نصابی کتب کے بغیر منظم تدریس نہیں ہو سکتی۔ لیکن جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا معیار تعلیم بلند ہو تو ہمیں ایسے طریقے اختیار کرنا چاہئیں جن کے ذریعے ہمارا معیارتعلیم بلند ہو سکے۔
استاد بچوں کو اپنے مضمون پر دن میں ایک گھنٹہ، ہفتے میں تین یا چار گھنٹے تعلیم دیتا ہے اور جو علم وہ بچوں کو دیتا ہے وہ نصابی کتب تک محدود ہوتا ہے۔ بچے استاد کے پڑھائے ہوئے سبق کو خوب یاد کرتے ہیں یا رٹ لیتے ہیں۔ بچے اپنے مضمون کی دیگر کتابیں نہیں پڑھتے اور نہ ان کو اس کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ کتب خانہ سے اپنے مضامین پر دوسری کتابیں پڑھ کر تقابلی مطالعہ کر سکیں۔
نصابی کتب ہمارے اسکولوں میں اعلیٰ تربیت یافتہ اساتذہ سے لکھوائی جاتی ہیں جو مضمون پر بنیادی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ عام بچے اس کو یاد کرکے امتحان پاس کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتابیں پڑھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں تو نہ صرف ان کو اپنے درسی مضامین میں کافی معلومات حاصل ہوں گی بلکہ وہ دیگر علوم اور مضامین سے متعلق بھی بہت کچھ جان سکیں گے۔
غرض ہمارے اساتذہ اور طلباء کا علم نصابی کتب تک محدود رہتا ہے۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ اور طلباء نصابی کتب کے علاوہ دیگر مواد بھی دیکھتے اور مطالعہ کرتے ہیں۔
اسکول اور کتب خانہ
ہمارے ماہرین تعلیم جب تقاضوں کے پیش نظر اعلیٰ تعلیم کی بات کرتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے معیار تعلیم کے ہم پلہ ہونے کی سفارشات کرتےہیں تو پھر ان ہی ممالک کے ان اچھے طریقوں کو کیوں نہیں اپناتےجن کے باعث وہ اعلیٰ معیار پر پہنچ سکیں۔ہمیں اچھے اعمال کی نقل کرنا چاہیےاور برے اعمال ترک کر دینے چاہئیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں کتب خانوں کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کلاس کے بعد بیشتر وقت کتب خانوں میں گذارتے ہیں۔اساتذہ ہمہ وقت اس کھوج میں رہتےہیں کہ ان کے مضمون میں کیا نئی تحقیقات ہوئی ہیں۔کون سی نئی کتابیں چھپی ہیں۔ کون سے نئے مقالات چھائے ہوئے ہیں اور کون سا سمعی و بصری مواد بازار میں آیا ہے جس کی مدد سے وہ طلباء کو اپنے مضمون سے زیادہ سے زیادہ روسناش کرا سکیں اور ان کے علم میں مزید اضافہ کر سکیں۔ اس طرح وہ طلباء میں نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتب اور مواد کے مطالعہ اور چھان بین کا ذوق و شوق