گو کہ اس کے امکانات انتہائی کم ہیں لیکن اللہ آپ کی زبان مبارک کرے!ڈی جی آئی ایس پی آر نے فیصلے پر فوج کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کافی کھلے لفظوں میں تنقید کی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں بھی طلبی کا پروانہ جاری کر دیا جائے گو کہ ایسا ہونا بہت ہی مشکل ہے مگر ایک موہوم سی امید ہے۔ ہواؤں کا رُخ تو بہت زیادہ بدل گیا اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔
ہائے !کیا بوٹاں والی سرکار اتنی آسانی سے یہ کار خیر انجام دینے دے گی ۔
شاید ملک کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ سول کورٹ نے کسی سابق فوجی کو سزا سنائی ہے ۔
ہم نے تو اپنے پچپن نما بچپن سے یہی مثال سنی ہے کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے تو اس کیس میں مرکزی مجرم ایک سابقہ فوجی ہے ۔
ہم انتظار شروع کر رہے ہیں کہ کب سرکار کی جانب سے بلیک وارنٹ جاری کیا جاتا ہے ۔
اگر اس فیصلے پر عمل نہ ہوسکے تو بھی یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ پرویز ویسے بھی ملعون اور مسترد ہے۔
بے شک فیصلہ دینے والوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ صادر فرما دیا مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت تاریخ کا حصہ بن جائے گی کہ کس بے دردی سے عدلیہ کے احکامات کی دھجیاں اڑائی گئیں ۔اگر اس فیصلے پر عمل نہ ہوسکے تو بھی یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ پرویز ویسے بھی ملعون اور مسترد ہے۔
ایسے بیانات کی حیثیت ردی سے زیادہ کچھ نہیں۔
لو جی ریجیکشن لیٹر آ گیا!
اگر ہمارے سیاستدان ایماندار ہوتے تو آج اس فیصلے پر عمل کروانا اتنا مشکل نہ ہوتا ۔مقابلہ جمہوریت اور آمریت کے درمیاں ہے ۔محترم آصف غفور کی حیرت سمجھ سے بالاتر ہے۔ ارے بھیا! کیا آپ بھول گئے کہ عدالتوں نے مسٹر بھٹو کو پھانسی کی سزا سُنائی تھی اور اس پر عمل درآمد کو آپ کے باوقار ادارے نے یقینی بنایا۔ ان عدالتوں نے نواز شریف صاحب کو بھی سزائے موت سنائی تھی۔ یہ الگ بات کہ بعد ازاں انہوں نے بھٹو بننا گوارا نہ کیا۔ آج جب یہ کوڑا اُن کے اپنے باس پر برسا ہے تو حیرت کیسی! وقت وقت کی بات ہے!
کوئی پاء غفور کو سمجھائے کہ مشرف کے اقدامات ریاست کے آئین کے خلاف ذاتی حیثیت میں تھے۔محترم آصف غفور کی حیرت سمجھ سے بالاتر ہے۔
عدنان بھیا! پرویز مشرف صاحب نے جو فیصلے کیے، ان کو مشورہ دینے والوں میں نام نہاد سیاست دان بھی شامل تھے۔ آج یہ سیاست دان ملک کی مقبول پارٹیوں میں شامل ہیں۔ ہمیں یہ حیرت ہو رہی ہے کہ ایسا فیصلہ آ کیسے گیا۔ عمل درآمد تو خیر ناممکن سا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ ویسے، یہ فیصلہ تو بالکل سامنے کا تھا کہ واضح طور پر آئین شکنی کی گئی تھی اور مملکت پاکستان کے آئین کو پامال کیا گیا، جس کے باعث مشرف صاحب کو سزائے موت سنائی گئی تاہم اس قدر جرات کا مظاہرہ عدلیہ کی طرف سے ہو گا، یہ اچنبھے کی بات ہے۔اگر ہمارے سیاستدان ایماندار ہوتے تو آج اس فیصلے پر عمل کروانا اتنا مشکل نہ ہوتا ۔مقابلہ جمہوریت اور آمریت کے درمیاں ہے ۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ۔
معزز و معتبر سیاستدانوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے مقابلے میں ترجیح اپنے بنک بیلنس اور اپنی ذاتیات کو دی ہے ۔ اگر آج ملک و قوم کے غمخوار ہوتے تو ہمارے حفاظت اور نگہبانی پر مامور سپاہی ہمارے ان داتا نہ ہوتے ۔
غلط۔ ادارتی حیثیت میںکوئی پاء غفور کو سمجھائے کہ مشرف کے اقدامات ریاست کے آئین کے خلاف ذاتی حیثیت میں تھے۔
شاید یہاں ادارہ جاتی بہتر رہے گا۔غلط۔ ادارتی حیثیت میں