اسلام میں شاعری کی حیثیت

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بہتریں گوہر گنجینہ ہست یست سخن
گر سخن جاں نبود مردہ چرا خاموش است

معزز اراکین اردو محفل و محبان علم و ادب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ نہ صرف اردو ادب میں بلکہ تقریبا دنیا کی ہر زبان میں کلام منظوم ایک انفرادی حیثیت و اہمیت کا حامل ہے۔
آج کے اس موضوع کا مقصد کلام منظوم کو آئینہ شریعت میں دیکھنا ہے۔ اور تمام احباب ذی وقار سے درخواست ہے کہ اپنی رائے سے دنیائے علم و ادب کو روشن فرمائیں۔ شکریہ
سورہ الشعراء میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَﭤ°اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ°وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ°

ترجمہ: "اور شعرا کی
پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔"​
اور جناب ختمی مرتبت رسالت مآب علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
"اگر تم میں سے کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھرا ہوا ہو۔"
اور جناب سید الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی شعر کہنا ثابت نہیں البتہ جب جناب حساب بن ثابت رضی اللہ تعالٰی نعت رسول مقبول فرماتے تو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نہ صرف سماعت فرماتے بلکہ تعریف بھی فرماتے۔
تو معززین اردو محفل معترضین کے ان اعتراضات کے کیا جواب دینگے۔

نوٹ: ان شاء اللہ اس موضوع کو ہم مکمل کریں گے کچھ اپنی اور کچھ احباب کی سعی سے۔ اعتراضات سے ابتدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موضوع کو آئینہ شریعت میں دیکھتے وقت اعتراضات بھی کلام کا حصہ رہیں۔ شکریہ۔ سلامت رہیں
والسلام
عامر گولڑوی
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں
شعر بھی کلام ہی ہے اور کلام کے متعلق یہی ہے کہ عمدہ انداز میں بات کہی جائے تو میرے خیال میں دینی لحاظ سے بھی شعر کے لیے یہی اصول ہے۔

دیکھا جائے تو یہ فطری بات ہے کہ شاعروں کے ہاں مبالغہ آمیزی پائی جاتی ہے، اور بسا اوقات قافیہ ردیف کی پیروی کرتے ہوئے شاعر ادھر اُدھر بھٹک بھی جاتے ہیں۔ حقیقی دنیا سے اُن کا تعلق بھی قدرے کمزور پڑ جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کی پیروی نہ کرنے کا حکم ہے کہ کہیں یہ بھی اپنے متاثرین کو نگر نگر کی سیر نہ کرواتے رہیں۔ حظ تو مگر اٹھایا جا سکتا ہے، پیروی کرنا یا نہ کرنا تو یوں بھی الگ معاملہ ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ دیگر احباب کیا فرماتے ہیں۔ یہ تو بس میری طالب علمانہ رائے تھی۔
 

شکیب

محفلین
اور جناب سید الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی شعر کہنا ثابت نہیں
غزوہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا گیا یہ شعر تو بڑا مشہور ہے
انا النبي لا كذب
انا ابن عبد المطلب

اور ایک مشہور حدیث
ان من الشعر لحکمۃ
بے شک کتنی ہی شاعری حکمت و دانائی سے لبریز ہوتی ہے۔

چنانچہ اچھی شاعری محمود اور بری شاعری مذموم ہے۔
 
شعر بھی کلام ہی ہے اور کلام کے متعلق یہی ہے کہ عمدہ انداز میں بات کہی جائے تو میرے خیال میں دینی لحاظ سے بھی شعر کے لیے یہی اصول ہے۔

دیکھا جائے تو یہ فطری بات ہے کہ شاعروں کے ہاں مبالغہ آمیزی پائی جاتی ہے، اور بسا اوقات قافیہ ردیف کی پیروی کرتے ہوئے شاعر ادھر اُدھر بھٹک بھی جاتے ہیں۔ حقیقی دنیا سے اُن کا تعلق بھی قدرے کمزور پڑ جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کی پیروی نہ کرنے کا حکم ہے کہ کہیں یہ بھی اپنے متاثرین کو نگر نگر کی سیر نہ کرواتے رہیں۔ حظ تو مگر اٹھایا جا سکتا ہے، پیروی کرنا یا نہ کرنا تو یوں بھی الگ معاملہ ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ دیگر احباب کیا فرماتے ہیں۔ یہ تو بس میری طالب علمانہ رائے تھی۔
بہت خوب
 
غزوہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا گیا یہ شعر تو بڑا مشہور ہے
انا النبي لا كذب
انا ابن عبد المطلب

اور ایک مشہور حدیث
ان من الشعر لحکمۃ
بے شک کتنی ہی شاعری حکمت و دانائی سے لبریز ہوتی ہے۔

چنانچہ اچھی شاعری محمود اور بری شاعری مذموم ہے۔
بہت شکریہ ان شاء اللہ ساتھ بنا رہے گا اور یوں ہی رہنمائی فرماتے رہیں گے۔
 

م حمزہ

محفلین
بے شک شاعری کا ایک بڑا حصہ اسی قبیل سے ہے جس کی باپت بتایا گیا کہ ان کی پیروی نہ کی جائے. لیکن سب کی سب شاعر ی ایسی نہیں ہے.
إنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً.
(ابي بن كعب , المحدث : البخاري
اور یہ حدیث بھی أنَّ الشِّعرَ ليس بمَذْمومٍ كلُّه. کئی مرتبہ رسول صلى اللهُ علیہ وسلم نے شاعری کی تحسین فرمائی ہے.
 
بے شک شاعری کا ایک بڑا حصہ اسی قبیل سے ہے جس کی باپت بتایا گیا کہ ان کی پیروی نہ کی جائے. لیکن سب کی سب شاعر ی ایسی نہیں ہے.
إنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً.
(ابي بن كعب , المحدث : البخاري
اور یہ حدیث بھی أنَّ الشِّعرَ ليس بمَذْمومٍ كلُّه. کئی مرتبہ رسول صلى اللهُ علیہ وسلم نے شاعری کی تحسین فرمائی ہے.
ماشاءاللہ بہت خوب شکریہ سلامت رہیں۔
 
وہ کیسے؟

ویسے مجھے لگ یہ رہا ہے کہ یہاں سبھی کو، بشمول آپ کے ،اسلام کا موقف اس سلسلے میں معلوم ہے۔ پھر تحصیلِ حاصل کا فائدہ نہیں۔
ہمیں موقف معلوم ہے لیکن بات موقف کی نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں ان دلائل کو سامنے لانا ہے تھا کہ کل کو آنے والے کسی الجھن کا شکار نہ ہوں۔
 
سید عمران
گزشتہ سے پیوستہ

مندرجہ بالا سطور میں ہم نے قرآن و حدیث کے حوالے سے کلام منظوم یعنی شاعری پر متعرضین کے اعتراضات کو بیان کیا تھا آج ہم قرآن پاک سے ایک اور اعتراض کو بیان کرتے ہیں۔
قال اللہ وتعالی فی القرآن الحکیم:
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ°
ترجمہ:
"اور ہم نے ان کو(جناب سید ولد آدم حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم)شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن۔"
تمام اعتراضات کو بیان کرنے کے بعد چند سوالات جو ذہن میں آتے ہیں کہ
1۔ کیا اسلام میں شاعری کہنا موجب کفر آیات قرآنیہ ہوا اگر نہیں تو کیوں؟
2۔ مفسرین کے نزدیک آیات قرآنیہ کے مخاطبین اول اور بعد ازاں کون سے لوگ ہیں؟
3۔ اگر شاعری بھی دیگر علوم کی طرح ایک علم ہے تو اس علم کا اظہار خصوصا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے کیوں نہیں فرمایا اور اگر فرمایا ہے تو کن صورتوں میں؟
4۔ جناب آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے اشعار جو دیگر کتب سے ملتے ہیں۔
5۔ اگر شاعری سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نہیں ہے تو جناب حسان بن ثابت اور جلیل القدر صحابی رسول اسد اللہ غالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ علیہ السلام کا نہ صرف شعر کہنا بلکہ اس کثرت سے کہنا کہ ایک دیوان آپ سے منسوب ہے۔
6۔ زمانہ جہالیت کے چند مشہور شعرا اور ان کا کلام
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے بعد ان شاء اللہ ہم مختلف اضعاف سخن اور عصر حاضر میں کلام منظوم کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو کریں گے۔
والسلام
عامر گولڑوی
 

سید عمران

محفلین
سورہ الشعراء میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَﭤ°اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ°وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ°

ترجمہ: "اور شعرا کی
پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔"​
اس سے اگلی آیت بھی ملائیں تو مفہوم واضح ہوجائے گا....
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاؕ-وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ
مگر وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا.
کفر شرک اور فتنہ تو نثر سے بھی پھیلتا ہے مگر اشعار کا ذکر اللہ تعالی نے بطور خاص اس لیے فرمایا کہ ایک تو شعر مختصر الفاظ اور ردھم کے ساتھ آگ بھڑکانے میں ذود اثر ثابت ہوتے ہیں. انہیں باجوں گاجوں کے ساتھ ملا کر گایا جائےتو ہوش مغلوب اور جذبات غالب ہوجاتے ہیں. جیسے نثر میں کسی کی ہجو کرنے سے وہ بات نہیں بنتی جتنے چٹخارے شعر میں آتے ہیں.
پھر شعراء بعض اوقات اپنی نظم مکمل کرنے یا ممتاز کرنے یا زمین بحر اور قافیہ آرائی کے چکر میں یا زبان کی چاشنی کے لیے زبردستی مذہبی اور اخلاقی حدود بھی پار کرجاتے ہیں جیسے
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

یہاں دینی، اخلاقی یا تہذیبی کس چیز کی تربیت ہوئی؟ ایسے کون سےمضمون کا ابلاغ ہوا جو اشد ضروری تھا؟ صرف زبان کی چاشنی ہی رہی چاہے دین و ایمان پر بات آجائے.
یہ تو ہوئی بات مذموم ہونے کی. ساتھ ہی اگلی آیت میں ان اہل ایمان کو اس شر انگیزی سے مستثنی فرمادیا جو اہل تقوی ہیں خوف خدا رکھتے ہیں کیونکہ وہ جب اشعار کہیں گے تو خدا کی قائم کردہ حدود میں رہ کر کہیں گے، سود مند مضامین بیان کریں گے.
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار رسالت سے وابستہ چوبیس صحابہ کرام مشہور شاعر تھے جن میں حسان بن ثابت نمایاں رہے.
چونکہ نثر کی بنسبت شاعری میں تصنع ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے اپنے محبوب کے لیےپر تصنع شاعری کی بجائے جوامع الکلم ایسے سادہ کلمات کو منتخب فرمایا جن کی معنویت اور فصاحت و بلاغت کے آگے شاعری کی ساری شناوری اپنے تمام تر تصنع و تنوع کے باوجود گھٹنے ٹیک دے!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار رسالت سے وابستہ چوبیس صحابہ کرام مشہور شاعر تھے جن میں حسان بن ثابت نمایاں رہے.
لیکن چونکہ نثر کی بنسبت شاعری میں تصنع ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے اپنے محبوب کے لیےپر تصنع شاعری کی بجائے جوامع الکلم ایسے سادہ کلمات کو منتخب فرمایا جن کی معنویت اور فصاحت و بلاغت کے آگے شاعری کی ساری شناوری اپنے تمام تر تصنع و تنوع کے باوجود گھٹنے ٹیک دے!!!
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
 

شکیب

محفلین
پہلے کہیں پڑھا تھا یا کسی سے سنا تھا کہ مذکورہ شعر (یا جملہ مقفی) کسی اور کا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محض نقل فرمایا تھا۔ ظاہر ہے شعر نقل کرنے سے ناقل شاعر نہیں ہوتا۔
کل اس حدیث پر کچھ تحقیق کی تو اس بات کا ذکر نہیں ملا کہ شعر کسی اور کا ہے، تو لا محالہ عدم قصد کی وجہ سے شعر کی نفی ہو جاتی ہے۔
ایک نئی بات بھی پتہ چلی کہ کچھ عرب اربابِ سخن کے نزدیک رجز بھی شعر کا حصہ نہیں کہلاتا، جبکہ ہمارے یہاں تو مرثیے کا باقاعدہ جزو ہوتا ہے۔
بہر حال، باوجود کلام موزوں اور مقفی ہونے کے عدم قصد کے سبب مذکورہ عبارت شعر نہ ہوئی۔
 
سید عمران
سیما علی
وقار علی ذگر
زیک

گزشتہ سے پیوستہ

جیسا کہ گزشتہ تحریر میں ہم نے اعتراضات کے ساتھ ساتھ کچھ سوالات نقل کیے تھے اور آج ان پر تفصیلا گفتگو کرنا درکار ہے۔ ہم اپنے پہلے سوال سے ابتدا کرتے ہیں کہ
1۔ کیا اسلام میں شاعری کہنا موجب کفر آیات قرآنیہ ہوا اگر نہیں تو کیوں؟
تو اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ ہم سوال دوم کے جواب سے رجوع کریں۔ کیونکہ جب تک ہم وجہ نزول آیات نہیں سمجھے گے تب تک کچھ بھی کہنا بے سود ہو گا۔
2۔ مفسرین کے نزدیک آیات قرآنیہ کے مخاطبین کون سے لوگ ہیں؟
سب سے پہلے ہم سورہ یسین کی اس آیت کریمہ پر گفتگو کرتے ہیں کہ
قال اللہ وتعالی فی القرآن الحکیم:
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ°
ترجمہ:
"اور ہم نے ان کو(جناب سید ولد آدم حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم)شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن۔"
جیسا کہ مطالعہ قرآن پاک سے واضح ہے کہ یہ آیات قرآنیہ کفار کے ان اعتراضات کی صورت میں نازل ہوئیں جو وہ کیا کرتے تھے کہ قرآن پاک تو کسی شاعر کا کلام ہے اور نعوذبااللہ جناب سید الانبیاء شاعر ہے، تو اللہ رب العزت نے ان آیات کو نازل فرما کر قطعی طور پر بیان فرما دیا کہ اگر یہ لوگ آپ کو شاعر کہتے ہیں تو ہم نے آپ کو شعر کہنا سکھایا ہی نہیں اور ویسے بھی شاعری آپ کے منصب نبوت و رسالت کے سامنے ہیچ علم ہے ہاں البتہ آپ کو نصیحت کرنے والا ضرور بنا کر بھیجا گیا۔
اسی آیت کریمہ پر گفتگو کرتے ہوئے سید غلام نصیر الدین نصیر رقمطراز ہیں کہ
"وما علمنہ شعر کی حکمت و علت وما ینبغی لہ ہے۔ یعنی صرف رسول اکرم کے شان شایان شاعری نہیں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ فی نفسیہ شاعری کسی کے لیے بھی جائز و مناسب نہیں۔ کیوں کہ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بے مثال ہے۔ اور اس میں بااعتبار فواصل ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو فن شاعری کے حوالے سے کلام موزوں (شعر) محسوس ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر منکرین قرآن یہ کہتے تھے کہ یہ شاعرانہ کلام ہے اس میں قوافی، ردیف، وزن کا خیال رکھا گیا ہے اسی لیے یہ کلام مخلوق ہے اور محمد شاعر ہیں اور یہ ان کا موزون کیا ہوا کلام ہے۔ اس شک و اعتراض کا دفعیہ کرنے کے لیے اللہ تعالی نے کہیں تو یہ فرمایا وماھو بقول شاعر اور قرآن مجید کسی شاعر کا کلام نہیں اور کہیں وما علمنہ شعر وماینبغی لہ ان ھوالذکر و قرآن المبین فرمایا۔"
اس آیت سے یہ مفہوم تو لیا جا سکتا ہے کہ شاعری جناب سید دو عالم کے شان شایان نہیں لیکن ہرگز اس سے مکمل طور پر علم شاعری کی نفی بھی نہیں کہ جاسکتی۔
انھیں آیات پر گفتگو کرتے ہوئے مشہور مفسر علامہ اسماعیل حقی اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ
"بہتر یہی ہے کہ کہا جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاعر نہیں اور جو کچھ تلاوت فرماتے ہیں یہ بھی شعر نہیں، اس کی دلیل واضح ہے کہ جس نے ان پر قرآن نازل کیا ہے اور جس نے انھیں علم پرھایا، اس نے انہیں شعر نہیں سکھایا بطور کنایہ لازم کی نفی کر کے ملزوم کی نفی کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ کنایہ صریح سے بلیغ تر ہوتا ہے۔"
یعنی کہ مقصد علم موزوں کی نفی نہیں بلکہ درپردہ کلام موزوں کو موزوں بنانے کے لیے جس جھوٹ کی ملاوٹ کی جاتی ہے اصل میں نفی اس کی کی جا رہی ہے۔ یوں ہی مزید آگے علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں کہ
"قرآن مجید میں جس شعر کی نفی ہے وہ منطقی(بمعنی جھوٹ) کی نفی ہے کیونکہ یہی اصطلاحی سے زیادہ مروج ہے۔"
اس آیت کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن پاک میں علم موزوں یعنی شاعری کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اسے خصوصا سید الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے آپ کے منسب نبوت کے سامنے غیر ہیچ سمجھا گیا ہے جس کی خاص وجہ مشرکین مکہ اور کفار کے وہ اعتراضات تھے جن میں وہ حضور ختمی مرتبت جناب رسالت مآب علیہ الصلوة والسلام کو نہ صرف شاعر پکارتے بلکہ قرآن مجید و فرقان حمید کو کلام موزون قرار دیتے تھے۔ جب صریحا آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے علم موزوں کی نفی کر دی گئی تو اس کے بعد کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ شاعر ہیں کیونکہ شاعر ہونے کے لیے بھی علم موزون کا ہونا لازم ہے۔

* ناقدین کے ہاں شعر کہنے کے لیے دس علوم کا ہونا شرط ہے جن کے بغیر کلام کو موزوں نہیں کیا جاسکتا۔جن کو ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
* سورہ يسين کی اس آیت سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کلام جو علم عروض سے خالی ہو کلام منثور تو ہو سکتا ہے منظوم نہیں۔

ان شاء اللہ آئندہ نشست میں ہم سورہ الشعراء کی آیات پر بات کریں گے۔
والسلام
عامر گولڑوی
 

سیما علی

لائبریرین
وما علمنہ شعر کی حکمت و علت وما ینبغی لہ ہے۔ یعنی صرف رسول اکرم کے شان شایان شاعری نہیں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ فی نفسیہ شاعری کسی کے لیے بھی جائز و مناسب نہیں
تفسیر: ‎صراط الجنان
{وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ: اور ہم نے نبی کو شعر کہنا نہ سکھایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ شعر گوئی کا ملکہ دیا ہے اور نہ قرآن مجید شعر کی تعلیم ہے اور نہ ہی شعر کہنا میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کے لائق ہے اور قرآنِ کریم کی شان تو یہ ہے کہ وہ صاف صریح حق و ہدایت ہے ، توکہاں وہ تمام علوم کی جامع پاک آسمانی کتاب اور کہاں شعر جیسا جھوٹاکلام ، ان میں نسبت ہی کیا ہے۔ شانِ نزول:کفارِ قریش نے کہا تھا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) شاعر ہیں اور جو وہ فرماتے ہیں یعنی قرآنِ پاک وہ شعر ہے، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ (مَعَاذَ اللہ) یہ کلام جھوٹا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں ا ن کا مقولہ نقل فرمایا گیا ہے کہ

’’بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ‘‘(الانبیاء:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بلکہ خود اس (نبی) نے اپنی طرف سے بنالیا ہے بلکہ یہ شاعر ہیں ۔​

اسی کا اس آیت میں رد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایسی باطل گوئی کا ملکہ ہی نہیں دیا اور یہ کتاب اَشعار یعنی جھوٹی باتوں پر مشتمل نہیں ، کفارِ قریش زبان سے ایسے بدذوق اور نظمِ عروضی سے ایسے ناواقف نہ تھے کہ نثر کو نظم کہہ دیتے اور کلامِ پاک کو شعر ِعروضی بتا بیٹھتے اور کلام کا مَحض وزنِ عروضی پر ہونا ایسا بھی نہ تھا کہ اس پر اعتراض کیا جا سکے ، اس سے ثابت ہو گیا کہ ان بے دینوں کی شعر سے مراد جھوٹا کلام تھی۔( مدارک، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۹۹۳، جمل، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۳۰۷، روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ۷ / ۴۳۱، خزائن العرفان، یس، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۸۲۳، ملتقطاً)۔۔۔
 
صاحب صراط الجنان جناب قاسم قادری صاحب نے عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ایک اچھا کام کیا ہے لیکن تفسیر تبیان القرآن از علامہ غلام رسول سعیدی اپنے آپ میں ایک شاہکار ہے۔
مجھے جن تفاسیر نے متاثر کیا عربی زبان کی
روح البیان از علامہ اسماعیل حقی
روح المعانی از علامہ محمود آلوسی البغدادی
اردو میں
تبیان القرآن از علامہ غلام رسول سعیدی
یہ تینوں ایسی تفاسیر ہیں جن میں آپ کو ہر چیز مل جائے گی۔ خاص طور پر علامہ اسماعیل حقی کے ہاں جہاں عالمانہ تفسیر کی گئی ہے وہیں صوفیانہ تفسیر بھی کی گئی ہے۔
 
Top