السلام علیکم !
معاف کیجیے گا اس آیت سے جو مفھوم آپ نے لیا ہے وہ سراسر نظم قرآن کے مخالف ہے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گی کہ نہ صرف نظم قرآن کے مخالف ہے بلکہ اعجاز قرآن کے بھی مخالف ہے کیونکہ اس آیت میں صراحتا ایک ایسی چیز کی مشروعیت کا اعلان کیا جارہا ہے جو کہ امت عیسوی کی اپنی ایجاد کردہ تھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم نہیں تھا اور اسی سے آپ لوگوں کے بیان کردہ قاعدہ بدعت کی نفی بھی ہوتی ہے اور یہ آیت صاف اعلان کررہی کہ جو چیز امت عیسوی نے خود ایجاد کی تھی اور اس پر جتنے لوگوں نے اخلاص کے ساتھ عمل کیا تھا اللہ پاک نے ان کو اس کا اجر بھی دیا اور معاف کیجیے گا بدعت سئیہ پر کوئی اجر تو درکنار خود اس کا وجود ہی اسلام کے لیے خطرناک ہے۔آیت میں رھبانیت کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اس کی فرضیت کی نفی کی گئی ہے جیسا کہ ماکتبنھا کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے آپ دیکھیے آیت کے الفاظ کیسے واشگاف انداز میں ہمارے مقصود کا اعلان کررہے ہیں۔۔ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میںرہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔
فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔
تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔
فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھمکےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
وعلیکم السلام۔
میری نظر ابھی کل ہی پڑی ہے اس پوسٹ پر۔ کوشش کروں گا کہ وقت نکال کر وقفہ وقفہ سے جواب دوں۔
ویسے درج بالا اقتباس کا جواب حاضر ہے۔
درج بالا اقتباس چنچل صاحبہ کی اپنی تحریر نہیں ہے۔ اگر گوگل سرچ کر لیں تو مزید دو تین فورمز پر یہی تحریر لفظ بہ لفظ آپ کو مل جائے گی۔ مسعود صاحب کے فورم "پیغام" پر جناب "آبی ٹو کول" صاحب کے قلم سے راقم نے یہی تحریر پڑھی تو اصل تحریر کے بارے میں دریافت کیا تھا
یہاں اپنے ایک جواب میں آبی ٹو کول صاحب نے اعتراف فرمایا ہے کہ اس تحریر کا زیادہ تر حصہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی کتاب "کتاب البدعة" سے ماخوذ ہے۔
تو قارئین ، واضح ہو کہ درج بالا (اقتباس) تشریح ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ہے۔ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ کون اس تشریح سے اتفاق کرتا ہے اور کون اختلاف۔
ہماری غرض تو صرف اتنی ہے کہ اس تشریح کو بھی سامنے لائیں جو معروف مفسرین سے ماخوذ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید
ترجمہ۔پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
ذیل کی ساری بحث سورہ الحدید کی آیت نمبر 27 پر مبنی ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نے اس آیت کو "بدعت" کے خلاف پیش کیا ہے ، مگر مقالہ نگار کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اجماع کو یکسر نظرانداز کر کے اجماع کے عین مخالف راہ کو منتخب کیا ہے۔ راقم کے علم اور مطالعے کے مطابق ، تقریباً یہی تشریح ، ایک مکتبِ فکر کی مشہور کتاب "
جاءالحق" میں
مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی نے عرصہ قبل کی تھی اور جس کے جواب میں کئی علماء کرام نے مختلف کتابوں میں اس غلط تفسیر/تشریح کی نشاندہی کر رکھی ہے۔
بہرحال ہمارا سب سے پہلا اعتراض تو آیت کے ترجمہ پر ہے جو یوں کیا گیا ہے:
پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاں مگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ "
جملہ تقاضوں" کے الفاظ جس قرآنی الفاظ کا ترجمہ ہیں ان کی نشاندہی کی جائے ورنہ خطرہ ہے قرآن کے ترجمے میں تحریفِ معنوی کا الزام سر نہ آ جائے۔
ہم ذیل میں مختلف مکاتبِ فکر کے پانچ اردو ترجمے پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو بھی کچھ اندازہ ہو کہ کس طرح من مانے ترجمے کے ذریعے اپنے موقف کی تائید میں تحریفِ معنوی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
( سورة الحديد : 57 ، آیت : 27 )
احمد رضا خان فاضل بریلوی
پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیروؤں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے الله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں
محمود الحسن دیوبندی
پھر پیچھے بھیجے اُن کے قدموں پر اپنے رسول ، اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ، مریم کے بیٹے کو اور اس کو ہم نے دی انجیل ، اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی ، اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی ، ہم نے نہیں لکھا تھا یہ اُن پر ، مگر کیا چاہنے کو اللہ کی رضامندی ، پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا ، پھر دیا ہم نے اُن لوگوں کو جو اُن میں ایماندار تھے اُن کا بدلہ اور بہت اُن میں نافرمان ہیں
فتح محمد جالندھری
پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریم (ع) کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی۔ اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیئے تھا نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں
سید مودودی
ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے ، اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم (ع) کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی ، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا۔ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی ، ہم نے اُسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا ، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
محمد جوناگڑھی
ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پےدرپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ہاں رہبانیت (ترکِ دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی ، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔
===
فاضل مقالہ نگار کے ترجمہ اور تشریح پر اعتراض تو بعد میں کیا جائے گا ۔۔۔ فی الحال ہم اس تناقض کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو الفاظ کی ہیرا پھیری میں چھپایا گیا ہے۔
کہا گیا ہے کہ :
اللہ تعالیٰ نے مبتدعین کو اجر و ثواب دیا۔
سوال یہ ہے کہ انہیں کس چیز کا اجر ملا؟ بدعت کی ایجاد پر یا بدعت پر عمل کرنے پر؟ مقالہ میں تو لکھا ہے کہ بدعت پر عمل کرنے کا اجر دیا گیا۔
حالانکہ قرآن کی اسی آیت کی تشریح کے ذیل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ : اس بدعت (رھبانیت) پر تو انہوں نے عمل ہی نہیں کیا جیسا کہ آپ خود
احمد رضا خان فاضل بریلوی کے ترجمہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ :
پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا
اس کے باوجود مقالہ نگار کی ضد ہے کہ مبتدعین کو اجر ملا ہے۔ تو اسی آیت کے آخر میں جو اللہ تعالیٰ نے
وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
کہہ کر مذمت کی ہے وہ کن لوگوں کے متعلق ہے؟ کیونکہ فسق کا فتویٰ تو کسی دین کے فرض اور واجب رکن کے ترک پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ خود اسی مکتبِ فکر کے علماء نے لکھا ہے کہ
بدعات کے ساتھ فرض و واجب کا سا معاملہ کرنا بدعتِ سئیہ ہے۔
(بحوالہ : شرح صحیح مسلم ۔ غلام رسول سعیدی)۔
لہذا ثابت ہوا کہ مبتدعین کو اجر ملنے کا جو مفہوم پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مرضی کا خودساختہ مفہوم ہے ، آیت کا سیاق و سباق تو ایسے مفہوم کی قطعاً تائید نہیں کرتا۔
درحقیقت ۔۔۔ اجر ملنے کی جو بات آیتِ مقدسہ کے درج ذیل ٹکڑے میں کی گئی ہے :
فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ
مفسرین کرام کے مطابق ، اس کا تعلق "ابتدعوھا" سے نہیں بلکہ
وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ
سے ہے۔ اور آیتِ قرآنی کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خالص اتباع کی اور دینِ عیسوی پر چلے اور نیک اعمال بجا لائے اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کر کے ایمان والوں میں شامل ہوئے ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اجر سے نوازا۔ مکمل تفصیل و تشریح کے لیے "تفسیر ابن کثیر" ملاحظہ فرمائیں۔
آیتِ قرآنی کے اس مفہوم کی تائید میں لیجئے ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔
قرآن میں ایک دوسرے مقام پر بھی فرمایا گیا ہے :
سب ایک سے نہیں کتابیوں میں ، کچھ وہ ہیں کہ حق پر قائم ہیں اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں رات کی گھڑیوں میں اور سجدہ کرتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں، اور یہ لوگ لائق ہیں
(سورہ آل عمران ، 113 اور 114)۔ (ترجمہ : احمد رضا خان فاضل بریلوی)۔
اور یہی مضمون سورہ الحدید کی اگلی آیت (2
میں بیان ہوا ہے کہ اگر تم محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لاؤ گے تو دوہرا اجر پاؤ گے ، ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا اور دوسرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کرنے کا۔ اس آیت کی تفسیر میں امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہلِ کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا ۔۔۔۔
(بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب العلم ، باب تعلیم الرجل امتہ و اھلہ)۔
تمام مفسرین کرام نے "
اجرھم" کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ ۔۔۔
اجر ان لوگوں کو ملا جو دینِ عیسوی پر قائم رہے نہ کہ متدعین کو۔
احناف کی دو تفسیروں سے اسی حقیقت کا ثبوت ملاحظہ کیجئے :
يريد : أهل الرحمة والرأفة الذين اتبعوا عيسى
اجر ان لوگوں کو ملا جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمت و رافت ڈالی تھی جو عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے تھے
تفسیر الکشاف (علامہ زمخشری)
ج:4 ، ص:382
أي أهل الرأفة والرحمة الذين اتبعوا عيسى عليه السلام و الذين آمنوا بمحمد صلى الله عليه وسلّم
اجر ان لوگوں کو ملا جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمت و رافت ڈالی تھی اور دینِ عیسوی کے متبع تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے
تفسیر مدارک التنزیل (علامہ نسفی حنفی)
ج:6 ، ص:225
شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔
درج بالا اقتباس میں یہ وضاحت مطلوب ہے کہ : سورہ الحدید کی متذکرہ آیت سے کیسے یا کس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ رہبانیت کو اللہ تعالیٰ نے سند قبولیت سے نوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی؟
آخر کس مفسر نے ایسا فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت والی "بدعت" کو سند قبولیت سے نوازا؟
ہاں ، اگر قرآن کی من مانی تشریح کرنا ہی مقصود ہے تو پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہاں پر صرف وہ حدیث یاد دلانا کافی ہوگا جس میں : قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی تفسیر ۔۔۔
ابن کثیر ، فتح القدیر، قرطبی ، جلالین ، طبری ، بغوی ، مجاہد ، ابن ابی حاتم ، مقاتل ، خازن ۔۔۔وغیرہ دیکھ لیں ، کسی میں بھی ایسا قطعاً دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت والی "بدعت" کو سند قبولیت سے نوازا ہو !
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ثبوت دیجئے ورنہ من مانی تشریح سے اللہ کے لیے باز آ جائیے۔
آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ مفسرین حضرات نے رہبانیت کی اس بدعت کے متعلق کیا فرمایا ہے؟
حوالہ : 1
اللہ تعالیٰ کے فرمان :
إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ
میں دو قول ہیں۔
اول : اس بدعت سے ان کا مقصود رضائے الٰہی تھا۔
دوم : ہم نے ان پر اسے (بدعت کو) واجب نہ کیا تھا بلکہ فرض تو ان پر رضائے الٰہی کا حصول تھا۔
حوالہ :
تفسیر ابن کثیر ، جلد:5 ، ص:509 اور تفسیر طبری بحوالہ متذکرہ آیۃ۔
دوسرے معنی کو تسلیم کیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ رہبانیت والی بدعت کی نکیر کی جا رہی ہے اور جو اصل فرض (شریعتِ حقہ پر چل کر رضائے الٰہی کا حصول) ہے اس کو بیان کیا جا رہا ہے۔
اگر بالفرض مفسرین کے بیان کردہ اس دوسرے معنی کو نہ مانا جائے تب بھی یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بدعت (رھبانیت) کو سندِ قبولیت عطا کی ہو۔ بلکہ تمام مفسرین کے مطابق یہاں اس آیت میں مبتدعین کے دلی خیال اور ایجادِ بدعت کی وجہ اور دین میں اختراعات کا پسِ منظر بیان کیا جا رہا ہے کہ شریعت سازی میں ان کی نیت فقط رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ (مکمل تفصیل کے لیے "تفسیر ابن کثیر" ملاحظہ فرمائیں)۔
اور یہ اعتراف تو ہم بھی کریں گے کہ مبتدعین کے عوام سادہ لوح ہوتے ہیں ، وہ ان بدعات کو "دین" سمجھ کر کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصود اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔
اور یہیں سے ہمارا اصولی اور بنیادی اختلاف شروع ہوتا ہے۔
حوالہ : 2
رهبانية { ابتَدَعُوهَا } أي أخرجوها من عند أنفسهم ونذروها
رهبانية ابتَدَعُوهَا کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے (دین میں چند چیزیں) نکالیں ااور ان کی نذر و منت مانگی۔
حوالہ :
تفسیر مدارک التنزیل (علامہ نسفی حنفی) ، ج:6 ، ص:225۔
اس تفسیر سے یہ بات ثابت ہوئی کہ انہوں نے جان کو مشقت میں ڈال کر عبادت کرنے کی ایک ایسی نذر مانی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا اور جان کو مشقت میں ڈالنے والی نذر ماننا "بدعت" ہے اور اس کے کرنے سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اپنی جانوں پر سختی مت کرو ورنہ تم پر بھی سختی ہوگی کیونکہ بعض لوگوں نے سختی کی تھی اپنی جانوں پر تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی ، تو یہ سختی ان کی نشانیوں میں سے باقی ہے ان کے گرجاؤں اور عبادت خانوں میں ، رہبانیت جو انہوں نے خود ایجاد کی جس کو ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔
ابو داؤد ، كتاب الادب ، باب : في الحسد ، حدیث : 4906
اس حدیث نے آیت قرآنی کا مفہوم واضح کر دیا کہ تکالیف شاقہ کی نذر ماننے کی انہوں نے جو بدعت ایجاد کی تھی ، بانیِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اور تو اور ۔۔۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے سختی نہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 185 )
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
تمہارے دین میں اس (اللہ) نے تنگی نہیں کی
( سورة الحج : 22 ، آیت : 78 )
الغرض سابقہ امتوں کے مبتدعین کے بدعی اعمال کے نقش قدم پر چلنے سے اللہ تعالیٰ اور رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے۔
اور منع فرمانے کے باوجود جو شخص ان کی پیروی کرے اور ان کے عمل سے حجت لائے گا وہ نادان ، جاہل اور گمراہ ہوگا ، العیاذباللہ۔
وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔
اس اقتباس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شریعت میں مداخلت کی اجازتِ عام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا : کیا عقائد یا عبادات میں کچھ چیزیں ایسی بھی چھوٹ گئی ہیں جو قرون ثلاثہ میں تو نہ رہیں مگر اب ہمیں ان کو شریعت میں داخل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟؟
اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ عبادات اور عقائد کے کچھ معاملات کھلے چھوڑ دئے گئے ہیں تاکہ بعد کی نسلیں ان میں اضافہ کر سکیں؟؟
کیا ایسی تشریح قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟؟
اس کا ایک دوسرا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ ہمیں قرون ثلاثہ کی عظیم ہستیوں پر اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
عبادت کے جس کسی طریقے کو آج ہم مستحسن سمجھ کر نیک نیتی سے شریعت میں داخل کر لیں تو کیا یہی طریقہ صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین کو نہیں سوجھا ہوگا؟؟
حالانکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن میں فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا (سورہ الذاریات)۔ تو کیا قرآن کو سب سے زیادہ بہتر جاننے والی قرون ثلاثہ کی عظیم و مبارک ہستیاں عبادت کے ایک ایک چھوٹے سے چھوٹے طریقہ کو نہیں جانتی تھیں؟؟ کیا کوئی ایک طریقۂ عبادت ایسا بھی چھوٹ گیا ہے کہ چودہ سو سال بعد ہمیں اس کا خیال آیا ہو؟؟
ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جو ایسا خیال بھی دل میں لائیں۔
اور اللہ ہی ہم تمام کو ہدایت دینے والا ہے !!
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔