جناب من!
سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ نہ تو میں کوئی مفتی ہوں نہ فقیہ، نہ ہی عالم اور نہ ہی مولوی۔ محض ایک غلام کی حیثیت سے اپنے آقا (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ذات با برکات پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات دینا اپنی جہالت کے با وجود ضروری سمجھا اور لب کشائی کی سعی کر رہا ہوں۔ اگر میری کوئی بات یا کوئی دلیل غیر موزوں یا حقائق سے ہٹی ہوئی لگے تو بھی اس سے میرے آقا کی شان میں چنداں فرق نہیں پڑتا کہ یہ اس غلام کی نادانی اور جہالت پر دلیل ہو گی۔
نیز میرا مقصد آپ کو نیچا دکھانا یا دلائل کی جنگ لڑ کے فتح حاصل کرنا بھی نہیں ہے۔ اگر کہیں کسی جملہ سے آپ کی دل آزاری ہو یا میری انا حاوی نظر آئے تو اپنی جہالت پر معذرت کا طلب گار ہوں۔
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات
قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔
اس اجازت کا فائدہ حضرت محمد نے خود بھی اٹھایا اور بیسویں صدی عیسوی تک مسلمان مرد اس کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ حضرت محمد کی چار لونڈیاں تھیں اور ایک لونڈی ماریہ قبطیہ سے بیٹا بھی ہوا۔
خیال رہے کہ ایک آزاد عورت سے نکاح کے وقت اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے مگر لونڈی کو غلام بناتے وقت یا اس سے جنسی تعلقات کے وقت کوئی اس کی مرضی نہیں پوچھتا۔
اس اقتباس میں آپ کی جانب سے دو اعتراضات کیے گئے ہیں:
1۔ غلامی کو جائز قرار دیا جانا
2۔ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات
غلامی کو جائز قرار دیا جانا
جناب! جس دور میں اسلام کا آغاز ہوا اور قرآن مجید نازل ہوا اس میں غلام اور لونڈیاں رکھنا نہ صرف ایک انتہائی عام بات تھی بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ کسی قسم کے ناروا سلوک پر کوئی باز پرس نہ تھی اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور جنسی درندگی پر ہی کیا موقوف کہ ان کا قتل کر دیا جانا گھوڑے اور کتے کے قتل کیے جانے کے برابر بھی نہ مانا جاتا تھا۔ یہ اسلام اور قرآن ہی تھا جس نے ان غلاموں اور لونڈیوں کا ایک با عزت مقام متعین فرمایا اور ان کو قریب قریب وہ تمام حقوق دلوائے جو آزاد شہریوں کو حاصل تھے۔ یہی حسن سلوک تھا کہ حضرت زید (رض)، جو دراصل ایک غلام تھے، نے آزاد ہو کر اپنے ماں باپ کے ہمراہ جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہنے کو فوقیت دی۔
اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ غلام رکھے جا سکتے تھے لیکن غور کیجیے کہ اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعے غلامی کو رواج دے رہا ہے یا آزادی کو؟ غلاموں کے اتنے حقوق وضع کیے کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ انہیں رکھنا سہل ہے یا آزاد کر دینا۔ نہ صرف حقوق بلکہ خود قرآن میں کم از کم 10 مختلف جگہوں پر مختلف بہانوں سے غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ مثلاً روزہ چھوٹ گیا تو ایک کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کر دو، قسم ٹوٹ گئی تو غلام آزاد کر دو، وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ ایک ایسا برتن بنا دیا جس میں پانی ڈالنے کا ایک راستہ رکھا تو نکلنے کے دسیوں۔ اب اس چھلنی نما برتن میں کتنی دیر پانی روکا جا سکتا ہے؟ یہی خوبصورتی ہے اس کلام پاک کی کہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو غلام رکھنے کی سوچ سے آزاد کر رہا ہے۔
لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات
یہاں مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ نے قرآن کے مطالعہ میں بخل سے کام لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگوں میں قید کی گئی عورتوں کو بطور باندیاں رکھا جا سکتا تھا لیکن ان سے ان کی مرضی کے بغیر تعلقات قائم کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور ان کے بھی وہی حقوق وضع کیے گئے ہیں جو غلاموں کے۔ واضح رہے کہ کفار مسلمان عورتوں کو جنگی قیدی بنا کر جو سلوک کرتے تھے اسلام نے اس قسم کے ناروا سلوک کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔
حضرت ماریہ قبطیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بھی رسول اللہ کے پاس مصر کے بادشاہ کی طرف سے بطور باندی تحفتاً آئی تھیں اور یہ بالکل درست ہے کہ حضرت ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے بطن مبارک سے ہی پیدا ہوئے تھے لیکن وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و سلم) جو سر تا پا قرآن کا نمونہ اور منبعِ ہدایت تھے کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ نعوذ باللہ قرآن کے احکامات کے خلاف خاکم بدہن ان سے ان کی مرضی کے خلاف جنسی تعلق قائم کریں گے۔
یہاں میں فاروق صاحب کی پوسٹ کے حوالہ سے دو قرآنی آیات پیش کروں گا:
[ayah]24:33[/ayah] اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہیے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (غیر مشروط پروانہ آزادی) چاہیں تو انہیں مکاتب (پروانۂ آزادی عطا) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بد کاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں (بد کاری پر) مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے
مزید دیکھئے
[AYAH]4:25[/AYAH] اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کر لے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو در آن حالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بد کاری کرنے والی ہوں اور نہ در پردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آ جائیں پھر اگر بد کاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے
امید ہے اس سلسلے میں آپ کی تسلی ہو گئی ہو گی۔ اگر نہیں تو مزید سوالات کیجیے جو آپ کو سمجھنے میں مدد دے سکیں لیکن براہ کرم اپنے لہجہ کو با عزت رکھیے۔ آپ اگر کسی بزرگ یا نبی کو نہیں بھی مانتے تب بھی کم از کم انسانیت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی دوسروں کی دل آزاری سے گریز کیجیے گا۔ شکریہ!
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی احادیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح 6 سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ بات تو عام علم میں ہے مثلا یہاں، یہاں اور یہاں اور یہاں۔ مگر صحیح بخاری کی اس حدیث کا کس کو علم ہے:
"عائشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا :
) خواب میں مجھے تو دوبار دکھائي گئي تھی ، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئي دیکھا ، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے جب میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھا کہ تو ہے ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے توپھر اللہ اسے پورا کرے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3682 ) ۔"
یاد رہے کہ حضرت عائشہ اس وقت 6 سال کی تھیں!!
یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کو حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی کم عمری پر اعتراض ہے۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی کم سنی
بالفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کا نکاح 6 سال کی عمر میں طے پا گیا تھا تب بھی اسلام عورت کو مکمل حق دیتا ہے کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ کر ایسے نکاح کو فسخ قرار دلوا سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض احادیث میں رخصتی کے وقت حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی عمر 9 سال بیان کی گئی ہے لیکن بعض میں یہ عمر 11 اور 13 سال بھی بیان ہوئی ہے۔ اور عرب کے شدید گرم ممالک اور خوراک کے باعث لڑکیاں اس عمر میں بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں۔ یوں بھی حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نہ تو کوئی باندی تھیں کہ آپ کا گمان آپ کو اس نہج پر سوچنے پر مجبور کرے کہ زبر دستی ان کی شادی کی گئی اور نہ ہی حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بذات خود کوئی معمولی شخص تھے بلکہ ایک رئیس تھے جن سے یہ بعید ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ اپنی نا بالغ بیٹی کی رخصتی کر دی ہو گی۔
رہی بات صحیح بخاری کی حدیث (3682) کی تو اس میں کیا اعتراض ہے؟ اللہ تعالیٰ اگر اپنے محبوب کو یہ دکھا دے کہ اس کی شادی فلاں لڑکی سے ہو گی حتی کہ وہ لڑکی ابھی پیدا بھی نہ ہوئی ہو تو اس سے اس خدا کا اپنے محبوب سے پیار ظاہر ہوتا ہے نہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی عظمت پر حرف آتا ہے ۔
موت کے بعد جائداد میں حصے کے سلسلے میں بھی اسلام عورت کو مرد سے آدھا حصہ دیتا ہے۔
لڑکی کا حصہ لڑکے سے آدھا کیوں
عزیز دوست! اگر ہم تنگ نظری سے نہ دیکھیں تو اس سے زیادہ خوبصورت اور مبنی بر انصاف قانون ہمیں پوری دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گا۔ حیران نہ ہوں میں وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
عورت بہرحال مرد کی ذمہ داری ہے، خواہ بیوی کے رنگ میں ہو یا بیٹی کی شکل میں، ماں کے روپ میں ہو یا بہن کے طور پر، غرض یہ کہ ہر صورت میں عورت کا نان نفقہ مرد کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور مرد کی انہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے مرد کو "قوّامون" بنا کر کمانے اور گھر بار چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے دو گنا کا حصہ دار بنایا گیا ہے تا کہ وہ ان وسائل کو بروئے کار لا کر باحسن اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکے۔
اس کے علاوہ لڑکی کو نہ صرف باپ کے گھر سے باپ اور بھائی کی وراثت میں حصہ ملتا ہے بلکہ اپنے شوہر کے گھر جانے کے بعد شوہر اور بیٹوں کی وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا گیا۔ یوں جس طرح عورت کی زندگی دو ادوار (میکے اور سسرال میں) میں گزرتی ہے بعینہ اسی طرز پر وراثت میں بھی آدھا حصہ وہاں اور آدھا حصہ یہاں پاتی ہے۔
منصور صاحب! اب آتے ہیں آپ کے اصل موضوع کی طرف یعنی "اسلام میں عورت کا مقام"۔ ایسا نہیں کہ اب تک محض تمہید چل رہی تھی بلکہ اب میں عمومی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا اسلام اور قبل از اسلام عورت کے مقام کا۔
لیکن اس وقت یہاں سحر کا وقت ہوا چاہتا ہے لہٰذا آپ سے باقی گفتگو انشاء اللہ تعالیٰ اگلی نشست تک اٹھا رکھتے ہیں۔ نیز آپ کے دستخط میں موجود "جارج سانٹیانا" کے قول پر بھی بات کرنا چاہوں گا لیکن "اسلام میں عورت کے مقام" کے تذکرہ کے بعد۔
دوبارہ عرض کرتا چلوں کہ میرا فرمایا ہوا مستند ہر گز نہیں۔ یہ صرف اپنی دانست میں ایک بھائی کو سمجھانے کی کوشش ہے۔