یہاں اکثر دوست قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں [ayah]و امرھم شوری بینھم[/ayah] اور اس سے مغربی جمہوریت کے لئے گنجائش نکالتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ایک جگہ عرض کیا تھا مگر اسطرف آپ (مغربی جمہوریت کے حامی ) دوستوں نے توجہ نہیں دی۔
جناب توجہ دی ہے اس لیئے حاضر ہوں ۔۔۔ اور آپ نے بھی اس طرف توجہ تو دی ہے مگر آپ اس آیت کے پس منظر اور اس کے مخاطب پر پر توجہ کرنے بھول گئے ہیں ۔
قرآن مجید میں ہے [ARABIC]و شاورھم فی امرھم[/ARABIC] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاموں میں صحابہ سے مشورہ کر لیا کریں۔
مگر
آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [ARABIC]فاذا عزمت فتوکل علی اللہ[/ARABIC] پس جب تیرا (اپنا )ارادہ پکا ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرلے
عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہوں گے کہ [arabic]عزمت[/arabic] کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اللہ نے [arabic]عزموا[/arabic] نہیں فرمایا کہ جب ان (مشورہ دینے والوں) کا ارادہ پکا ہوجائے۔۔۔ بلکہ اس میں نکتہ یہ ہے کہ مشورہ تو سب سے لو مگر تیرا اپنا دل جسطرف پکا ہو وہ فیصلہ کر۔ یہ نہیں کہ اکثریت ہی کا فیصلہ اختیار کرنا لازم ہے۔ پس اگر اکثریت کا فیصلہ تیرے فیصلہ کے موافق ہے تو اختیار کرلے۔۔۔ اور اگر اکثریت کا فیصلہ تیرے موافق نہیں تو بھی تو اپنا فیصلہ اختیار کر
دور نبوت میں غزوہ خندق میں صحابہ کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ لڑائی شہر سے باہر نکل کر لڑی جائے ۔ اور اکیلے حضرت سلمان فارسی رض نے رائے دی کہ شہر میں ہی رہ کر خندق کھود کر لڑائی لڑی جائے۔ اب مغربی جمہوریت ہوتی تو اکثریت کا فیصلہ ہی اٹل ہوتا ۔۔۔ مگر جی نہیں ۔۔۔ حکم ربی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشورہ تسلیم کیا جو اگرچہ اکثریتی رائے نہیں تھی مگر آپ کا اپنا دل بھی اسی کے ساتھ تھا
اب دوست کہیں گے کہ جی وہ تو نبی تھے اس لئے وہ اپنے دل کے مطابق فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔
میں پہلے اس اقتباس کی آخری سطر پر ( جو کہ ریڈ کلر میں ہے ) آپ کی توجہ دلاؤں کہ جب آپ کو اس موضوع پر بحث ہی مقصود نہیں تھی تو آپ نے یہاں قلم کیوں اٹھایا ۔ ؟
آپ نے اپنا استدلال پیش کر دیا ہے ۔ لہذا اب ضروری نہیں کہ آپ میری اس پوسٹ سے متفق ہوں ۔ مگرمیں دیگر دوستو کے لیئے آپ کے اس اقتباس پر دو بات کہنے کی جسارت کروں گا ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اس آیت میں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہے ۔ یعنی جب پیغمبر موجود ہوتا ہے تو اسے اللہ کی براہ راست رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی ہدایت کے مطابق فیصلہ اختیار کرے ۔ جب اللہ کا پیغیبر دنیا میں موجود نہیں ہوگا تو وہ انسان ہی ہیں جو پوری کوشش کریں گے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی فیصلہ اختیار کریں ۔ جس واقعہ کا آپ نے ذکر کیا ہے اگر یہ واقعہ آج کے دور میں کسی حکمران کیساتھ ہوتا تو اس کا فیصلہ کیا اور کیسے ہوتا ۔ ؟
لہذا جس آیت کو آپ نے یہاں بیان کیا ہے اس کا پس منظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ہے جو اللہ کے براہِ راست حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کے مجاز تھے ۔
دوسری بات یہ کہ ہم یہاں ایک نظمِ اجتماعی کی بات کررہے ہیں ۔ اور یہ نظم کیسے قائم ہوگا ۔ ؟ بحث دراصل یہ چل رہی ہے ۔ اور اس آیت میں کسی ریاست کے نظم کو قائم کرنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں ہوئی ۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عارضی موقع پر صحیح فیصلہ کرنے کی رہنمائی ملی تھی ۔ جس پر انہوں نے عمل بھی کیا ۔
لیں دورِ صحابہ سے ایک مثال
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب ایران کے لئے اسلامی لشکر روانہ ہونے لگا تو اکثریت کبار صحابہ کی رائے تھی کی امیرالمومنین خود اس لشکر کی قیادت کریں ۔ لیکن مردِ دانا حضرت علی رض نے فرمایا کہ جنگ تو ایک ہنڈولا ہے جو کبھی اوپر کو جاتا ہے اور کبھی نیچے کو۔ اگر امیرالمومنین شہید ہوگئے تو پوری امت پر اس کا برا اثر پڑے گا۔ تو پھر حضرت سعد بن ابی وقاص کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا گیا
یہاں بھی پہلے سے ایک نظامِ حکومت قائم ہے جس میں فیصلے کا کلی اختیار حکمران کو حاصل تھا ۔ اور اس فیصلے کا بھی تعلق نظم ِ اجتماعی سے نہیں ہے ۔ اور تفصیل میں جائیں تو کوئی بھی فیصلہ ہونے سے پہلے مختلف آراء سامنے رکھی گئیں تھیں ۔ اور جس رائے کے دلائل اور استدلال قوی ہوں ۔ اس کو پھر سب کو ماننا پڑتا ہے ۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے مضبوط تھی اس میں استدلال بھی تھا ۔چناچہ سب کو اسے ماننا بھی پڑا ۔ ایسا تو نہیں ہوا تھا کہ جس اکثریت نے امیرالمومنین کو لشکر کی قیادت کا مشورہ دیا تھا انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اس رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں کی باگیں واپسی کے لیے موڑ دی تھیں ۔
دراصل آپ جس آیت کو مغربی جہموریت کے لیئے گنجائش نکالنے کو کہہ رہے ہیں ۔ اس آیت کا پس منظر یا مفہوم آپ ہی کچھ واضع کردیں ۔ کیونکہ میں تو اس آیت کا اصل مفہوم جاننے کے لیئے بے چین ہوں مگر اکثر احباب اس سے اجتناب کرتے ہوئے حسبِ روایت آگے سے کسی اور آیت کا حوالہ دے دیتے ہیں ، جس کا جہموریت کے حقیقی پس منظر سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔