اسلام میں عورت کا مقام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
منصور کے پہلے نکتے کا منطقی، عقلی اور عملی تجزیہ

منصور حلاج صاحب، سب سے پہلے یہ عرض‌کے میرا لہجہ ان دونوں پوسٹ میں بہت ہی نرم ہے، آپ ایسے ہی پڑھئے۔ نہ غصہ ہے اور نہ ہی طنز۔ دل سے نکلتی ہے، دل سے محسوس کیجئے۔

اب تک جو آیات آپ کو پیش کی ہیں ان سے آپ کو مدد مل گئی ہوگی۔اور وضاحت ہو گئی ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ میرا خیال ہے۔ آئیے آپ کے دئے گئے ہر نکتہ کا منطقی، عقلی اور عملی تجزیہ کرتے ہیں۔

آپکا پہلا سوال اور اس مد میں پیش کی ہوئی آیت کا تجزیہ:
1۔ قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔

سورۃ الاحزاب:33 , آیت:50: اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں۔۔۔۔۔

منطقی اور عقلی نکتہ دیکھئے۔
'ملکت ایمانکم' (یعنی لونڈی )‌کے بارے میں جائز کرنے کے سلسلے میں جو حکم دیا ہے، اس میں‌
1۔ کوئی جنسی تعلق نہیں۔
2۔ اگرلونڈی جائز تو چچا، پھوپھی زاد وغیرہ کیوں‌نہیں جائز۔

اگر آپ کی بات درست مانی جائے یعنی کہ لونڈی کو جب چاہے استعمال کرلیا تو
1۔ ذرا یہی کام چچازاد، پھوپھی زاد کے ساتھ کرکے اس آیت کو بطور سرٹیفیکیٹ پیش کرکے دیکھیں، کیا ہوتا ہے۔
2۔ اگر لونڈی اسی طرح قابل استعمال ہے تو کون اس کو استعمال کرے گا؟ یہ ایک شخص کے لئے مخصوص ہوگی یا گھر کے تمام افراد کے پینے کے لئے صراحی کا کام دے گی۔ اس کے گھناؤنے پن کا اندازہ کیجئے۔
3۔ اس صورت میں اس لونڈی کی اولاد کس کی اولاد کہلائے گی؟
4۔ اس اولاد کی پرورش کون کرے گا اور اس کو ورثہ کس کا ملے گا۔

ہم دیکھتے ہیں کے کسی بھی جگہ ایسی صورت حال نہ سننے کو ملی نہ دیکھنے کو۔ یہ ہے اس کا عملی پہلو۔ قرآن نکاح کی صرف دو شرائط رکھتا ہے، مہر اور ایجاب و قبول، سنت رسول مزید شرائط رکھتی ہے اور وہ درست ہیں۔ قرآن کی مہر کی شرط، لونڈی کی صورت میں، رقم کی ادائیگی سے پوری ہوگئی۔ لیکن اجازت، ایجاب و قبول اور اس رشتہ کے بارے میں سب کو بتانے کا کام ضروری ہے کہ لونڈی اب کس کی 'لونڈی' ہے۔ یعنی کس کی بیوی ہے۔ جی!

اور قرآن (قرآن سے میرا مطلب ہمیشہ اللہ تعالی اور صاحب قرآن مراد ہوتی ہے) نے واضح کردیا کے تم ایسی کسی عورت کو :
1۔ کریہہ بدکاری پر مجبور نہیں کرسکتے
2۔ وہ جب چاہے پروانہ آزادی طلب کرسکتی ہے۔
گویا ایسی عورت یا مرد کو غلامی سے نجات دی اور غلام کو یہ حق دے کر کہ وہ جب چاہے یہ رشتہ ختم کرسکتا ہے۔ غلامی کو ملازمت میں‌تبدیل کردیا۔ لیکن ملازمت دینے والے کی ذمہ داری کم نہیں کی۔

اور جناب رہی آپ کی 'میری اکسیپشن' اور 'ایک تخیلاتی مذہب' والی بات تو:

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور؟

کیا بات ہے؟ کیا یہ تخیلاتی مذہب ہے؟ اسی روئے زمین پر ایک ملک ہے مملکتِ خداداد پاکستان۔ جس کے خواتین و حضرات ، شانہ بہ شانہ، پچھلے 60 سال سے باہمی مشاورت سے اصول سازی اور قانون سازی کرتے آرہے ہیں۔ اور فخر سے اپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی کہتے ہیں۔ قانوناَ غلامی کو جرم قرار دیتے ہیں اور ایسی کسی بھی بے حیائی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ فرد واحد کی حکومت کو عذاب اور فرد واحد کی قانوں سازی کو فتنہ پروری کہتے ہیں۔
کوئی شبہ ہے آپ کو؟
 
منصور کے دوسرے نکتے کا قرانی تجزیہ۔

ذہن میں‌رکھئے کہ ہر لفظ نرمی سے ادا ہوا ہے۔ نہ کردار کشی مقصود ہے اور نہ ہی ذاتی تنقید۔ اگر کہیں اس کا شائبہ ہے تو معافی کا خواستگار ہوں۔

موت کے بعد جائداد میں حصے کے سلسلے میں بھی اسلام عورت کو مرد سے آدھا حصہ دیتا ہے۔

سورۃ النسآء:4 , آیت:11اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے پھر اگر دو سے زاید لڑکیاں ہوں تو ا ن کے لیے دو تہائی اس مال میں سے ہے جو میت نے چھوڑا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور اگر میت کی ۔ ۔ ۔ ۔

آپ نے کبھی اس آیت پر اور اس کے لوازمات پر غور کیا؟

کیا اس آیت کا یہ حصہ دیکھا؟
(یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)،

کیا ایک شخص کو زندگی نے یہ وقت دیا کہ وہ اپنی اولاد کے لئے کچھ کرے؟ زندگی کوئی ٹایم سلائس نہیں ہے، زندگی کوئی ؛پوائنٹ‌آف ٹائم' نہیں‌ہے، زیاد تر انسانوں کے لئے زندگی ایک ' پیریڈ آف ٹائم' ہے۔ درست؟

تو اپنی زندگی میں ایک شخص کو چاہئیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے، اولاد کو تعلیم دے، کاروبار کرائے اور پیروں پر کھڑا کرے، ان کی شادی بیاہ کروا کر ایک فیملی یونٹ یا خاندان بنوائے کہ اس کی اولاد کو کسی شے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ ہو زندہ آدمی کی ذمہ داری پھر مرنے سے پہلے، اللہ کی ہدایت دیکھئے۔

[AYAH]2:180[/AYAH] تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو، تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہے

گویا یہ واضح ہے کہ ایک شخص وصیت کرے گا، سمجھتے بوجھتے ہوئے۔ اور اگر یہ اس کا فیصلہ ہے کہ وہ کوئی وصیت نہیں کرتا تو پھر اس وصیت کی عدم موجودگی میں مندرجہ بالاء فارمولہ استعمال ہوگا۔

گویا آپ کی ایماء و مرضی اس تقسیم کے فیصلہ میں پوری طرح شامل ہے۔ دوبارہ عرض یہ ہے کہ اس دولت کی تقسیم سے کسی بھی مردو عورت کے معاشرہ میں مقام پر فرق نہیں پڑتا۔

ہم سب کو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کو باقاعدگی سے پڑھیں اور اس سے وہ عقل و دانش حاسل کریں جس کے لئے یہ 1400 سال سے زائد سے مشہور ہے۔ ہم 30 منٹ میں عربی کا سپارہ ناظرہ کرلیتے ہیں۔ لیکن 2، 3 سپارے معنوں کے ساتھ ایک سال میں بھی اسکول میں نہیں پڑھا سکتے؟

جب نماز، روز، زکوۃ پر اتنا زور ہے تو جو کتاب اس کے بارے میں بتاتی ہے وہ ہم اپنے اسکولوں میں‌کیوں نہیں‌پڑھاتے۔

بھائی میں کوئی ایکسپشن نہیں ہوں۔ یہ مضامینِ اور اصول قرآن تو مسلم کیا غیر مسلم کیا سب ہی دل سے لگاتے ہیں۔

ذرا دل میں جھانکئے، کیا آپ اپنے آپ کو غیر منصف، بے اصول، متعصب، بے ایمان، دھوکہ باز کہتے ہیں؟

اگر آپ اپنے آپ کو منصف، با اصول، غیر متعصب، ایمان دار، اور دیانت دار شخص قرار دیتے ہیں تو آپ بھی اس عظیم کتاب کے عالمگیر اصولوں کے داعی ہیں۔ یہ اچھا وقت ہے کہ قرآن کی مطالعہ شروع کیجئے، آسان تو یہ ہے کہ اس کو با ترجمہ کار میں ڈرائیو کرتے ہوئے سنئے۔ یا ایک ایم پی 3 پلیر لے کر اس پر ڈاؤن لوڈ کرلیجئے۔ اور جب موقع ہو سنئے۔ کچھ ہی دنوں میں‌ یہ عقل و دانش آپ کی رگ و پے میں سرایت کر جائے گی، آپ کی شخصیت اور کاروبار دونوں نکھر جائیں گے۔ اور اپنے آپ کو دھوکہ دینا کی سرشت ختم ہوجائے گی۔

[AYAH]2:9[/AYAH] فریب دینا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔

والسلام۔
 

سپینوزا

محفلین
فاروق آپ کی پوسٹس کا جواب میں بعد میں دوں گا کہ آپ کے دلائل میں وزن ہے اور جواب میں محنت لگے گی اگرچہ مجھے لگ رہا ہے کہ we are talking past each other۔ فی الحال محب کی مزیدار پوسٹ پر ایک نظر ڈال لوں۔

آپ مذہب کے معاملے میں nominalism کے قائل ہیں تو کیا آپ یہ ماننا سب پر فرض ہوگیا یا جو بھی مذہب کو مانے وہ آپ کے اس نظریہ کے تحت ہی مانے اور سب سے اہم اعتراض آپ تو مذہب کے قائل ہی نہیں پھر اسی کے معاملے میں nominalism کیا معنی ؟ یہ تو صاف دو عملی ہوئی ۔

مذہب کے صحیح نہ ہونے کو ماننے کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ شترمرغ کی طرح سر ہی زمین میں گاڑ لیں کہ مذہب ہے ہی نہیں۔ جو مذاہب ہمیں نظر آتے ہیں ان پر یہ غور تو کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کی تعلیمات کیا۔

آپ کی یہ بات کہ مذہب صرف وہ نہیں جو کتاب میں لکھا ہے بلکہ مذہب وہ بھی ہے جس پر عمل بھی کیا جاتا ہے بجا ہے مگر یہ تو عام فہم بات ہے کہ کوئی بھی نظریہ یا مذہب اصول فراہم کرتا ہے اور اگر کوئی گروہ یا قوم ان اصولوں سے روگردانی کرتی ہے تو قصور مذہب کا نہیں اس پر عمل کرنے والوں کا نکالا جاتا ہے مثلا پاکستان اور بھارت میں جمہوریت نے ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا مگر کوئی بھی خرابی کا ذمہ دار جمہوریت کو نہیں ٹھہراتا بلکہ ہر بار خرابی کا ذمہ دار لوگوں کو ہی ٹھہرایا جاتا جو جمہوریت کے اصولوں اور اس کی مبادیات پر صحیح طور پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہم تعلیم کے فوائد اور برکات پر یقین رکھتے ہیں اور تمام بنی نوع انسان اس کا پرچار کرتی ہے مگر کچھ لوگ اور گروہ اسی تعلیم کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور لوگوں کے لیے مشکلات اور تکلیفوں کا باعث بھی بنتے ہیں مگر ہم تعلیم کو برا نہیں کہتے بلکہ ان لوگوں کے منفی طرز عمل اور تعلیمی اصولوں سے انحراف کو خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اصولوں اور نظریات کو ہم بعینہ اسی طرح مانتے ہیں جیسے وہ کتابوں اور دانش کی سطح پر بتائے جاتے ہیں اگر ان پر عمل پیرا لوگ انہیں سمجھنے میں یا ان پر عمل پیرا ہونے میں غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس سے وہ اصول اور نظریات غلط ثابت نہیں ہوتے۔ تمام جگہ ہم اس اصول کی پیروی کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے مذہب کے معاملے میں آ کر ہم سارا زور ماننے والوں پر صرف کرتے ہیں اور اصولوں اور نظریات کو محض تخیل قرار دینے لگتے ہیں۔

دونوں باتیں اہم ہیں کسی بھی نظریے کے اصول بھی اور ان پر عمل کیسے ہوتا ہے بھی۔ آخر ان نظریوں کا مقصد ایک بہتر انسان یا بہتر معاشرہ وغیرہ قائم کرنا ہوتا ہے۔ لہذا پریکٹیکل بات تو یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ بحیثیت مجموعی اس نظریے کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں۔

اگر تو کسی دور میں پوری دنیا پر اسلام غالب رہا ہو اور اس کے بعد بھی اسلام نے غلامی کو ختم نہ کیا ہو تو آپ کا اعتراض بالکل بجا ہے اور واقعی اسلام قصور وار ٹھہرتا ہے کہ اس نے تمام دنیا پر غلبہ پا کر بھی کیوں اس مذموم رسم کو جاری رکھا مگر اگر اسلام کبھی پوری دنیا پر غالب نہیں رہا تو کیسے وہ دنیا سے غلامی کو ختم کر سکتا جب کہ باقی اقوام زور و شور سے اس رسم کی ترویج میں مصروف تھیں اور جن اقوام کو آپ بہت کریڈٹ دے رہے ہیں وہ ان غلاموں کی تجارت بڑے پیمانے پر کر رہی تھیں۔
آپ مثالیں دیں کہ کن ادوار میں مسلمانوں میں غلامی کی تجارت جاری تھی اور مسلمانوں کا عمل بھی یہی تھا کہ غلام رکھنا ایک احسن قدم ہے اور زیادہ سے زیادہ ہونے چاہیے ، یاد رہے کہ مسلمانوں کے زیر اثر تقریبا آدھی دنیا رہی ہے تو اس لحاظ سے بہت بڑی تعداد غلام ہونی چاہیے تھی مسلمانوں کی۔

صدقے جاؤں آپ کے! مسلمانوں کا امریکہ میں غلامی ختم کرنے کا ذکر نہیں ہو رہا تھا بلکہ اسلامی دنیا کی ہی بات ہو رہی تھی۔ انڈیا، عرب، سلطنت عثمانیہ ہر جگہ غلام پائے جاتے تھے۔ سعودی عرب میں تو 1962 تک غلامی موجود تھی۔ صرف افریقہ سے مسلمانوں نے 10 سے 20 ملین لوگوں کو غلام بنا کر بیچا۔ اس کے علاوہ یورپ اور وسطی ایشیا سے مسلمانوں نے جولام بنائے وہ الگ تھے۔ اٹلانٹک پر غلاموں کی تجارت میں کچھ تھوڑا سا مسلمانوں کا ہاتھ تھا۔

مسلمان بحیثیت مجموعی غلامی کو برا سمجھتے تھے اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ جب غلامی پوری دنیا میں ختم ہوئی تو مسلمان نے اس کی کہیں مخالفت نہیں کی اور اس کا ساتھ دیا ورنہ مسلمان اس کے مخالفین میں شامل ہوتے اور چاہے ساری دنیا میں ختم بھی ہوگئی ہوتی تو وہ ان کے عقائد میں اگر درست ہوتی تو وہ اسے کم از کم اپنے ممالک میں جائز رکھتے اور رواج دیتے رہتے اور مسلمانوں پر اب تک اس حوالے سے تنقید ہو رہی ہوتی جیسے کہ جہاد پر اب تک ہوتی ہے جس کے خلاف بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے مگر مسلمانوں نے اپنے اس عقیدے کو ترک نہیں کیا اور نہ کریں گے۔

بہت سے مسلمان علاقوں میں غلامی مغرب ہی کی وجہ سے ختم ہوئی۔ ساتھ ہی مغرب کے زیر اثر مسلمان علماء اور سکالرز بھی غلامی کو کم کرنے کا سوچنے لگے۔ اس کے باوجود آج بھی بہت کم ہی علماء ہیں جو غلامی کو بالکل غلط یا حرام قرار دیتے ہیں۔ زیادہ علماء تو غلامی کو حلال ہی سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب کے شیخ منجد کا فتوٰی پہلے پوسٹ کر چکا ہوں۔

یہ بھی یاد رہے کہ مغرب میں غلامی انیسویں صدی میں ختم ہو گئی مگر سعودی عرب اور یمن میں 1960 اور 1970 کی دہائی میں یہ ختم کی گئی۔ یہ دیر نہیں تو اور کیا ہے؟

اس کے علاوہ آپ نے یہ کہا کہ فاروق صاحب ہی شاید ایسا سمجھتے ہیں تو اس کے لیے عرض ہے کہ ایک پول کروا لیں اور دیکھ لیں کہ کتنے مسلمان غلامی کو اچھا سمجھتے ہیں اور کتنے برا ، خود بخود معلوم پڑ جائے گا۔

بالکل پول کروائیں مگر سوال یہ رکھیں کہ: کیا آج کے دور میں اسلام کے حساب سے غلامی حرام ہے؟
 

تیشہ

محفلین
کیا ہو گیا نظامی۔ اتنی اچھی معلومات مل رہی ہیں۔ :) باندیاں رکھنا نہ صرف مباح ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنا اجماع امت کی مخالفت ہے۔ یہ میں نہیں شیخ منجد کہہ رہے ہیں۔ :)




zzzbbbbnnnn.gif
 

فاتح

لائبریرین
پہلے ایک صاحب نے یہاں دنگل مچایا ہوا تھا اب ایک اور آگیا،
نبیل کوئی علاج ہے اس مرض کا ، یا جو مرضی یہاں پر لکھا جائے۔

الف صاحب!
میں نے اجمل صاحب کو واپسی کی گزارش کرتے ہوئے بھی یہی استدلال اختیار کیا تھا اور آپ سے بھی یہی گزارش کروں گا کہ نبیل کسی دھاگے کو مقفل یا یوزر کو بلاک تو ضرور کر سکتے ہیں لیکن اس سے کیا اسلام کو فتح حاصل ہو جائے گی؟

یہ اعتراضات آج کے نہیں بلکہ صدیوں سے اٹھائے جا رہے ہیں اور مختلف علما کرام نے ان کے جوابات بھی دیے ہیں۔

آپ سب ماشاء اللہ دین کے علم میں بہت آگے ہیں لیکن مجھ جیسا جاہل اپنے لیے یہ سمجھتا ہے کہ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے بہانے دینی کتب سے بھی کسی قدر شناسائی ہو جائے گی۔ اور ہمیں اس قدر استعداد تو حاصل کرنی چاہیے کہ اسلام پر کیے گئے اعتراضات کا شافی جواب دے سکیں۔ نا کہ یہ رویہ کہ جو منہ کھولنے کی جرات کرے اس کی سانسیں ضبط کر لو۔
 

سپینوزا

محفلین
محب کہاں گئے آپ؟ آپ کے پول کھلنے کا انتظار کر رہا ہوں۔

لونڈیوں سے متعلق یہ مضمون بھی پڑھیں۔

فاروق سرور خان نے کہا:
سورۃ الاحزاب:33 , آیت:50: اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں۔۔۔۔۔

منطقی اور عقلی نکتہ دیکھئے۔
'ملکت ایمانکم' (یعنی لونڈی )‌کے بارے میں جائز کرنے کے سلسلے میں جو حکم دیا ہے، اس میں‌
1۔ کوئی جنسی تعلق نہیں۔
2۔ اگرلونڈی جائز تو چچا، پھوپھی زاد وغیرہ کیوں‌نہیں جائز۔

یہ بات اس آیت پر تو آتی ہے مگر اگر آپ اس آیت کا مخاطب دیکھیں تو حضرت محمد ہیں۔ باقی دو آیات جو لونڈیوں کا ذکر کرتی ہیں اور ان سے جنسی تعلق کو حلال قرار دیتی ہیں ان میں لونڈیوں اور بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر لونڈیاں بیوی بنے جائز نہ تھیں تو پھر ہر بار ان کا ایسے ذکر کرے کی کیا ضرورت؟
 
منصور صاحب،
آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے درج ذیل دو سوال کی اجازت دیجئے۔

سوال 1: ایک مرد اگر ایک عورت کو بیوی بنانا چاہتا ہے تو اس کو آپ کے خیال میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

سوال 2: قرآن کی فراہم کردہ کم از کم شرائط اس مد (‌ایک مرد ایک مرد اگر ایک عورت کو بیوی بنانا چاہتا ہے) میں کیا ہیں؟

آپ کے جوابات کے بعد میں آپ کے 'دو آیات' والے سوال کے بارے میں وضاحت کروں گا۔

بہت شکریہ۔
 
محب کہاں گئے آپ؟ آپ کے پول کھلنے کا انتظار کر رہا ہوں۔

لونڈیوں سے متعلق یہ مضمون بھی پڑھیں۔



یہ بات اس آیت پر تو آتی ہے مگر اگر آپ اس آیت کا مخاطب دیکھیں تو حضرت محمد ہیں۔ باقی دو آیات جو لونڈیوں کا ذکر کرتی ہیں اور ان سے جنسی تعلق کو حلال قرار دیتی ہیں ان میں لونڈیوں اور بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر لونڈیاں بیوی بنے جائز نہ تھیں تو پھر ہر بار ان کا ایسے ذکر کرے کی کیا ضرورت؟



میں یہیں ہوں منصور کچھ مصروفیات کی وجہ سے میں جلد جواب نہ دے سکا ورنہ اسی دن میں نے کچھ لکھ لیا تھا بہرحال ابھی کچھ اپنے خیالات پیش کر رہا ہوں تاکہ گفتگو آگے بڑھ سکے۔
مذہب کے صحیح نہ ہونے کو ماننے کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ شترمرغ کی طرح سر ہی زمین میں گاڑ لیں کہ مذہب ہے ہی نہیں۔ جو مذاہب ہمیں نظر آتے ہیں ان پر یہ غور تو کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کی تعلیمات کیا۔

مذہب کے صحیح نہ ہونے کے ماننے کا میں نے ہرگز کہیں یہ مطلب نہیں نکالا کہ مذہب کے وجود سے ہی انکار کیا جائے بلکہ میں نے یہ کہا کہ آپ مذہب کو مانتے ہی نہیں تو مذہب پر اس کی بنیاد سے بات کیجیے بجائے جزیات یا فروع پر بات کرنے کے۔ آپ کا پہلا اعتراض خدا کے وجود ، رسالت اور قرآن پر ہونا چاہیے نہ کہ اس کی چند تعلیمات پر جسے آپ نے الگ کرکے سمجھنے کی کوشش کی اور ٹھوکر کھائی اگر آپ بنیاد کو صحیح سمجھ لیں یا صحیح اعتراض کر لیں تو بات وہیں ثابت ہو جاتی ہے جیسے اسلام کا چیلنج ہے کہ قرآن جیسا کلام کوئی لکھ نہیں سکتا اور اس میں کوئی اضافہ یا ترمیم نہیں ہو سکتی اس کو غلط ثابت کر دیں تو اسلام کا سب سے بڑا چیلنج متاثر ہو جائے گا اور ہمیں بھی معلوم پڑے گا کہ آیا اسلام کا چیلنج کس حد تک صحیح ہے۔ امید ہے اس پر ضرور روشنی ڈالیں گے۔

دونوں باتیں اہم ہیں کسی بھی نظریے کے اصول بھی اور ان پر عمل کیسے ہوتا ہے بھی۔ آخر ان نظریوں کا مقصد ایک بہتر انسان یا بہتر معاشرہ وغیرہ قائم کرنا ہوتا ہے۔ لہذا پریکٹیکل بات تو یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ بحیثیت مجموعی اس نظریے کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں۔

منصور میرا خیال ہے میں نے کافی تفصیل سے بات کی تھی اور دو مثالیں بھی دی تھیں مگر ہم پھر وہیں آ گئے جہاں پہلے تھے۔ باتیں دونوں اہم ہیں مگر زیادہ اہم کونسی ہے اس پر کچھ کلام نہیں کیا آپ نے ، اس کے علاوہ اگر نظریے اور اس کے عمل میں فرق ہو تو کس سے رجوع کیا جائے گا نظریے سے یا عمل سے۔ جہاں تک بحیثیت مجموعی اس نظریے کا فائدہ تو وہ عرب کے ایک چھوٹے سے جزیرے سے نکل کر ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرنے والا نظریہ فائدہ سے خالی ہونا امر محال ہے۔


صدقے جاؤں آپ کے! مسلمانوں کا امریکہ میں غلامی ختم کرنے کا ذکر نہیں ہو رہا تھا بلکہ اسلامی دنیا کی ہی بات ہو رہی تھی۔ انڈیا، عرب، سلطنت عثمانیہ ہر جگہ غلام پائے جاتے تھے۔ سعودی عرب میں تو 1962 تک غلامی موجود تھی۔ صرف افریقہ سے مسلمانوں نے 10 سے 20 ملین لوگوں کو غلام بنا کر بیچا۔ اس کے علاوہ یورپ اور وسطی ایشیا سے مسلمانوں نے جولام بنائے وہ الگ تھے۔ اٹلانٹک پر غلاموں کی تجارت میں کچھ تھوڑا سا مسلمانوں کا ہاتھ تھا۔

مسلمانوں کا امریکہ میں غلامی شروع کرنے میں کوئی کردار تھا نہ ختم کرنے میں مگر آپ نے اٹلانٹک پر غلاموں کی تجارت میں کچھ حصہ مسلمان کا ڈال دیا اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔ انڈیا ، عرب ، سلطنت عثمانیہ سعودی عرب میں غلامی کے کچھ اثرات ضرور رہے ہوں گے مگر کتنے اس پر روشنی ڈالیں ، ایک محدود تعداد میں غلام پائے جانا اور ہے اور جس طرح امریکہ اور برطانیہ میں غلاموں کی تجارت ہو رہی تھی وہ بالکل ایک علیحدہ موضوع ہے اس پر آپ کا قلم بالکل خاموش ہے۔ جوش تحریر میں آپ یہ لکھ گئے ہیں کہ افریقہ سے مسلمانوں نے ایک سے دو کروڑ لوگوں کو غلام بنا کر بیچا ، اس قدر بڑی تعداد ، کس صدی اور کس دور کی بات کر رہے ہیں آپ ۔ افریقہ میں اسلام آنے کے چند سال بعد ہی لوگ مسلمان ہونا شروع ہو گئے تھے تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے مسلمانوں کو ہی غلام بنا کر بیچا۔ اتنی بڑی تعداد کو کہاں بیچا گیا اور اس تعداد کا عشر عشیر بھی کہیں ہوتا تو وہ آج ایک کثیر الآباد ملک ہوتا۔
یورپ میں ایک دو ملکوں تک ہی مسلمانوں کی رسائی تھی اور آپ کو علم ہوگا کہ بنو امیہ کا دور بنو عباس کے آنے کے بعد باقی جگہوں سے تو ختم ہو گیا تھا مگر اندلس پر آخر تک رہا تو اندلس سے بنو عباس کے خلفا کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے ایسے میں غلام بنانے کی روایت انتہائی کمزور نظر آتی ہے۔ اس پر تو ایک علیحدہ دھاگہ ہونا چاہیے جہاں ہم تاریخی حوالوں سے یہ دیکھ سکیں کہ کس قوم نے غلامی کو پروان چڑھایا اور کس قوم نے وسیع پیمانے پر اس کی تجارت میں حصہ لیا۔

جہاں تک پول کی بات رہی تو وہ تو میں آپ سے پہلے ہی عرض کر چکا کہ کھول لیجیے دیر کس بات کی ، کیا میری اجازت درکار ہے آپ کو اس کے لیے ۔ پول کا سوال وہ رکھیں جس سے مقصد حل ہو نہ کہ لوگوں کو انتشار کا شکار کریں آپ نے جو سوال رکھنے کا کہا ہے وہ لفظوں سے کھیلنے کے متراف ہے حقائق کو جاننے کا متلاشی نہیں۔
 

زیک

مسافر
محب آپ نے مجھے اس تھریڈ میں آنے پر مجبور کر ہی دیا ورنہ اس موضوع پر میں کئی سال پہلے لکھ چکا تھا۔

خیر بات ہو رہی ہے مسلمانوں میں غلامی کی تو کچھ کتابیں پڑھیں:


اس میں سے پہلی کتاب سے کچھ اعداد و شمار:

1500 سے 1800 عیسوی تک افریقہ سے کل غلام جن کی تجارت کی گئی ان میں سے 40 فیصد کے ذمہ‌دار مسلمان تھے۔ اس عرصہ میں افریقہ میں لوگوں کے غلام بنائے جانے میں ایک وجہ (دوسری بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ) مسلمان ریاستوں کی جنگیں بھی تھیں۔

صحرا کے پار افریقہ میں جو غلاموں کی تجارت تھی وہ سب مسلمان ہی کر رہے تھے۔ 800 سے 1600 عیسوی تک کے زمانے میں ان غلاموں کی کل تعداد 47 لاکھ تھی۔ Red Sea اور مشرقی افریقہ میں غلاموں کی تجارت اس کے علاوہ تھی۔ اسی زمانے میں یہ کل 24 لاکھ غلاموں پر مشتمل تھی۔ 1600 سے 1800 عیسوی کا تخمینہ 22 لاکھ غلاموں کا ہے۔ انیسویں صدی کے مزید 21 لاکھ بھی شامل کر لیں۔ یہ کل 1 کڑور 14 لاکھ ہوئے۔ یہ محض افریقہ سے ہیں باقی ترکوں اور جنوب مشرقی یورپ میں مسلمانوں نے جو غلام بنائے ان کے اعداد و شمار میرے پاس نہیں۔

اس تعداد کا موازنہ اگر آُپ بحرِ اوقیانوس کے پار والی غلاموں کی تجارت سے کرنا چاہیں تو اس کا اندازہ 1 کڑور 13 لاکھ کا ہے مگر وہ تجارت 1450 عیسوی میں شروع ہوئی۔
 
شکریہ اس انفارمیشن کا۔
میں تھوڑا کنفیوز ہو گیا ہوں۔ ہم عربوں (مسلمانوں‌)‌کی تجارت کی بات کررہے ہیں یا قرآن اس غلامی کو ممنوع قرار دیتا یا نہیں‌ دیتا ہے اس کی بات کر رہے ہیں؟

کوئی صاحب وضاحت فرما دیں۔
 
میرا یہ ماننا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو جہاں اور بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہیں اس کو محسوسات کے اظہار کے لئے الفاظ استعمال کرنے کی قوت بھی عطا کی ہے ،مگر دیگر صلاحیتوں اور قوتوں کی طرح جن کا ہم شب و روز بے دریغ استعمال کرتے ہیں یہ حرف ،یہ لفظ ‌یہ بصیرت و فکر بھی ہمارے پاس اپنے رب کی امانت ہیں ان پر وہ ہمارا حساب لینے والا ہے


"کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو"
سورہ ق آیت-18

اس لئے کوشش رہے گی کہ اپنی کم فہمی اور کم علمی کے باوجود الفاظ تحریرکرتے ہوئے یہ خیال ملحوظ خاطر رہے

پہلا اعتراض؛ غلاموں سے سلوک اور لونڈیوں کے ساتھ تعلقات

اسلام غلاموں کی آذادی اور اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت دیتا ہے-اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ

"اور کیا تم سمجھے کہ گھاٹی (مشکل کام ) کیا ہے؟ گردن سے غلامی کی رسی کو کھولنا" (یعنی غلام کو آذاد کرنا)
(البلد-12،13)


"اور والدین سے حسن سلوک کرو ۔ ۔ ۔ان سے جو لوگ تمھارے قبضے میں ہوں "(یعنی غلام و کنیز )

(النساء-36)


حضرت محمد(صلی علیہ وسلم) کو غلاموں پر شفقت اتنی ملحوظ تھی کہ آپ (صلی علیہ وسلم) نے مرض الموت میں سب سے آخری یہ وصیت فرمائی

"غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا"
ہمارے نبی کے یہاں تو یہ مثال بھی ملتی ہے کہ حضرت زینب(رضہ) جنہیں آپ (صلی علیہ وسلم )کی زوجہ مبارک ہونے کا شرف حاصل ہے پہلے حضرت زید جو ایک غلام تھے کے نکاح میں تھیں- -میاں بیوی میں نباہ نہ ہوسکنے پر طلاق ہوگئی - پھر حضرت محمد(صلی علیہ وسلم ) نے حضرت زینب سے نکاح کیا

اسلام میں بتدریج غلامی کا خاتمہ کرنے کی تو کئی مثالیں ملتی ہیں - حضرت حکیم(رضہ) جو فتح مکہ کے دن اسلام لائے نے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد 100 غلام آذاد کئے- حضرت عائشہ(رضہ) نے ایک قسم کے کفارے میں 40 غلام آذاد کئے- حضرت عبدالرحمن بن عوف (رضہ) نے 30 ہزار غلام آذاد کئے- حضرت عبداللہ بن عمر (رضہ) نے ایک ہزار غلام آذاد کئے

نکاح کی تلقین


"اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو دو دو، تین تین، چار چار، سےلیکن اگر تمھیں عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک ہی بیوی کافی ہے"
(النساء-3)

اگر ہم انسانی تاریخ کا بھی جائزہ لیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آسٹر یلیا کہ قدیم باشندوں میں یہ رواج تھا کہ وہ مخالف قبائل سے دوستی کے لئے اپنی عورتوں کو پیش کیا کرتے تھے اور یہ رواج بہت سے قدیم قبائل میں رائج تھا کہ دشمنی کہ خاتمے کے لئے عورتوں کو تحفتا پیش کیا جاتا تھا- حتی کہ جنگوں کے خاتمے کے بعد مال غنیمت جمع کیا جاتا تو اس میں سب سے اہم حصہ لونڈیاں ہوتی جن کو بھی تقسیم کیا جاتا تھا-- اور فتح کے بعد خاص طور پر یہ اطلاع بھیجی جاتی کہ کتنی عورتیں گرفتار کی گیئں ہیں- یہ صرف قدینم تہذیب کا تذکرہ نہیں بلکہ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں نے کیا بلکہ آج بھی برطانوی اور امریکی فوج عراق میں کر رہی ہے -

کیا یہ سب مسلمان ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟





 
اصلاح: نصف آیت نہ لکھا کریں۔ پوری آئت لکھا کریں۔ 4:3 میں یتیم لڑکیوں‌کو حذف کرنے کی کویئ معقول وجہ نہیں۔ دیکھئے۔

[AYAH]4:3[/AYAH] اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو

Ahmed Ali اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوجوعورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے
Ahmed Raza Khan ا ور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو
Shabbir Ahmed اور اگر اندیشہ ہو تم کو کہ نہ انصاف کرسکو تم یتیم (لڑکیوں) کے معاملے میں تو نکاح کر لوتم ان سے جو پسند آئیں تم کو عورتیں دو دو ، تین تین، چار چار۔ پھر اگر خوف ہو تم کو یہ کہ نہ عدل کرسکو گے تو بس ایک یا پھر (لونڈی) جو تمہاری مِلک میں ہو۔ یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ بچ جاؤ تم ناانصافی سے۔
 
غلامی سے چھڑانے والی مزید آیات:

[ayah]2:177[/ayah] نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

[AYAH]9:60[/AYAH] بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

میں اپنے دو سوالوں‌کے جواب کا اب بھی منتظر ہوں‌ تاکہ مزید آیات سے وضاحت کرسکوں۔

والسلام۔
 

تیشہ

محفلین
اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو دو دو، تین تین، چار چار، سےلیکن اگر تمھیں عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک ہی بیوی کافی ہے،


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



مگر عورتیں تو بھلے چڑیلیں بھوتنیاں بھی ہوں انکو اچھی ہی لگیں گیں ۔
mood-emoticons-smileys12.gif
کس کو لگتیں ہے بری ۔ ُ :confused:


:chalo::chalo::chalo::chalo:
 

دوست

محفلین
بوچھی معاملہ اچھے برے کا نہیں۔ بعض‌ اوقات یہ ضروری بھی ہوجاتا ہے۔ جنگ میں‌ جب مرد مارے جاتے ہیں تو عورتوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔ جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں یہی کچھ ہوا تھا۔
اور بھی کئی مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں‌ تو ہندومت کی وجہ سے دوسری شادی کو مکروہات کے درجے میں‌ رکھ دیا گیا ہے۔
 

سپینوزا

محفلین
کیا بات ہے؟ کیا یہ تخیلاتی مذہب ہے؟ اسی روئے زمین پر ایک ملک ہے مملکتِ خداداد پاکستان۔ جس کے خواتین و حضرات ، شانہ بہ شانہ، پچھلے 60 سال سے باہمی مشاورت سے اصول سازی اور قانون سازی کرتے آرہے ہیں۔ اور فخر سے اپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی کہتے ہیں۔ قانوناَ غلامی کو جرم قرار دیتے ہیں اور ایسی کسی بھی بے حیائی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ فرد واحد کی حکومت کو عذاب اور فرد واحد کی قانوں سازی کو فتنہ پروری کہتے ہیں۔
کوئی شبہ ہے آپ کو؟

کیا اسی پاکستان کی بات کر رہے ہیں جہاں حدود آرڈیننس کے ذریعہ خواتین پر کیا کیا ظلم نہیں ہوا؟ کیا اسی ملک کی بات کر رہے ہیں جہاں ایک عورت کا گینگ ریپ ہوتا ہے تو صدر صاحب فرماتے ہیں کہ وہ چپ رہے اور ملک سے باہر نہ جائے کہ اس سے ملک کی مٹی پلید ہوتی ہے؟ زنا بالجبر کے نتیجے میں عورت کو انصاف ملنا تو دور کی بات حکومت سے یہ الزام ملتا ہے کہ یہ سب کچھ مغربی ممالک immigrate کرنے کو کیا جا رہا ہے؟

ایک سلفی عالم کا فتوٰی پہلے دے چکا ہوں۔ اب ایک اہلِ سنت کا بھی پڑھ لیں۔ کہتے ہیں تو ہزاروں احادیث، تفاسیر اور فتوے اکٹھے کر دیتا ہوں اور ہر مسلک سے۔
 

سپینوزا

محفلین
کیا ایک شخص کو زندگی نے یہ وقت دیا کہ وہ اپنی اولاد کے لئے کچھ کرے؟ زندگی کوئی ٹایم سلائس نہیں ہے، زندگی کوئی ؛پوائنٹ‌آف ٹائم' نہیں‌ہے، زیاد تر انسانوں کے لئے زندگی ایک ' پیریڈ آف ٹائم' ہے۔ درست؟

تو اپنی زندگی میں ایک شخص کو چاہئیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے، اولاد کو تعلیم دے، کاروبار کرائے اور پیروں پر کھڑا کرے، ان کی شادی بیاہ کروا کر ایک فیملی یونٹ یا خاندان بنوائے کہ اس کی اولاد کو کسی شے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ ہو زندہ آدمی کی ذمہ داری پھر مرنے سے پہلے، اللہ کی ہدایت دیکھئے۔

زندگی میں اولاد کے لئے کیا کیا جاتا ہے اس سے دلالئل پر کیا فرق پڑتا ہے؟ بات وراثت کی ہے۔

[AYAH]2:180[/AYAH] تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو، تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہے

گویا یہ واضح ہے کہ ایک شخص وصیت کرے گا، سمجھتے بوجھتے ہوئے۔ اور اگر یہ اس کا فیصلہ ہے کہ وہ کوئی وصیت نہیں کرتا تو پھر اس وصیت کی عدم موجودگی میں مندرجہ بالاء فارمولہ استعمال ہوگا۔

واہ فاروق مان گئے آپ کو!! آپ نے جو مطلب نکالا ہے وہ واقعی منفرد ہے۔ یعنی وراثت کا جو قانون قرآن میں لکھا ہے یہ صرف وصیت کی عدم‌موجودگی میں ہے۔ کیا آپ کے علاوہ کسی نے اس کا یہ مطلب اخذ کیا؟ کیا شمشاد، خاور، فاتح یا محب جنہوں نے اس پوسٹ پر آپ کا شکریہ ادا کیا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی آپ کی اس بات سے متفق ہے کہ وصیت اگر اس قرآنی تقسیم کے خلاف بھی ہو تو وصیت پر عمل کیا جائے گا؟

دوبارہ عرض یہ ہے کہ اس دولت کی تقسیم سے کسی بھی مردو عورت کے معاشرہ میں مقام پر فرق نہیں پڑتا۔

کیوں نہیں پڑتا؟ اگر عورت کو ہر طرف سے آدھا حصہ مل رہا ہو تو پھر ظاہر ہے کہ عورتیں مالی حیثیت سے بالعموم مردوں سے کم ہوں گی۔
 

سپینوزا

محفلین
سوال 1: ایک مرد اگر ایک عورت کو بیوی بنانا چاہتا ہے تو اس کو آپ کے خیال میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

نکاح

سوال 2: قرآن کی فراہم کردہ کم از کم شرائط اس مد (‌ایک مرد ایک مرد اگر ایک عورت کو بیوی بنانا چاہتا ہے) میں کیا ہیں؟

یہ آپ ہی بتا دیں کہ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ گواہ وغیرہ کی شرائط قرآن میں ہیں یا نہیں۔

ویسے آیت کچھ یوں ہے:

Quran 70:29-31: And those who preserve their chastity save with their wives and those whom their right hands possess, for thus they are not blameworthy; But whoso seeketh more than that, those are they who are transgressors;​

یہاں دیکھیں کہ جنسی تعلقات کا صاف ذکر ہے اور اجازت دو لوگوں سے ہے کرنے کی: ایک بیویاں اور دوسرے لونڈیاں۔ کچھ ذکر نہیں کہ لونڈی بھی تمہاری بیوی ہی ہو گی۔ اس کا صاف مطلب وہی ہے جو ہر کسی نے لیا یعنی لونڈی سے نکاح کی ضرورت نہیں۔ اسلامی روایات بھری پڑی ہیں ان تمام اکابرین کے ذکر سے جنہوں نے اس آیت کا فائدہ اٹھایا۔ آپ کس کس کو جھٹلائیں گے؟ کیا آپ منکر ہیں کہ حضرت علی ابن ابو طالب کے پاس لونڈیاں تھیں اور ان میں سے ان کی اولاد بھی تھی؟ کسی اور صحابی کی مثال لے لیں اگر آپ چاہیں۔
 

سپینوزا

محفلین
مذہب کے صحیح نہ ہونے کے ماننے کا میں نے ہرگز کہیں یہ مطلب نہیں نکالا کہ مذہب کے وجود سے ہی انکار کیا جائے بلکہ میں نے یہ کہا کہ آپ مذہب کو مانتے ہی نہیں تو مذہب پر اس کی بنیاد سے بات کیجیے بجائے جزیات یا فروع پر بات کرنے کے۔ آپ کا پہلا اعتراض خدا کے وجود ، رسالت اور قرآن پر ہونا چاہیے نہ کہ اس کی چند تعلیمات پر جسے آپ نے الگ کرکے سمجھنے کی کوشش کی اور ٹھوکر کھائی اگر آپ بنیاد کو صحیح سمجھ لیں یا صحیح اعتراض کر لیں تو بات وہیں ثابت ہو جاتی ہے جیسے اسلام کا چیلنج ہے کہ قرآن جیسا کلام کوئی لکھ نہیں سکتا اور اس میں کوئی اضافہ یا ترمیم نہیں ہو سکتی اس کو غلط ثابت کر دیں تو اسلام کا سب سے بڑا چیلنج متاثر ہو جائے گا اور ہمیں بھی معلوم پڑے گا کہ آیا اسلام کا چیلنج کس حد تک صحیح ہے۔ امید ہے اس پر ضرور روشنی ڈالیں گے۔

محب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ سے زیادہ قرآن کے ترجمے، تفاسیر، فقہ کی کتابیں اور اسلامی تاریخ پر پڑھ رکھا ہے۔

اور ضروری تو نہیں کہ میں آپ کے stereotype پر ہی پورا اتروں اور خدا کے وجود پر ہی بحث کروں۔

منصور میرا خیال ہے میں نے کافی تفصیل سے بات کی تھی اور دو مثالیں بھی دی تھیں مگر ہم پھر وہیں آ گئے جہاں پہلے تھے۔ باتیں دونوں اہم ہیں مگر زیادہ اہم کونسی ہے اس پر کچھ کلام نہیں کیا آپ نے ، اس کے علاوہ اگر نظریے اور اس کے عمل میں فرق ہو تو کس سے رجوع کیا جائے گا نظریے سے یا عمل سے۔ جہاں تک بحیثیت مجموعی اس نظریے کا فائدہ تو وہ عرب کے ایک چھوٹے سے جزیرے سے نکل کر ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرنے والا نظریہ فائدہ سے خالی ہونا امر محال ہے۔

مختلف معاملات میں نظریے اور عمل کو فرق اہمیت دی جائے گی۔ مگر غلامی کے معاملے میں عمل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ آج کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلام غلامی کے خلاف ہے مگر اس دور میں غلامی ختم کرنا اس زمانے کے پورے سسٹم کو تباہ کر دیتا اس لئے اسے مکمل ختم نہ کیا گیا بلکہ غلاموں کو آزاد کرنے کا کہا گیا اور اچھے سلوک کا کہ وقت کے ساتھ غلامی ختم ہو جائے گی۔ یہ ایک انتہائی پریکٹکل وجہ ہے تو اس لئے ہمیں مسلمانوں کا عمل ہی دیکھنا پڑے گا کہ practically کیا ایسا ہوا۔ جب ہم عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اسلام کے مرکز حجاز میں اسلام آنے کے 1370 سال بعد بھی غلام پائے جاتے ہیں۔ سو ثابت ہوا کہ یہ practical reason مسلمانوں کا محض apologia ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

جس طرح امریکہ اور برطانیہ میں غلاموں کی تجارت ہو رہی تھی وہ بالکل ایک علیحدہ موضوع ہے اس پر آپ کا قلم بالکل خاموش ہے۔

آپ کو نہیں علم کہ میرا قلم خاموش ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تاریخ والے فورم میں کبھی اس پر لکھوں۔ البتہ اس تھریڈ میں بات اسلام اور مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔

جوش تحریر میں آپ یہ لکھ گئے ہیں کہ افریقہ سے مسلمانوں نے ایک سے دو کروڑ لوگوں کو غلام بنا کر بیچا ، اس قدر بڑی تعداد ، کس صدی اور کس دور کی بات کر رہے ہیں آپ ۔ افریقہ میں اسلام آنے کے چند سال بعد ہی لوگ مسلمان ہونا شروع ہو گئے تھے تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے مسلمانوں کو ہی غلام بنا کر بیچا۔ اتنی بڑی تعداد کو کہاں بیچا گیا اور اس تعداد کا عشر عشیر بھی کہیں ہوتا تو وہ آج ایک کثیر الآباد ملک ہوتا۔
یورپ میں ایک دو ملکوں تک ہی مسلمانوں کی رسائی تھی اور آپ کو علم ہوگا کہ بنو امیہ کا دور بنو عباس کے آنے کے بعد باقی جگہوں سے تو ختم ہو گیا تھا مگر اندلس پر آخر تک رہا تو اندلس سے بنو عباس کے خلفا کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے ایسے میں غلام بنانے کی روایت انتہائی کمزور نظر آتی ہے۔ اس پر تو ایک علیحدہ دھاگہ ہونا چاہیے جہاں ہم تاریخی حوالوں سے یہ دیکھ سکیں کہ کس قوم نے غلامی کو پروان چڑھایا اور کس قوم نے وسیع پیمانے پر اس کی تجارت میں حصہ لیا۔

محب آپ مان لیں کہ غلاموں کی تجارت کے بارے میں آپ کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے کچھ بھی جوشِ تحریر میں نہیں لکھا بلکہ حقیقت بیان کی ہے جس کی تائید زیک نے اعدادوشمار سے کر دی ہے۔ جن کتابوں کا ذکر زیک نے کیا وہ میں پڑھ چکا ہوں۔

جہاں تک پول کی بات رہی تو وہ تو میں آپ سے پہلے ہی عرض کر چکا کہ کھول لیجیے دیر کس بات کی ، کیا میری اجازت درکار ہے آپ کو اس کے لیے ۔ پول کا سوال وہ رکھیں جس سے مقصد حل ہو نہ کہ لوگوں کو انتشار کا شکار کریں آپ نے جو سوال رکھنے کا کہا ہے وہ لفظوں سے کھیلنے کے متراف ہے حقائق کو جاننے کا متلاشی نہیں۔

یہ سوال کیسا رہے گا؟

Assume, there will be an Islamic state in the future which upholds Islamic law and has a proper Islamic leader. Assume further, this state wages a just war against another nation, makes war captives and turns them and their offspring into slaves being sold at slave markets.

Assume, a middle-aged man goes to a slave market and buys a nine year old girl for the purpose of sexual intercourse. The girl does not like to have intercourse with the man and the man knows it. However, the man insists, because he believes that it is his right and the girl gives in, because she believes it is her duty.

Do you believe the behavior of the man is morally acceptable?

Choose one of the following answers:

(A) no (B) yes (C) it depends (D) don’t know / no opinion
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top