قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔
[ayah]33:50[/ayah]: اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کے خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلاعوض اپنے کوپیغمبر کو دے دے بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہے یہ خالص آپ کے لیے ہے نہ اور مسلمانوں کے لیے ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانو ں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیا ہے تاکہ آپ پر کوئی دِقت نہ رہے اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ آپ ان میں سے جسے چاہیں چھوڑ دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور ان میں سے جسے آپ چاہیں جنہیں آپ نے علیحدہ کر دیا تھا تو آپ پر کوئی گناہ نہیں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غمزدہ نہ ہو اور ان سب کو جو آپ دیں اس پر راضی ہوں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ جانتا ہے اوراللہ جاننے والا بردبار ہے۔ اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان سےاورعورتیں تبدیل کریں اگر چہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کی مملوکہ ہوں اور اللہ ہر ایک چیز پر نگران ہے۔
اس اجازت کا فائدہ حضرت محمد نے خود بھی اٹھایا اور بیسویں سڈی عیسوی تک مسلمان مرد اس کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ حضرت محمد کی چار لونڈیاں تھیں اور ایک لونڈی ماریہ قبطیہ سے بیٹا بھی ہوا۔
خیال رہے کہ ایک آزاد عورت سے نکاح کے وقت اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے مگر لونڈی کو غلام بناتے وقت یا اس سے جنسی تعلقات کے وقت کوئی اس کی مرضی نہیں پوچھتا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی احادیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح 6 سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ بات تو عام علم میں ہے مثلا یہاں، یہاں اور یہاں اور یہاں۔ مگر صحیح بخاری کی اس حدیث کا کس کو علم ہے:
"عائشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا :
( خواب میں مجھے تو دوبار دکھائي گئي تھی ، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئي دیکھا ، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے جب میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھا کہ تو ہے ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے توپھر اللہ اسے پورا کرے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3682 ) ۔"
یاد رہے کہ حضرت عائشہ اس وقت 6 سال کی تھیں!!
موت کے بعد جائداد میں حصے کے سلسلے میں بھی اسلام عورت کو مرد سے آدھا حصہ دیتا ہے۔
[AYAH]4:11[/AYAH]اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے پھر اگر دو سے زاید لڑکیاں ہوں تو ا ن کے لیے دو تہائی اس مال میں سے ہے جو میت نے چھوڑا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیئے اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے (یہ حصہ اس) وصیت کے بعد ہوگا جو وہ کر گیا تھا اور بعد ادا کرنے قرض کے تم نہیں جانتے تمہارے باپوں اور تمہارے بیٹوں میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والا ہے اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔ جو مال تمہارحی عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو او راگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سےجو چھوڑ جائیں ایک چوتھائي تمہاری ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہوپس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اوراگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائي یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جوہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اورروں کا نقصان نہ ہو یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ جاننے والا تحمل کرنے والا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔
[ayah]33:50[/ayah]: اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کے خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلاعوض اپنے کوپیغمبر کو دے دے بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہے یہ خالص آپ کے لیے ہے نہ اور مسلمانوں کے لیے ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانو ں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیا ہے تاکہ آپ پر کوئی دِقت نہ رہے اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ آپ ان میں سے جسے چاہیں چھوڑ دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور ان میں سے جسے آپ چاہیں جنہیں آپ نے علیحدہ کر دیا تھا تو آپ پر کوئی گناہ نہیں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غمزدہ نہ ہو اور ان سب کو جو آپ دیں اس پر راضی ہوں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ جانتا ہے اوراللہ جاننے والا بردبار ہے۔ اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان سےاورعورتیں تبدیل کریں اگر چہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کی مملوکہ ہوں اور اللہ ہر ایک چیز پر نگران ہے۔
اس اجازت کا فائدہ حضرت محمد نے خود بھی اٹھایا اور بیسویں سڈی عیسوی تک مسلمان مرد اس کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ حضرت محمد کی چار لونڈیاں تھیں اور ایک لونڈی ماریہ قبطیہ سے بیٹا بھی ہوا۔
خیال رہے کہ ایک آزاد عورت سے نکاح کے وقت اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے مگر لونڈی کو غلام بناتے وقت یا اس سے جنسی تعلقات کے وقت کوئی اس کی مرضی نہیں پوچھتا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی احادیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح 6 سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ بات تو عام علم میں ہے مثلا یہاں، یہاں اور یہاں اور یہاں۔ مگر صحیح بخاری کی اس حدیث کا کس کو علم ہے:
"عائشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا :
( خواب میں مجھے تو دوبار دکھائي گئي تھی ، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئي دیکھا ، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے جب میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھا کہ تو ہے ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے توپھر اللہ اسے پورا کرے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3682 ) ۔"
یاد رہے کہ حضرت عائشہ اس وقت 6 سال کی تھیں!!
موت کے بعد جائداد میں حصے کے سلسلے میں بھی اسلام عورت کو مرد سے آدھا حصہ دیتا ہے۔
[AYAH]4:11[/AYAH]اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے پھر اگر دو سے زاید لڑکیاں ہوں تو ا ن کے لیے دو تہائی اس مال میں سے ہے جو میت نے چھوڑا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیئے اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے (یہ حصہ اس) وصیت کے بعد ہوگا جو وہ کر گیا تھا اور بعد ادا کرنے قرض کے تم نہیں جانتے تمہارے باپوں اور تمہارے بیٹوں میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والا ہے اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔ جو مال تمہارحی عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو او راگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سےجو چھوڑ جائیں ایک چوتھائي تمہاری ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہوپس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اوراگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائي یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جوہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اورروں کا نقصان نہ ہو یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ جاننے والا تحمل کرنے والا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔