منطقی سوالات ۔۔۔
شاکرالقادری نے کہا:
اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد جن ستونوں پر قائم کی ہے اور جن کے بغیر تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہیں:
صدق و صفا ، اخلاص و محبت،احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبرو رضا اور شکر وغیرہ
اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد کے لیے اقوال رسول کو سر چشمہ ہدایت بنایا ہے اور یہ بھی امر واقع ہے کہ آئمہ تصوف نے اپنے اعمال اور احوال و مقامات کے لیے سنت نبوی سے استناد و دلائل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے
بات یہ نہیں ہے کہ تصوف کی بنیاد یا اہمیت کن کن عناصر پر قائم ہے ؟
بلکہ حقیقی جوابِ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کے ہوتے ہوئے ایک علحدہ فلسفے یا نظریے کی ضرورت کیوں درپیش ہے ؟
سوال یہ نہیں ہے کہ : دینِ تصوف یا دینِ طریقت کی کون سی اہم بنیادیں ہیں ؟
بلکہ یہ ہے کہ : دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔
منطقی اعتبار سے یہ معاملہ اس لیے بھی زیرِ بحث آئے گا کہ ۔۔۔ فرقے فرقے بننے والی چیزوں سے قرآن واضح طور پر منع فرماتا ہے ۔
اگر احباب کو ناگوار خاطر نہ گزرے تو عرض ہے کہ : ایک فرقہ وہ بھی ہے جس کا کلمۂ توحید وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے اور اسلام کے پانچ ارکان پر بھی اس کا ایمان ہے ۔۔۔ اس کے باوجود اس کی انفرادیت ختمِ نبوت (ص) کے انکار کے سبب واضح ہوئی اور اس کو اسلام سے علحدہ ایک الگ مذہب قرار دیا گیا ۔ یہ فرقہ بھی تو وہی راگ الاپتا ہے کہ ہمارا کلمہ ، رسول (ص) کا ہی کلمہ ہے ۔ پھر بھی یہ اپنی شناخت علحدہ بتانے پر مصر ہے ۔
ایک دنیاوی مثال سے یوں بھی سمجھئے کہ بچوں کے دودھ کا پاؤڈر نیڈو بھی بناتا ہے اور اینکر بھی ۔ دونوں اقسام کے پاؤڈر کے اجزائے ترکیبی تقریباََ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ پھر بھی مقابلہ ہوتا ہے کہ ہمارا پراڈکٹ سب میں بہترین ہے ۔ اور دعویٰ کے ثبوت میں اجزائے ترکیبی کوئی بھی بیان نہیں کرتا بلکہ وہ خصوصیات بتائی جاتی ہیں جو دوسرے میں نہیں ہوتیں ۔ یعنی یہ سارا نام کا کھیل ہے ۔ یعنی دنیا میں بس ہم خالص ہیں ۔
دینِ اسلام کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا فلسفہ یا نظریہ لے آتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کو بتاتا ہے ۔ لیکن کن باتوں سے اس کی خصوصیات ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے الگ ہٹ کر واضح ہوتی ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اگر پوچھا جائے کہ نام کیوں الگ ہے تو جواب ملے گا کہ نام سے کیا ہوتا ہے ، کام تو سارا ہی وہی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔
بھائی جب آپ قرآن و سنت کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں تو نئے نام گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟
اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شریعتِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے مکمل اور کافی ہے اور کتاب و سنت میں بھی زندگی گزارنے کے لئے مہد سے لحد تک ایک ایک لمحہ کے لئے ہدایات موجود ہیں تو پھر اس میں ’طریقت‘ یا ’تصوف‘ کے نام سے اضافہ کی گنجائش کہاں سے پیدا کر لی گئی ؟؟؟
اگر طریقت اخلاص فی العبادت کا نام ہے تو کیا شریعت میں پہلے یہ عنصر موجود نہیں تھا ؟
اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد اور وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے ؟؟؟