کریں گے کہ وہ اسے ایک مشترکہ مقصد تصور کرتے ہوئے القاعدہ سے اپنا رشتہ جوڑ لیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں سویلین افراد ہی ہلاک ہوتے رہے ہیں جن کی بنا پر القاعدہ کو اپنے مقامی اتحادیوں پر سبقت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ چنانچہ القاعدہ کو الگ تھلگ کرنے کا یہ مقصد اس کے کہُرے میں ہی پوشیدہ نہ رہ جائے؟ اس قسم کے یکطرفہ ڈرون حملے متعدد نتائج کا سبب ہوئے ہیں جن میں سے نمایاں ترین یہ ہے کہ اس طرح مقامی آبادی میں امریکی حکومت کے خلاف مخالفانہ جذبات نے جنم لیا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 62 فیصد پاکستانی باشندے ان امریکی حملوں کے خلاف ہیں جبکہ 89 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ ڈرون طیاروں کے ان حملوں میں زیادہ تر معصوم شہری مارے جاتے ہیں۔ اس ماحول اور فضا میں امریکی حکومت کے دہشت گردی کے خلاف یہ اقدامات کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے، نہ ہی اسے وہ تعاون فراہم ہوسکتا ہے جس کی وہ امید لگائے بیٹھا ہے۔ انسداد دہشت گردی صرف اور صرف اچھی اور ٹھوس انٹیلی جنس کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی۔ بہرنوع واشنگٹن نے اس اسٹریٹجی کے طویل میعاد نتائج اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو سرے سے نظرانداز کردیا ہے۔ ان تمام نتائج سے بے خبر اوباما انتظامیہ ایک ایسے راستے پر چل رہی ہے جو اس دستاویز میں بیان کئے گئے۔ اس کے اپنے الفاظ سے کافی مختلف اور متضاد ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ”ہم القاعدہ کو پاکستان کی مستقل شراکت داری کے ذریعے شکست فاش سے دوچار کریں گے“۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=541702
 

ساجد

محفلین
سفارتخانے میزبان ملک کے قوانین کے تابع ہوتے ہیں اور ان کی چار دیواری میں بھی کسی ایسی سرگرمی کو جرم شمار کیا جاتا ہے جو میزبان ملک کے قوانین کے خلاف ہو۔ یہ نکتہ اگر امریکیوں کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو تو پھر اپنی سرزمین پہ موجود سفارتخانوں میں طالبانی سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دیں۔ ان کی انسان دوستی اور قانون پرستی کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔
خدا کی پناہ کس قدر منافقت سے کام لیا جا رہا ہے اور اس پہ اصرار ہے دوستی کا ۔ کوئی اچنبھا تو نہیں اس قسم کی حرکات سے امریکیوں کے لئیے دنیا میں سفر کرنا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سفارتخانے میزبان ملک کے قوانین کے تابع ہوتے ہیں اور ان کی چار دیواری میں بھی کسی ایسی سرگرمی کو جرم شمار کیا جاتا ہے جو میزبان ملک کے قوانین کے خلاف ہو۔ یہ نکتہ اگر امریکیوں کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو تو پھر اپنی سرزمین پہ موجود سفارتخانوں میں طالبانی سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دیں۔ ان کی انسان دوستی اور قانون پرستی کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔
خدا کی پناہ کس قدر منافقت سے کام لیا جا رہا ہے اور اس پہ اصرار ہے دوستی کا ۔ کوئی اچنبھا تو نہیں اس قسم کی حرکات سے امریکیوں کے لئیے دنیا میں سفر کرنا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔


جيسا کہ ميں نے اپنی گزشتہ پوسٹ ميں نشاندہی کی تھی کہ مذکورہ تقريب امريکی سفارتی مشن کی قائم کردہ حدود کے اندر منعقد کی گئ تھی۔ يہ ايک مصدقہ اور تسلیم شدہ روايت ہے کہ سفارت خانے بیرونی ممالک میں گفت وشنید اور ميل ملاپ کے ذريعے اپنے ملک کی نمايندگی کرتے ہيں۔

اس ضمن ميں نا تو کوئ قانون توڑا گيا اور نہ ہی سفارت خانے کا مقصد نفرت يا تشدد کی فضا پيدا کرنا تھا۔

جيسا کہ ميں نے واضح کيا تھا کہ کئ ممالک میں امريکی سفارت خانوں نے اسی قسم کی تقاريب منعقد کی تھيں۔ حکومت پاکستان سميت کسی بھی ملک کی جانب سے سرکاری سطح پر نہ تو کوئ اعتراض کيا گيا اور نہ ہی سرکاری چينلز سے کو‏ئ احتجاج موصول ہوا۔

ميں نہيں سمجھ سکا کہ امريکہ ميں "طالبانی سرگرميوں" کی اجازت دينے سے آپ کی کيا مراد ہے کيونکہ امريکہ نے تو کبھی بھی سرکاری طور پر نہ تو طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا اور نہ ہی سرکاری طور پر طالبان کی امريکہ میں کوئ نمايندگی تھی۔ البتہ يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ واشنگٹن ميں پاکستانی سفارت خانے سميت دیگر کئ ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے تواتر کے ساتھ ايسی تقريبات کا انعقاد کرتے رہتے ہيں جن کا مقصد اپنی مخصوص ثقافتی اور سياسی ترجيحات اور سوچ کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

ممالک کے مابين سفارتی تعلقات سے متعلق عالمی قوانين اس بات کی اجازت ديتے ہیں کہ سفارت خانے ان تقريبات کا انعقاد کر سکیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شعیب صفدر

محفلین
اس معاملے پر اوریا مقبول جان کا کل ینی 6 جولائی 2011 کے ایکپریس میں شائع کالم
1101280380-2.gif
 

ساجد

محفلین
اصل پیغام ارسال کردہ:فواد
ميں نہيں سمجھ سکا کہ امريکہ ميں "طالبانی سرگرميوں" کی اجازت دينے سے آپ کی کيا مراد ہے کيونکہ امريکہ نے تو کبھی بھی سرکاری طور پر نہ تو طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا اور نہ ہی سرکاری طور پر طالبان کی امريکہ میں کوئ نمايندگی تھی۔ البتہ يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ واشنگٹن ميں پاکستانی سفارت خانے سميت دیگر کئ ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے تواتر کے ساتھ ايسی تقريبات کا انعقاد کرتے رہتے ہيں جن کا مقصد اپنی مخصوص ثقافتی اور سياسی ترجيحات اور سوچ کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
تو کیا پاکستان نے ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دے رکھی ہے ؟؟؟۔اور کیا پاکستان میں ان "گندے انڈوں" کی سرکاری طور پہ کوئی نمائندگی ہے؟؟؟۔ پھر کس بنیاد پہ یہ حرکت کی گئی۔ امریکہ ہم جنس پرستی کو اپنا کلچر خیال کرتا ہے تو اسے اپنے معاشرہ تک محدود رکھے۔ کسی اخلاقی و الہامی قانون میں یہ جائز نہیں ہے۔ یہ شیطان کے چیلوں کا کارنامہ ہے کہ اسے بنیادی انسانی حقوٖق میں شامل کرتے ہیں۔ عہد نامہ قدیم اور جدید میں اس کی سخت ممانعت ہے۔ قرآن میں اس مکروہ فعل کو گناہ کہا گیا اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی وکٹوریہ نولند، کمال ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ “We will speak out for what we think is right anywhere in the world, including Pakistan,” State Department spokesperson Victoria Nuland said while responding to a question about anti-US demonstrations across Pakistan protesting the event.
۔ اگر امریکی اپنا گند ہر حالت میں طاقت کے بل پہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں تو پھر دوسرے بھی اس کا بات کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ اسے اپنے معاشرے میں سرپرستی سے روکنے کے لئیے تمام دستیاب وسائل سے استفادہ کریں۔
یہ محترمہ اس قبیح فعل کو انسانی حقوق سے کچھ یوں بھی تعبیر کر رہی ہیں۔ “I think you know how strongly this (State) Department and Secretary Clinton feels about these issues, that gay rights are human rights and human rights are gay rights, and that we will speak out for what we think is right anywhere in the world, including Pakistan,” the spokesperson added.۔
مکمل یہاں پڑھیں۔http://nation.com.pk/pakistan-news-.../07-Jul-2011/No-Pak-protest-over-gay-event-US
 
Top