فاروق سرور خان
محفلین
منصور کے پہلے نکتے کا منطقی، عقلی اور عملی تجزیہ
منصور حلاج صاحب، سب سے پہلے یہ عرضکے میرا لہجہ ان دونوں پوسٹ میں بہت ہی نرم ہے، آپ ایسے ہی پڑھئے۔ نہ غصہ ہے اور نہ ہی طنز۔ دل سے نکلتی ہے، دل سے محسوس کیجئے۔
اب تک جو آیات آپ کو پیش کی ہیں ان سے آپ کو مدد مل گئی ہوگی۔اور وضاحت ہو گئی ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ میرا خیال ہے۔ آئیے آپ کے دئے گئے ہر نکتہ کا منطقی، عقلی اور عملی تجزیہ کرتے ہیں۔
آپکا پہلا سوال اور اس مد میں پیش کی ہوئی آیت کا تجزیہ:
1۔ قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔
سورۃ الاحزاب:33 , آیت:50: اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں۔۔۔۔۔
منطقی اور عقلی نکتہ دیکھئے۔
'ملکت ایمانکم' (یعنی لونڈی )کے بارے میں جائز کرنے کے سلسلے میں جو حکم دیا ہے، اس میں
1۔ کوئی جنسی تعلق نہیں۔
2۔ اگرلونڈی جائز تو چچا، پھوپھی زاد وغیرہ کیوںنہیں جائز۔
اگر آپ کی بات درست مانی جائے یعنی کہ لونڈی کو جب چاہے استعمال کرلیا تو
1۔ ذرا یہی کام چچازاد، پھوپھی زاد کے ساتھ کرکے اس آیت کو بطور سرٹیفیکیٹ پیش کرکے دیکھیں، کیا ہوتا ہے۔
2۔ اگر لونڈی اسی طرح قابل استعمال ہے تو کون اس کو استعمال کرے گا؟ یہ ایک شخص کے لئے مخصوص ہوگی یا گھر کے تمام افراد کے پینے کے لئے صراحی کا کام دے گی۔ اس کے گھناؤنے پن کا اندازہ کیجئے۔
3۔ اس صورت میں اس لونڈی کی اولاد کس کی اولاد کہلائے گی؟
4۔ اس اولاد کی پرورش کون کرے گا اور اس کو ورثہ کس کا ملے گا۔
ہم دیکھتے ہیں کے کسی بھی جگہ ایسی صورت حال نہ سننے کو ملی نہ دیکھنے کو۔ یہ ہے اس کا عملی پہلو۔ قرآن نکاح کی صرف دو شرائط رکھتا ہے، مہر اور ایجاب و قبول، سنت رسول مزید شرائط رکھتی ہے اور وہ درست ہیں۔ قرآن کی مہر کی شرط، لونڈی کی صورت میں، رقم کی ادائیگی سے پوری ہوگئی۔ لیکن اجازت، ایجاب و قبول اور اس رشتہ کے بارے میں سب کو بتانے کا کام ضروری ہے کہ لونڈی اب کس کی 'لونڈی' ہے۔ یعنی کس کی بیوی ہے۔ جی!
اور قرآن (قرآن سے میرا مطلب ہمیشہ اللہ تعالی اور صاحب قرآن مراد ہوتی ہے) نے واضح کردیا کے تم ایسی کسی عورت کو :
1۔ کریہہ بدکاری پر مجبور نہیں کرسکتے
2۔ وہ جب چاہے پروانہ آزادی طلب کرسکتی ہے۔
گویا ایسی عورت یا مرد کو غلامی سے نجات دی اور غلام کو یہ حق دے کر کہ وہ جب چاہے یہ رشتہ ختم کرسکتا ہے۔ غلامی کو ملازمت میںتبدیل کردیا۔ لیکن ملازمت دینے والے کی ذمہ داری کم نہیں کی۔
اور جناب رہی آپ کی 'میری اکسیپشن' اور 'ایک تخیلاتی مذہب' والی بات تو:
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور؟
کیا بات ہے؟ کیا یہ تخیلاتی مذہب ہے؟ اسی روئے زمین پر ایک ملک ہے مملکتِ خداداد پاکستان۔ جس کے خواتین و حضرات ، شانہ بہ شانہ، پچھلے 60 سال سے باہمی مشاورت سے اصول سازی اور قانون سازی کرتے آرہے ہیں۔ اور فخر سے اپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی کہتے ہیں۔ قانوناَ غلامی کو جرم قرار دیتے ہیں اور ایسی کسی بھی بے حیائی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ فرد واحد کی حکومت کو عذاب اور فرد واحد کی قانوں سازی کو فتنہ پروری کہتے ہیں۔
کوئی شبہ ہے آپ کو؟
منصور حلاج صاحب، سب سے پہلے یہ عرضکے میرا لہجہ ان دونوں پوسٹ میں بہت ہی نرم ہے، آپ ایسے ہی پڑھئے۔ نہ غصہ ہے اور نہ ہی طنز۔ دل سے نکلتی ہے، دل سے محسوس کیجئے۔
اب تک جو آیات آپ کو پیش کی ہیں ان سے آپ کو مدد مل گئی ہوگی۔اور وضاحت ہو گئی ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ میرا خیال ہے۔ آئیے آپ کے دئے گئے ہر نکتہ کا منطقی، عقلی اور عملی تجزیہ کرتے ہیں۔
آپکا پہلا سوال اور اس مد میں پیش کی ہوئی آیت کا تجزیہ:
1۔ قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔
سورۃ الاحزاب:33 , آیت:50: اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں۔۔۔۔۔
منطقی اور عقلی نکتہ دیکھئے۔
'ملکت ایمانکم' (یعنی لونڈی )کے بارے میں جائز کرنے کے سلسلے میں جو حکم دیا ہے، اس میں
1۔ کوئی جنسی تعلق نہیں۔
2۔ اگرلونڈی جائز تو چچا، پھوپھی زاد وغیرہ کیوںنہیں جائز۔
اگر آپ کی بات درست مانی جائے یعنی کہ لونڈی کو جب چاہے استعمال کرلیا تو
1۔ ذرا یہی کام چچازاد، پھوپھی زاد کے ساتھ کرکے اس آیت کو بطور سرٹیفیکیٹ پیش کرکے دیکھیں، کیا ہوتا ہے۔
2۔ اگر لونڈی اسی طرح قابل استعمال ہے تو کون اس کو استعمال کرے گا؟ یہ ایک شخص کے لئے مخصوص ہوگی یا گھر کے تمام افراد کے پینے کے لئے صراحی کا کام دے گی۔ اس کے گھناؤنے پن کا اندازہ کیجئے۔
3۔ اس صورت میں اس لونڈی کی اولاد کس کی اولاد کہلائے گی؟
4۔ اس اولاد کی پرورش کون کرے گا اور اس کو ورثہ کس کا ملے گا۔
ہم دیکھتے ہیں کے کسی بھی جگہ ایسی صورت حال نہ سننے کو ملی نہ دیکھنے کو۔ یہ ہے اس کا عملی پہلو۔ قرآن نکاح کی صرف دو شرائط رکھتا ہے، مہر اور ایجاب و قبول، سنت رسول مزید شرائط رکھتی ہے اور وہ درست ہیں۔ قرآن کی مہر کی شرط، لونڈی کی صورت میں، رقم کی ادائیگی سے پوری ہوگئی۔ لیکن اجازت، ایجاب و قبول اور اس رشتہ کے بارے میں سب کو بتانے کا کام ضروری ہے کہ لونڈی اب کس کی 'لونڈی' ہے۔ یعنی کس کی بیوی ہے۔ جی!
اور قرآن (قرآن سے میرا مطلب ہمیشہ اللہ تعالی اور صاحب قرآن مراد ہوتی ہے) نے واضح کردیا کے تم ایسی کسی عورت کو :
1۔ کریہہ بدکاری پر مجبور نہیں کرسکتے
2۔ وہ جب چاہے پروانہ آزادی طلب کرسکتی ہے۔
گویا ایسی عورت یا مرد کو غلامی سے نجات دی اور غلام کو یہ حق دے کر کہ وہ جب چاہے یہ رشتہ ختم کرسکتا ہے۔ غلامی کو ملازمت میںتبدیل کردیا۔ لیکن ملازمت دینے والے کی ذمہ داری کم نہیں کی۔
اور جناب رہی آپ کی 'میری اکسیپشن' اور 'ایک تخیلاتی مذہب' والی بات تو:
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور؟
کیا بات ہے؟ کیا یہ تخیلاتی مذہب ہے؟ اسی روئے زمین پر ایک ملک ہے مملکتِ خداداد پاکستان۔ جس کے خواتین و حضرات ، شانہ بہ شانہ، پچھلے 60 سال سے باہمی مشاورت سے اصول سازی اور قانون سازی کرتے آرہے ہیں۔ اور فخر سے اپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی کہتے ہیں۔ قانوناَ غلامی کو جرم قرار دیتے ہیں اور ایسی کسی بھی بے حیائی کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ فرد واحد کی حکومت کو عذاب اور فرد واحد کی قانوں سازی کو فتنہ پروری کہتے ہیں۔
کوئی شبہ ہے آپ کو؟