باسم
محفلین
پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بن سکتا کے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ اپنی کتاب "نفاذِ شریعت اور اس کے مسائل" کے صفحہ ۳۷ میں لکھتے ہیں کہ
اسلامی نقطۂ نظر سے دستور کی سب سے اہم اور بنیادی دفعہ وہ ہوتی ہےجس میں یہ تصریح کی جائے کہ کوئی قانون قراٰن و سنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا، نہ باقی رکھا جائے گا۔ اگر یہ دفعہ اپنے صحیح قانونی تحفظات کے ساتھ دستور میں شامل ہوجائے تو اسلام کے دوسرے تمام تقاضے خود بخود پورے ہوسکتے ہیں، اور اگر اس میں کوئی قانونی نقص رہ جائے تو دوسری اسلامی دفعات بھی بے جان اور غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔
ہماری دستور سازی کی تاریخ میں یہی وہ اسلامی دفعہ ہے جس پر ہمیشہ طرح طرح کے قانونی داؤ پیچ آزمائے جاتے رہے ہیں، اور جو عناصر اس ملک میں اسلام کے صحیح صحیح نفاذ کے مخالف ہیں وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے ہیں کہ یہ دفعہ زیادہ سے زیادہ غیر مؤثر ہوکر دستور کا جز بنے اور اس میں ایسے خفیہ راستے رکھے جائیں جن کے ذریعے اسلام سے راہِ فرار اختیار کی جاسکے، چنانچہ ابھی تک کسی بھی دستور میں یہ دفعہ اپنے ان لوازم اور تحفظات کے ساتھ نہیں آسکی جو اس کے عملی اطلاق کیلیے ناگزیر ہیں۔ اس لیے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دفعہ پورے دستور میں سب سے زیادہ توجہ چاہتی ہے۔
زیرِ بحث آئینی مسودہ میں یہ دفعہ نمبر ۲۲۷ ہے جو حصہ نہم میں "اسلامی احکام" کے زیرِ عنوان لکھی گئی ہے، اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
(۱) ۔ ۔ تمام موجودہ قوانین کو ان اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جو قرٰان و سنت میں مذکور ہیں اور جنہیں مابعد کی عبارتوں میں "اسلامی احکام" کہا گیا ہے، اور کوئی قانون ایسا وضع نہیں کیا جائے گا جو ان احکام کے منافی ہو۔
(۲) ۔ ۔ فقرہ نمبر ۱ میں مذکورہ احکام کی تعمیل صرف اس طریقے سے کی جائے گی جس کی اس حصہ میں صراحت کی گئی ہے۔
جہاں تک اس دفعہ کے فقرہ نمبر ۱ کے الفاظ کا تعلق ہے، وہ سالہا سال سے مسودہ دستور میں لکھے چلے آرہے ہیں، لیکن ان پر عمل ایک دن بھی نہ ہوسکا۔
آج پچیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ کسی قانون کو غیر اسلامی ہونے کی بناء پر کالعدم قرار دیا گیا، اور نہ ہی کوئی نیا قانون اسلامی ہونے کی بنیاد پر نافذ ہوسکا، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس دفعہ کو ہمیشہ ایسا ڈھیلا ڈھالا رکھنے کی کوشش کی گئی کہ وہ عملاً بے اثر ہوکر رہ جائے۔ ہم یہاں پہلے یہ بیان کرتے ہیں کہاس دفعہ کو عملی طور پر مؤثر بنانے کا کیا طریقہ ہے؟ اس کے بعد یہ عرض کریں گے کہ مجوزہ دستور میں اس دفعہ سے متعلق کیا خامی ہے؟ اور اسے کس ترمیم کے بعد دور کیا جاسکتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ اس دفعہ کے دو حصے ہیں:۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ جتنے قوانین نفاذ دستور سے پہلے بن چکے ہیں ان پر اسلامی حیثیت سے نظر ثانی کرکے ان میں ایسی ترمیم کی جائے جس سے وہ شریعت کے مطابق ہوجائیں، نیز جن مزید اسلامی احکام کو قانونی شکل دینی ہے انہیں مدون کیا جائے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ دستور کے نفاذ کے بعد جتنے قوانین وضع ہوں ان میں اس بات کی ضمانت موجود ہو کہ وہ قراٰن یا سنت کے کسی حکم کے خلاف نہیں ہیں۔
جہاں تک پہلے حصے یعنی پرانے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور نئے اسلامی قوانین مدون کرنے کا تعلق ہے، اس پر ٹھیک ٹھیک عمل اس وقت ممکن ہے جب دستور میں مندرجہ ذیل امور کی ضمانت موجود ہوکہ:
(الف) ۔ ۔ اس غرض کیلیے ایک موثر اور بااختیار ادارہ قائم کیا جائے گا۔
(ب) ۔ ۔اس ادارے میں ان ہی افراد کو نامزر کیا جائے گا جو اس کام کے واقعی اہل ہوں، یعنی ایک طرف وہ قرآن و سنت کے علوم میں گہری بصیرت کے حامل ہوں اور دوسری طرف پاکستان کے سماجی، معاشی، سیاسی اور انتظامی مسائل کو سمجھتے ہوں۔
(ج) ۔ ۔ اس ادارے کیلیے ضروری قرار دیا جائے گا کہ وہ ایک معنہ مدت میں اسلامی قوانین کو مدون کرکے ہیش کردے۔
(د) ۔ ۔ جو قوانین یہ ادارہ مدون کرکے اسمبلی کے سامنے پیش کرے وہ شرعی مسائل میں کسی نااہل کی ترمیم کے بغیر نافذ کر دیے جائیں گے۔
(جاری ہے) اس دفعہ کے متعلق پوری بحث لکھنے کی کوشش کروں گا
اسلامی نقطۂ نظر سے دستور کی سب سے اہم اور بنیادی دفعہ وہ ہوتی ہےجس میں یہ تصریح کی جائے کہ کوئی قانون قراٰن و سنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا، نہ باقی رکھا جائے گا۔ اگر یہ دفعہ اپنے صحیح قانونی تحفظات کے ساتھ دستور میں شامل ہوجائے تو اسلام کے دوسرے تمام تقاضے خود بخود پورے ہوسکتے ہیں، اور اگر اس میں کوئی قانونی نقص رہ جائے تو دوسری اسلامی دفعات بھی بے جان اور غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔
ہماری دستور سازی کی تاریخ میں یہی وہ اسلامی دفعہ ہے جس پر ہمیشہ طرح طرح کے قانونی داؤ پیچ آزمائے جاتے رہے ہیں، اور جو عناصر اس ملک میں اسلام کے صحیح صحیح نفاذ کے مخالف ہیں وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے ہیں کہ یہ دفعہ زیادہ سے زیادہ غیر مؤثر ہوکر دستور کا جز بنے اور اس میں ایسے خفیہ راستے رکھے جائیں جن کے ذریعے اسلام سے راہِ فرار اختیار کی جاسکے، چنانچہ ابھی تک کسی بھی دستور میں یہ دفعہ اپنے ان لوازم اور تحفظات کے ساتھ نہیں آسکی جو اس کے عملی اطلاق کیلیے ناگزیر ہیں۔ اس لیے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دفعہ پورے دستور میں سب سے زیادہ توجہ چاہتی ہے۔
زیرِ بحث آئینی مسودہ میں یہ دفعہ نمبر ۲۲۷ ہے جو حصہ نہم میں "اسلامی احکام" کے زیرِ عنوان لکھی گئی ہے، اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
(۱) ۔ ۔ تمام موجودہ قوانین کو ان اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جو قرٰان و سنت میں مذکور ہیں اور جنہیں مابعد کی عبارتوں میں "اسلامی احکام" کہا گیا ہے، اور کوئی قانون ایسا وضع نہیں کیا جائے گا جو ان احکام کے منافی ہو۔
(۲) ۔ ۔ فقرہ نمبر ۱ میں مذکورہ احکام کی تعمیل صرف اس طریقے سے کی جائے گی جس کی اس حصہ میں صراحت کی گئی ہے۔
جہاں تک اس دفعہ کے فقرہ نمبر ۱ کے الفاظ کا تعلق ہے، وہ سالہا سال سے مسودہ دستور میں لکھے چلے آرہے ہیں، لیکن ان پر عمل ایک دن بھی نہ ہوسکا۔
آج پچیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ کسی قانون کو غیر اسلامی ہونے کی بناء پر کالعدم قرار دیا گیا، اور نہ ہی کوئی نیا قانون اسلامی ہونے کی بنیاد پر نافذ ہوسکا، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس دفعہ کو ہمیشہ ایسا ڈھیلا ڈھالا رکھنے کی کوشش کی گئی کہ وہ عملاً بے اثر ہوکر رہ جائے۔ ہم یہاں پہلے یہ بیان کرتے ہیں کہاس دفعہ کو عملی طور پر مؤثر بنانے کا کیا طریقہ ہے؟ اس کے بعد یہ عرض کریں گے کہ مجوزہ دستور میں اس دفعہ سے متعلق کیا خامی ہے؟ اور اسے کس ترمیم کے بعد دور کیا جاسکتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ اس دفعہ کے دو حصے ہیں:۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ جتنے قوانین نفاذ دستور سے پہلے بن چکے ہیں ان پر اسلامی حیثیت سے نظر ثانی کرکے ان میں ایسی ترمیم کی جائے جس سے وہ شریعت کے مطابق ہوجائیں، نیز جن مزید اسلامی احکام کو قانونی شکل دینی ہے انہیں مدون کیا جائے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ دستور کے نفاذ کے بعد جتنے قوانین وضع ہوں ان میں اس بات کی ضمانت موجود ہو کہ وہ قراٰن یا سنت کے کسی حکم کے خلاف نہیں ہیں۔
جہاں تک پہلے حصے یعنی پرانے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور نئے اسلامی قوانین مدون کرنے کا تعلق ہے، اس پر ٹھیک ٹھیک عمل اس وقت ممکن ہے جب دستور میں مندرجہ ذیل امور کی ضمانت موجود ہوکہ:
(الف) ۔ ۔ اس غرض کیلیے ایک موثر اور بااختیار ادارہ قائم کیا جائے گا۔
(ب) ۔ ۔اس ادارے میں ان ہی افراد کو نامزر کیا جائے گا جو اس کام کے واقعی اہل ہوں، یعنی ایک طرف وہ قرآن و سنت کے علوم میں گہری بصیرت کے حامل ہوں اور دوسری طرف پاکستان کے سماجی، معاشی، سیاسی اور انتظامی مسائل کو سمجھتے ہوں۔
(ج) ۔ ۔ اس ادارے کیلیے ضروری قرار دیا جائے گا کہ وہ ایک معنہ مدت میں اسلامی قوانین کو مدون کرکے ہیش کردے۔
(د) ۔ ۔ جو قوانین یہ ادارہ مدون کرکے اسمبلی کے سامنے پیش کرے وہ شرعی مسائل میں کسی نااہل کی ترمیم کے بغیر نافذ کر دیے جائیں گے۔
(جاری ہے) اس دفعہ کے متعلق پوری بحث لکھنے کی کوشش کروں گا