اسلام میں عورت کا مقام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زیک

مسافر
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر ایک چھوٹی سی بات۔

غلام تو مردوں کو بھی بنایا گیا۔ اس سے کیا مردوں کا درجہ کم ہو جائے گا؟

بالکل غلامی ہے ہی درجہ کم کرنے کا ذریعہ۔ غلامی ایک شخص‌کو دوسرے آدمی کی ملکیت بناتی ہے۔
 
وضاحت: یہ جوابات صرف ان صاحب کی مدد کے لئے ہیں، میں‌قانون سازی یا فتوی کا حق نہیں رکھتا، اس وضاحت کو فتوی یا قانون نہ سمجھا جائے۔ یہ صرف سمجھنے سمجھانے کے لئے ہے۔

اس موضوع 'عورت کا اسلام میں مقام' میں ایک مزید توجیہہ جو مغربی پریس میں عام طور پر پیش کی جاتی ہے پیش کی گئی۔

عرض‌ یہ ہے کہ کسی بھی عورت کی شادی کس عمر میں‌ہوئی اس سے معاشرے میں اس عورت کے مقام کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اس نکتے کو بحث سے خارج کردیں۔ نہ حضرت خدیجہ کی شادی کے وقت 40 سال کی عمر سے عورت کے اسلام میں‌ مقام کا تعین کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور ازواج مطہرات کی عمر سے۔ خواتین کے مقام کا تعین صرف اللہ تعالی کے احکامات سے کیا جاسکتا ہے۔

اگر اس نکتہ سے مقصد رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی ہے تو یہ میرے لئے مقام رقت و گریہ ہے۔ وہ اس لئے کہ صاحب القرآن، قرآن کے احکامات کے خلاف عمل نہیں کرسکتا۔

قرآن شادی کو ایک [ARABIC]' مِّيثَاقًا غَلِيظًا'[/ARABIC] 'بھاری معاہدہ' ، 'پختہ عہد' قرار دیتا ہے۔ دیکھئے
[ayah]4:21[/ayah] اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے سے پہلو بہ پہلو مل چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد ( [ayah]' مِّيثَاقًا غَلِيظًا'[/ayah]) (بھی) لے چکی ہیں

اور اس 'پختہ عہد' کی مثال اللہ تعالی ، خود اپنی ذات پاک اور نبیوں کے درمیان عہد سے دیتا ہے۔ دیکھئے [ayah]' مِّيثَاقًا غَلِيظًا'[/ayah] کو کس طرح‌واضح‌کیا جار رہا ہے۔ کہ یہ کس قدر سنجیدہ اصطلاح‌ہے؟

[ayah]33:7[/ayah] اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم (علیھم السلام) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ ( [ayah]' مِّيثَاقًا غَلِيظًا'[/ayah] )عہد لیا

اللہ تعالی نکاح کے لئے بلوغت کی عمر کا حکم دیتے ہیں:
[ayah]4:6[/ayah] اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے

بلوغت کے کچھ احکام یہاں دیکھئے:
[ayah]24:59[/ayah] اور جب تم میں سے بچے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ (تمہارے پاس آنے کے لئے) اجازت لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (دیگر بالغ افراد) اجازت لیتے رہتے ہیں۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام خُوب واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب علم والا اور حکمت والا ہے

بچے کب بالغ ہوتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو علم ہے کہ آپ ان کے والدین میں سے ہیں۔

لہذا ان احکامات کی روشنی میں واضح ہے کہ رسول اللہ سلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے ان کی بلوغت میں‌ہی شادی کی ہوگی۔ اور ابوبکر صدیق کس طرح اپنی نابالغ صاحبزادی کی شادی کے لئے تیار ہوسکتے تھے۔ ورنہ دشمنان رسول کم نہ تھے اور رسول کریم ایک انتہائی باعزت مقام رکھتے تھے اس معاشرہ میں۔ کوئی نا معلوم شخص نہیں تھے۔ آپ حوالہ دیجئے تو اس اولیں شادی کا دیجئے ، جس میں حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی۔ کسی بھی ازواج مطہرات کی بوقت شادی کی عمر سے معاشرہ یا اسلام میں عورت کے مقام کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔

آپ نوٹ کیجئے کہ یہان حضرت عائشہ کی شادی کی عمر کا تعین کرنے کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ شادی کے اہم معاہدے کے لئے بلوغت کا حکم الہی خود رسول اللہ صلعم کی زبان سے ادا ہوا ہے۔ اس بے کار بحث کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی ازدواجی زندگی خوشیوں سے بھرپور زندگی نظر آتی ہے۔ وہ شادی کے وقت بالغ تھیں یہ کافی ہے۔

اس سلسلے میں کسی کو معلومات کا شوق ہے تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ اس نکتہ سے یا حضرت خدیجہ کی شادی کے وقت 40 سال کی عمر سے یا اس پر کسی قسم کی بحث سے 'اسلام میں خواتین کے مقام' کا تعین نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے صرف احکامات خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔

بنا دلیل کے اللہ کی آیات میں جھگڑا نہ کیجئے کہ یہ ذاتی انا اور غرور کی نشانی ہے۔
[ayah]40:56[/ayah] بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو اُن کے پاس آئی ہو، ان کے سینوں میں سوائے غرور کے اور کچھ نہیں ہے وہ اُس (حقیقی برتری) تک پہنچنے والے ہی نہیں۔ پس آپ (ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہئے، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

والسلام
 
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر ایک چھوٹی سی بات۔



بالکل غلامی ہے ہی درجہ کم کرنے کا ذریعہ۔ غلامی ایک شخص‌کو دوسرے آدمی کی ملکیت بناتی ہے۔

وضاحت: اس کو ایسے پڑھئیے۔
" غلام تو مردوں کو بھی بنا گیا تھا - کیا آزاد مردوں کا مقام اس سے کم ہوجائے گا؟"

آپ کا فرمانا درست ہے کہ غلامی ہی آدمی کا درجہ کم کرنا کا باعث، ۔ قرآن اس غلامی کو ختم کرتا ہے۔ اور ایسے اقدامات کرتا ہے کہ بتدریج اس بدترین سوچ کا خاتمہ ہو جائے جو اس عمل بد کا باعث ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
جناب من!
سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ نہ تو میں کوئی مفتی ہوں نہ فقیہ، نہ ہی عالم اور نہ ہی مولوی۔ محض ایک غلام کی حیثیت سے اپنے آقا (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ذات با برکات پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات دینا اپنی جہالت کے با وجود ضروری سمجھا اور لب کشائی کی سعی کر رہا ہوں۔ اگر میری کوئی بات یا کوئی دلیل غیر موزوں یا حقائق سے ہٹی ہوئی لگے تو بھی اس سے میرے آقا کی شان میں چنداں فرق نہیں پڑتا کہ یہ اس غلام کی نادانی اور جہالت پر دلیل ہو گی۔
نیز میرا مقصد آپ کو نیچا دکھانا یا دلائل کی جنگ لڑ کے فتح حاصل کرنا بھی نہیں ہے۔ اگر کہیں کسی جملہ سے آپ کی دل آزاری ہو یا میری انا حاوی نظر آئے تو اپنی جہالت پر معذرت کا طلب گار ہوں۔
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات

قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔
اس اجازت کا فائدہ حضرت محمد نے خود بھی اٹھایا اور بیسویں صدی عیسوی تک مسلمان مرد اس کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ حضرت محمد کی چار لونڈیاں تھیں اور ایک لونڈی ماریہ قبطیہ سے بیٹا بھی ہوا۔
خیال رہے کہ ایک آزاد عورت سے نکاح کے وقت اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے مگر لونڈی کو غلام بناتے وقت یا اس سے جنسی تعلقات کے وقت کوئی اس کی مرضی نہیں پوچھتا۔
اس اقتباس میں آپ کی جانب سے دو اعتراضات کیے گئے ہیں:
1۔ غلامی کو جائز قرار دیا جانا
2۔ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات

غلامی کو جائز قرار دیا جانا​
جناب! جس دور میں اسلام کا آغاز ہوا اور قرآن مجید نازل ہوا اس میں غلام اور لونڈیاں رکھنا نہ صرف ایک انتہائی عام بات تھی بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ کسی قسم کے ناروا سلوک پر کوئی باز پرس نہ تھی اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور جنسی درندگی پر ہی کیا موقوف کہ ان کا قتل کر دیا جانا گھوڑے اور کتے کے قتل کیے جانے کے برابر بھی نہ مانا جاتا تھا۔ یہ اسلام اور قرآن ہی تھا جس نے ان غلاموں اور لونڈیوں کا ایک با عزت مقام متعین فرمایا اور ان کو قریب قریب وہ تمام حقوق دلوائے جو آزاد شہریوں کو حاصل تھے۔ یہی حسن سلوک تھا کہ حضرت زید (رض)، جو دراصل ایک غلام تھے، نے آزاد ہو کر اپنے ماں باپ کے ہمراہ جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہنے کو فوقیت دی۔
اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ غلام رکھے جا سکتے تھے لیکن غور کیجیے کہ اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعے غلامی کو رواج دے رہا ہے یا آزادی کو؟ غلاموں کے اتنے حقوق وضع کیے کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ انہیں رکھنا سہل ہے یا آزاد کر دینا۔ نہ صرف حقوق بلکہ خود قرآن میں کم از کم 10 مختلف جگہوں پر مختلف بہانوں سے غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ مثلاً روزہ چھوٹ گیا تو ایک کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کر دو، قسم ٹوٹ گئی تو غلام آزاد کر دو، وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ ایک ایسا برتن بنا دیا جس میں پانی ڈالنے کا ایک راستہ رکھا تو نکلنے کے دسیوں۔ اب اس چھلنی نما برتن میں کتنی دیر پانی روکا جا سکتا ہے؟ یہی خوبصورتی ہے اس کلام پاک کی کہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو غلام رکھنے کی سوچ سے آزاد کر رہا ہے۔

لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات
یہاں مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ نے قرآن کے مطالعہ میں بخل سے کام لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگوں میں قید کی گئی عورتوں کو بطور باندیاں رکھا جا سکتا تھا لیکن ان سے ان کی مرضی کے بغیر تعلقات قائم کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور ان کے بھی وہی حقوق وضع کیے گئے ہیں جو غلاموں کے۔ واضح رہے کہ کفار مسلمان عورتوں کو جنگی قیدی بنا کر جو سلوک کرتے تھے اسلام نے اس قسم کے ناروا سلوک کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔
حضرت ماریہ قبطیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بھی رسول اللہ کے پاس مصر کے بادشاہ کی طرف سے بطور باندی تحفتاً آئی تھیں اور یہ بالکل درست ہے کہ حضرت ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے بطن مبارک سے ہی پیدا ہوئے تھے لیکن وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و سلم) جو سر تا پا قرآن کا نمونہ اور منبعِ ہدایت تھے کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ نعوذ باللہ قرآن کے احکامات کے خلاف خاکم بدہن ان سے ان کی مرضی کے خلاف جنسی تعلق قائم کریں گے۔

یہاں میں فاروق صاحب کی پوسٹ کے حوالہ سے دو قرآنی آیات پیش کروں گا:
[ayah]24:33[/ayah] اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہیے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (غیر مشروط پروانہ آزادی) چاہیں تو انہیں مکاتب (پروانۂ آزادی عطا) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بد کاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں (بد کاری پر) مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے
مزید دیکھئے
[AYAH]4:25[/AYAH] اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کر لے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو در آن حالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بد کاری کرنے والی ہوں اور نہ در پردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آ جائیں پھر اگر بد کاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے
امید ہے اس سلسلے میں آپ کی تسلی ہو گئی ہو گی۔ اگر نہیں تو مزید سوالات کیجیے جو آپ کو سمجھنے میں مدد دے سکیں لیکن براہ کرم اپنے لہجہ کو با عزت رکھیے۔ آپ اگر کسی بزرگ یا نبی کو نہیں بھی مانتے تب بھی کم از کم انسانیت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی دوسروں کی دل آزاری سے گریز کیجیے گا۔ شکریہ!

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی احادیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح 6 سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ بات تو عام علم میں ہے مثلا یہاں، یہاں اور یہاں اور یہاں۔ مگر صحیح بخاری کی اس حدیث کا کس کو علم ہے:
"عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا :
) خواب میں مجھے تو دوبار دکھائي گئي تھی ، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئي دیکھا ، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے جب میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھا کہ تو ہے ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے توپھر اللہ اسے پورا کرے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3682 ) ۔"
یاد رہے کہ حضرت عائشہ اس وقت 6 سال کی تھیں!!
یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کو حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی کم عمری پر اعتراض ہے۔

حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی کم سنی​
بالفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کا نکاح 6 سال کی عمر میں طے پا گیا تھا تب بھی اسلام عورت کو مکمل حق دیتا ہے کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ کر ایسے نکاح کو فسخ قرار دلوا سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض احادیث میں رخصتی کے وقت حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی عمر 9 سال بیان کی گئی ہے لیکن بعض میں یہ عمر 11 اور 13 سال بھی بیان ہوئی ہے۔ اور عرب کے شدید گرم ممالک اور خوراک کے باعث لڑکیاں اس عمر میں بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں۔ یوں بھی حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نہ تو کوئی باندی تھیں کہ آپ کا گمان آپ کو اس نہج پر سوچنے پر مجبور کرے کہ زبر دستی ان کی شادی کی گئی اور نہ ہی حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بذات خود کوئی معمولی شخص تھے بلکہ ایک رئیس تھے جن سے یہ بعید ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ اپنی نا بالغ بیٹی کی رخصتی کر دی ہو گی۔
رہی بات صحیح بخاری کی حدیث (3682) کی تو اس میں کیا اعتراض ہے؟ اللہ تعالیٰ اگر اپنے محبوب کو یہ دکھا دے کہ اس کی شادی فلاں لڑکی سے ہو گی حتی کہ وہ لڑکی ابھی پیدا بھی نہ ہوئی ہو تو اس سے اس خدا کا اپنے محبوب سے پیار ظاہر ہوتا ہے نہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی عظمت پر حرف آتا ہے ۔

موت کے بعد جائداد میں حصے کے سلسلے میں بھی اسلام عورت کو مرد سے آدھا حصہ دیتا ہے۔

لڑکی کا حصہ لڑکے سے آدھا کیوں​
عزیز دوست! اگر ہم تنگ نظری سے نہ دیکھیں تو اس سے زیادہ خوبصورت اور مبنی بر انصاف قانون ہمیں پوری دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گا۔ حیران نہ ہوں میں وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
عورت بہرحال مرد کی ذمہ داری ہے، خواہ بیوی کے رنگ میں ہو یا بیٹی کی شکل میں، ماں کے روپ میں ہو یا بہن کے طور پر، غرض یہ کہ ہر صورت میں عورت کا نان نفقہ مرد کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور مرد کی انہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے مرد کو "قوّامون" بنا کر کمانے اور گھر بار چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے دو گنا کا حصہ دار بنایا گیا ہے تا کہ وہ ان وسائل کو بروئے کار لا کر باحسن اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکے۔
اس کے علاوہ لڑکی کو نہ صرف باپ کے گھر سے باپ اور بھائی کی وراثت میں حصہ ملتا ہے بلکہ اپنے شوہر کے گھر جانے کے بعد شوہر اور بیٹوں کی وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا گیا۔ یوں جس طرح عورت کی زندگی دو ادوار (میکے اور سسرال میں) میں گزرتی ہے بعینہ اسی طرز پر وراثت میں بھی آدھا حصہ وہاں اور آدھا حصہ یہاں پاتی ہے۔

منصور صاحب! اب آتے ہیں آپ کے اصل موضوع کی طرف یعنی "اسلام میں عورت کا مقام"۔ ایسا نہیں کہ اب تک محض تمہید چل رہی تھی بلکہ اب میں عمومی طور پر ذکر کرنا چاہوں گا اسلام اور قبل از اسلام عورت کے مقام کا۔
لیکن اس وقت یہاں سحر کا وقت ہوا چاہتا ہے لہٰذا آپ سے باقی گفتگو انشاء اللہ تعالیٰ اگلی نشست تک اٹھا رکھتے ہیں۔ نیز آپ کے دستخط میں موجود "جارج سانٹیانا" کے قول پر بھی بات کرنا چاہوں گا لیکن "اسلام میں عورت کے مقام" کے تذکرہ کے بعد۔:)

دوبارہ عرض کرتا چلوں کہ میرا فرمایا ہوا مستند ہر گز نہیں۔ یہ صرف اپنی دانست میں ایک بھائی کو سمجھانے کی کوشش ہے۔
 

سپینوزا

محفلین
یہاں‌صرف اتنا دکھایاگیا ہے کہ اسلام میں غلامی ختم کردی گئی ہے۔

یہیں سے بات غلط ہوتی ہے۔ کہاں ہے قرآن یا سنت میں غلامی کا ختم ہونا؟ اس کو کنٹرول کیا گیا ہے اور آزادی کے طریقے رکھے گئے ہیں مگر ختم نہیں کیا گیا اور نہ ہی ختم کرنے کا کوئی باقاعدہ طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ کوئی روایت نہیں‌کہ رسول یا اکابر صحابہ نے بالجماعت اپنے غلام اور لونڈیاں آزاد کی ہوں۔

صاحب اس موضوع کا ٹاپک ہے 'اسلام میں عورت کا مقام' اور شروع کررہے ہیں بیوی اور ملکت ایمنکم سے سے نکاح سے؟ کچھ کنفیوژن ہے۔

عورت کے مختلف روپ میں ان سے practically کیا سلوک کیا جاتا تھا یہ اسی کا حصہ ہے۔ ایک بار پھر کہوں‌گا کہ اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ لکھنا تھا جس میں مثبت اور منفی سب ہے۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے کچھ اچھی آیات اس تھریڈ‌ میں اکٹھی کر دی ہیں۔

جو جملہ میں نے سرخ کیا ہے وہ نا تو سوال ہے اور نہ ہی بیان۔ کیا آپ کا سوال یہ ہے کے دونوں‌کا الگ الگ ذکر کیوں کیا؟ وضاحت فرمائیں۔
اگر یہی سوال ہے تو جواب یہ ہے کہ :‌ضروری تھا۔

کیوں ضروری تھا؟ لونڈیوں کے ساتھ تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ کوئی نئی اجازت تو نہیں۔

پہلے آپ نکاح کے بارے میں دیکھئے۔ درج ذیل آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 'ملکت ایمانکم' کو حق حاصل ہے کہ وہ آزادی طلب کرلیں۔ اور ان کی اجازت کے بغیر ان کو کریہہ یعنی(زبردستی بدکاری پر مجبور نہ کیا جائے

بدکاری والی آیت کا عام مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ کچھ مالک اس دور میں لونڈیوں کو طوائف کے طور پر استعمال کر کے مال کماتے تھے۔ اس ممانعت کا مالک اور لونڈی کے جنسی تعلقات سے کوئی تعلق نہیں۔

مزید دیکھئے
[AYAH]4:25[/AYAH] اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے

اس کا وہ مطلب جو آپ لے رہے ہیں وہ بھی شاید لیا جا سکتا ہو مگر زیادہ‌تر مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ مسلمانوں کی لونڈیوں میں سے کسی لونڈی سے نکاح کرنا نہ کہ اپنی لونڈیوں‌سے نکاح کی ضرورت۔ تفسیر ان کثیر دیکھیں۔

میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ پچھلے چودہ سو سال کے تقریبا تمام علماء کو نظرانداز کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہ اسلام کیسا اسلام ہو گا؟ وہ بس ایک theoretical construct ہو گا جس کا reality سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب tradition ہی سے بنتا ہے۔

معاشرہ میں عورتوں کے مساوی مقام کی تعلیم قرانِ کریم کا ایک بہت ہی بڑا اعجاز ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ جس وقت یہ احکامات نازل ہوئے، عورتوں‌ کے معاشرے میں کوئی حقوق نہیں تھے، قرآن حکیم نے ذہنی ارتقاء کی عمل کو تیز کیا اور خیالات کو وہ جلا بخشی کہ آج ہمارے تعلیم یافتہ خواتین وحضرات کو مساوی حقوق کے اہمیت کا اندازہ ہے۔ اس سلسلے میں مزید کوشش درکار ہے

یعنی ساتویں صدی عیسوی میں جو احکام دیئے گئے وہ فائنل نہ تھے بلکہ وقت کے ساتھ ارتقاء اور بہتری کی امید کی جا سکتی ہے؟ اگر آپ یہی کہنا چاہ رہے ہیں تو مجھے پورا اتفاق ہے مگر خیال رہے کہ 90 فیصد مسلمان آپ سے اختلاف کریں گے۔

عورتوں اور مردوں کے مقام کا تعین آپ ان آیات سے کریں گے یا لونڈی غلام کے مسئلے سے یا وراثت میں حصے سے؟

سب کو ملا کر۔ ہر چیز کو دیکھا جانا چاہیئے۔ شادی، وراثت، لونڈی، جنت کی حوریں، برابری کی اہم آیات اور احادیث جیسی آپ نے پیش کیں اور وہ احادیث بھی جو عورتوں‌کو نہ جانے کیا کیا برا بھلا کہتی ہیں۔ ان سب کا جائزہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی یا مسلمان معاشروں کا حقیقت میں عورتوں سے سلوک بھی اس مقام کو متعین کرنے میں مدد دے گا۔

عرض‌ یہ ہے کہ کسی بھی عورت کی شادی کس عمر میں‌ہوئی اس سے معاشرے میں اس عورت کے مقام کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اس نکتے کو بحث سے خارج کردیں۔ نہ حضرت خدیجہ کی شادی کے وقت 40 سال کی عمر سے عورت کے اسلام میں‌ مقام کا تعین کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور ازواج مطہرات کی عمر سے۔ خواتین کے مقام کا تعین صرف اللہ تعالی کے احکامات سے کیا جاسکتا ہے۔

کیا آپ اس بات سے انکاری ہیں کہ سنتِ رسول اسلام کا ایک انتہائی اہم جزو ہے اور اس کی بنیاد پر اسلام کے قوانین بنائے جاتے ہیں؟ کیا آپ کو اس بات سے اختلاف ہے کہ حضرت عائشہ کی شادی کی عمر کو مثال بنا کر متعدد فقہاء نے شادی کی کم عمر وغیرہ کا تعین کیا ہے؟ کیا وہ سب غلط تھے؟

بچے کب بالغ ہوتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو علم ہے کہ آپ ان کے والدین میں سے ہیں۔

6 سال کی عمر میں کون بالغ ہوتا ہے؟ اگر آپ حضرت عائشہ کی نکاح کے وقت عمر زیادہ ہونے کے قائل ہیں تو بھی ٹھیک ہے مگر یاد رہے کہ یہ اقلیتی نکتہ نظر ہے۔
 

سپینوزا

محفلین

یہ ہوئی نا بات! سوال پھر وہی آتا ہے کہ کتنے مسلمان یہ جانتے یا یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمر شادی کے وقت 6، 7 سال نہ تھی؟ کتنے فقہاء نے اس بناء پر فیصلے دیئے ہیں؟

" غلام تو مردوں کو بھی بنا گیا تھا - کیا آزاد مردوں کا مقام اس سے کم ہوجائے گا؟"

آج سے صرف 45 سال پہلے کا ذکر ہے کہ اسلام کے مرکز سعودی عرب کی کوئی 15، 20 فیصد آبادی غلام تھی۔ لونڈیوں کی تعداد غلاموں سے زیادہ تھی اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ شاید کل عورتوں کا چوتھائی لونڈیاں تھیں۔ کیا آپ کے خیال سے ان سے جو سلوک کیا جاتا رہا وہ اہم نہیں؟ کیا اس کا اثر اس معاشرے پر ابھی تک برقرار نہیں؟ میری رائے ہے کہ اس پورے علاقے میں گھریلو ملازماؤں کے ساتھ آج جو سلوک کیا جاتا ہے وہ اسی غلامی کے دور کی یاد ہے۔ اس سلوک کے بارے میں آپ کوئی بھی مقالہ پڑھ لیں۔

یا امریکہ کو لیں۔ 1776 میں کچھ لوگوں نے مل کر کہا کہ All men are created equal۔ مگر اس سے کیا تمام لوگ برابر ہو گئے؟ غلامی اس کے بعد بھی 89 سال جاری رہی۔ پھر غلامی بھی ختم ہو گئی مگر کیا پھر بھی انسان برابر ہو گئے؟ نہیں بلکہ اگلے سو سال جم کرو کا سلسلہ جاری رہا اور آج بھی اس غلامی اور جم کرو کے نتائج آپ امریکہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

آپ کا فرمانا درست ہے کہ غلامی ہی آدمی کا درجہ کم کرنا کا باعث، ۔ قرآن اس غلامی کو ختم کرتا ہے۔ اور ایسے اقدامات کرتا ہے کہ بتدریج اس بدترین سوچ کا خاتمہ ہو جائے جو اس عمل بد کا باعث ہے۔

قرآن غلام آزاد کرنے کے احکام ضرور دیتا ہے مگر غلامی ختم نہیں‌کرتا اور مسلمانوں میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی کہ مغرب کے دباؤ کے بغیر غلامی ختم کی گئی ہو۔ ابھی محفل میں ہی کئی تھریڈز پر ازلی اور ابدی جہاد کا عندیہ دیا گیا ہے۔ بس یہ جہاد شروع ہونے دیں اور خلافت کا قیام پھر دیکھیں کیسے جنگی قیدی اکٹھے ہوتے ہیں اور شہیدوں‌کو حوروں اور غازیوں کو لونڈیوں کی بشارت دی جاتی ہے۔ دیکھ لیں ان جہاد کے حامیوں‌ میں سے کسی نے غلامی یا لونڈیوں‌کی مخالفت نہیں کی مگر اگر آپ اسامہ بن لادن کے خلاف کچھ لکھیں گے تو وہ فورا ٹپک پڑیں گے۔
 

سپینوزا

محفلین
ایک اچھی پوسٹ کا شکریہ فاتح۔ امید ہے آپ میرے جواب کو constructive criticism کے طور پر لیں گے۔

آپ کے دلائل وہی ہیں جو آجکل ایک عام مسلمان کا ہے۔ اس میں کوئی خاص مسئلہ نہیں مگر یہ استدلال کچھ کمزور ہے۔

یہاں مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ نے قرآن کے مطالعہ میں بخل سے کام لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگوں میں قید کی گئی عورتوں کو بطور باندیاں رکھا جا سکتا تھا لیکن ان سے ان کی مرضی کے بغیر تعلقات قائم کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور ان کے بھی وہی حقوق وضع کیے گئے ہیں جو غلاموں کے۔ واضح رہے کہ کفار مسلمان عورتوں کو جنگی قیدی بنا کر جو سلوک کرتے تھے اسلام نے اس قسم کے ناروا سلوک کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔
حضرت ماریہ قبطیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بھی رسول اللہ کے پاس مصر کے بادشاہ کی طرف سے بطور باندی تحفتاً آئی تھیں اور یہ بالکل درست ہے کہ حضرت ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے بطن مبارک سے ہی پیدا ہوئے تھے لیکن وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و سلم) جو سر تا پا قرآن کا نمونہ اور منبعِ ہدایت تھے کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ نعوذ باللہ قرآن کے احکامات کے خلاف خاکم بدہن ان سے ان کی مرضی کے خلاف جنسی تعلق قائم کریں گے۔

کیا آپ فاروق کی حمایت کر رہے ہیں کہ لونڈیوں سے بھی نکاح کی ضرورت ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں۔ اگر البتہ آپ کو یہ اعتراض ہے کہ میں اس تعلق کو زبردستی کا کیوں کہہ رہا ہوں تو یہ واضح کر دوں کہ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ہر دفعہ انتہائی زبردستی کی جاتی ہو گی بلکہ محض مالک اور غلام کے تعلق کو اجاگر کرنا ہے کہ یہ تعلق ہے ہی زبردستی کا کہ کوئی اپنی مرضی سے غلام نہیں بنتا اور نہ رہتا ہے۔

بالفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کا نکاح 6 سال کی عمر میں طے پا گیا تھا تب بھی اسلام عورت کو مکمل حق دیتا ہے کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ کر ایسے نکاح کو فسخ قرار دلوا سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض احادیث میں رخصتی کے وقت حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی عمر 9 سال بیان کی گئی ہے لیکن بعض میں یہ عمر 11 اور 13 سال بھی بیان ہوئی ہے۔ اور عرب کے شدید گرم ممالک اور خوراک کے باعث لڑکیاں اس عمر میں بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں۔

13 سال کی بات مانی جا سکتی ہے۔ مسئلہ 6 اور 9 سال کا ہے۔ آپ جزیرہ‌نما عرب ہی میں رہتے ہیں۔ وہاں کے گرم موسم میں آپ کتنے 6 اور 9 سالہ بالغوں کو جانتے ہیں؟

رہی بات صحیح بخاری کی حدیث (3682) کی تو اس میں کیا اعتراض ہے؟ اللہ تعالیٰ اگر اپنے محبوب کو یہ دکھا دے کہ اس کی شادی فلاں لڑکی سے ہو گی حتی کہ وہ لڑکی ابھی پیدا بھی نہ ہوئی ہو تو اس سے اس خدا کا اپنے محبوب سے پیار ظاہر ہوتا ہے نہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی عظمت پر حرف آتا ہے ۔

یہاں ساری بات ایمان کی ہے۔ یہ واقعہ آپ کو حضرت محمد کی ذات کے حوالے سے بےضرر لگ رہا ہے مگر اگر یہی خواب آپ کو کوئی عام آدمی سنائے تو آپ شاید کافی برا محسوس کریں۔

عورت بہرحال مرد کی ذمہ داری ہے، خواہ بیوی کے رنگ میں ہو یا بیٹی کی شکل میں، ماں کے روپ میں ہو یا بہن کے طور پر، غرض یہ کہ ہر صورت میں عورت کا نان نفقہ مرد کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے

اور یہی تو بنیادی اعتراض ہے۔

اس کے علاوہ لڑکی کو نہ صرف باپ کے گھر سے باپ اور بھائی کی وراثت میں حصہ ملتا ہے بلکہ اپنے شوہر کے گھر جانے کے بعد شوہر اور بیٹوں کی وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا گیا۔ یوں جس طرح عورت کی زندگی دو ادوار (میکے اور سسرال میں) میں گزرتی ہے بعینہ اسی طرز پر وراثت میں بھی آدھا حصہ وہاں اور آدھا حصہ یہاں پاتی ہے۔

یہ بات سمجھ نہیں‌آئی۔ مرد کو بھی بیوی اور ماں باپ دونوں سے وراثت میں حصہ ملتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
ایک اچھی پوسٹ کا شکریہ فاتح۔ امید ہے آپ میرے جواب کو constructive criticism کے طور پر لیں گے۔

جی میں اسے تعمیری تنقید کے طور پر ہی لے رہا ہوں لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ construct کیا کرنا چاہ رہے ہیں;)
(اسے ذاتی تنقید مت سمجھیے گا۔ میں نے صرف گفتگو کو دوستانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے)
آپ کے دلائل وہی ہیں جو آجکل ایک عام مسلمان کا ہے۔ اس میں کوئی خاص مسئلہ نہیں مگر یہ استدلال کچھ کمزور ہے۔

کیا آپ فاروق کی حمایت کر رہے ہیں کہ لونڈیوں سے بھی نکاح کی ضرورت ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں۔ اگر البتہ آپ کو یہ اعتراض ہے کہ میں اس تعلق کو زبردستی کا کیوں کہہ رہا ہوں تو یہ واضح کر دوں کہ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ہر دفعہ انتہائی زبردستی کی جاتی ہو گی بلکہ محض مالک اور غلام کے تعلق کو اجاگر کرنا ہے کہ یہ تعلق ہے ہی زبردستی کا کہ کوئی اپنی مرضی سے غلام نہیں بنتا اور نہ رہتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ میں نے کہیں نہیں کہا کہ میں کوئی خاص مسلمان ہوں۔ اور لونڈیوں سے نکاح کے متعلق میرا جواب ہے کہ نہیں!
میں نے لونڈیوں سے نکاح کی بات نہیں کی تھی بلکہ قرآن میں ان سے زبردستی جنسی تعلق قائم کرنے کی ممانعت کا ذکر کیا تھا۔
میرے بھائی! آپ "انتہائی" کے لفظ کا اضافہ کر کے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ جب ایک فعل کی زبردستی ممانعت ہو گئی تو وہ انتہائی ہو یا معمولی اس کی اہمیت نہیں۔
یوں تو وارث صاحب نے گذشتہ مراسلہ میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ جس چیز کو آپ اجازت کا نام دے رہے ہیں وہ اس معاشرہ میں بطور قدغن عائد کی گئی تھی۔
اور آپ بھی جانتے ہیں کہ معاشرہ میں صدیوں سے چلی آنے والی رسومات کا خاتمہ یک لخت نہیں کیا جا سکتا اور اگر کسی طور یہ کر بھی دیا جائے تو وہ وقتی جذبات سے زیادہ کچھ معنی نہیں رکھتا اور نسل در نسل چلی آنے والی رسوم کو آہستہ روی سے ہی ختم کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے حیاتیات پڑھنے والے یہ جانتے ہیں کہ inherited traits میں نسل در نسل واقع ہونے والی تبدیلی، جسے ارتقا کہا جاتا ہے، صدیوں میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ (یہاں میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی بات نہیں کر رہا)۔

13 سال کی بات مانی جا سکتی ہے۔ مسئلہ 6 اور 9 سال کا ہے۔ آپ جزیرہ‌نما عرب ہی میں رہتے ہیں۔ وہاں کے گرم موسم میں آپ کتنے 6 اور 9 سالہ بالغوں کو جانتے ہیں؟
یہ بات ماننے پر آپ کا شکریہ! یعنی یہ مسئلہ تو ختم ہوا کہ میں خود بھی 13 سال کے ذکر کو زیادہ معتبر خیال کرتا ہوں۔ اور 13 بلکہ 12 سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچنا نہ صرف عرب بلکہ پاکستان اور امریکا تک میں عام ہے۔
میں نے یہی عرض کیا تھا کہ چھے سال کی عمر میں نکاح طے ہونا اگر مان بھی لیا جائے تو رخصتی بہرحال بلوغت کی عمر کو پہنچ کر عمل میں آئی تھی جب لڑکی کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس نکاح کو قائم رکھے یا فسخ قرار دلوا دے۔

یہاں ساری بات ایمان کی ہے۔ یہ واقعہ آپ کو حضرت محمد کی ذات کے حوالے سے بےضرر لگ رہا ہے مگر اگر یہی خواب آپ کو کوئی عام آدمی سنائے تو آپ شاید کافی برا محسوس کریں۔
منصور صاحب! یقین کیجیے کہ میں انتہائی دیانت داری سے کہہ رہا ہوں کہ اگر آج بھی مجھے کوئی عام آدمی یہ بات بتائے کہ اسے خواب میں یا رویا میں بیس سال پہلے اللہ تعالٰی نے اس کی ہونے والی بیوی کی شکل دکھا دی تھی تو اسے سچا جاننے میں مجھے کوئی عار نہیں ہو گی کہ یہ خدا کا بندے سے پیار کا سلوک ہے۔ یوں بھی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس خواب کے متعلق ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے زوجیت میں آنے کے بعد بتایا تھا۔
آپ کے اطراف بھی بہت زیادہ نہیں تو کچھ ایسی مثالیں ضرور مل جائیں گی کہ لوگوں کو اللہ تعالٰی نے قبل از وقت کسی واقعہ کے بارے میں مطلع فرما دیا۔
آج ہم اتنے ماڈرن ہو چکے ہیں کہ astrology اور numerology جیسی لغویات کو تو سائنس کا درجہ دیتے ہیں اور اگر کوئی یہ کہے کہ اسے خدا کی طرف سے کسی واقعہ کے متعلق قبل از وقت بتایا گیا ہے تو اسے فرسودہ خیالات کا حامل گردانتے ہیں۔
ہم OBE - Out of Body Experience جیسی چیزوں کو trigger کر کے اس تجربے سے گزرنا چاہتے ہیں لیکن خدا کے وجود اور اس کے انسان سے کلام کو تسلیم کرنے میں ہمارے modernism اور self-conscious کے فلسفہ پر حرف آتا ہے۔
یہاں آپ ہی کے الفاظ میں لکھوں‌گا کہ "یہ واقعہ آپ کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ذات کے حوالے سے کافی برا لگ رہا ہے مگر اگر یہی خواب آپ کو کوئی عام آدمی سنائے تو آپ شاید بےضرر محسوس کریں۔":)

نیز عورت کو مرد کی ذمہ داری قرار دیے جانے پر آپ نے لکھا:
اور یہی تو بنیادی اعتراض ہے۔
یہاں میں آپ کے اعتراض کی ماہیت سمجھنے سے قاصر ہوں۔ براہِ مہربانی کچھ وضاحت کیجیے۔
 

زینب

محفلین
عورت کا حصہ اس لیے کم ہے کہ عورت پے کوئی زمہ داری نہیں ہوتی مرد چونکہ گھر کا سربراہ ہوتا ہے اسے خاندان کی زمہ داری اٹھانی ہوتی ہے اسی لیے مرد کا حصہ عورت سے زیادہ رکھا گیا نا کے اس لیے کہ عورت سے زیادتی کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
حضرت عائشہ کی عمر اور حضرت عاصمہ کی عمر کی نسبت

کیا عائشہ ایک 6 یا 7 سال کی دلہن تھیں؟ ایک پرانی روایت کی حقیقت
ٹی۔ او ۔ شاہنواز
ٹی ۔او۔ شاہنواز ۔ ، مشی گن اسٹیٹ میں ایک پیشہ ور ڈاکٹر ہیں ۔ ان کا یہ مضمون منارات نامی رسالہ میں مارچ 1999 میں شائع ہوا۔
( مضمون لمبا ہے اور اس میں‌8 دلائل ہیں۔ صرف ایک یہاں درج کر رہا ہوں۔ فاروق)

بقیہ مضمون یہاں ہے
میرا نوٹ:
لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ کی گئی ہے یا ہوئی ہے۔ ممکن ہےکہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے بھی کسی کتاب میں 19 کی جگہ 9 سال کتابت ہوگیا۔ اور پھر اس کتاب کی تقلید ہوتی رہی۔
 

سپینوزا

محفلین
جی میں اسے تعمیری تنقید کے طور پر ہی لے رہا ہوں لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ construct کیا کرنا چاہ رہے ہیں;)

یہ تو اب شاید مجھے بھی نہیں معلوم کہ بات سے بات نکلتی جا رہی ہے۔ خیر اچھا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ میں نے کہیں نہیں کہا کہ میں کوئی خاص مسلمان ہوں۔

اور میں تو عام مسلمان بھی نہیں۔

اور لونڈیوں سے نکاح کے متعلق میرا جواب ہے کہ نہیں!
میں نے لونڈیوں سے نکاح کی بات نہیں کی تھی بلکہ قرآن میں ان سے زبردستی جنسی تعلق قائم کرنے کی ممانعت کا ذکر کیا تھا۔
میرے بھائی! آپ "انتہائی" کے لفظ کا اضافہ کر کے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ جب ایک فعل کی زبردستی ممانعت ہو گئی تو وہ انتہائی ہو یا معمولی اس کی اہمیت نہیں۔

کہنے کا مقصد تھا کہ violent rape کی بات نہیں ہو رہی بلکہ مالک اور غلام کا جو power کا relationship ہے اس حوالے سے میں اور شاید بہت سے دوسرے لوگ اسے زبردستی سمجھتے ہیں۔

یوں تو وارث صاحب نے گذشتہ مراسلہ میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ جس چیز کو آپ اجازت کا نام دے رہے ہیں وہ اس معاشرہ میں بطور قدغن عائد کی گئی تھی۔

جی ہاں یہ میں نے اس وقت بھی مانا مگر یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے ہم کہیں کہ بش ہٹلر یا سٹالن سے بہت بہتر ہے۔ تقابل جب مذہب کا ہو رہا ہو تو آئیڈیل سے نہیں ہونا چاہیئے کیا؟

اور آپ بھی جانتے ہیں کہ معاشرہ میں صدیوں سے چلی آنے والی رسومات کا خاتمہ یک لخت نہیں کیا جا سکتا اور اگر کسی طور یہ کر بھی دیا جائے تو وہ وقتی جذبات سے زیادہ کچھ معنی نہیں رکھتا اور نسل در نسل چلی آنے والی رسوم کو آہستہ روی سے ہی ختم کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے حیاتیات پڑھنے والے یہ جانتے ہیں کہ inherited traits میں نسل در نسل واقع ہونے والی تبدیلی، جسے ارتقا کہا جاتا ہے، صدیوں میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ (یہاں میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی بات نہیں کر رہا)۔

ڈارون پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ موضوع سے بہت دور بات چلی جائے گی مگر آپ نے جو کہا وہی ڈارون کی تھیوری ہے۔

موضوع پر واپس آتے ہوئے: آپ کی بات سے ایسے لگا کہ اسلام ایک پریکٹیکل مذہب ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ مگر اگر اگر پریکٹیکل ہی کی بات ہے تو پھر خدا کی یہ کیسی بے‌نیازی (یا بے‌چارگی) کہ اس کے کامل دین کے مرکز ہی میں 1380 سال یہ غلامی ختم نہ کی جا سکی اور جب غلامی ختم ہوئی بھی تو مغرب کے زیرِ اثر؟

کیا آپ انیسویں اور بیسویں صدی سے پہلے کا کوئی مسلمان عالم پیش کر سکتے ہیں جس نے وہ لاجک دیا ہو جو آپ نے دیا یا غلامی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو؟ اگر نہیں تو پھر غلامی کے خاتمے کا سہرا ہمیں مغرب کو ہی دینا چاہیئے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ مغرب کا اسلام سے کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ :p

یہ بات ماننے پر آپ کا شکریہ! یعنی یہ مسئلہ تو ختم ہوا کہ میں خود بھی 13 سال کے ذکر کو زیادہ معتبر خیال کرتا ہوں۔ اور 13 بلکہ 12 سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچنا نہ صرف عرب بلکہ پاکستان اور امریکا تک میں عام ہے۔

میں تو یہ بات اس وقت بھی ماننے کو تیار تھا جب فاروق نے لنک دیا تھا۔ سوال ابھی بھی وہی ہے جو اس وقت تھا کہ کتنے مسلمان مانتے ہیں اور کتنے علماء نے یہ دلائل پیش کئے خاص طور پر مغرب کے دباؤ سے پہلے؟

کیا اسلام کے سنہرے دور میں غلامے کے خاتمے اور بچیوں کی شادی جیسے مسائل پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا؟

میں نے یہی عرض کیا تھا کہ چھے سال کی عمر میں نکاح طے ہونا اگر مان بھی لیا جائے تو رخصتی بہرحال بلوغت کی عمر کو پہنچ کر عمل میں آئی تھی جب لڑکی کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس نکاح کو قائم رکھے یا فسخ قرار دلوا دے۔

اگر کلاسک رپورٹس کو مانا جائے تو رخصتی 9 سال میں ہوئی تھی۔ بوغت 9 سال میں ممکن ہے مگر بہت کم۔ عام طور سے 12، 13 سال میں ہوتی ہے۔

منصور صاحب! یقین کیجیے کہ میں انتہائی دیانت داری سے کہہ رہا ہوں کہ اگر آج بھی مجھے کوئی عام آدمی یہ بات بتائے کہ اسے خواب میں یا رویا میں بیس سال پہلے اللہ تعالٰی نے اس کی ہونے والی بیوی کی شکل دکھا دی تھی تو اسے سچا جاننے میں مجھے کوئی عار نہیں ہو گی کہ یہ خدا کا بندے سے پیار کا سلوک ہے۔ یوں بھی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس خواب کے متعلق ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے زوجیت میں آنے کے بعد بتایا تھا۔
آپ کے اطراف بھی بہت زیادہ نہیں تو کچھ ایسی مثالیں ضرور مل جائیں گی کہ لوگوں کو اللہ تعالٰی نے قبل از وقت کسی واقعہ کے بارے میں مطلع فرما دیا۔

صرف بیوی نہیں بلکہ عمر کی بھی بات ہے۔

اور مجھے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ لوگوں کو قبل از وقت علم ہوا ہو۔

آج ہم اتنے ماڈرن ہو چکے ہیں کہ astrology اور numerology جیسی لغویات کو تو سائنس کا درجہ دیتے ہیں اور اگر کوئی یہ کہے کہ اسے خدا کی طرف سے کسی واقعہ کے متعلق قبل از وقت بتایا گیا ہے تو اسے فرسودہ خیالات کا حامل گردانتے ہیں۔
ہم OBE - Out of Body Experience جیسی چیزوں کو trigger کر کے اس تجربے سے گزرنا چاہتے ہیں لیکن خدا کے وجود اور اس کے انسان سے کلام کو تسلیم کرنے میں ہمارے modernism اور self-conscious کے فلسفہ پر حرف آتا ہے۔
یہاں آپ ہی کے الفاظ میں لکھوں‌گا کہ "یہ واقعہ آپ کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ذات کے حوالے سے کافی برا لگ رہا ہے مگر اگر یہی خواب آپ کو کوئی عام آدمی سنائے تو آپ شاید بےضرر محسوس کریں۔":)

جناب یہ آسٹرالوجی اور باقی بکواسیات جس کا آپ نے ذکر کیا یہ سب مذہب ہی کی ایک قسم ہے اور شاید اتنی ہی غلط۔

نیز عورت کو مرد کی ذمہ داری قرار دیے جانے پر آپ نے لکھا:

یہاں میں آپ کے اعتراض کی ماہیت سمجھنے سے قاصر ہوں۔ براہِ مہربانی کچھ وضاحت کیجیے۔

لگتا ہے پوری feminist movement گزر گئی اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلا۔
 

خاور بلال

محفلین
منصور حلاج صاحب!

عورت کا کیا مقام ہونا چاہئیے؟ ازراہِ کرم اپنے خیالات سے نوازیے۔

عزیزم فاتح نے اہم نقاط کی وضاحت کردی ہے۔ میرے سوال پوچھنے کی وجہ صرف یہ جاننا ہے کہ دوسری طرف کا نقطہ نظر عورت کے حقوق کے حوالے سے کیا ہے، تاکہ ٹودی پوائنٹ بات ہوسکے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پہلے ایک صاحب نے یہاں دنگل مچایا ہوا تھا اب ایک اور آگیا،
نبیل کوئی علاج ہے اس مرض کا ، یا جو مرضی یہاں پر لکھا جائے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
پہلے ایک صاحب نے یہاں دنگل مچایا ہوا تھا اب ایک اور آگیا،
نبیل کوئی علاج ہے اس مرض کا ، یا جو مرضی یہاں پر لکھا جائے۔

کیا ہو گیا نظامی۔ اتنی اچھی معلومات مل رہی ہیں۔ :) باندیاں رکھنا نہ صرف مباح ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنا اجماع امت کی مخالفت ہے۔ یہ میں نہیں شیخ منجد کہہ رہے ہیں۔ :)
 
غلطی انسانوں سے ہوئی یا قران کے احکامات غلط ہیں؟

منصور حلاج صاحب۔ پہلے آپ کے ابتدائی نکات:
آپ نے جس طرح‌موضوع شروع کیا تھااس کے بنیادی نکات یہ تھے:
1۔ قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔
2۔ قرآن غلامی کو فروغ دیتا ہے۔
3۔ حضرت عائشہ کی عمر شادی کے وقت 7 سال تھی
4۔ چونکہ عورت کا حصہ آدھا ہے اس لئے اس کا معاشرے میں مقام کم ہے۔

جب مزید قرانی آیات سے یہ بتایا گیا کہ
1۔ قرآن لونڈیوں سے نکاح کا حکم دیتا ہے۔ اور ان کو بیوی بنانے کا حکم دیتا ہے۔
2۔ قرآن غلامی کو ختم کرتا ہے۔
3۔ ورثہ میں حق سے نہیں بلکہ قرآن مرد و عورت کو مساوی مقام دیتا ہے۔
4۔ دکھایا گیا کہ مؤرخین اور مصنفینِ کتب روایات کا حساب یا تو کمزور تھا یا پھر کتاب کی غلطی ہوئی ہے حضرت عائشہ کی عمر کے باب میں۔ کہ حضرت عائشہ کہ عمر کی ہشام بن عروہ کی روایت یاتو غلط ہے یا پھر کسی کتابت کی غلطی کا نتیجہ ہے۔

تو اب ایک نیا مسئلہ آپ سامنے لائے ہیں کہ 'فلاں عالم' نے یہ کہا۔ اور 'فلاں عالم' نے یہ کہا۔ میرا خیال ہے کہ اس کا عنوان ہونا چایئے، 'فرد واحد کی قانون سازی' یا 'فرد واحد کی فتوی بازی' ۔ اس مقصد کے لئے کسی کے بھی پاس کیا قرآنی ثبوت ہےِ

فرد واحد کو قانون سازی کا حق نہیں: ذرا درج ذیل آیت دیکھئے:
[AYAH]42:38[/AYAH] اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

دوبارہ اس آیت کو دیکھئے اور بتائیے کہ اس میں آپ کو فرد واحد کی قانون سازی نظر آتی ہے یا ایک جماعت کا حکم نظر آتا ہے؟
[AYAH]3:104[/AYAH] اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

کچھ لوگ کہتے ہیں کے یہ 'ٹیچر حضرات' جب قانون سازی کررہے ہیں تو یہ تو سنت رسول پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ایسا ہے؟‌ دیکھئے دوسروں سے مشورہ کرنے کے لئے رسول اللہ صلعم کو اللہ تعالی کا حکم:

[AYAH]3:159[/AYAH] (اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے

تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولوی ، ملا، آیت اللہ کی حیثیت ایک مدرس، ایک ٹیچر یا ایک منطقی سے بڑھ کر کیا ہے؟ یہ بھئ انسان تھے اور اپنی عقل اور معلومات سے محدود تھے۔ ان لوگوں نے اپنی بہترین کوشش کی۔ لیکن ان کے فقہہ کہ حیثیت الہامی نہیں ہے۔ اگر کسی دور میں ان کے ہدایات پر عمل کیا گیا اور غلامی جاری رہی تو اس کا قظعاَ‌یہ مطلب نہیں کہ قرآن کا الہامی قانون بھی بدل گیا۔

جب بھی آپ ایک ایسی ریاست قائم کریں گے جہاں‌اسلامی یعنی قرآنی اصولوں کی حکومت ہوگی تو قانون بنانے والا ادارہ ایک مشاورتی کونسل، سینیٹ، قومی اسمبلی ہوگا جو کہ چنے گئے نمائندوں پر مشتمل ہوگا۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اسلامی ریاست میں قانون ساز اداروں کے بارے میں آیات دیکھ سکتے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ فرد واحد کی غلطی سے آپ قرآن کے اصول کو غلط نہیں ثابت کرسکتے۔ غلامی کو قرآن ممنوع قرار دیتا ہے۔

یہ انسان ہیں جن نے قرآن کی خلاف ورزی کی نہ کہ کتاب نے ان کی مخالفت میں کچھ لکھا۔

آپ کو ایک اور آرٹیکل فراہم کیا جس میں خود کتب روایات اور تواریخ‌ لکھنے والوں‌کی مدد سے یہ دکھایا گیا کہ حضرت عائشہ کہ عمر کی ہشام بن عروہ کی روایت یاتو غلط ہے یا پھر کسی کتابت کی غلطی کا نتیجہ ہے۔

آپ سے عرض‌یہ ہے کہ آپ انسانوں کی حرکات کو اور قرآن کے مضمون کو گڈ مڈ‌نہ کریں۔

جب آپ قرآن کی تعلیم کو عام کریں گے اور اس کے مضامین و نظریات اور انسانوں کی اجتماعی ذمہ داری کو جو اہمیت قرآن دیتا ہے سمجھیں گے تب ہی ایک واضح تصویر سامنے آئے گی۔

میں تو حیران ہوتا ہوں‌کہ قرآن نے 1400 سال پہلے جب کہ 'فرد واحد' حکومت عام تھی کس طرح 'باہمی مشورے' کی اہمیت پر زور دیا جو کہ ایک جمہوری طرز عمل ہے۔
 

سپینوزا

محفلین
فاروق: مجھے امید تھی کہ آپ یہی کہیں گے۔ میں آپ کی باقی تھریڈز پڑھ چکا ہوں۔

جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں بات فردِ واحد کی نہیں بلکہ امت کے صدیوں کے behaviour کی ہے۔ میں مذہب کے معاملے میں nominalism کا قائل ہوں۔ مذہب صرف وہ نہیں جو ایک کتاب میں لکھا ہے بلکہ مذہب وہ بھی ہے جو practice کیا جاتا ہے۔ میں نے آپ سے پہلے بھی پوچھا تھا کہ اگر آپ کی بات صحیح مان لی جائے کہ اسلام غلامی کو ختم کرتا ہے تو پھر وہ اسلام کبھی اس دنیا میں کسی نے دیکھا بھی یا نہیں؟ آپ کے مضامین سے تو میں یہی سمجھا ہوں کہ یہ ایک اچھا اور تخیلاتی مذہب ہے جس کا حقیقت میں مسلمانوں میں کبھی وجود نہیں رہا۔ ایسے مذہب کا فائدہ؟
 

سپینوزا

محفلین
ایک اور بات۔ غلامی آخر ختم ہو ہی گئی۔ مگر آج بھی کتنے مسلمان (عالم یا عام) جو غلامی کو حرام کہیں گے؟ زیادہ‌تر محض apologetics پر گزارہ کرتے ہیں۔ مانتا ہوں کہ فاروق ایک exception ہیں مگر ہم اسلام اور قرآن کی فاروق کی understanding کو اسلام کہیں یا ہزاروں لاکھوں اور کڑوڑوں مسلمان جو قرآن اور اسلام کے بارے میں کہتے ہیں وہ صحیح‌ ہے؟
 

حسن نظامی

لائبریرین
السلام عليکم
ميں نے پورا دھاگہ اپنے پاس نقل کر ليا ہے ۔ معاملہ ايسا نہيں ہے کہ بغير سوچے سمجھے جو منہ ميں آئے بات کہہ دي جائے يہ اعتراض ان چند بڑے اعتراضات ميں سے ہے جو غير مسلموں کي جانب سے اسلام پر کيے جاتے ہيں ۔۔
ليکن ايک بات سردست کہنا چاہتا ہوں ۔۔۔
وہ يہ ہے کہ
کہاں ہيں وہ علماء کرام اور دين کے ٹھيکيدار جو اسي محفل کے مختلف دھاگوں ميں جس شخص کو منکر حديث اور گمراہ کے فتووں سے نواز رہے تھے آج وہي شخص منصور حلاج کو جوابات دے رہا ہے ۔ ايک اس شخص کے علاوہ اگر کوئي قابل قدر پوسٹ آئي ہے تو وہ يا محمد وارث کي طرف سے ہے يا فاتح صاحب کي طرف سے کہاں ہيں وہ لوگ جن کا سارا زور قلم غازي عبدالرشيد کو حسين ثابت کرنے کے ليے صرف ہو رہا تھا ۔۔۔؟؟؟؟
 
منصور آپ کی کئی پوسٹس کا میں بغور مطالعہ کر چکا ہوں اور بہت سے نکات پر مجھے اعتراض ہے مگر وہ باتیں ایسی ہیں کہ بات موضوع سے ہٹ کر بہت دور نکل جائے گی اور سوائے الجھنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

آپ مذہب کے معاملے میں nominalism کے قائل ہیں تو کیا آپ یہ ماننا سب پر فرض ہوگیا یا جو بھی مذہب کو مانے وہ آپ کے اس نظریہ کے تحت ہی مانے اور سب سے اہم اعتراض آپ تو مذہب کے قائل ہی نہیں پھر اسی کے معاملے میں nominalism کیا معنی ؟ یہ تو صاف دو عملی ہوئی ۔
آپ کی یہ بات کہ مذہب صرف وہ نہیں جو کتاب میں لکھا ہے بلکہ مذہب وہ بھی ہے جس پر عمل بھی کیا جاتا ہے بجا ہے مگر یہ تو عام فہم بات ہے کہ کوئی بھی نظریہ یا مذہب اصول فراہم کرتا ہے اور اگر کوئی گروہ یا قوم ان اصولوں سے روگردانی کرتی ہے تو قصور مذہب کا نہیں اس پر عمل کرنے والوں کا نکالا جاتا ہے مثلا پاکستان اور بھارت میں جمہوریت نے ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا مگر کوئی بھی خرابی کا ذمہ دار جمہوریت کو نہیں ٹھہراتا بلکہ ہر بار خرابی کا ذمہ دار لوگوں کو ہی ٹھہرایا جاتا جو جمہوریت کے اصولوں اور اس کی مبادیات پر صحیح طور پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہم تعلیم کے فوائد اور برکات پر یقین رکھتے ہیں اور تمام بنی نوع انسان اس کا پرچار کرتی ہے مگر کچھ لوگ اور گروہ اسی تعلیم کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور لوگوں کے لیے مشکلات اور تکلیفوں کا باعث بھی بنتے ہیں مگر ہم تعلیم کو برا نہیں کہتے بلکہ ان لوگوں کے منفی طرز عمل اور تعلیمی اصولوں سے انحراف کو خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اصولوں اور نظریات کو ہم بعینہ اسی طرح مانتے ہیں جیسے وہ کتابوں اور دانش کی سطح پر بتائے جاتے ہیں اگر ان پر عمل پیرا لوگ انہیں سمجھنے میں یا ان پر عمل پیرا ہونے میں غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس سے وہ اصول اور نظریات غلط ثابت نہیں ہوتے۔ تمام جگہ ہم اس اصول کی پیروی کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے مذہب کے معاملے میں آ کر ہم سارا زور ماننے والوں پر صرف کرتے ہیں اور اصولوں اور نظریات کو محض تخیل قرار دینے لگتے ہیں۔

آپ کا یہ کہنا کہ اسلام غلامی کو ختم کرتا ہے تو وہ اسلام کبھی اس دنیا میں کسی نے دیکھا بھی یا نہیں ؟
اگر تو کسی دور میں پوری دنیا پر اسلام غالب رہا ہو اور اس کے بعد بھی اسلام نے غلامی کو ختم نہ کیا ہو تو آپ کا اعتراض بالکل بجا ہے اور واقعی اسلام قصور وار ٹھہرتا ہے کہ اس نے تمام دنیا پر غلبہ پا کر بھی کیوں اس مذموم رسم کو جاری رکھا مگر اگر اسلام کبھی پوری دنیا پر غالب نہیں رہا تو کیسے وہ دنیا سے غلامی کو ختم کر سکتا جب کہ باقی اقوام زور و شور سے اس رسم کی ترویج میں مصروف تھیں اور جن اقوام کو آپ بہت کریڈٹ دے رہے ہیں وہ ان غلاموں کی تجارت بڑے پیمانے پر کر رہی تھیں۔
آپ مثالیں دیں کہ کن ادوار میں مسلمانوں میں غلامی کی تجارت جاری تھی اور مسلمانوں کا عمل بھی یہی تھا کہ غلام رکھنا ایک احسن قدم ہے اور زیادہ سے زیادہ ہونے چاہیے ، یاد رہے کہ مسلمانوں کے زیر اثر تقریبا آدھی دنیا رہی ہے تو اس لحاظ سے بہت بڑی تعداد غلام ہونی چاہیے تھی مسلمانوں کی۔

مسلمان بحیثیت مجموعی غلامی کو برا سمجھتے تھے اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ جب غلامی پوری دنیا میں ختم ہوئی تو مسلمان نے اس کی کہیں مخالفت نہیں کی اور اس کا ساتھ دیا ورنہ مسلمان اس کے مخالفین میں شامل ہوتے اور چاہے ساری دنیا میں ختم بھی ہوگئی ہوتی تو وہ ان کے عقائد میں اگر درست ہوتی تو وہ اسے کم از کم اپنے ممالک میں جائز رکھتے اور رواج دیتے رہتے اور مسلمانوں پر اب تک اس حوالے سے تنقید ہو رہی ہوتی جیسے کہ جہاد پر اب تک ہوتی ہے جس کے خلاف بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے مگر مسلمانوں نے اپنے اس عقیدے کو ترک نہیں کیا اور نہ کریں گے۔

اس کے علاوہ آپ نے یہ کہا کہ فاروق صاحب ہی شاید ایسا سمجھتے ہیں تو اس کے لیے عرض ہے کہ ایک پول کروا لیں اور دیکھ لیں کہ کتنے مسلمان غلامی کو اچھا سمجھتے ہیں اور کتنے برا ، خود بخود معلوم پڑ جائے گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top