اسٹیبلشمنٹ جعلی حکومت کی حمایت چھوڑ دے آنکھوں پر بٹھائیں گے،فضل الرحمان

سیما علی

لائبریرین
فسق، فجور اور ارتکابِ کبائر کا موازنہ کیا جائے تو وزیراعظم تمام اپوزیشن پہ بھاری ہے۔
یہ فاسق و فاجر کا ہی مقابلہ ہے ۔ان میں کوئی ہے ایسا
فضل ڈیزل اگر یزید کے دور میں ہوتا تو یزید اس کا چیلا ہوتا۔۔۔
متفق صد فی صد
 

dxbgraphics

محفلین
فروری 2018 میں سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے پر ایک قائمہ کمیٹی بنی۔
جس میں درج ذیل پارٹیوں نے گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کی حمایت کی ۔
پی ٹی آئی ۔ سینیٹر ثمینہ سعید
ن لیگ ۔ سینیٹرنثار محمد، سینیٹرآصف کرمانی
پی پی ۔ سینیٹرفرحت اللہ بابر ، سینیٹرسحر کامران، سینیٹراعتزاز احسن
بی این پی مینگل پارٹی
آزاد رکن سینیٹرمحسن لغاری
ایم کیو ایم ۔ سینیٹر نسرین جلیل

جس پارٹی نے یک تنہا اس کے خلاف مزاحمت کی اور سڑکوں پر فیصلے کا اعلان کیا۔ اور واحد یہ کمیٹی تھی جس میں صرف ایک آدمی کے اختلاف پر یہ بل منظور ہونے کی بجائے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دیا گیا اور باہر کی دنیا کو پھر بتایا گیا کہ مولوی اس میں آڑے ہے ورنہ بل تو منظور ہوگیا ہوتا۔
جے یو آئی۔ سینیٹر مفتی عبدالستار۔

چند لوگ علماء کے کردار پر کتنا بھی اعتراض کر لیں ان کا اسمبلی ، سینٹ میں کردار ہے۔ بقول اوریا مقبول جان کہ اس وقت جے یو آئی اسمبلی میں اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی صحیح طور پر کر رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

dxbgraphics

محفلین
خیبر پختون خوا اسمبلی میں پی ٹی آئی نے ایک بل جس کا نام society registration & amendment bill پیش کیا جس میں مدرسے میں پڑھنے والی بچیوں کی تصویر، موبائل، پتہ و دیگر کوائف مقامی تھانے میں جمع کرانے پڑیں گے۔ اب یہ بل بھی مفتی فضل غفور نے اپوز کیا۔
پھر اسی اسمبلی سے ایک اور بل پیش ہوا security of vulnerable sensitive & establishment bill جس کی رو سے کسی بھی مسجد امام بارگاہ یا تبلیغی مرکز میں پارکنگ بیسمنٹ نہیں بنا سکتے۔ نیز ہر مذہبی اجتماع سے پہلے مقامی تھانے سے این او سی لینا لازم ہوگی۔ اور یہ بل بھی مفتی فضل غفور نے اپوز کروایا۔

شراب پر پابندی کا بل آپ سے کے سامنے ہے۔ کہ صرف 13 اراکین اسمبلی جن کا تعلق ایم ایم اے سے تھا سوائے ان کے کسی نے بھی پابندی کی حمایت نہیں کی۔

اب میں اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی کی بنیاد پر دیکھوں تو علماء کا اس وقت جو کردار ہے مثبت ہے۔ جب کہ دیگر پارٹیوں کا کردار بھی سب کے سامنے ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
اس وقت بھی مولانا کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے ڈومین میں رہے اور آئین و قانون پر عمل درآمد ہو اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہو۔ کب تک سیاست میں مداخلت کر کے آرٹیکل 244 کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی۔ اس کا نقصان پاکستان کو ہے نہ کہ کسی اور کو۔
 

بابا-جی

محفلین
NScCgqX_d.jpg
خیر مُبارک
 

جاسم محمد

محفلین
فروری 2018 میں سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے پر ایک قائمہ کمیٹی بنی۔
جس میں درج ذیل پارٹیوں نے گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کی حمایت کی ۔
پی ٹی آئی ۔ سینیٹر ثمینہ سعید
ن لیگ ۔ سینیٹرنثار محمد، سینیٹرآصف کرمانی
پی پی ۔ سینیٹرفرحت اللہ بابر ، سینیٹرسحر کامران، سینیٹراعتزاز احسن
بی این پی مینگل پارٹی
آزاد رکن سینیٹرمحسن لغاری
ایم کیو ایم ۔ سینیٹر نسرین جلیل

جس پارٹی نے یک تنہا اس کے خلاف مزاحمت کی اور سڑکوں پر فیصلے کا اعلان کیا۔ اور واحد یہ کمیٹی تھی جس میں صرف ایک آدمی کے اختلاف پر یہ بل منظور ہونے کی بجائے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دیا گیا اور باہر کی دنیا کو پھر بتایا گیا کہ مولوی اس میں آڑے ہے ورنہ بل تو منظور ہوگیا ہوتا۔
جے یو آئی۔ سینیٹر مفتی عبدالستار۔
آپ پہلے فیصلہ کر لیں کہ آپ کو جمہوریت چاہئے یا آمریت؟ اگر جمہوریت چاہئے تو ایوان میں موجود اکثر جماعتوں کا فیصلہ ماننا پڑے گا۔ اور اگر آمریت چاہئے تو ایک مولوی کی مزاحمت پر اکثریت کا ہر فیصلہ کالعدم قرار دے دیں۔ اس طرح آپ جمہوریت اور آمریت کا نظام ایک ساتھ نہیں چلا سکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت بھی مولانا کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے ڈومین میں رہے اور آئین و قانون پر عمل درآمد ہو اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہو۔ کب تک سیاست میں مداخلت کر کے آرٹیکل 244 کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی۔ اس کا نقصان پاکستان کو ہے نہ کہ کسی اور کو۔
اگر مولانا پارلیمان کی بالا دستی چاہتے ہیں تو ہر قانون کو علما کونسل سے تسلیم کروانے کا زور کیوں دیتے ہیں؟ کونسی جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے کہ پارلیمانی اکثریت سے منظور شدہ قانون علما کی ایک اقلیتی کونسل سے مسترد ہو جائے؟
 

بابا-جی

محفلین
محاورہ ہی غَلط ہے، آنکھوں پر کون بِٹھاتا ہے۔ ویسے جمہُوریت یہاں ہے، اور نَہ ہی چل سکتی ہے۔ ڈِیپ سٹیٹ کی حیثیت پر عوام تک مُتفق ہو چکے تھے، آگے شاید کُچھ بدل جائے۔ ووٹ کو عِزت دو کا نعرہ لگانے والے اپنے دَور میں مُخالفین کو کُچلتے رہے۔ اور، جو اَب ہمارے سَروں پر مُسلط ہیں، وُہ کپتان اور ایک آدھ کو چھوڑ کر نکمے، نکھٹو، کام چور اور نا اہل ہیں۔ کپتان اُن کا امام ہے، اور کیا کہُوں؟ عوام کی حالت دیکھ کر جِی کُڑھتا ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
آپ پہلے فیصلہ کر لیں کہ آپ کو جمہوریت چاہئے یا آمریت؟ اگر جمہوریت چاہئے تو ایوان میں موجود اکثر جماعتوں کا فیصلہ ماننا پڑے گا۔ اور اگر آمریت چاہئے تو ایک مولوی کی مزاحمت پر اکثریت کا ہر فیصلہ کالعدم قرار دے دیں۔ اس طرح آپ جمہوریت اور آمریت کا نظام ایک ساتھ نہیں چلا سکتے۔
باقی باتیں تو رہنے ہی دو۔ عوام کا حال دیکھو اور خُود انصاف سے بتاؤ کہ کیا مُلک درست ٹریک پر ہے؟ اعداد و شُمار سے مُجھے مُتاثر نہ کرنا ناوریجین شہزادے۔ اِنصاف کے نظام کے قیام اور آئین و قانُون کی بالا دستی کے نعرے پر تحریکِ انصاف نے پڑھے لِکھے افراد کے ذہن و دِل میں جگہ بنائی تھی۔ دو سال میں جو کُچھ ہوا، اُس کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ تو بتا دو کہ گزشتہ دَو برس میں موجودہ حکُومت نے اِس حوالے سے کیسی کارکردگی دکھائی ہے؟ مُجھے جہانگیر ترین اور عاصِم باجوہ کے کیس میں اِنصاف کی رمق بھی دکھائی نہیں دی۔ اگر کپتان اِن دونوں کو عبرت کا نشانہ بناتا اور فوج ایسا کرنے دیتی تو عوام بھوکوں مر جاتی، خان کے خلاف نہ نکلتی مگر حال تو دیکھو ذرا۔ انصاف ہے اور نہ ہی مُلک چلانے کی اہلیت۔ بس، ہوا جدھر اُڑائے لے جا رہی ہے، اُڑے جا رہے ہیں خس و خاشاک کی مانند۔ غالب نے کیا کہا تھا،
مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
وہ میرا کنٹینر والا کپتان اور خانِ اعظم کہاں گُم ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
عوام کا حال دیکھو اور خُود انصاف سے بتاؤ کہ کیا مُلک درست ٹریک پر ہے؟
ایک ن لیگی ٹریک ہے جس میں مہنگائی مصنوعی سستے ڈالر اور سرکاری خزانہ سے سبسڈیاں دے کر عارضی طور پر کنٹرول کر لی جاتی ہے۔ مگر جس کا نتیجہ کچھ سال بعد ریکارڈ قرضہ، خسارہ اور ملک کا دیوالیہ ہے۔



جبکہ دوسرا ٹریک تحریک انصاف کا ہے جس میں مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے ڈالر مصنوعی رکھا نہیں جاتا۔ جس کی بدولت ملکی معیشت اپنے آپ مستحکم ہونے لگتی ہے اور یوں ملک دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف اور دیگر اقوام کا محتاج نہیں رہتا۔


 

جاسم محمد

محفلین
اعداد و شُمار سے مُجھے مُتاثر نہ کرنا
آپ ایک وقت میں ایک ہی چیز بچا سکتا ہیں۔ ن لیگ حکومت نے ڈالر مصنوعی سستا رکھ کر بے لگام امپورٹس کی راہ ہموار کی۔ جس سے معیشت کا پہیا چل پڑا۔ بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی آئی اور عوام کو کچھ سال عارضی ریلیف ملا۔ مگر اس غلط پالیسی کا خمیازہ ۵ سال بعد ملک نے ریکارڈ خساروں، قرضوں اور روپے کی شدید بے قدری کی شکل میں بھگتا۔
کیا یہ لازمی ہے کہ عوام کو عارضی ریلیف دینے کیلئے قومی خزانہ کی بینڈ بجا دی جائے اور اس مصنوعی معاشی ترقی کو حقیقی ترقی سمجھ کر آنے والی حکومت کو گالیاں نکالی جائیں؟ جو پتا نہیں کہاں کہاں سے بھیک مانگ کر پچھلی حکومتوں کا چڑھایا ہوا ریکارڈ خسارہ اور قرضہ پورا کر رہی ہے۔ مگر عوام کو اس سے کیا غرض؟ اس کو تو بس ہر چیز سستی چاہئے بیشک ملک کا دیوالیہ نکل جائے اور قومی کرنسی کی بے قدری کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ اسے تو ہر حال میں مصنوعی و عارضی ریلیف پر واہ واہ اور حقیقی معاشی مشکلات میں تھو تھو کرنا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مُجھے جہانگیر ترین اور عاصِم باجوہ کے کیس میں اِنصاف کی رمق بھی دکھائی نہیں دی۔ اگر کپتان اِن دونوں کو عبرت کا نشانہ بناتا اور فوج ایسا کرنے دیتی تو عوام بھوکوں مر جاتی، خان کے خلاف نہ نکلتی مگر حال تو دیکھو ذرا۔
عمران خان وزیر اعظم ہے۔ نیب یا عدلیہ نہیں ہے جو کرپٹ ملزمان کا ٹرائل کر سکے۔ جہانگیر ترین کا نام شوگر سکینڈل انکوائری رپورٹ میں آیا۔ اس کے خلاف ایف آئی اے چارج شیٹ تیار کر کے نیب کو بھجوا چکی ہے۔ اب نیب کا کام ہے کہ اس پر ایکشن لے۔
عاصم باجوہ کے خلاف چارج شیٹ جن صحافیوں نے نکالی ہے، نیب اور عدالتیں ان کا تا حال انتظار کر رہی ہیں۔ انکوائری اور جرم ثابت کئے بغیر تو نواز شریف جیسے انقلابی و جمہوریت پسند بھگوڑے نے بھی استعفی نہیں دیا تھا۔ جبکہ ادھر توقع کی جا رہی ہے کہ خان اعظم محض الزامات کی اسٹیج پر جہانگیر ترین اور عاصم باجوہ کو الٹا لٹکا دے۔ کون لوگ ہو تسی ؟
 

جاسم محمد

محفلین
انصاف ہے اور نہ ہی مُلک چلانے کی اہلیت۔
انصاف دینا عدالتوں کا کام ہے یا حکومت کا؟ کیا جج اپنا کام پوری ایمانداری سے کر رہے ہیں؟ ان کرپٹ ججز نے ایک سزا یافتہ قومی مجرم کو جعلی بیماریوں کے نام پر ملک سے فرار کروایا۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے مجرمان، نیب پر حملہ کرنے والے ن لیگی لیڈران عدالتوں سے ضمانتیں لیے دندناتے پھر رہے ہیں۔ دو سال سے ہر کرپشن کیس میں تاریخ پہ تاریخ اور ضمانتیں دے دینے سے کونسا انصاف قائم ہوگا؟
حال ہی میں ان تماشوں سے تنگ آکر سپریم کورٹ نے ۱۲۰ احتساب عدالتیں بنانے کا حکم جاری کیا ہے۔ اور ان کو پابند کیا ہے کہ ۳۰ روز کے اندر اندر سالہا سال سے لٹکنے والے کرپشن کیسز کا فیصلہ کر کے انصاف قائم کریں۔ اب دیکھتے ہیں پاکستان کی نااہل عدلیہ کب انصاف کا بول بالا کرتی ہے۔
 
Top