اسلام اور تصوف

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

شاکربھائی، آپ نے نبیل بھائی، سے اس دھاگہ کومقفل کرنے کی درخواست کی ہے تومیرے خیال کے مطابق ابھی تک بات اس حد تک نہیں پہنچی ہے باذوق بھائی، سے درخواست ہے کہ وہ اپنامدعابیان کریں سب سے پہلے خرم بھائی، اورآپ نے بھی تعریف کی ان سے درخواست کی ہے توان سے گذارش ہے کہ وہ تصوف کی تعریف کریں تاکہ اس علمی بحث کوآگے بڑھایاجاسکے۔
اوراس طرح اگرہردھاگے کوتالہ لگاناشروع کردیاجائے توپھرخدانخواستہ ایک دن سب محفل کے دھاگوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔


والسلام
جاویداقبال
 

رضا

معطل
اجماعِ صحابہ

الف نظامی نے کہا:
بےذوق نے کہا:
[حسینیت کسی خاص طبقے یا فرقے کی جاگیر نہیں
باذوق آپ ایک خاص مکتب فکر کی نمائندگی کررہے ہیں، برسبیل تذکرہ یہ بھی پوچھتا چلوں کہ آپ کا مکتب فکر یزید کو امیرالمومنین اور امام حسین کو باغی کہتے ہوئے بھی حسینیت کے نام لیوا کیسے ہوا؟
یہ سب کچھ کہتے بھی ہیں اور اس کو ‍‍قرآن و حدیث سے بھی ثابت کرتے ہیں۔جب ان کو پتا چلتا ہے کہ یہاں ہماری پکڑ نہ ہوجائے تو وہاں منافقانہ پولیسی اختیار کرلیتے ہیں اور بات آئي گئی کردیتے ہیں۔
"صرف خاص مکتبہء فکر کی نمائندگی ہی نہیں بلکہ دوسرے فکتبہء فکر والوں کو برا بھلا بھی کہہ رہے ہیں۔"
میں منتظمین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا یہ محفل کے قوانین میں شامل ہے؟
یا صرف نجدی ھوابیوں ہی کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی برا بھلا کہیں اور انہیں کچھ نہ کہا جائے۔
اور ہماری پوسٹ کو حذف کردیا جائے۔
اور جو فتنے کا سبب بنے،فتنہ پھیلائے اس کی پوسٹ کو حذف نہ کیا جائے۔
بےذوق نے کہا:
س کتاب سے اور جس سائٹ سے یہ مواد لیا گیا ہے اس سے میری بہت اچھی واقفیت ہے !
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) جیسی عظیم الشان شخصیتوں کو عملاََ و فعلاََ اہل تصوف باور کرانا ۔۔۔ ان ہی لوگوں کی جراءت ہو سکتی ہے جو شانِ صحابیت کے درجے کو کم سے کمتر دکھانے کے آرزومند ہیں ۔
مجھے اس چیز کا دکھ نہیں کہ میری پوسٹ کو حذف کیا گیا۔دکھ اس چیز کا ہے کہ جس نے فرقہ وارنہ بحث شروع کی گئی اس کو کچھ بھی نہ کہا گيا اور نہ اس کے متنازعہ الفاظ کو حذف کیا گیا۔
منتظمین بھی بے چارے بھولے بھالے ہیں۔شاید ان کو احساس نہ ہوا کہ اصل خرابی کس نے شروع کی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

جاوید اقبال۔ میرے خیال میں اب شاید آپ کو بھی اس تھریڈ کو مقفل کرنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں گفتگو مسلسل تصوف کے موضوع سے ہٹ کر ایک قطعی غیر متعلقہ موضوع پر آ جاتی ہے۔

شاید مجھ سے ہی اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی ہے۔ میں اسے ایک فلسفے پر بحث یا علمی گفتگو سمجھ بیٹھا تھا جبکہ یہ غالباً عقیدے پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ آپ سب دوستوں سے گزارش ہے کہ میری اس غلطی کو درگزر فرمائیں۔ میرا ارادہ ہرگز کسی کی دلآزاری یا کسی ایک مکتبہ فکر کی طرفداری نہیں تھا۔ اس تھریڈ کو مقفل کرتے ہوئے مجھے افسوس ہوگا لیکن مجھے اور کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا۔

والسلام
 

پاکستانی

محفلین
واقعی بات یہی ہے میں مسلسل اس دھاگے پر نظر رکھے ہوئے ہوں اب باعث علمیت سے دور ہوتی ہوئی عقیدے پر آ گئی ہے اس لئے مزید کوئی خرابی ہو بہتر اسے مقفل کر دیا جائے۔

میری ممبران سے بھی گذارش ہے کہ وہ علمی کا جواب بھی علمیت اور دلائل سے دیا کریں نہ کسی کے عقیدے پر طنز کر کے۔
ویسے کہتے ہیں کہ جب کسی بات کا جواب نہیں بن پڑتا تو کم ظرف پتھر اٹھا لیا کرتے ہیں۔

اس لئے ایسے نازک موضوع میں حصہ لیتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

آپ سب کا شکریہ
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

واقعی نبیل بھائی، یہ دھاگہ بھی دوستوں کی وجہ سے اپنے منتقی انجام کی طرف بڑھ رہاہے جبکہ یہاں پربہت اچھی بحث شروع ہوئی تھی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات والی بات ہے کہ بات کس چیزکی ہوتی ہے اورپہنچ جاتی ہے عقیدے پر۔ ٹھیک ہے عقیدہ سب سے اہم چیزہے لیکن بات ہے کہ پہلے ایکدوسرے کوبرداشت کرنے کی ہمت وحوصلہ ہونا چاہیے۔جب تک آپ میں ہمت وحوصلہ نہیں ہوگاتوبحث و مباحثہ کسطرح آگے بڑھے گا۔اللہ تعالی سے دعاگوہوں کہ ہم سب کوایکدوسرے کی بات سننے کاہمت وحوصلہ عطاء فرمائے(آمین ثم آمین)
رضابھائی، اورالف نظامی بھائی، یہاں پربات تصوف کی ہورہی ہے توبراہ مہربانی اس پرعلمی بحث کوآگے بڑھائیں ناکہ عقیدے میں الجھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

والسلام
جاویداقبال
 

خرم

محفلین
یہ تو بہت ہی افسوسناک بات ہوگی اگر اس دھاگے کو مقفل کر دیا گیا۔ ایک بہت اچھا مباحثہ جاری ہے اور بہت ہی افسوس کی بات ہوگی اگر اس کو لاتعلق بحث میں الجھ کر ضائع کر دیا گیا۔ رضا بھائی، شاکر بھائی ہمیں تو زیادہ صبر اور محبت کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ اصل طریقت تو یہی ہے۔ اگر ہم ہی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے اور وہ بھی اپنے پیارے بھائیوں کو تو پھر اپنے قابل صد احترام بزرگان سے ہماری وابستگی کے دعوے صرف جھوٹ ہی تو ہیں۔ ہمارے اسلاف نے تو غیر مسلموں کے دلائل اور طعنے سن کر بھی صرف اور صرف اپنے حسن اخلاق سے ہندوپاک کے لوگوں کو مسلمان کیا، کیا ہم اس صبر و برداشت کا مظاہرہ اپنے بھائیوں کے لئے نہیں کر سکتے؟ آپ سے قلبی تعلق کی بنا پر یہ باتیں لکھ دیں اگر آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ڈاکٹر علام قادر لون ایک نامور محقق ہیں انہوں نے تصوف ککا مطالعہ بڑی عمیق نظرون سے کیا ہے اور ان کا یہ مطالعہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہے ان کی کتان مطالعہ تصوف کے آخری باب سے ایک اقتباس پیس ہے:::
"دوسرے علوم اسلامیہ کی طرح تصوف میں بھی قرآن کو مرقع اول کا مقام حاصل ہے::
تصوف کی کتابوں میں ہر بحث کا آغاز قرآنی آیات کے استدلال سے کیا گیا ہے مطالعہ تصوف کے دوران قرآن سے صوفیہ کا بکثرت استدلال قاری کے دل کو موہ لیتا ہے۔ صوفیہ کا قرآن سے طرز استدلال اس فہم سلیم پر مبنی ہوتا ہے جو اللہ تبارک و تعالی صوفیہ کو تلاوت کلام پاک کے دوران عطا کرتا ہے چنانچہ فہم قرآن کے بارے میں صوفیہ نےے جو نکتہ آفرینیاں کی ہیں ان سے تفسیر کی ضخیم کتابیں خالی ہین صوفیہ کے اخذ کردہ لطائف کا روشن پہلو یہ ہے کہ اس سے دل و دماغ کو جلاملتی ہے اور ایمان و یقین کو تازگی ۔"
 

خرم

محفلین
شاکر بھائی یہ باتیں تو موافقت والوں کی ہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ پہلے یہ تو معلوم ہو کہ باذوق بھائی اور دوسرے احباب تصوف کی تعریف کیا فرماتے ہیں۔ جب تک یہ بات نہ صاف ہو بات کو آگے بڑھانا میرے خیال میں بات بڑھانے کا ہی موجب ہوگا۔ پہلے باذوق بھائی اپنا نکتہ نظر بیان کریں پھر بات کو آگے بڑھائیں گے انشاءاللہ۔
 

باذوق

محفلین
اجماعِ صحابہ

الف نظامی نے کہا:
باذوق آپ ایک خاص مکتب فکر کی نمائندگی کررہے ہیں، برسبیل تذکرہ یہ بھی پوچھتا چلوں کہ آپ کا مکتب فکر یزید کو امیرالمومنین اور امام حسین کو باغی کہتے ہوئے بھی حسینیت کے نام لیوا کیسے ہوا؟
اس دھاگے میں اس بحث کی گنجائش نہیں ہے کہ کون کس مکتبِ فکر کی نمائیندگی کر رہا ہے ؟
اور دوسری اہم بات یہ کہ ۔۔۔ جو مکتبِ فکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو باغی قرار دیتا ہے (نعوذ باللہ) ، وہ مکتبِ فکر ’ناصبیت‘ کے نام سے بدنام ہے ۔۔۔ اور میرا تعلق بہرحال اس مکتبِ فکر سے نہیں ہے ۔ ہاں ، اگر آپ البتہ الزام لگانا چاہیں تو ۔۔۔ اس کی جوابدہی بھی اللہ کے ہاں آپ کو کرنی ہے مجھے نہیں !
 

باذوق

محفلین
دوسرا نقطہ نظر

اپنا مراسلہ پیش کرنے سے قبل میں ایک بار پھر یہ بات دہراؤں گا کہ ۔۔۔
تصوف کو منجانب اللہ و رسول ۔۔۔ جو لوگ ثابت کرنے کے درپے ہیں ۔۔۔ یہ ذمہ داری انہی کی ہے کہ وہ قرآن و سنت یا پھر اجماعِ صحابہ سے اس کو ثابت کریں ۔

تصوف پر اب تک جس نقطۂ نظر سے تحقیق پیش کی گئی ہے ۔۔۔ اس سے ہٹ کر ایک دوسرا نقطۂ نظر ذیل میں بیان کیا گیا ہے ۔
اور ہر دو نقاطِ نظر سے اتفاق یا اختلاف قاری کا حق ہے !
====

‫" تصوف " ۔۔۔ ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے جس کا عربی لغت میں کوئی وجود نہیں ! اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی میں خود صوفیاء کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لفظ کا کون سا مفہوم صحیح ہے جس کی رعایت سے اس کے حامل کو ’صوفی‘ کہا جاتا ہے؟؟؟
اس کے علاوہ چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیثِ بنوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اور اس سے متعلق سارا فلسفہ اسلام کے خلاف اور ایک ایسی ’بدعت‘ ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی بنیاد نہیں ہے ۔

صوفیاء کے نزدیک تصوف ، اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اخلاق رذیلہ سے پھیرنے اور اخلاق حمیدہ یعنی زہد و علم صبر و اخلاص اور صدق و صفا جیسے خصائل حسنہ پر آمادہ کرنے کا نام ہے جس سے دنیا و آخرت میں کامرانی نصیب ہو ۔

تصوف کا لفظ ’صوف‘ سے بناہے جس کے معنی اُون کے ہیں ۔ مراد اس سے وہ درویش اور اللہ ترس بندگان اللہ ہیں جو دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے کنارہ کش ہو کر یادِ اللہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ موٹا چھوٹا پہنتے ہیں اور جیسا بھی کھانے کو مل جائے اس سے اپنا پیٹ پھر لیتے ہیں ۔

لفظ ’صوفی‘ کی اہل تصوف نے بہت سی توجیہات کی ہیں جن میں چند یہ ہیں ‫:

1۔ ابو محمد عبدالغنی بن سعید الحافظ رحمہ اللہ نے فرمایا ‫:
جب ولید بن قاسم سے لفظ ’صوفی‘ کی نسبت کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا کہ ‫:
زمانہ جاہلیت میں ایک شخص تھا جس کا نام غوث بن مرّ اور لقب ’صوفا‘ تھا ۔ اس کا کام ایامِ حج میں لوگوں کو حج کرانا اور ان کو عرفات سے منٰی اور منٰی سے مکہ جانے کی اجازت دنیا تھا ۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری اس کی اولاد میں منتقل ہوگئی ۔ ان سے عدوان نے لے لی اور کافی عرصہ عدوان کی اولاد میں یہ ذمہ داری باقی رہی ۔ پھر ان سے یہ منصب قریش نے حاصل کر لیا۔ غوث بن مرّ پہلا فرد ہے جیسے اس کی ماں نے بیت اللہ کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا ۔ ابن سائب الکلبی کا بیان ہے کہ اس کی ماں کا کوئی لڑکا نہیں جیتا تھا ۔ اس نے نذر مانی کہ اگر اس کا فرزند زندہ رہا تو اس کے سرپر ’صوف‘ باندھ کر اس کو کعبہ کی خدمت کے لئے وقف کردے گی ۔ چنانچہ اس نے نذرپوری کی ۔ بعد میں اس لڑکے کا نام ’صوفہ‘ پڑ گیا اور اس کی اولاد بھی ’صوفہ‘ کہلائی ۔ اس کے بعد سے جو لوگ بھی اللہ کے واسطے دنیا چھوڑ کر کعبہ کی خدمت سے منسلک ہوگئے انہیں بھی لوگ اسی مناسبت سے ’صوفیہ‘ کہنے لگے ۔
( بحوالہ : تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ، باب 10 ، صوفیوں پر تلبیس ابلیس کا بیان )

2۔ کچھ لوگ تصوف کو ’اہل صفہ‘ کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لئے کہ جس طرح اہل صفہ دنیاداری اور فکر معاش سے علیحدہ ہوکر ، دین کے حصول کی خاطر فقر و فاقہ کو اپنائے ہوئے تھے ، اسی طرح اہل تصوف بھی مال و عیال سے دامن چھڑا کر ’اصلاح باطن‘ کی غرض سے خانقاہوں اور جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں ۔
علامہ ابن جوزی (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ : اُن ’اہل صفہ‘ نے ضرورت کے تحت مسجد میں قیام کیا اور جتنی ضرورت تھی اتنا صدقہ کھایا ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دے کر ان کو مستغنی کر دیا تو یہ لوگ نکل کر چلے گئے ۔ ’صوفی‘ کی نسبت ’اہل صفہ‘ کی طرف اسی سبب غلط ہے ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ’صفی‘ کہا جاتا ۔

3۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی لیا گیا ہے ’صوفانہ‘ سے جو ایک خوشنما اور خود رو جنگلی ساگ ہے جو چھوٹے چھوٹے پتوں کی شکل کا ہوتا ہے ۔ اہل تصوف بھی جنگل کے ساگ پات پر گزارہ کر لیتے ہیں اس لئے انہیں صوفی کہا جاتا ہے ۔ مگر یہ بھی غلطی ہے ، کیونکہ اگر اس طرف نسبت ہوتی تو ’صوفانی‘ کہا جاتا ۔

4۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ صوفی منسوب ہے ’صوفۃ القضا‘ کی طرف یعنی وہ چند بال جو گدی کے آخر میں جمتے ہیں گویا صوفی حق کی طرف متوجہ اور خلق کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہے ۔

( مذکورہ بالا 3 تعریفات بحوالہ : تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ، باب 10 ، فصل :2 )

ابوریحان البیرونی کا خیال ہے کہ ’صوفی‘ کا مادۂ اشتقاق ایک یونانی لفظ ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے :
سوفی بمعنی فلاسفر ہے کیونکہ یونانی لفظ ’سوف‘ بمعنی فلسفہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی زبان میں ’فیلسوف‘ کو ’فلاسفا‘ کہا جاتا ہے ، یعنی فلسفہ کا دلدادہ ۔ چونکہ اہل اسلام میں ایک جماعت ایسی تھی جو ان کے مسلک سے قریب تھی اس بناء پر ان کا نام بھی ’صوفی‘ پڑ گیا ۔
(بحوالہ : کتاب الہند ، ابوریحان البیرونی ، صفحہ 16)

( ۔۔۔۔ جاری ہے ! )
 

باذوق

محفلین
منطقی سوالات ۔۔۔

شاکرالقادری نے کہا:
اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد جن ستونوں پر قائم کی ہے اور جن کے بغیر تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہیں:
صدق و صفا ، اخلاص و محبت،احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبرو رضا اور شکر وغیرہ
اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد کے لیے اقوال رسول کو سر چشمہ ہدایت بنایا ہے اور یہ بھی امر واقع ہے کہ آئمہ تصوف نے اپنے اعمال اور احوال و مقامات کے لیے سنت نبوی سے استناد و دلائل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے
بات یہ نہیں ہے کہ تصوف کی بنیاد یا اہمیت کن کن عناصر پر قائم ہے ؟
بلکہ حقیقی جوابِ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کے ہوتے ہوئے ایک علحدہ فلسفے یا نظریے کی ضرورت کیوں درپیش ہے ؟

سوال یہ نہیں ہے کہ : دینِ تصوف یا دینِ طریقت کی کون سی اہم بنیادیں ہیں ؟
بلکہ یہ ہے کہ : دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔
منطقی اعتبار سے یہ معاملہ اس لیے بھی زیرِ بحث آئے گا کہ ۔۔۔ فرقے فرقے بننے والی چیزوں سے قرآن واضح طور پر منع فرماتا ہے ۔

اگر احباب کو ناگوار خاطر نہ گزرے تو عرض ہے کہ : ایک فرقہ وہ بھی ہے جس کا کلمۂ توحید وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے اور اسلام کے پانچ ارکان پر بھی اس کا ایمان ہے ۔۔۔ اس کے باوجود اس کی انفرادیت ختمِ نبوت (ص) کے انکار کے سبب واضح ہوئی اور اس کو اسلام سے علحدہ ایک الگ مذہب قرار دیا گیا ۔ یہ فرقہ بھی تو وہی راگ الاپتا ہے کہ ہمارا کلمہ ، رسول (ص) کا ہی کلمہ ہے ۔ پھر بھی یہ اپنی شناخت علحدہ بتانے پر مصر ہے ۔

ایک دنیاوی مثال سے یوں بھی سمجھئے کہ بچوں کے دودھ کا پاؤڈر نیڈو بھی بناتا ہے اور اینکر بھی ۔ دونوں اقسام کے پاؤڈر کے اجزائے ترکیبی تقریباََ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ پھر بھی مقابلہ ہوتا ہے کہ ہمارا پراڈکٹ سب میں بہترین ہے ۔ اور دعویٰ کے ثبوت میں اجزائے ترکیبی کوئی بھی بیان نہیں کرتا بلکہ وہ خصوصیات بتائی جاتی ہیں جو دوسرے میں نہیں ہوتیں ۔ یعنی یہ سارا نام کا کھیل ہے ۔ یعنی دنیا میں بس ہم خالص ہیں ۔

دینِ اسلام کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا فلسفہ یا نظریہ لے آتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کو بتاتا ہے ۔ لیکن کن باتوں سے اس کی خصوصیات ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے الگ ہٹ کر واضح ہوتی ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اگر پوچھا جائے کہ نام کیوں الگ ہے تو جواب ملے گا کہ نام سے کیا ہوتا ہے ، کام تو سارا ہی وہی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔
بھائی جب آپ قرآن و سنت کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں تو نئے نام گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟

اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شریعتِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے مکمل اور کافی ہے اور کتاب و سنت میں بھی زندگی گزارنے کے لئے مہد سے لحد تک ایک ایک لمحہ کے لئے ہدایات موجود ہیں تو پھر اس میں ’طریقت‘ یا ’تصوف‘ کے نام سے اضافہ کی گنجائش کہاں سے پیدا کر لی گئی ؟؟؟
اگر طریقت اخلاص فی العبادت کا نام ہے تو کیا شریعت میں پہلے یہ عنصر موجود نہیں تھا ؟
اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد اور وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے ؟؟؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
یہ ساری لغوی ادبی اور گرامر سے متعلق بحث ہے کہ یہ لفظ موجود ہے یا نہیں اور اس کا مادہ کیا ہے اور کس مادہ سے مشق ہونے کہ صورت میں اس لفط کو کیسے بولایا لکھا جانا چاہیئے جیسے صفہ سے صفی اور صوفانہ سے صوفانی وغیرہ ہم یہاں گرامر کے قاعدوں اور کلیوں پر بحث نہیں کر رہے اور نہ ہی یہ ہماری منشاء و ضرورت ہے بہرحال جب تک تفصیلی مراسلہ آتا ہے
اس وقت تک یہ جان لیجیئے کہ
لفظ تصوف اور صوفی کی لغوی بحث میں پہت پہلے ذیلی فورم تصوف کے اس دھاگے میں پوسٹ کر چکا ہوں جس مییں مکمل دلائل کے ساتھ ہر اس مادہ کے بارے میں تفصیلی تحریر کر دیا گیا ہے اور حوالہ جات بھی مہیا کر دئے ہیں جس سے لفظ تصوف یا صوفی کے مشتق ہونے کے بارے میں محققین نے اپنی اپنی آرا دی ہیں
یہاں اس کو دوبارہ لکھنا محض اعادہ اور اردو محفل کے صفحات کا ضیاع ہوگا جن صاحبان نے لفظ تصوف کی لغوی بحث دیکھنا ہے وہ اس دھاگہ کو دیکھ لیں
 

شاکرالقادری

لائبریرین
یاد رہے کہ میں اپنی ایک سابقہ پوسٹ میں تحریر کر چکا ہوں کہ:
اگر لفظ "تصوف" پر اعتراض ہے کہ یہ قرآن و سنت اور دور صحابہ سے ثابت نہیں تو اس لفظ کا ثابت ہونا کوئی ضروری نہیں ۔ تاہم ابو محمد جعفر بن احمد بن حسین السراج﴿متوفی :500ھ﴾ نے "مصارع العشاق" میں امیر معاویہ﴿رض﴾ کا ایک خط نقل کیا ہے جو انہوں نے گورنر مدینہ کے نام لکھا جس میں انہوں نے یہ شعر لکھا تھا:
قد کنت تشبہ صوفیالہ کتب
من الفرائض او آیات فرقان

چنانچہ امیر معاویہ ابن ابو سفیان﴿ر﴾ کا دور تو یقینا دور صحابہ ہی ہے ۔ لہذا اس طرح دور صحابہ میں ایک گروہ کا صوفیا کے نام سے مشہور ہونا ثابت ہو ہی جاتا ہے ۔
لیکن ہمارا کہنا ہے کہ لفط تصوف یا صوفی کا ثابت ہونا یا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
 

خرم

محفلین
شاکر بھائی ابھی تو بھائی باذوق اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ وہ اپنی بات مکمل کر لیں تو پھر ہم اپنی بات پیش کریں گے۔ فی الحال تو یہی معلوم پڑتا ہے کہ بات صرف وجہ تسمیہ کی ہو رہی ہے۔ تصوف یا طریقت کے فلسفہ کے متعلق باذوق بھائی کا جو خیال ہے اس پر تو ابھی بات ہی نہیں ہوئی۔ یہ بات ہوگی تو کچھ بات کھلے گی۔ تھوڑا سا اشارہ دیا ہے باذوق بھائی نے تصوف کے فلسفہ کے متعلق کہ شاید اسے دین کے اصل فلسفہ سے الگ کوئی چیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ابھی یہ مسئلہ تشنہ ہے کیونکہ جب تک امثال سے یہ بات واضح نہیں کر دی جاتی کہ کن اعمال کے لئے یہ دلائل دئیے جاتے ہیں تب تک کوئی بات سمجھنا یا بیان کرنا مشکل ہے۔
 

باذوق

محفلین
بےسند شعر ؟؟؟

شاکرالقادری نے کہا:
یاد رہے کہ میں اپنی ایک سابقہ پوسٹ میں تحریر کر چکا ہوں کہ:
اگر لفظ "تصوف" پر اعتراض ہے کہ
اگر لفظ "تصوف" پر اعتراض ہے کہ یہ قرآن و سنت اور دور صحابہ سے ثابت نہیں تو اس لفظ کا ثابت ہونا کوئی ضروری نہیں
اگر ثابت ہونا ضروری نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ کرنا بھی ترک کر دینا چاہئے کہ :
فلسفہ تصوف سارا کا سارا عین اسلام ہے !
یہ دعویٰ ثابت کرنا اس لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ صحیحین کی خیر القرون والی حدیث اس بات کا تقاضا کرتی ہے ۔ جو فلسفہ یا نظریہ قابلِ قبول ہونے کے باوجود خیرالقرون میں رواج نہ پائے تو اس کے ’عین اسلام‘ ہونے کا بھروسہ بھلا کون کر سکتا ہے ؟

معاویہ﴿رض﴾ کا ایک خط نقل کیا ہے جو انہوں نے گورنر مدینہ کے نام لکھا جس میں انہوں نے یہ شعر لکھا تھا:
۔۔۔ لہذا اس طرح دور صحابہ میں ایک گروہ کا صوفیا کے نام سے مشہور ہونا ثابت ہو ہی جاتا ہے ۔

کیا محض ایک بےسند شعر کی بنیاد پر فلسفۂ تصوف کو خیرالقرون سے ثابت کرنا ، حق بات کہلائی جا سکتی ہے ؟
ہمارے ہاں کے بعض مذہبی اسکالرز تو صحیحین کی احادیث کو جرح و تعدیل کا نشانہ بنا کر مستند احادیث کو مشکوک قرار دیتے ہیں تو محض ایک غیرمعروف اور بےسند شعر دلیل بن سکتا ہے بھلا ؟ ایں چہ بوالعجبی ست !

آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی فلسفئہ تصوف سے آپکی کیا مراد ہے پہلے یہ تو بتائیں۔ نام پر بھی بات کر لیں گے مگر میرے خیال میں اہم بات نظریہ ہے۔ تو آپ نظریہ کی بابت کچھ ارشاد فرمائیے نا تاکہ کچھ بات کھلے۔ اگر آپ کو صرف نام پر اعتراض ہے تو پھر صرف اسی پر بات کر لیتے ہیں۔ کیا خیال ہے آپکا؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بےسند شعر ؟؟؟

باذوق نے کہا:
شاکرالقادری نے کہا:
یاد رہے کہ میں اپنی ایک سابقہ پوسٹ میں تحریر کر چکا ہوں کہ:
اگر لفظ "تصوف" پر اعتراض ہے کہ
اگر لفظ "تصوف" پر اعتراض ہے کہ یہ قرآن و سنت اور دور صحابہ سے ثابت نہیں تو اس لفظ کا ثابت ہونا کوئی ضروری نہیں
اگر ثابت ہونا ضروری نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ کرنا بھی ترک کر دینا چاہئے کہ :
فلسفہ تصوف سارا کا سارا عین اسلام ہے !
یہ دعویٰ ثابت کرنا اس لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ صحیحین کی خیر القرون والی حدیث اس بات کا تقاضا کرتی ہے ۔ جو فلسفہ یا نظریہ قابلِ قبول ہونے کے باوجود خیرالقرون میں رواج نہ پائے تو اس کے ’عین اسلام‘ ہونے کا بھروسہ بھلا کون کر سکتا ہے ؟

معاویہ﴿رض﴾ کا ایک خط نقل کیا ہے جو انہوں نے گورنر مدینہ کے نام لکھا جس میں انہوں نے یہ شعر لکھا تھا:
۔۔۔ لہذا اس طرح دور صحابہ میں ایک گروہ کا صوفیا کے نام سے مشہور ہونا ثابت ہو ہی جاتا ہے ۔

کیا محض ایک بےسند شعر کی بنیاد پر فلسفۂ تصوف کو خیرالقرون سے ثابت کرنا ، حق بات کہلائی جا سکتی ہے ؟
ہمارے ہاں کے بعض مذہبی اسکالرز تو صحیحین کی احادیث کو جرح و تعدیل کا نشانہ بنا کر مستند احادیث کو مشکوک قرار دیتے ہیں تو محض ایک غیرمعروف اور بےسند شعر دلیل بن سکتا ہے بھلا ؟ ایں چہ بوالعجبی ست !
آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟

محترم جرح و تعدیل کا علم اسی لیے تو ہے اور بعض سکالرز کی بات نہیں جب سے علم حدیث وجود میں آیا ہے جرح و تعدیل کا سلسلہ جاری ہے کیا اس سے پہلے صحیحین کی کسی حدیث پر جرح و تعدیل نہیں ہوئی؟
کہیے تو کچھ نام گنوائوں
باقی جہاں تک معاویہ﴿ر﴾ کے شعر کا تعلق ہے اس کی کوئی سند ہے یا نہیں میں نے اس پر کوئی زور نہیں دیا ضمنا اس کا حوالہ دے دیا ہے
میرا موقف یہی ہے کہ نام کا ثابت ہونا ضروری نہیں کام کا ثابت ہونا ضروری ہے
اور نام پر بھی پر بوقت ضرورت بات کی جائے گی انشاء اللہ العزیز پہلے آپ اپنے موقف کو کسی محکم بنیاد پر استوار کر لیں کا بات نام پر کرنا ہے یا کام پر؟
 

wahab49

محفلین
سب دوستوں سے گزارش۔
جب اسلام نے کہہ دیا کہ برتری صرف اور صرف تقویٰ پر ھے تو اس سے زیادہ کچھ کہنا بے جا ھے۔
فرق صرف اتنا ھے کہ ھم روزمرہ زندگی کے ساتھ اسلام لیکر چل رھے ھیں، جبکہ انہوں نے دنیا سے کنارہ کشی کر لی ھے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی زندگی گزاری۔ شادی بلکہ شادیاں کیں۔ عوامی مسائل میں حصہ لیا۔ ایک دنیاوی زندگی گزاری۔ موجودہ صوفی تو دنیا سے الگ ھو جاتے ھیں۔ اپنی بچت کے چکر میں۔
کیا ان پر باقیوں ی ذمہ داری نہیں بنتی؟؟
قرآن میں ارشاد ھوا۔ کل کم راع و کل کم مسعول عن رعیتہ
ترجمہ : ھر ایک کی ایک رعایا ھے اور اس سے اسکی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یہ صوفی وہ لوگ ھیں جو اپنی رعایا سے بھاگ گئے۔
 
Top