ماشاء اللہ سبحان اللہ حجرت کی قرآن دانی کے تو ہم پہلے سے ہی قائل تھے آج جناب کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل نے بھی دل موہ لیا ۔ ۔ ۔ واہ واہ واہ واہ یعنی کے سبحان اللہ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔
باتیں بہت سی کی جاسکتی ہیں مگر سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے جو لوگ نااہل ہوکر اہل قران بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جب وہ لوگوں کو قرآن کی دعوت دیں گے تو سچ فرمایا تھا میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قرآن خود ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ۔ ۔ والسلام
سلام آبی ٹو کول،
میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے اتنی محنت کی کہ شکوک و ابہام پیدا ہو سکیں تاکہ ان شکوک و ابہام کو دور کیا جاسکے۔
نااہل لوگوں کے حلق سے قرآن نہیں اترتا:
سرخ شدہ حصہ آپ نے درست فرمایا کہ نا اہل لوگوں کے حلق سے قرآن نہیں اترتا۔ : اس کی مثال دیکھئے نااہل لوگوں کی اللہ تعالی پر بہتان باندھنے کی یعنی قرآن حلق سے نا اترنے کی:
24:2 [ARABIC] انِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ[/ARABIC]
Tahir ul Qadri بدکار عورت اور بدکار مرد
(اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو
(شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو
ذرا اس آیت کو دیکھئے اور بتائیے کہ سرخ شدہ حصے اس آیت کی عربی زبان میںکہاں ہیں؟ نااہلی، بے ایمانی، دھوکہ بازی، جھوٹ، افترا پردازی اور اللہ تعالی پر جھوٹباندھ کر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی ایسی اعلی مثال کہاں ملے گی؟ صرف نا اہل لوگوں کے پاس سے، جن کے حلق سے قرآن نہیں اترتا، اسی لئے وہ اسرائیلی روایات کو قرآن کا حصہ بناتے ہیں۔
اب واپس اس موضوع کی طرف۔ غور سے دیکھئے کہ اللہ تعالی کیا فرما رہے ہیں۔
آیات اللہ تعالی کا فرمان ہیں۔ میری عقلی توجیہہ نہیں۔
1۔ اللہ ہی کے آگے سجدہ کر رہے ہیں سب جو ہیں زمین و آسمانوں میں:
13:15 [ARABIC]وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ[/ARABIC]
شبیر احمد: اور اللہ ہی کے آگے سجدہ کر رہے ہیں سب جو ہیں آسمانوں میں اور زمین میں خوشی سے یا زبردستی اور ان کے سایے بھی (سجدہ کرتے) ہیں صبح و شام۔
محمود الحسن: اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی ہے آسمان اور زمین میں خوشی سے اور زور سے اور انکی پرچھائیاں صبح اور شام
طاہر القادری: اور جو کوئی (بھی) آسمانوں اور زمین میں ہے وہ تو اﷲ ہی کے لئے سجدہ کرتا ہے (بعض) خوشی سے اور (بعض) مجبوراً اور ان کے سائے (بھی) صبح و شام
(اسی کو سجدہ کرتے ہیں، تو پھر ان کافروں نے اﷲ کو چھوڑ کر بتوں کی سجدہ ریزی کیوں شروع کر لی ہے؟)
طاہر القادری نے اس آیت کا ترجمہ غیر مناسب کیا ہے ، جس سے ان کے عقائید کا اظہار ہوتا ہے۔ نااہلی کی ایک اور مثال، رنگ شدہ حصہ آیت میں موجود ہی نہیں، قرآن سچ مچ حلق سے نہیں اترتا۔
نتیجہ:
یہاں اللہ تعالی فرما رہے ہیں ---
اللہ ہی کے آگے سجدہ کر رہے ہیں سب جو ہیں آسمانوں میں اور زمین میں ---
اور وہ یہودی کہہ رہا ہے کہ ---
درخت و چرند و پرند رسول اللہ کو سجدہ کررہے ہیں ------
میں اللہ تعالی کو سچا مانتا ہوں۔ آپ کس کو سچ مانتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
انسان کو حکم کہ سجدہ کس کو کیا جائے، میری عقلی توجہیہہ یا اللہ تعالی کی واضح ہدایت:
41:37 [ARABIC]وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ[/ARABIC]
اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو،
اور سجدہ صرف اﷲ کے لئے کیا کرو جس نے اِن (سب) کو پیدا فرمایا ہے اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو
نتیجہ:
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : جس کی عبادت کرتے ہو، اسی کو سجدہ کرو۔ اگر تم اللہ کی عبادت کرتے ہو تو صرف اللہ کو سجدہ کیا کرو۔ گویا سجدہ عبادت کی علامت ٹھیرا۔
عقلی توجیہہ: جس کی عبادت کرتے ہو اس کو سجدہ کیا کرو۔ اگر تم طاہر القادری یا کسی اور انسان کی عبادت کرتے ہو تو اس کو سجدہ کیا کرو۔
تعظیمی سجدہ ؟؟؟؟؟
مندرجہ بالاء آیت ( سورۃ الرعد، آیت نمبر 37 )کے نزول کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کے اللہ کے علاوہ کسی کو بھی سجدہ کیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود بھی کچھ لوگ اپنی عبادت کروانے کے کریہہ عمل میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے لئے طرح طرح کی تاویلیں لاتے ہیں۔
درج ذیل آیات حضرت یوسف کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو یقینی طور پر اس آیت کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔
آئیے ان آیات کو بھی دیکھتے ہیں کہ کیا ان سے مسلمانوں کو کسی شخص کو سجدہ کرنے کی ہدایت مل رہی ہے؟
12:4 [ARABIC]إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ [/ARABIC]
(یہ اس وقت کا ذکر ہے) جب کہا یوسف نے اپنے باپ سے ابا جان! یہ واقعہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے (خواب میں) کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہے، دیکھتا ہوں میں انہیں کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
کیا انسان انسانوں کو سجدہ کررہے ہیں؟ کیا انسانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ انسانوں کو سجدہ کریں؟ مجھے تو یہ حکم نظر نہیں آتا، آپ کو کیسے نظر آتا ہے؟
12:100 [ARABIC]وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ هَ۔ذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ[/ARABIC]
اور احترام سے بٹھایا اپنے والدین کو تخت پر اور گر پڑے سب یُوسف کے آگے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا اور اس کا احسان ہے مجھ پر کہ نکالا اُس نے مجھے قید خانہ سے اور لے آیا آپ سب کو دیہات سے اس کے بعد کہ فساد ڈال دیا تھا شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان۔ بے شک میرا رب غیر محسوس تدبیریں کرتا ہے اپنی مشیّت (پُوری) کرنے کے لیے، بے شک وہ ہے ہر بات جاننے والا اور بڑی حکمت والا۔
نتیجہ:
جو خواب یوسف علیہ السلام نے دیکھا، اس کی تعبیر یہ نکلی کہ کچھ لوگوں نے ان کو سجدہ کیا۔ اس دور میں سجدہ تعظیمی ادا کرنے کا رواج تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے نزول کے بعد بھی ایک انسان کو کسی دوسرے کو سجدہ کا حکم دیا گیا ہے یا پھر صرف اللہ تعالی سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟
میرا جواب ہے کہ صرف اللہ تعالی کو سجدے کا حکم دیا گیا ہے کہ
سجدہ خواہ کسی بھی قسم کا ہو، صرف اس کو کیاجائے جس کی آپ عبادت کرتے ہیں۔ کسی قسم کے سجدہ تعظیمی کا رواج مسلمانوں میں نہیں ہے۔
آپ اللہ تعالی کے اس بیان کو میری عقلی توجیہہ کہتے ہیں۔ یہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اتنی صاف اور آسان بات کو کنفیوژ اور مشکوک کرتے ہیں۔
کیا طاہر القادری صاحب کو سجدہ کرنا جائز ہے، کیا وہ یوسف علیہ السلام کی طرح کوئی نبی ہیں، کیا اللہ تعالی نے کوئی نشانی مقرر کردی ہے کہ ان صاحب کو جن کی نااہلی کی مثالیں یہاںدرج ہیں ، سجدہ جائز قرار دیا گیا ہے؟ نعوذ باللہ۔
والسلام