محب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ سے زیادہ قرآن کے ترجمے، تفاسیر، فقہ کی کتابیں اور اسلامی تاریخ پر پڑھ رکھا ہے۔
معلوم ہوتا ہے موصوف نے مذکورہ ذخیرہ علم پر صرف عیب چینی کی نگاہ ڈالی ہے اور ان کتابوں کے بے شمار جواہر کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنا سارا وقت ان چیزوں کی تلاش میں صرف کیا ہے جوان کے نزدیک اسلام پر طعن کرنے کے لیے مفید ہوسکتی ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو قرآن ہدایت کی طلب میں نہیں پڑھتے بلکہ عیوب تلاش کرتے اور اسلام کے خلاف اسلحہ فراہم کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ اسی وجہ سے تو ان کو قرآن میں بجز عیوب کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ کیونکہ انسان ہر جگہ وہی پاتا ہے جس کی اسے طلب ہوتی ہے۔
قرآن کے ترجمے، تفاسیر، فقہ کی کتابیں اور اسلامی تاریخ پڑھ کر بھی جو شخص مقامِ محمدِ عربی سے ناواقف ہو اسے شیخ چلی کی کہانیاں پڑھنے کا مشورہ دیا جاسکتا ہے۔ وضاحت کیلئے
گستاخانِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی دھاگہ ملاحظہ ہو جہاں موصوف نبی محترم سے متعلق اپنی نگارشات بیان کرچکے ہیں۔ بعض نفوس کی ذہنی حالت دیکھ کر ڈارون کی تھیوری یاد آجاتی ہے۔ فرض کیجیے ڈارون کی تھیوری پر ایمان لے بھی آیا جائے تو ان کا کیا کیجیے جن کے ارتقائی سفر میں کوئی خامی رہ گئی ہو؟
اگر پریکٹیکل ہی کی بات ہے تو پھر خدا کی یہ کیسی بےنیازی (یا بےچارگی) کہ اس کے کامل دین کے مرکز ہی میں 1380 سال یہ غلامی ختم نہ کی جا سکی اور جب غلامی ختم ہوئی بھی تو مغرب کے زیرِ اثر؟
لیجیے! چندے آفتاب چندے ماہتاب، چشمِ بد دور منصور حلاج خدا تعالٰی کو بے چارگی کا طعنہ دے رہے ہیں۔ جن کی بے چارگی کا یہ عالم ہوکہ وہ یہ تک نہ ثابت کرسکیں کہ وہ اپنے باپ کی جائز اولاد ہیں وہ اب خدا تعالٰی کو بے چارگی کا الزام دے رہے ہیں۔ کیا اس کے جواب میں میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی تعریف؟
ظاہر ہے اللہ کا کلام منصور حلاج کی ڈکٹیشن کا محتاج نہیں۔ ربِ کائنات قادرِ مطلق ہے، اس کی ذات بے عیب ہے، اس کا کلام محفوظ ہے، اسکا کوئی ثانی نہیں تو یہ کیا کہ منصور صاحب کلامِ خدا پر تنقید فرمارہے ہیں۔ ظاہر ہے اعتراض ہے تو کچھ باعثِ اعتراض بھی ہوگا۔ لیکن دنیا کا دستور ہے کہ بڑی شخصیات کے افکار پر تنقید کرنے کیلئے بھی بڑی شخصیات درکار ہوتی ہیں مثلا اقبال نے مغرب کو رد کیا تو اقبال اس کی اہلیت بھی رکھتے تھے جبکہ کلو پنواڑی اس کام کیلئے ناموزوں تھا۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو کیا منصور صاحب کلامِ خدا پر اعتراض کی اہلیت رکھتے ہیں؟۔۔۔۔ دوسرے الفاظ میں سورج کو شرمندہ کرنے کیلئے سورج جیسی چیز ہی درکار ہوتی ہے، بہت رعایت بھی کرلی جائے تو سورج کو چراغ دکھانے کا معاملہ بھی قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ کیا کہ ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں سورج کا منہ چڑا رہی ہیں۔
مشاہدہ یہی ہے کہ جنہیں ناچنا نہیں آتا انہیں آنگن ٹیڑھا کی شکایت رہتی ہے۔ بی مینڈکیوں کے زکام کا علاج ممکن ہے اگر زکام ہوبھی۔ لیکن کوئی زکام کی اداکاری کرے تو کیا کیا جائے؟ اگر پھٹے ہوئے بانس زعم میں آکر محمد رفیع کو یہ طعنہ دیں کہ تم محمد رفیع ہو، ہم تان سین۔ تو اس میں پھٹے ہوئے بانس کی غلطی مت سمجھیے گا کیونکہ وہ تو ہے ہی پھٹا ہوا بانس۔ اس سے اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔
دھاگے کا عنوان ہے اسلام میں عورت کا مقام جبکہ گفتگو ہورہی ہے صرف اور صرف لونڈی کے مقام کی تو جناب کیا آپکے نزدیک عورت صرف لونڈی ہی کا نام ہے؟ خیر سے بعض حضرات کی تواضع کیلئے لاطینی زبان میں خاص الفاظ ہوتے ہیں۔ جبکہ بعض کی تواضع سے لاطینی زبان بھی قاصر ہے اور ایسوں کے شر سے پناہ مانگتی ہے۔
ہمیں آپکی اسلام سے دلچسپی کا خوب اندازہ ہوچکا ہے۔ آپ ہیں مغرب کی پیداوار۔ آپکی کی اپنی کوئی سوچ نہیں جو ہے وہ بھی مغرب کےلنڈا بازار سے درآمد ہوئی ہے اور وہ شخص سخت غلطی کرتا ہے جو مغربی نقطہ نظر سے اسلامی احکام کی تعبیر کرتا ہے۔ مغرب میں اشیاء کی قدرو قیمت کا جو معیار ہے، اسلام کا معیار اس سے بالکل مختلف ہے۔ اب جو مغربی معیار کا قائل ہے، اس کو تو اسلام کی ہر چیز قابلِ ترمیم نظر آئے گی۔ وہ اسلامی احکام کی تعبیر کرنے بیٹھے گا تو ان کی تحریف کرڈالے گا۔ اور تحریف کے بعد بھی ان کو اپنی زندگی میں کسی طرح نصب نہ کرسکے گا۔ کیونکہ قدم قدم پر قرآن اور سنت کی تصریحات اس کی مزاحمت کریں گی۔ آپ ہیں ترقی کے خواہشمند۔ آپکو درکار ہے تہذیب۔ بھلا ایسے مذہب میں ترقی کہاں! ایسے مذہب کو تہذیب سے کیا واسطہ! کیوں نہ اس مذہب کو ہی چھوڑ دیا جائے جس کے مقاصد کو آپ غلط سمجھتے ہیں؟ اور اگر مقاصد سے اتفاق ہے تو بحث صرف اس میں رہ جاتی ہے کہ ان مقاصد کے لیے جو عملی طریقے تجویز کیے گئے ہیں وہ مناسب ہیں یا نا مناسب۔ اور اس بحث کو باآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ شریف لوگ ہی اختیار کرسکتے ہیں۔ رہے آپ تو آپ کو یہی زیب دیتا ہے کہ دعویٰ ایک چیز پر اعتقاد رکھنے کا کریں اور درحقیقت اعتقاد دوسری چیز پر رکھیں۔ آپ ہیں اسلام سے سرمشار۔ تو اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ اس اسلام ہی سے اپنی برات کا اظہار فرمادیں جس کی وجہ سے آپ شرم کا داغ لیے لیے پھرتے ہیں۔