اسلام اور تصوف

شاکرالقادری

لائبریرین
باذوق نے کہا:
شاکرالقادری نے کہا:
تصوف کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں یہ ثابت شدہ ہے ۘ یہ الگ بات کہ آپ کو لفظ تصوف پر اعتراض ہو کہ یہ موجود نہیں تھا ورنہ ‌‌‌‌‌‌ اور خیرالقرون میں وہی شے ہی تو موجود تھی البتہ اب مفقود ہوتی جا رہی ہے۔
جہاں تک اقوال رجال کی بات ہے تو یاد رکھئے کہ صحابہ، تابعین تبع تابعین اور دیگر صالحین سب رجال ہی تو ہیں کوئی ملائکہ نہیں ہیں اور احادیث کا ذخیرہ انہی رجال کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے لہذا اقوال رجال کہہ کر اتنی آسانی سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی
تصوف جس شے کا نام ہے اور علما نے اس کی جو تعریف کی ہے وہ شے قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے
کیا قرآن و حدیث میں ایسا کہیں لکھا ہے کہ : علماء کی بیان کردہ تعریف ہی عین اسلام کی تعریف ہے ؟
!

عجب مضحکہ خیزی ہے حضرت
قرآن کا موقف ہے کہ
کیا علما اور غیر علما برابر ہو سکتے ہیں
اور
اگر تمہیں علم نہ ہو تو علما سے پوچھ لیا کرو
علماء کی متعین کردہ تعریف کا درست ہونا انہی دو باتوں سے ثابت ہے
اور یہ کیسا سوال کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔۔
یہ تو بالکل اسی طرح ہے
جیسے میں یہ سوال کر دوں کہ
کیا قرآن اور حدیث میں لکھا ہے کہ ایک صاحب ہونگے "باذوق" جو وہ کہیں گے وہی درست ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت جب آپ کو یزید کی حمایت کرنا ہوتی ہے تو آپ امام غزالی کا حوالہ دیتے ہیں اور جب تصوف کا معاملہ درپیش ہو تو آپ غزالی کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے ۔ آپ علما ء کا سہارا بھی لیتے ہیں اور علماء کو رد بھی کرتے ہیں آخر آپ کے ہاں کو معیار تو ہونا چاہیے
 

قیصرانی

لائبریرین
باذوق نے کہا:
دوسرا ربط : جاوید احمد غامدی کے بارے میں کون نہیں جانتا ؟ آپ موجودہ دور میں منکرینِ حدیث کے سرخیلِ اول ہیں ۔
میں‌نے ایک بار غامدی صاحب کی سائٹ کو بھی دیکھا تھا۔ ان کے ایک مضمون پر کچھ اہل حدیث حضرات نے بلا وجہ اعتراضات لگائے تھے اور بہت تند و تلخ بلکہ رکیک حملے کیے تھے۔ لیکن غامدی صاحب نے بہت آرام سے جواب دیا۔ جس سے مجھے لگا کہ غامدی صاحب درست ہوں یا نہ ہوں، لیکن ان کے مخالف ضرور غلطی پر تھے(مغنیہ اور اس کے کچھ مترادفات کے معنوں میں)

براہ کرم یہ میں یہاں کسی دوست کی حمایت یا مخالف نہیں‌ کر رہا۔ اپنا تجربہ بتایا ہے

اب اس پر بحث مت شروع کیجئے گا
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

حضرات یہ گفتگو تصوف کے موضوع پر شروع ہوئی تھی۔ میں آپ کی علمیت کا معترف ہوں۔ براہ کرم موضوع سے مت ہٹیں۔

والسلام
 

باذوق

محفلین
اجماعِ صحابہ

شاکرالقادری نے کہا:
عجب مضحکہ خیزی ہے حضرت
قرآن کا موقف ہے کہ
کیا علما اور غیر علما برابر ہو سکتے ہیں
اور
اگر تمہیں علم نہ ہو تو علما سے پوچھ لیا کرو
علماء کی متعین کردہ تعریف کا درست ہونا انہی دو باتوں سے ثابت ہے
اور یہ کیسا سوال کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔۔
یہ تو بالکل اسی طرح ہے
جیسے میں یہ سوال کر دوں کہ
کیا قرآن اور حدیث میں لکھا ہے کہ ایک صاحب ہونگے "باذوق" جو وہ کہیں گے وہی درست ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت جب آپ کو یزید کی حمایت کرنا ہوتی ہے تو آپ امام غزالی کا حوالہ دیتے ہیں اور جب تصوف کا معاملہ درپیش ہو تو آپ غزالی کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے ۔ آپ علما ء کا سہارا بھی لیتے ہیں اور علماء کو رد بھی کرتے ہیں آخر آپ کے ہاں کو معیار تو ہونا چاہیے
ہاں ! بےشک ایک معیار ہے ۔
لیکن پہلے اتنا جان لیجئے ۔۔۔ مگر میں کیوں بتاؤں ۔۔۔ یہ تو سب ہی کو پتا ہے کہ قرآن میں دو طرح کے علماء کا بیان ہوا ہے ۔ ایک علماء حق اور دوسرے علماء سوء ۔
اور دوسری اہم بات یہ کہ اہل سنت و الجماعت مسلمانوں کے نزدیک صرف نبی معصوم ہوتا ہے باقی ہر کسی سے خطا ممکن ہے چاہے وہ ائمہ دین ہوں یا صحابہ کرام ۔ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اور ائمہ دین رحمہم اللہ عنہم کی تمام تر عزت و فضیلت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ) ۔
سورہ التوبہ کی آیت نمبر 31 میں ان علماء کا بیان ہے جو اپنی طرف سے حرام و حلال کی شریعت نافذ کرتے ہیں ، اس کی تفسیر صحیح ترمذی للالبانی میں بیان ہوئی ہے ، دیکھ لیں ۔ اور صحیح بخاری کی کتاب الاعتصام والی ایک حدیث میں رسول اللہ (ص) کا فرمان ہے کہ ایسے لوگ اپنی رائے سے فتویٰ دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔

کسی بھی بات ، فلسفے یا نظریے کو حق ثابت کرنے کے لیے دین کے چار اصول ہیں : قرآن ، حدیث ، اجماع اور شرعی قیاس ۔
اجماع و شرعی قیاس ۔۔۔ کا ذکر خود قرآن و حدیث میں ملتا ہے ۔۔۔ لہذا عموماََ دو ہی اصولوں کا ذکر کیا جاتا ہے ، یعنی : قرآن اور حدیث !
ہمارے زمانے کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ اجماع کو وہ چند علماء و ائمہ کی مشترکہ و مجموعی تشریحات سمجھ بیٹھے ہیں ۔
حالانکہ عبادات و عقائد کے معاملے میں وہی اجماع قابلِ قبول ہے جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہو ۔ رسول اللہ کے جان نثار صحابہ کو قرآن السابقون الاولون کا خطاب دیتا ہے ۔۔۔ یعنی دین کے ہر معاملے میں اول سبقت کرنے والے ۔
لہذا ہمارے نزدیک صحابہ کا اجماع حجت ہونا چاہئے ۔ اور یہی معیار ہے قرآن اور حدیث کی کسوٹی کے بعد ۔

تصوف کو منجانب اللہ و رسول ۔۔۔ جو لوگ ثابت کرنے کے درپے ہیں ۔۔۔ یہ ذمہ داری انہی کی ہے کہ وہ قرآن و سنت یا پھر اجماعِ صحابہ سے اس کو ثابت کریں ۔۔۔ اور جو لوگ اس فلسفے سے اختلاف کرتے ہیں ان سے خواہ مخواہ کی کج بحثی ۔۔۔ لایعنی امر ہے ۔

اور محترم شاکر صاحب ، جہاں تک یزید اور امام غزالی رحمہ اللہ کی بات ہے ۔۔۔ اس کا جواب میں وہیں دوں گا جہاں دینا مَیں ضروری سمجھتا ہوں یعنی وہی : محرم کے بلاگ پر !
 

باذوق

محفلین
جاوید احمد غامدی

قیصرانی نے کہا:
میں‌نے ایک بار غامدی صاحب کی سائٹ کو بھی دیکھا تھا۔ ان کے ایک مضمون پر کچھ اہل حدیث حضرات نے بلا وجہ اعتراضات لگائے تھے اور بہت تند و تلخ بلکہ رکیک حملے کیے تھے۔ لیکن غامدی صاحب نے بہت آرام سے جواب دیا۔ جس سے مجھے لگا کہ غامدی صاحب درست ہوں یا نہ ہوں، لیکن ان کے مخالف ضرور غلطی پر تھے(مغنیہ اور اس کے کچھ مترادفات کے معنوں میں)

براہ کرم یہ میں یہاں کسی دوست کی حمایت یا مخالف نہیں‌ کر رہا۔ اپنا تجربہ بتایا ہے

اب اس پر بحث مت شروع کیجئے گا
جاوید احمد غامدی صاحب کی علمی شخصیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ 100 فیصد حق نہ تو غامدی صاحب کی تشریحات میں مخفی ہے ، نہ طاہر القادری صاحب کی تحقیق میں اور نہ ہی کسی اہل حدیث عالم کی کتاب یا بیان میں ۔

اس کی ایک مثال علامہ البانی کی لے لیجئے ۔ (آپ کا تعارف یہاں پ۔ڈ۔ف فائل کی شکل میں ہے)۔ البانی رحمہ اللہ دورِ حاضر کے محدث مانے جاتے ہیں ۔ پھر بھی خواتین کے چہرے کے پردے کے بارے میں احادیث کی تشریح میں آپ سے چوک ہوئی ہے (اور بدقسمتی سے اسی چوک کو ڈاکٹر ذاکر نائک بھی دہراتے ہیں) ۔ جبکہ مولانا مودودی اور مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہم اللہ کا موقف چہرے کے پردے کے وجوب میں مضبوط دلائل سے آراستہ ہے ۔
اب ظاہر ہے جب تک ہم کسی معاملے میں تمام ہی آراء و تشریحات سے واقف نہ ہوں اپنا کوئی ذاتی حتمی فیصلہ نہ تو قائم کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو دوسروں پر مسلط کر سکتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ خاکسار ۔۔۔ ہر فلسفے یا نظریے کے دوسرے تیسرے رخ کو بھی سامنے لانے پر کمربستہ رہتا ہے ۔ کیا اس میں کوئی بری بات ہے ؟؟ :roll:
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی ماشاءاللہ کافی اچھے معاملات پر آپ نے بات شروع کی ہے۔ تصوف ایک ایسا موضوع ہے جس کے گرد کافی اوہام اور غلط معلومات کا ہالہ پڑا ہوا ہے اور عمومی طور پر صرف سنی سنائی باتوں پر نظریات و اعتقادات قائم کر لئیے جاتے ہیں۔ یہ طریق یقیناً غلط ہے اور اس میں گمراہی کا احتمال بہت زیادہ ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ کسی بھی چیز کے دینی طور پر مستند ہونے کی دلیل قرآن و سنت، اصحاب رسول صل اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور پھر اکابرین امت کے اقوال و اعمال سے لانی چاہئیے۔ اگر کوئی بھی طریق یا نظریہ اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے تو حسن ہے وگرنہ کفر ہے اور باطل ہے۔ اس تمہید کے بعد گزارش یہ کرنا چاہوں گا کہ پہلے تصوف کی ایک تعریف مقرر کر لی جائے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کی تصوف کی تعریف کلیتاً مختلف ہو اس تعریف سے جو بھائی شاکر کرتے ہیں اور یہی اختلاف تمام تر الجھاؤ کا باعث بن رہا ہو۔ تو میرے خیال میں پہلے تو یہ بات متعین کر لی جائے کہ تصوف سے ہماری کیا مراد ہے اور پھر بات کو آگے بڑھایا جائے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
 
حیرت ہے۔ جو موضوع ہے۔ بات اُس کے بارے میں صحیح ہو ہی نہیں رہی۔ چاہیے تھا کہ حامی و مخالف پہلے اپنی اپنی تعریف پیش کرتے۔ پھر اُس تعریف کو قرآن و حدیث سے پرکھا جاتا کہ آیا تصوف صحیح ہے یا نہیں۔
محترم شاکرالقادری صاحب نے تعریف پیش کی۔ اگر تعریف صحیح ہے پھر تو تصوف صحیح ہے اور اگر غلط ہے تو مخالفین کو اِس تعریف کا رد کرنا چاہیے دلائل سے۔
محترم رضا صاحب نے چند امیجز پوسٹ کیئے۔ اگر وہاں تصوف کی تعریف صحیح ہے تو پھر تصوف تو ٹھیک ہے۔ اگر وہاں تعریف غلط ہے تو پھر مخالفین کو اُس کا رد کرنا چاہیے دلائل سے۔
جناب باذوق صاحب سے گزارش ہے کہ آپ چونکہ اس کے خلاف بات کر رہے ہیں اس لئے آپ تصوف کی تعریف پیش کیجئے۔ اور پھر صرف چند احادیث وغیرہ۔ تاکہ صحیح رد ہو۔
یہ تو کوئی اصول ہی نہیں کہ جو بات یا لفظ قرآن و حدیث میں موجود نہیں صرف اس کو بنیاد بنا کر کسی چیز کو غلط کہا جائے۔ اگر ایسی بات ہے تو ابھی میں مثالیں یہاں لکھتا ہوں جو ہر طبقہ فکر کے نزدیک جائز ہیں مگر قرآن و حدیث سے ثبوت نکال کر دیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اگر لفظ "تصوف" پر اعتراض ہے کہ یہ قرآن و سنت اور دور صحابہ سے ثابت نہیں تو اس لفظ کا ثابت ہونا کوئی ضروری نہیں ۔
تاہم ابو محمد جعفر بن احمد بن حسین السراج﴿متوفی :500ھ﴾ نے "مصارع العشاق" میں امیر معاویہ﴿رض﴾ کا ایک خط نقل کیا ہے جو انہوں نے گورنر مدینہ کے نام لکھا جس میں انہوں نے یہ شعر لکھا تھا:
قد کنت تشبہ صوفیالہ کتب
من الفرائض او آیات فرقان
چنانچہ دور صحابہ میں ایک گروہ کا صوفیا کے نام سے مشہور ہوناا ثابت ہو ہی جاتا ہے لیکن ہمارا کہنا ہے کہ لفط تصوف یا صوفی کا ثابت
ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا
بلکہ
ثابت ہونا ضروری ہے
اس طرز عمل کا جس کا نام" تصوف" رکھا گیا ہے یا جسے تصوف کہتے ہیں
اور میں نے بار ہا کہا ہے کہ یہ طرز عمل جس کا نام تصوف ہے اس کی تعریفیں علما متعین کر چکے ہیں اور علما ہی کا کہنا ہے کہ یہ طرز عمل خالص اسلامی ہے۔
یہاں ایک اقتباس نقل کرتا ہوں:

" اگر چہ یہ تمام تعریفیں جامع ہیں لیکن ہمارےے نزدیک تصوف کی سب سے جامع تعریف یہ ہے:
"ھو علم تعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق و تعمیر الظاہر والباطن لنسیل السعادۃ الابدیۃ"
ترجمہ :
یہ وہ علم ہے جس سے سعادت ابدی کے حصول کی خاطر تزکیہ نفوس تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر﴿ یعنی اس کی اصلاح ﴾ کے احوال جانے جاتے ہیں
﴿مطالعہ تصوف: قرآن و سنت کی روشنی میں، مرتبہ ڈاکٹر غلام قادر لون، دوست ایسوسی ایٹس لاہور صفحہ61﴾

اب بتایئے کہ : کونسی چیز اس میں ایسی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں
تزکیہ نفس ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ قدافلح من تزکی
تصفیہ اخلاق ۔۔۔۔۔؟ قولوا للناس حسنا
یا ظاہر و باطن کی تعمیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آخر ایسی کونسی شے ہے جو ہمیں قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کے لیے آپ کہہ رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اجماعِ صحابہ

باذوق نے کہا:
اور محترم شاکر صاحب ، جہاں تک یزید اور امام غزالی رحمہ اللہ کی بات ہے ۔۔۔ اس کا جواب میں وہیں دوں گا جہاں دینا مَیں ضروری سمجھتا ہوں یعنی وہی : محرم کے بلاگ پر !
محترم سچائی سچائی ہوتی ہے
ہر میدان میں اور ہر مقام پر
اس کے لیے کسی کمین گاہ ، مورچے یا گھات کی ضرورت نہیں ہوتی
اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی
اس بات سے
کہ میں خانوادہ رسول کے دشمنوں کی حمایت میں کوئی بات یا دلیل سننے کے لیے آمادگی کا اظہار بھی کروں
کیونکہ میرے نذدیگ
یزید کے حق میں کوئی دلیل سننے پر آمادہ ہوناہی اس بات کی علامت ہے گویا ہمیں حسین کی حقانیت میں کوئی شک ہے
اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی ہر ایسی کمین گاہ، مورچے اور گھات سے
کہ جن کے ذریعہ الہہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کو کمک پہنچائی جاتی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یزید کوزبردستی جنت میں گھسیٹنے والے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنت کی سرداری تو حسن و حسین کے پاس ہے وہ یزید وہاں کیسے گھسیٹ کر لے جا سکتے ہیں ۔
 

باذوق

محفلین
اجماعِ صحابہ

شاکرالقادری نے کہا:
محترم سچائی سچائی ہوتی ہے
ہر میدان میں اور ہر مقام پر
اس کے لیے کسی کمین گاہ ، مورچے یا گھات کی ضرورت نہیں ہوتی
اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی
اس بات سے
کہ میں خانوادہ رسول کے دشمنوں کی حمایت میں کوئی بات یا دلیل سننے کے لیے آمادگی کا اظہار بھی کروں
کیونکہ میرے نذدیگ
یزید کے حق میں کوئی دلیل سننے پر آمادہ ہوناہی اس بات کی علامت ہے گویا ہمیں حسین کی حقانیت میں کوئی شک ہے
اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی ہر ایسی کمین گاہ، مورچے اور گھات سے
کہ جن کے ذریعہ الہہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کو کمک پہنچائی جاتی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یزید کوزبردستی جنت میں گھسیٹنے والے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنت کی سرداری تو حسن و حسین کے پاس ہے وہ یزید وہاں کیسے گھسیٹ کر لے جا سکتے ہیں ۔
محترم المقام شاکر القادری صاحب
میں بہت ادب و احترا م کے ساتھ گذارش کروں گا کہ اس طرح بےبنیاد طعنے دینے سے باز آ جائیں ۔ یہ آپ جیسی معتبر علمی شخصیت کو زیب نہیں دیتا ۔

اور ۔۔۔۔ حسینیت کسی خاص طبقے یا فرقے کی جاگیر نہیں بلکہ ہر اس مسلمان کی میراث ہے جو قرآن و سنت کی صاف و شفاف تعلیمات پر ایمان رکھتا ہے !
وما علینا الا البلاغ
 

باذوق

محفلین
اسلام اور مختلف فلسفے ۔۔۔

محمدسجادعلی نے کہا:
۔۔۔ یہ تو کوئی اصول ہی نہیں کہ جو بات یا لفظ قرآن و حدیث میں موجود نہیں صرف اس کو بنیاد بنا کر کسی چیز کو غلط کہا جائے۔
خاکسار نے اب تک کی بحث میں ۔۔۔ تصوف کو نہ تو سراسر غلط قرار دیا ہے اور نہ صحیح ۔
جو بات عین دین کے طور پر پیش کی جائے تو اس کا ثبوت بھی خیر القرون سے پیش کیا جانا لازمی ہے کیونکہ فرمانِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق اسلام کا بہترین دور وہی رہا ہے ۔
باذوق کی کوششیں ۔۔۔ ’خالص اسلام‘ کا دفاع ہے کہ اسلام کو عقلیت ، علم الکلام ، تصوف ، رہبانیت وغیرہ جیسے فلسفوں کی نہ تو خیرالقرون میں ضرورت تھی اور نہ آج ہے !
آج اگر ضرورت ہے تو صرف اور صرف ’قرآن اور حدیث‘ کی واضح ترین تعلیمات کی !!

اور جہاں تک تصوف کے دوسرے رُخ کی پیشکشی کی بات ہے ۔۔۔ اس کے لیے میں ایک علحدہ دھاگہ تفصیل سے کھول رہا ہوں ، انتظار فرمائیں ۔۔۔۔ شکریہ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
برادرم شاکر القادری،

میں نے گزارش کی تھی کہ اس تھریڈ کو تصوف پر گفتگو تک محدود رکھا جائے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب یہ گفتگو علمیت کی حدود سے نکل چکی ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ جس بات کا بار بار حوالہ دے رہے ہیں، اس کا اس بحث سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ اور ایک مرتبہ یہ متنازعہ بحث چھڑ گئی تو یہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

آپ سب دوست میرے لیے قابل احترام ہیں۔ ابھی اس موضوع پر علمی گفتگو کی گنجائش ہے۔ برائے مہربانی ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ اس تھریڈ کو مقفل کرنا پڑے۔

والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
رضا، ضروری نہیں کہ منتظمین آپ کی رائے سے متفق ہوں۔ باقی کچھ پوسٹ کرتے ہوئے اس بات کو پیش نظر رکھا کریں کہ ہمارا لہجہ ہماری ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
 

خرم

محفلین
بھائی بات پھر کہیں کی کہیں نکل جاتی ہے۔ باذوق بھائی آپ جب یہ فرماتے ہیں کہ اسلام کو تصوف جیسے فلسفہ کی نہ پہلے ضرورت تھی اور نہ آج تو کیا آپ دلائل سے پہلے ہی فیصلہ صادر نہیں فرما دیتے؟ میں نے اسی لئے عرض کی تھی کہ آپ پہلے تصوف کی وہ تعریف فرما دیں جو آپ کے ان خیالات کا باعث ہے۔ عین ممکن ہے کہ جو تعریف آپ تصوف یا طریقت کی کرتے ہیں وہ بالکل مختلف ہو اس تعریف سے جو میرے یا شاکر بھائی یا رضا بھائی کے ذہن میں ہو۔ اس بات سے تو کوئی بھی طریقت یا تصوف کا پیروکار انکار نہیں کر سکتا کہ جو چیز بھی قرآن، حدیث اور عمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے موافق نہیں ہے وہ عین جہالت و گمراہی ہے۔ تو اب بات توجہ طلب یہ ہے کہ وہ کون سی باتیں ہیں جن کی بنا پر آپ تصوف یا طریقت کو شریعت سے متصادم و مخالف سمجھتے ہیں؟ اگر یہ نکتہ بیان ہو جائے تو شاید بہت سی الجھنیں حل ہو جائیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد جن ستونوں پر قائم کی ہے اور جن کے بغیر تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہیں:
صدق و صفا ، اخلاص و محبت،احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبرو رضا اور شکر وغیرہ
آیئے اب دیکھیے کہ:
تصوف کی بلند و بالا عمارت جن اھم ستونوں پر استوار ہے ان کا قرآن میں کہیں ذکر ہے یا ثبوت ملتا ہے یا یہ محض ھوائی قلعے ہیں ۔
قرآن میں:
صادقین، قانتین، مخلصین، محسنین، عابدین،خاشعین، متوکلین، صابرین ، اولیاء اور ابرار وغیرہ ناموں سے موسوم ان صفات کے حامل نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
چونکہ صوفیہ انہی صفات سے متصف ہوتے ہیں اوراپنے اندرانہی صفات کو پیدا کرنے کی شب و روز سعی کرتے رہتے ہیں اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ صوفیہ معنوی طور پر اللہ کے ان بندوں میں شامل ہیں جن کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا اور ان کے وہ نام بتائے گئے جن سے ان نیک بندوں کو قرآن عظیم نے مخاطب کیا ہے۔
اسی طرح:
قرآن میں توبہ، انابت، اخلاص، صبر، شکر، رضا، توکل، قرب، خوف، رجا، مشاھدہ اور یقین وغیرہ کی تعریف آئی ہے ۔
اور
یہی چیزین اھل تصوف کے ھان احوال و مقامات کہلاتی ہیں
اس کے علاوہقرآن میں دنیوی زندگی کو لہو ولعب اور دھوکے کی پونجی کہا گیا ہے
اور یہی چیز تصوف کی اساس ہے
قرآن حکیم میں اخلاق حسنہ پر خاص زور دیا گیا ہے اور یہ سب کو معلوم ہہے کہ تصوف حسن اخلاق کا دوسرا نام ہے
اسی طرح احادیث مقدسہ میں
صدق، اخلاص، توکل اور صبر جیسے قلبی اور روحانی اعمال کی تاکید آئی ہے
اور اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد کے لیے اقوال رسول کو سر چشمہ ہدایت بنایا ہے اور یہ بھی امر واقع ہے کہ آئمہ تصوف نے اپنے اعمال اور احوال و مقامات کے لیے سنت نبوی سے استناد و دلائل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے چنانچہ تصوت کی متعدد اساسی کتب میں صحیحین کی "حدیث جبریل" کو تصوف کی اساس قراردیا گیا ہےجس میں نہایت دلنسین پیرایہ میں ایمان، اسلام اور احسان کی تعریف متعین کی گئی ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
نبیل نے کہا:
برادرم شاکر القادری،

میں نے گزارش کی تھی کہ اس تھریڈ کو تصوف پر گفتگو تک محدود رکھا جائے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب یہ گفتگو علمیت کی حدود سے نکل چکی ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ جس بات کا بار بار حوالہ دے رہے ہیں، اس کا اس بحث سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ اور ایک مرتبہ یہ متنازعہ بحث چھڑ گئی تو یہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

آپ سب دوست میرے لیے قابل احترام ہیں۔ ابھی اس موضوع پر علمی گفتگو کی گنجائش ہے۔ برائے مہربانی ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ اس تھریڈ کو مقفل کرنا پڑے۔

والسلام
برادرم نبیل
آپ نے اس دھاگے کے ابتدائی حصہ میں دیکھا ہو گا کہ جب مجھے بحث پر اکسانے کی کوشش کی گئی تو میں نے محفل فورم کو اس کے لیے ناموزوں قرار دیتے ہوئے انکار کر دیا اور چند ماہ تک یہ بحث رک بھی گئی لیکن اب یہ سلسلہ پھر سےے شروع ہے تو ناچار مجھے اپنا موقف بیان کرنا پڑا
جہاں تک علمی گفتگو اور مضوع کا تعلق ہے تو میرا کوئی بھی پیغام اس سے خالی نہیں البتہ ضمنا جہاں ضرورت پڑی اس بات کا ذکر ہوا ہے اور یہ بات مخالف جانب کے پیغامات میں بھی ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ گرامر کے حوالے سے کچھ باتیں ہیں جو کسی دوسرے فورم پر میری ان سے بحث ہوئی اس کو یہاں کوٹ کیا گیا تو میں نے بھی جوابا کچھ اسی حوالے سے لکھ دیا
آپ نے لکھا ہے کہ ایک بار یہ متنازعہ بحث چھڑ گئی تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی محترم تصوف پر بحث کا نتیجہ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا کیونکہ اس کے قائلین کی بہت بڑی اکثریت ہے
جحان تک قرآن و سنت سے دلائل اور تصوف کے موضوع کی بات ہے تو ہم مواد پیش کرتے رہیں گے لیکن بہتر یہی ہو گا کہ آپ اس دھاگے کو مقفل کر دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
صوفیہ کا تصور عبادت
علمائے تصوف شریعت کے ظاہری اعمال کے باطنی ثمرات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں
چنانچہ شیخ جنید بغدادی رح کے پاس ایک نووارد آیا۔
شیخ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو ؟
جواب دیا حج کو گیا تھا
شیخ نے پوچھا: کیا تم نے حج کیا؟
جواب دیا: جی ہان
شیخ: کیا ابتدا ہی سے گھر اور وطن چھوڑتے ہوئے آپ نے اپنے گناہوں کو چھوڑ دیا تھا؟
نووارد: نہیں
شیخ: تب تم حج کے ارادہ سے سفر پر نکلے ہی نہیں
شیخ: سفر میں رات کو جس منزل پر قیام کیا وہاں راہ حق کا کوئی مقام بھی طے کیا؟
نو وارد: نہیں
شیخ: تب تم نے کسی منزل پر قیام کیا ہی نہیں ہے
شیخ: تم نے میقات میں احرام باندھنے کے لیے کپڑے اتارے کیا کپڑوں کی طرح بشری صفات سے بھی الگ ہوئے؟
نووارد: نہیں
شیخ: تب تم محرم ہوئے ہی نہیں
شیخ: جب تم نے عرفات میں وقوف کیا وہاں تمہیں مشاہدت کا کشف ہوا؟
نووارد: نہیں
شیخ: تب تم نے عرفات میں وقوف کیا ہی نہیں
شیخ: جب تم مزدلفہ میں تھے تم نے نفسانی خواہشات کو ترک کیا یا نہیں؟
نووارد: نہیں
شیخ: تب تم مزدلف گئے ہی نہیں
شیخ: جب تم نے طواف کیا ۔۔ تم نے حق کے لطائف کو دیکھا؟
نووارد: نہیں
شیخ: تب تم نے طواف کیا ہی نہیں
شیخ: جب تم نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تب تم نے صفا و مروہ کے مقام کا ادراک کیا؟
نووارد: نہیں
شیخ: تب تم نے سعی بھی نہیں کی
شیخ: جب تم منی پہنچے کیا تمہاری تمنائیں ختم ہو گئیں
نووارد: نہیں
شیخ: تب تم منی بھی نہیں گئے
شیخ: جب تم نے قربان گاہ میں قربانی کی کیا اپنے نفس کی خواہشات کو قربان کیا؟
نو وارد: نہیں
شیخ: تب تم نے قربانی بھی نہیں کی
شیخ: جب تم نے کنکریاں پھیکیں کیا نفسانی خیالات کو بھی پھینک دیا؟
نو وارد: نہیں
شیخ: تب تم نے کنکریاں بھی نہیں پھینکیں ۔۔۔۔ اور نہ تمم نے حج کیا ہے جائو! اور جس طرح میں نے بتایا ہے اس طرح حج کرو تاکہ مقام ابراہیم تک پہنچ سکو۔
﴿کشف المحجوب﴾
یہ وہ ارفع اعلی تصور عبادت ہے جس نے ہر دور میں لاکھون بندگان خدا کی کایا پلٹ دی اور وہ روحانی مدارج کی بلندیوں تک پہنچ گئے اور حق تو یہ ہے کہ صوفیہ کا یہ تصور عبادت قلب و نظر کے لیے عذائے خاص ہے
 

خرم

محفلین
برادرم شاکر صاحب یہ موضوع بند کرنا تو ہمارے اور آپ کے طریق کا عمل نہیں ہے۔ ہمارے پیارے بھائیوں کے پاس اگر کچھ سوالات ہیں تو ان کا جواب دینا ہمارا فرض ہے۔ ماننا یا نہ ماننا تو ان کی مرضی مگر اپنی سی کوشش کرنا تو ہم پر فرض ہے۔ جن بزرگان کی ہم خاکِ پا ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کا طریق سوالات کا رد کرنا نہیں جوابات مہیا کرنا ہے۔ طریقت کے گرد جتنے بھی اوہام ہیں ان کی وجہ لاعلمی اور جاہلیت ہی ہے۔ جاہلیت ان لوگوں کی جنہوں نے اپنی اغراض نفسانی کی خاطر طریقت کو بدنام کیا۔ تو اگر ہماری کسی بھی کوشش سے ایک رائی برابر بھی یہ دھند چھٹ جائے تو عین سعادت و عبادت ہے کہ طریقت کا تو مقصود ہی یہ ہے کہ انسان تمام جہان سے معنوی طور پر کٹ کے صرف اللہ کا ہو جائے اور اگر کوئی اس مقصد کو جان ہی لے تو ہماری کاوش تو کامیاب ہوئی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اجماعِ صحابہ

باذوق نے کہا:
[حسینیت کسی خاص طبقے یا فرقے کی جاگیر نہیں
باذوق آپ ایک خاص مکتب فکر کی نمائندگی کررہے ہیں، برسبیل تذکرہ یہ بھی پوچھتا چلوں کہ آپ کا مکتب فکر یزید کو امیرالمومنین اور امام حسین کو باغی کہتے ہوئے بھی حسینیت کے نام لیوا کیسے ہوا؟
 
Top