اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

سروش

محفلین
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی اور جسٹس سیٹھ وقار نے چار سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔


نیا تماشا؟



مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔

تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔

سنگین غداری کیس کا پس منظر
سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔


غداری کیس: خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرنے کا حکم



چھ سال تک چلنے والے مقدمے میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 جج تبدیل ہوئے۔

عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔ْ

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی جس کے دوران استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام شامل کرنے کی درخواست عدالت نے مسترد کردی۔

استغاثہ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامدکو شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی تھی۔

نوٹ: اس خبر کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کیخلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔

حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست کرتے ہوئے شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ پرویز مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی، ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ کیا حکومت پرویز مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟، آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔

جسٹس نذر اکبر نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے استغاثہ سے کہا کہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے لیکن پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ خصوصی عدالت کے ججز نے کہا کہ یہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔

مشر ف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل میں کہا کہ دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے، اس لیے سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، کیس میں استغاثہ اور مشرف کے وکیل دونوں ہی ملزم کا دفاع کر رہے ہیں۔

عدالت نے آئین سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی اور تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔ تین ججز پر مشتمل خصوصی عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔

12 اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے ملک میں فوجی قانون نافذ کرکے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کردیا اور 20 جون 2001ء کو صدارتی ریفرنڈم کے ذریعے صدر گئے۔

3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو گھروں میں نظربند کردیا تھا۔

پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے ’سنگین بغاوت‘ کا جرم ہے جس کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مشرف صاحب آج کل کہاں ہیں؟
بستر مرگ پر
D5f-qkFWsAIh7DA.jpg
 

سروش

محفلین
خبر آتے ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج 600 پوائنٹ نیچے آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے ایس ای 100 انڈیکس 41484 پر ٹریڈ ہورہا ہے ، جبکہ صبح یہ 42000 کی نفسیاتی حد عبور کرچکا تھا ۔
 
آخری تدوین:
کیا بوٹاں والی سرکار اتنی آسانی سے یہ کار خیر انجام دینے دے گی ۔
شاید ملک کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ سول کورٹ نے کسی سابق فوجی کو سزا سنائی ہے ۔
ہم نے تو اپنے پچپن نما بچپن سے یہی مثال سنی ہے کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے تو اس کیس میں مرکزی مجرم ایک سابقہ فوجی ہے ۔
ہم انتظار شروع کر رہے ہیں کہ کب سرکار کی جانب سے بلیک وارنٹ جاری کیا جاتا ہے ۔
 

سید عمران

محفلین
کیا بوٹاں والی سرکار اتنی آسانی سے یہ کار خیر انجام دینے دے گی ۔
شاید ملک کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ سول کورٹ نے کسی سابق فوجی کا سزا سنائی ہے ۔
ہم نے تو اپنے پچپن نما بچپن سے یہی مثال سنی ہے کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے تو اس کیس میں مرکزی مجرم ایک سابقہ فوجی ہے ۔
ہم انتظار شروع کر رہے ہیں کہ کب سرکار کی جانب سے بلیک وارنٹ جاری کیا جاتے ہیں ۔
آتے ہی ٹیں ٹیں شروع کردی۔۔۔
ارے بھیا چھری تلے ذرا دم تو لے لیں!!!
:rolleyes::rolleyes::rolleyes:
 
Top