اسکول کے زمانے کی یادیں تازہ کریں

آپ تو بہت خوش قسمت ہیں کہ صرف ایک ہی استاد تھے جو اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھے۔
ابھی قصہ ایک کا سنایا ہے۔ :)
ورنہ ایسے ٹیچر بھی تھے، جن کو ہنستے ہوئے دیکھنے کا اتفاق پوری سکول لائف میں نہیں ہوا۔
ایسے بھی تھے کہ جو بچے کے کان کا پردہ پھاڑ کر جیل کی ہوا بھی کھا چکے تھے۔
 
آپ کی عمر 47 سال ہے۔ شاید پانچویں جماعت 1981 یا 1982 میں پاس کی ہو گی۔ اس وقت کونسے ایڈز کے اشتہار آتے تھے؟ ایڈز کا یہ نام بھی 1982 کے آخر میں رکھا گیا۔
یہ 85 یا 86 کی بات ہوگی۔ والد صاحب کی بار بارپوسٹنگ کی وجہ سے ہم نے پرائمری دیر سے شروع کی تھی اور بعد میں بھی کئی جماعتیں دوبارہ کی تھیں۔
 

زیک

مسافر
ایسے بھی تھے کہ جو بچے کے کان کا پردہ پھاڑ کر جیل کی ہوا بھی کھا چکے تھے۔
ہمارے ایک ٹیچر نے بھی ایک سٹوڈنٹ کے کان کا پردہ پھاڑا تھا مگر جیل نہیں ہوئی۔ وہی ٹیچر اکثر گندے لطیفے بھی سناتے تھے۔ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے ٹیچر تھے۔
 
ایسے بھی تھے کہ جو بچے کے کان کا پردہ پھاڑ کر جیل کی ہوا بھی کھا چکے تھے۔
چھٹی جماعت میں کچھ عرصہ کیلئے ہمیں کلاس کے مانیٹر کی خدمات کا موقع ملا۔ ایک روز ہم کسی بیماری کی وجہ سے اسکول نہ پہنچے۔ اگلے روز کلاس کا ماحول کافی غمگین اور خاموش تھا۔ کوئی بتا ہی نہیں رہا تھا کہ کیا ماجرا ہے۔ پہلے ہی پیریڈ میں ہمارے نام پرنسپل صاحب کا بلوایا آگیا۔ ڈر کے مارے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ ہمیں ایسے وی آئی پی انداز میں کیوں بلوایا گیا ہے۔ وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ کلاس کے شرارتی ترین لڑکے کو کل ہماری غیر موجودگی میں مکمل دھو دیا گیا۔ بالآخر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اسکی جان بچی۔ اب ٹیچر کو سسپنڈ کروانے کیلئے ایک بچے کی گواہی کی ضرورت تھی جو کوئی بھی خوف کے مارے دے نے کو تیار نہیں تھا۔ ہمنے صاف کہہ دیا کہ جھوٹی گواہی نہیں دیں گے، بیشک اسکول سے نکال دیں۔ بالآخر بچے کے والدین واویلا مچاکر سفارشی سفاک ٹیچر کو معطل کر وا دیا۔ بعد میں وہ ٹیچر ایک اور پاس کے اسکول میں بھرتی ہوگیا اور پھر اخباروں سے وہاں بھی کئی بار ایمبولینس پہنچنے کا پتا چلتا رہا۔
 

ہادیہ

محفلین
ایک مرتبہ معاشرتی علوم کے ٹیچر نے ہماری کاپی دیکھی تو صرف چند صفحات پر ہی کام کیا ہوا تھا باقی پوری کاپی خالی۔ سر نے پوچھا اس کے گھر کے قریب کون رہتا ہے۔ ہمارے گھر کے قریب ایک ہی لڑکی رہتی تھی اس نے ہاتھ کھڑا کردیا۔ سر نے کہا اس کے ابو کو جاکر بتانا کہ یہ ہوم ورک بالکل بھی نہیں کرتا۔ اس لڑکی سے ہماری کافی اچھی دوستی تھی کہ اکٹھے اسکول جانا ہوتا تھا اس لئے خیال نہیں تھا کہ وہ شکایت لگائے گی۔ لیکن شام کو کھیل کر گھر واپس آئے تو دیکھا امی کے پاس بیٹھی بڑی سنجیدہ شکل بنائے ہماری شکایت لگارہی ہے۔ ہمیں دیکھ کر بھی اس کی سنجیدہ شکل میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور اسی انہماک سے ایک ایک بات امی کو بتاتی رہی۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ بندہ کچھ روز ساتھ آنے جانے کا ہی تھوڑا خیال کرلیتا ہے۔:)
پھر اس کے بعد کیا ہوا رانا صیب۔۔:rollingonthefloor:
 
۔ ہمیں دیکھ کر بھی اس کی سنجیدہ شکل میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور اسی انہماک سے ایک ایک بات امی کو بتاتی رہی۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ بندہ کچھ روز ساتھ آنے جانے کا ہی تھوڑا خیال کرلیتا ہے۔
یعنی آپ بچپن سے ہی لڑکیوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں :)
 
ٹیچرز سے مار نہیں پڑتی تھی۔ مگر پھر بھی بوائز سے زیادہ ہی ٹیچر کا ڈر ہوتا تھا۔
چوتھی پانچویں میں ہماری ایک ٹیچر لڑکوں کے کان کھینچتی تھیں اور لڑکیوں کے بال۔ انہیں دیکھ کر ہی شکر کیا تھا کہ لڑکوں کے بال بڑے نہیں ہوتے۔
 
چوتھی پانچویں میں ہماری ایک ٹیچر لڑکوں کے کان کھینچتی تھیں اور لڑکیوں کے بال۔ انہیں دیکھ کر ہی شکر کیا تھا کہ لڑکوں کے بال بڑے نہیں ہوتے۔
بچپن میں ملنے والی طرح طرح کی سزاؤں پر پورا ناول لکھا جا سکتا ہے۔ مُرغا بننا یا کان پکڑنا سب سے انسانی سزا تصور ہوتی تھی۔ سخت سے سخت سردیوں میں ہاتھ اُلٹا کرکے فٹا مارنا اور کتابیں کمر پر رکھ کر پش اپس لگوانا ہوتا تھا۔ ہم تھوڑے لائق اور کچھ کمزور ہونے کی وجہ سے سخت ترین سزا سے بچ جاتے البتہ مرغا قریبا روز ہی بنتے تھے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ہمنے صاف کہہ دیا کہ جھوٹی گواہی نہیں دیں گے، بیشک اسکول سے نکال دیں۔ بالآخر بچے کے والدین واویلا مچاکر سفارشی سفاک ٹیچر کو معطل کر وا دیا۔ بعد میں وہ ٹیچر ایک اور پاس کے اسکول میں بھرتی ہوگیا اور پھر اخباروں سے وہاں بھی کئی بار ایمبولینس پہنچنے کا پتا چلتا رہا۔
سگنیچر آف عارف کریم
ہمنے
 

ہادیہ

محفلین
اگر گورنمنٹ سکول کے بوائز دیکھیں تو ان کے داڑھی مونچھیں بھی ہوتی ہیں۔ وجہ نکما پن بھی ہوتا ہے ۔ فیل ہونے کی وجہ سے سکول میں ہی بڑے ہوجاتے ہیں۔
مجھے پانچویں کلاس کا ایک پیریڈ دیا گیا۔ جس میں گرلز اور بوائز دونوں تھے ۔ کچھ دنوں بعد اس کلاس میں ایک لڑکا بیگ اٹھا کر دس بجے کے قریب چلا آئے۔میں نے اسے کہا آپ گرلز برانچ میں آگئے ہیں۔ بوائز برانچ یہ نہیں ہے۔ کہتا ٹیچر میں اسی کلاس کا ہوں۔ میں نے پوچھا۔ آپ اتنے بڑے ہوگئے اور ابھی تک فائیو کلاس میں ہی۔ تو اس نے صرف دانت نکالنے پر اکتفا کیا۔ اس کے داڑھی اور مونچھ بھی تھی ہلکی سی۔ بعد میں پتہ چلا وہ لڑکا بار بار فیل ہونے کی وجہ سے ابھی تک پانچویں جماعت میں ہی ہے۔ o_O:D
 
ویسے لگتا ہے کہ سکول کی ساری یاد سزاؤوں کے ارد گرد ہی ہے۔
ہمارے ایک اردو کے استاد تھے، جو مارنے سے زیادہ نصیحت پر یقین رکھتے تھے، لہٰذا ان کے آنے سے پہلے کلاس ضرور شور مچاتی تھی۔ اس طرح پیریڈ کے شروع کے پندرہ منٹ اس لیکچر میں گزر جاتے تھے، پھر پڑھائی کا وقت کم بچتا تھا۔

ایک اور ٹیچر مارتے یا مرغا تو نہیں بناتے تھے، مگر ذلیل اتنا کرتے تھے کہ ان سے ذلیل ہونے سے بہتر بندہ دو ڈنڈے کھا لے۔ اور سزائیں بھی انوکھی دیتے تھے۔ دو لڑکے باتیں کر رہے تھے تو ان میں سے ایک کا منہ دروازے سے باہر کی طرف کروا کر دوسرے کے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی کرسی کی پھٹی پہلے کے کاندھے پر رکھ کر گن کی طرح پکڑا دی۔
اب برآمدے سے گزرنے والا ہر فرد دیکھ کر پہلے تو چونکے، پھر ہنستا ہوا گزر جائے۔ :)
 

ہادیہ

محفلین
چوتھی پانچویں میں ہماری ایک ٹیچر لڑکوں کے کان کھینچتی تھیں اور لڑکیوں کے بال۔ انہیں دیکھ کر ہی شکر کیا تھا کہ لڑکوں کے بال بڑے نہیں ہوتے۔
ہاہاہا۔۔۔ نا بابا ایسے خوفناک ٹیچر ہمارے سکول میں نہیں تھے۔ وہاں شامت بوائز کی آتی تھی۔ گرلز کو صرف کھڑا کیا جاتا یا ہینڈ ریز۔۔ اس پر بھی گرلز رو رو کر برا حال کر لیتی اور ٹیچرز کو ترس آجاتا۔ :D
 
ہاہاہا۔۔۔ نا بابا ایسے خوفناک ٹیچر ہمارے سکول میں نہیں تھے۔ وہاں شامت بوائز کی آتی تھی۔ گرلز کو صرف کھڑا کیا جاتا یا ہینڈ ریز۔۔ اس پر بھی گرلز رو رو کر برا حال کر لیتی اور ٹیچرز کو ترس آجاتا۔ :D
یہ تو پھر کافی خوفناک اسکول ہے۔ ہم نے تو آج تک کسی لڑکی کو سزا ملتے نہیں دیکھا۔ شاید لڑکوں کے سامنے سزا دینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
 

عثمان

محفلین
اگر گورنمنٹ سکول کے بوائز دیکھیں تو ان کے داڑھی مونچھیں بھی ہوتی ہیں۔ وجہ نکما پن بھی ہوتا ہے ۔ فیل ہونے کی وجہ سے سکول میں ہی بڑے ہوجاتے ہیں۔
نکمے پن پر ایسی رائے گورنمنٹ سکول کے اساتذہ کے بارے میں بھی رکھی جا سکتی ہے۔
بہتر ہے کہ عمومیت سے ہٹ کر محض اپنا تجربہ بیان کرنے کی کوشش کی جائے۔
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
ہمیں یاد آیا کہ پانچویں جماعت میں ہمارے ایک ہم جماعت کی اچھی خاصی داڑھی مونچھیں تھیں۔ اسکی وجہ وہ یہ بتایا کرتا تھا کہ نائی نے بلیڈ مار دیا تھا۔
میٹرک میں ہمارے ایک ہم جماعت کی عمر 18 سال تھی اور جب ہمیں پتہ لگا تو یہ سوچ سوچ کر اکثر حیران ہوتے کہ دو سال بعد یہ پورے بیس سال کا ہوجائے گا۔:)
 
Top