میں انتظامیہ کی توجہ دلانا چاہوں گی کہ ان رکن نے اپنے علمی سرقے کا خود اعتراف کر لیا ہے ۔
کیا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے جتنا یہ بتا رہے ہیں ؟ آپ تو کسی کے لکھے ایک مضمون کو اپنے نام سے پوسٹ کر کے ٹھسے سے کہہ رہے ہیں کہ ہاں ٹائپنگ سے بچنے کے لیے کیا
آپ سب حضرات یہ جانتے ہیں کہ یہ مضمون درحقیقت ہے ہی ڈاکٹر طاہر القادری سے متعلق، اور کیا ہی اچھا ہوا کہ میں نے انکی برات میں خود انکے اپنے ہی الفاظ پیش کئے۔ اگر میرے اپنے الفاظ ہوتے تو پھر آپ میرے ذاتی موقف ہونے کا رونا کرتیں کہ اس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کی مراد نھیں تھی۔ اگر کوئی کسی کی تائید میں خود اسکے ہی الفاظ پیش کرے تو وہ یقینا کسی غلط نیت سے نھیں کررہا۔ اور الحمداللہ مجھے اس اقرار میں ذرا تامل نھیں کیونکہ میری نیت بالکل صاف ہے۔
آپکے علم اور تسلی کیلئے صحیح بخاری کی سب سے پہلی حدیث میں اللہ تعالی کے دانائے غیوب نبی کا قول پیش خدمت ہے
[ARABIC]إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ[/ARABIC] : یعنی اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔
(میٹر لاکے چیک کرنا پاجی، ضعیف تے نئیں)
آلحمداللہ میری نیت سب کے سامنے ہے۔ اب آپ ذرا یہ بتائیں کہ کون سی حدیث میں کاپی پیسٹ کرنا منع ہے۔ پھر میں یہ کوئی اپنے نام سے کتاب نھیں لکھ رہا۔ اور دوسرا نہ ہی میں نے اپنے نام سے یہ انداراج کیا ہے ہر کوئی واقف ہے کہ یہاں ہر بندہ و بندی فرضی نام استعمال کرتا ہے۔
کیا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے جتنا یہ بتا رہے ہیں ؟ شیخ البانی نے الادب المفرد کو اپنے نام سے تو نہیں چھپوایا ؟
واہ! شیخ صاحب نے جو کارنامہ کیا وہ آپ کو کوئی جرم ہی نہیں لگتا۔ مجھے اک واقعہ یاد آگیا اک دفعہ کچھ بدماشوں نے قتل کردیا، پولیس گرفتار کرنے گھر پہنچی تو بدماشوں کی اماں جان فرمانے لگیں کہ "قتل ہی تو کیا ہے کوئی جرم تھوڑا کیا ہے"، پھر ہوا یہ کہ پہلے اماں ہی کی چھترول ہوگئی پولیس کے ہاتھوں"۔
شیخ صاحب کے اس کارنامے کا شور اس وقت پوری عرب دنیا سمیت میں ہر جگہ ہے اور ہر جگہ علماءاکرام اس سانحہ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہے ہیں۔
کیا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے جتنا یہ بتا رہے ہیں ؟ شیخ البانی نے الادب المفرد کو اپنے نام سے تو نہیں چھپوایا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شیخ البانی جنہوں نے باقاعدہ الا دب المفرد کی احادیث کی مکمل تخریج کی ، متابعات وشواھد تلاش کر کے ان میں سے صحیح احادیث اور ضعیف کا فرق بتا دیا ، پھر امام بخاری کے نام کے ساتھ ہی اپنی تحقیق سمیت اس کو پبلش کروایا ، ان کی آپ کردار کشی کیے چلے جا رہے ہیں ؟
اگر اس اعتراض کو تسلیم کر لیا جائے تو امام مزی کی کتاب تھذیب الکمال کی تھذیب کرنے پر حافظ ابن حجر العسقلانی پر بھی سنگ باری کیجیے کہ تھذیب الکمال پر ہی انہوں نے تھذیب التھذیب لکھی ۔ پھر اس پر تقریب التھذیب لکھی ۔انہوں نے یہیں پر بس نہیں کیا ، امام ذھبی کی میزان الاعتدال پر لسان المیزان لکھی
کاش شیخ صاحب نے تخریج ہی کی ہوتی! لیکن موصوف تخریج کی آڑ میں کیا کیا ہاتھ نہیں کرگئے
کیا یہ تخریج کہلاتی ہے کہ "الادب المفرد" سے موصوف نے کم وبیش 340 احادیث نکال باہر کیں
حافظ ابن حجر العسقلانی نے تھذیب الکمال پر تھذیب التھذیب لکھی، لیکن اپنی ہی کوئی تھذیب الکمال نھیں لکھی
البانی میاں کو اگر کتاب لکھنے کا شوق تھا تو ضرور لکھتے لیکن اپنے نام سے لکھتے تاکہ واضع ہوتا کہ یہ موصوف کی کتاب ہے۔ نہ کہ امام بخاری کا کاندھا اپنے مسلکی مقصد کیواستے استعمال کرتے
کوئی امام بخاری کی کتاب کو پبلش کرواتا ہے تو اس پر لازمی ہے کہ وہ اس میں کوئی کھانٹ چھانٹ نہ کرے۔ یہ اس اسکے ایمان کا تقاضا ہے۔
اور اگر کوئی کھانٹ چھانٹ کرنی ہے تو اسے پھر امام بخاری کے بجائے اپنے نام سے پبلش کرے۔ تاکہ قاری کو واضع ہو کہ یہ اب امام بخاری کی کتاب نھیں بلکہ البانی میان کی کتاب ہے۔ یہ ہے حق طریق۔
لیکن آج عالم اور شیخ بننے کا مقصد دینی خدمت کم اور اپنے مسلک کی ترویج رہ گیا ہے اور اس کیلئے امام بخاری تک کا لحاظ نھیں۔ اب تو جس حدیث سے مسلک پر ضرب پڑتی ہو اسے ضعیف کہکر معاذ اللہ رد۔ حتی کہ اگر بخاری و مسلم میں بھی ہو اور ضعیف کہنے کا حربہ نہ چل سکے تو خلاف قرآن کہکر رد۔ یہ آسان طریقہ ہے اپنے باطل کو چھپانے کا۔ یہی منکران حدیث کے ظہور کی علامت ہے جنکا باالاخر احادیث نبوی سے مکمل انکار ہو گا اور دلیل یہی ہوگی یعنی خلاف قرآن۔
پوری اسلامی تاریخ میں علماء و محدثین نے ضعیف احادیث کو نہ صرف فضائل اعمال کے باب میں قبول کیا بلکہ کئی جگہ تو کئی حضرات نے ان سے استدلال کرتے ہوئے احکامات بھی جاری کئے۔ گزشتہ پوسٹ میں تمام جمیع محدثین کے اقوال کا جواب کس کو دینے کی ہمت نہ ہوئی تو ادھر ادھر کی ہانکنے پر توقف کیا۔
کوئی البانی صاحب کے پیرو کار بتائیں گے کہ موضوع یا مردود کیا ہوتی ہے؟ یہ وہ حقیقت ہے جس سے یہ طبقہ فرار ہوتا ہے
کتنا ظلم ہے کہ گھڑی ہوئی روایات کیلئے موضوع یا مردود کی اصطلاح ہمیشہ تمام محدثین میں مروج رہی، اور محدثین کی اکثریت ان کے ساتھ حدیث لکھنے کی روا بھی نھیں کیونکہ وہ ثبوت کیساتھ اس یقین کو پہنچیں کہ انکو گھڑھا گیا۔
لیکن آج چودہ سو سال بعد ایک طبقہ جو کہ اس کی آڑ میں ضعیف احادیث رد کرنے کے چکر میں ہے۔
اور پھر اگلے فیز میں خلاف قرآن کی آڑ میں حسن و صحیح احادیث کا رد کرنے کے چکر میں ہے
آج بھی ان حضرات کو اگر بخاری و مسلم سے کوئی حدیث نبوی دکھائی جائے جس سے ان کے من گھڑت عقائد پر ضرب لگے تو یہ اسکو لمحہ بھر میں خلاف قرآن کہکر رد کردیتے ہیں۔ کیا یہی ہیں منکران حدیث جنکی بابت دانائے غیوب پیمبر نے چودہ سو سال قبل خبردار کیا؟؟
کیا اھلحدیث کا لبادہ اوڑ لینے کا مقصد یہی ہے جو مطلب کی حدیث ہو قبول کرلیں اور جس پر چاہیں خط تنسیخ پھیر دیں
یعنی اوپر اوپر حدیث حدیث کا شور بپا کیا جائے اور پیچھے پیچھے امام بخاری تک کو رد کرنے کا دھندا جاری رہے۔ اور ٹیگ لگایا اہلحدیث کا
اگر ضعیف احادیث صرف رد تھیں تو امام بخاری خود اپنی کتب میں اس کا اندراج فالتو میں کرتے ہے؟؟؟۔ اور اگر امام بخاری نے انداراج کیا تو البانی کو انھیں نکالنے اور رد تک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تمام مسلمان اسپر غور کریں
یعنی یہ ٹولہ اب امام بخاری کی کتب کو بھی پاک کرنے کا کارنامہ انجام دے رہا ہے
کیا اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کا طریقہ یہی رہ گیا ہے کہ امام بخاری کی کتب تک کی کھانٹ چھانٹ کردو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عقیدے میں ضرور بہ ضرور کوئی جھول ہے جسکو چپھانے کیلئے اتنے پاپڑ پیلے جارہے ہیں
امام بخاری تو ضعیف احادیث کو اپنی کتب میں درج کریں اور البانی اینڈ کمپنی ان کو سننے تک کی بھی روا نھیں
یہ تو خوئی، امام بخاری سے بھی بڑی چیز ہے
اگر کوئی واقعتا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کا اتنا شوقین ہے تو اسے چاہئیے کہ ضعیف احادیث سے پہلے اس صحیح حدیث پر عمل کرے اور فوت شدہ مسلمانوں کی غلطی کا اتنا ذکر کرے جتنا ضروری ہو ۔ بلافائدہ کی بد کلامی سے کسی اور کا تو نقصان نہیں ہو گا ، اپنا نامہ اعمال ہی سیاہ ہو گا ۔
کیا البانی صاحب کے اس کارنامے کا ذکر
ضروری نھیں؟؟
کیا مسلمانوں کو اس سے مطلع کرنا
ضروری نھیں تاکہ وہ اس فتنے سے خود کو بچائیں؟؟
اچھا تو اسکو چھپانا چاہیے تاکہ ۱۰۰-۵۰ سال بعد آنے والے اس سے بے خبر رہیں اور انھیں یہ بتایا جائے کہ امام بخاری نے اپنی کتب میں ضعیف احادیث کو درج کرنے کے روا تک نہ تھے اور بے چاروں کو پتا نہ چلے کہ یہ تو کوئی ۱۰۰- ۵۰ سال پہلے ہاتھ دکھا گیا ہے امام بخاری کیساتھ
آخر میں ایک حدیث شریف تمام حضرات کی خدمت میں
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما روایت ہے كہ: ايك جنازہ كے پاس سے گزرے تو اس كى اچھائى بيان كى گئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " واجب ہو گئى"
پھر ايك اورجنازہ كے پاس سے گزرے تو لوگوں نے اس كے بارہ باتيں اچھيں نہ كيں بلكہ برى كيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" واجب ہو گئى"
تو عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:
یارسول اللہ، كيا چيز واجب ہو گئى ؟
تو دانائے غیوب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: "تم لوگوں نے اس كى اچھائى بيان كى اورتعريف كى تو اس كے ليے جنت واجب ہو گئى، اور اس كے بارہ تم لوگوں نے برائى بيان كى تواس كے ليے آگ واجب ہو گئى، تم زمين ميں اللہ تعالى كے گواہ ہو" - بخارى و مسلم
(پائی جان، میٹر تے لے کے آو
)