غازی عثمان
محفلین
نعیمہ احمد مہجور
بی بی سی اردو، لندن
اسلامی جمہوریت اور عالمی رائے عامہ
دنیا کے تقریباً سبھی ملکوں میں یہ خیال عام ہے کہ اسلام میں جمہوریت کا کوئی تصور نہیں اور جمہوری عمل اسلام کے منافی ہے۔ تاہم اس حوالے سے بعض مغربی مؤرخین اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اصل میں چند ملکوں کی صوابدید پر رائے عامہ قائم کرنے کے ایسے کارخانے بنائےگئے ہیں جو اپنی بات منوانے کے لیے اسی طرح کا تصور یا نظریہ پیش کرتے ہیں جو ان کی پالیسی کے عین مطابق ہو۔
بقول گوبلز کوئی جھوٹی بات بار بار کہنے سے سچ بنائی جاتی ہے جیسا کہ دوسری عالمگیر جنگ میں ان کا یہ حربہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اسلام کو جمہوریت کے منافی قرار دینے کا یہ نظریہ بار بار دوہرانےسےصحیح مانا جانے لگا حتٰی کہ خود مسلمانوں نے اس نظریے کو من و عن قبول کیا۔
اس ’عقیدے‘ کو پھیلانے میں اہم کردار مغرب نواز اسلامی رہنماؤں نے کیا جو اپنے ملکوں میں جمہوریت کا سرے سے قیام نہیں چاہتے۔ کیا یہ مسئلہ اسلام کا ہے یا یہ کہ مسلمان حکمرانوں میں آزاد معاشرے میں رہنے کی وہ تہذیب ابھی تک نہیں آئی جو جمہوریت کی بنیاد بنتی ہے؟
مشہور مؤرخ لیث کببا کہتے ہیں کہ مسئلہ اسلام کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہے۔اس کا تعلق نہ مذہب سے ہے اور نہ جدیدت سے۔ اصل میں مسلمانوں کو جمہوریت سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس سازش میں سب سے نمایاں کردار مسلمان حکمرانوں نے ادا کیا جو عوام کی آزادی کو اپنے لیے شدید خطرہ سمجھتے ہیں۔
ان حکمرانوں کو ہمیشہ کٹر مذہب پرستوں کی حمایت حاصل ہوئی جنہوں نے اسلام کو سخت ترین مذہب کے طور پر پیش کر کے عوام کو اپنی مٹھی میں قید کر رکھا ہے۔
عرب حکمرانوں نے ظاہری طور پر جمہوریت کے مغربی ماڈل سے ہمیشہ نفرت کی مگر مغرب نے آج تک جتنی ایجادات کی ہیں اسکا ثمر پہلے انہوں نے ہی حاصل کیا۔ مغرب کے ہمسایہ اسلامی ملکوں میں اس بات پر یہ تذبذب چھایا رہا کہ اسلامی طرز حکومت اور جمہوری نظام میں کس کو اپنایا جائے جس کے نتیجے میں نہ وہ مکمل طور پر اسلامی رہے اور نہ مغرب کے سیکولرازم کو پوری طرح سے اپنا سکے۔تذبذب کی اس کیفیت نے پچپن ملکوں میں آباد ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانوں میں نہ صرف مذہب کے تئیں کنفیوژن پیدا کیا ہے بلکہ حکمرانوں کے طرز عمل پر ان کے شکوک بھی ہیں۔
مسلمان ملکوں میں ترکی نے تحریکِ خلافت کے خاتمے کے بعد ہی جمہوری نظام تشکیل دینے میں سبقت لی اور بابائے قوم کہلانے والے کمال اتا ترک نے مغربی طرز پر اصلاحاتی پیکیج متعارف کرا کے جمہوری اداروں کی بنیاد ڈالی۔ملک کے اعلی طبقے نے ان کی حمایت کی مگر نچلے سطح پر اس نظام کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اسّی برس گزر جانے کے باوجود ترکی نے صحیح معنوں میں جمہوریت قائم نہیں کی۔
ترکی کے مقابلے میں ملیشیا کے اعلٰی طبقے نے جمہوریت کی کبھی حامی نہیں بھری کیونکہ اسے خدشہ رہا کہ ملک میں کثیر نسلی برادریوں اور مذہب کے مابین توازن قائم کرنے میں شدید دشواری ہو سکتی ہے۔ گو کہ ایران میں منصفانہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی بدولت جمہوری عمل جاری رہا ہے مگر تمام اختیارات شوری نگہبان کے پاس رہنے سے اس نظام کو غیر جمہوری ہی تصور کیا جاتا رہا ہے۔
گذشتہ دو دہائیوں میں بعض عرب ملکوں میں انتخابی عمل شروع کیا گیا البتہ انہیں صاف و شفاف انتخابات کی سند دینے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ اگرچہ کئی ملکوں میں منصفانہ انتخابات عمل میں آئے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوئے بلکہ ان جماعتوں کو سخت گیرقرار دے کر رد کر دیا گیا۔
امریکہ نے مشرق وسطٰی میں جمہوری نظام قائم کرنے کی جو پالیسی مرتب کی ہے اس پر اکثر مؤرخ شک کر رہے ہیں۔ وہ ابھی تک یہ تعین نہیں کر پا رہے ہیں کہ امریکہ اس خطے میں جمہوریت کا کونسا ماڈل اپنانا چاہتا ہے۔ جب مصر میں اخوان المسلمین، الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ اور فلسطین میں حماس نے انتخابات جیتے تو امریکیوں نے تمام مغربی ملکوں کے ساتھ مل کر ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور روایتی حکمرانوں کی پیٹھ تھتھپاتے رہے حالانکہ وہ انتخابی عمل بری طرح ہار بھی چکے تھے۔ تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا صرف انتخابات ہی جمہوریت کی نشانی ہیں یا اس حوالے سے شخصی آزادی کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔
مسلمانوں کو مغرب کا طرز عمل دیکھ کر تعجب ہوا اور یہ سوال اٹھا کہ کیا امریکہ نے جمہوریت کا جو نیا ماڈل مسلمانوں کے لیے تیار کیا ہے اس کی عملداری کا ابھی وقت نہیں آیا؟
امریکی مسلمان ملکوں میں دو دھاری تلوارسے کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کے حکمرانوں جیسے مسلمان اہلِ اقتدار سے گہرے تعلقات قائم کیے ہیں جنہوں نے اپنی سلطنتوں میں کبھی جمہوری اداروں کو قائم کرنے کا موقع نہیں دیا تو دوسری طرف امریکیوں نے فلسطین میں حماس کی حکومت کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔
حقیقت میں مغرب اور مغرب نواز مسلمان رہنماؤں نے اسلام اور جمہوریت کے بیچ ایسی وسیع خلیج پیدا کی ہے کہ خود مسلمانوں میں یہ عقیدہ پختہ ہوگیا ہے کہ جمہوریت اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔
جمہوریت کی خوبی ہے کہ اس کی بدولت عوام طاقت بن جاتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے حکمرانوں کو بنا اور بگاڑ سکتے ہیں جس کا مسلمان رہنما ابھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک بڑی وجہ مسلمانوں میں موجود یہ خدشہ بھی ہے کہ جمہوریت سے ان کے معاشرے کا تانا بانا اسی طرح بکھر جائےگا جس طرح مغربی ملکوں میں ہوا ہے۔ گو کہ مسلمان جدیدیت اور ایجادات کے حامی رہے ہیں البتہ جمہوریت کی قیمت اگر گھر بار کی خوشی سے محرومی کی صورت میں ادا کرنا پڑے تو اس کا خیال تک کرنا گناہ ہوگا۔
بعض مؤرخ سمجھتے ہیں کے اسلامی نظام میں شعوریت کا تصور پارلیمان یا اسمبلی سے مختلف نہیں۔ اس کی شہادت میں پیغمبرِ اسلام کے اس معاہدے کو پیش کیا جاتا ہے جب انہوں نے یہودیوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اسلام کو وقت اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی روایت ڈالی۔
مغرب میں بیش بہا شہری آزادیوں، مساوی انسانی حقوق، ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی بیاہ اور مذہب تبدیل کرنے کے اختیارات سے مسلمان خطرہ محسوس کر رہے ہیں مگر جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے معاشرے کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ضروری نہیں اور مسلمان اسلام کی بنیاد پر جمہوریت کا نیا ماڈل بنا سکتے ہیں مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسلمان حکمران اپنے عوام کو جمہوری نظام دے کر انہیں سوچنے اور سمجھنے کی آزادی دینا چاہتے ہیں؟
بی بی سی اردو، لندن
اسلامی جمہوریت اور عالمی رائے عامہ
دنیا کے تقریباً سبھی ملکوں میں یہ خیال عام ہے کہ اسلام میں جمہوریت کا کوئی تصور نہیں اور جمہوری عمل اسلام کے منافی ہے۔ تاہم اس حوالے سے بعض مغربی مؤرخین اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اصل میں چند ملکوں کی صوابدید پر رائے عامہ قائم کرنے کے ایسے کارخانے بنائےگئے ہیں جو اپنی بات منوانے کے لیے اسی طرح کا تصور یا نظریہ پیش کرتے ہیں جو ان کی پالیسی کے عین مطابق ہو۔
بقول گوبلز کوئی جھوٹی بات بار بار کہنے سے سچ بنائی جاتی ہے جیسا کہ دوسری عالمگیر جنگ میں ان کا یہ حربہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اسلام کو جمہوریت کے منافی قرار دینے کا یہ نظریہ بار بار دوہرانےسےصحیح مانا جانے لگا حتٰی کہ خود مسلمانوں نے اس نظریے کو من و عن قبول کیا۔
اس ’عقیدے‘ کو پھیلانے میں اہم کردار مغرب نواز اسلامی رہنماؤں نے کیا جو اپنے ملکوں میں جمہوریت کا سرے سے قیام نہیں چاہتے۔ کیا یہ مسئلہ اسلام کا ہے یا یہ کہ مسلمان حکمرانوں میں آزاد معاشرے میں رہنے کی وہ تہذیب ابھی تک نہیں آئی جو جمہوریت کی بنیاد بنتی ہے؟
مشہور مؤرخ لیث کببا کہتے ہیں کہ مسئلہ اسلام کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہے۔اس کا تعلق نہ مذہب سے ہے اور نہ جدیدت سے۔ اصل میں مسلمانوں کو جمہوریت سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس سازش میں سب سے نمایاں کردار مسلمان حکمرانوں نے ادا کیا جو عوام کی آزادی کو اپنے لیے شدید خطرہ سمجھتے ہیں۔
ان حکمرانوں کو ہمیشہ کٹر مذہب پرستوں کی حمایت حاصل ہوئی جنہوں نے اسلام کو سخت ترین مذہب کے طور پر پیش کر کے عوام کو اپنی مٹھی میں قید کر رکھا ہے۔
عرب حکمرانوں نے ظاہری طور پر جمہوریت کے مغربی ماڈل سے ہمیشہ نفرت کی مگر مغرب نے آج تک جتنی ایجادات کی ہیں اسکا ثمر پہلے انہوں نے ہی حاصل کیا۔ مغرب کے ہمسایہ اسلامی ملکوں میں اس بات پر یہ تذبذب چھایا رہا کہ اسلامی طرز حکومت اور جمہوری نظام میں کس کو اپنایا جائے جس کے نتیجے میں نہ وہ مکمل طور پر اسلامی رہے اور نہ مغرب کے سیکولرازم کو پوری طرح سے اپنا سکے۔تذبذب کی اس کیفیت نے پچپن ملکوں میں آباد ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانوں میں نہ صرف مذہب کے تئیں کنفیوژن پیدا کیا ہے بلکہ حکمرانوں کے طرز عمل پر ان کے شکوک بھی ہیں۔
مسلمان ملکوں میں ترکی نے تحریکِ خلافت کے خاتمے کے بعد ہی جمہوری نظام تشکیل دینے میں سبقت لی اور بابائے قوم کہلانے والے کمال اتا ترک نے مغربی طرز پر اصلاحاتی پیکیج متعارف کرا کے جمہوری اداروں کی بنیاد ڈالی۔ملک کے اعلی طبقے نے ان کی حمایت کی مگر نچلے سطح پر اس نظام کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اسّی برس گزر جانے کے باوجود ترکی نے صحیح معنوں میں جمہوریت قائم نہیں کی۔
ترکی کے مقابلے میں ملیشیا کے اعلٰی طبقے نے جمہوریت کی کبھی حامی نہیں بھری کیونکہ اسے خدشہ رہا کہ ملک میں کثیر نسلی برادریوں اور مذہب کے مابین توازن قائم کرنے میں شدید دشواری ہو سکتی ہے۔ گو کہ ایران میں منصفانہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی بدولت جمہوری عمل جاری رہا ہے مگر تمام اختیارات شوری نگہبان کے پاس رہنے سے اس نظام کو غیر جمہوری ہی تصور کیا جاتا رہا ہے۔
گذشتہ دو دہائیوں میں بعض عرب ملکوں میں انتخابی عمل شروع کیا گیا البتہ انہیں صاف و شفاف انتخابات کی سند دینے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ اگرچہ کئی ملکوں میں منصفانہ انتخابات عمل میں آئے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوئے بلکہ ان جماعتوں کو سخت گیرقرار دے کر رد کر دیا گیا۔
امریکہ نے مشرق وسطٰی میں جمہوری نظام قائم کرنے کی جو پالیسی مرتب کی ہے اس پر اکثر مؤرخ شک کر رہے ہیں۔ وہ ابھی تک یہ تعین نہیں کر پا رہے ہیں کہ امریکہ اس خطے میں جمہوریت کا کونسا ماڈل اپنانا چاہتا ہے۔ جب مصر میں اخوان المسلمین، الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ اور فلسطین میں حماس نے انتخابات جیتے تو امریکیوں نے تمام مغربی ملکوں کے ساتھ مل کر ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور روایتی حکمرانوں کی پیٹھ تھتھپاتے رہے حالانکہ وہ انتخابی عمل بری طرح ہار بھی چکے تھے۔ تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا صرف انتخابات ہی جمہوریت کی نشانی ہیں یا اس حوالے سے شخصی آزادی کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔
مسلمانوں کو مغرب کا طرز عمل دیکھ کر تعجب ہوا اور یہ سوال اٹھا کہ کیا امریکہ نے جمہوریت کا جو نیا ماڈل مسلمانوں کے لیے تیار کیا ہے اس کی عملداری کا ابھی وقت نہیں آیا؟
امریکی مسلمان ملکوں میں دو دھاری تلوارسے کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کے حکمرانوں جیسے مسلمان اہلِ اقتدار سے گہرے تعلقات قائم کیے ہیں جنہوں نے اپنی سلطنتوں میں کبھی جمہوری اداروں کو قائم کرنے کا موقع نہیں دیا تو دوسری طرف امریکیوں نے فلسطین میں حماس کی حکومت کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔
حقیقت میں مغرب اور مغرب نواز مسلمان رہنماؤں نے اسلام اور جمہوریت کے بیچ ایسی وسیع خلیج پیدا کی ہے کہ خود مسلمانوں میں یہ عقیدہ پختہ ہوگیا ہے کہ جمہوریت اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔
جمہوریت کی خوبی ہے کہ اس کی بدولت عوام طاقت بن جاتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے حکمرانوں کو بنا اور بگاڑ سکتے ہیں جس کا مسلمان رہنما ابھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک بڑی وجہ مسلمانوں میں موجود یہ خدشہ بھی ہے کہ جمہوریت سے ان کے معاشرے کا تانا بانا اسی طرح بکھر جائےگا جس طرح مغربی ملکوں میں ہوا ہے۔ گو کہ مسلمان جدیدیت اور ایجادات کے حامی رہے ہیں البتہ جمہوریت کی قیمت اگر گھر بار کی خوشی سے محرومی کی صورت میں ادا کرنا پڑے تو اس کا خیال تک کرنا گناہ ہوگا۔
بعض مؤرخ سمجھتے ہیں کے اسلامی نظام میں شعوریت کا تصور پارلیمان یا اسمبلی سے مختلف نہیں۔ اس کی شہادت میں پیغمبرِ اسلام کے اس معاہدے کو پیش کیا جاتا ہے جب انہوں نے یہودیوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اسلام کو وقت اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی روایت ڈالی۔
مغرب میں بیش بہا شہری آزادیوں، مساوی انسانی حقوق، ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی بیاہ اور مذہب تبدیل کرنے کے اختیارات سے مسلمان خطرہ محسوس کر رہے ہیں مگر جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے معاشرے کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ضروری نہیں اور مسلمان اسلام کی بنیاد پر جمہوریت کا نیا ماڈل بنا سکتے ہیں مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسلمان حکمران اپنے عوام کو جمہوری نظام دے کر انہیں سوچنے اور سمجھنے کی آزادی دینا چاہتے ہیں؟