احبابِ کرام ، ایک سال اور قصۂ پارینہ ہوا ۔ کتابِ ماضی کی ضخامت کچھ اور سوا ہوئی ۔ آگے دیکھنے والے آگے کی طرف نئے سال کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ماضی پر نظر ڈالے بغیر مستقبل کا راستہ نہیں کھلتا۔ آگے کی طرف رہنمائی نہیں ہوتی۔ یہ ایک پرانی غزل ماضی میں جھانکنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ اشعار ایامِ حاضر کا شکوہ نہیں بلکہ ایامِ گزشتہ کا شکریہ ہے۔
***
اس قدر ڈر گئے کچھ شورشِ ایام سے لوگ
اب تو بس گھر سے نکلتے ہیں کسی کام سے لوگ
اک زمانہ تھا کہ خوش باش نظر آتے تھے
ہر طرف جادۂ دیروز پہ خوش گام سے لوگ
شاملِ قال تھا اک حرفِ تشکّر دن رات
مشکلوں میں بھی گزر کرتے تھے آرام سے لوگ
ہر طرف سکۂ اخلاص و وفا رائج تھا
سب کو ملتے تھے برابر کئی انعام سے لوگ
شاملِ حال بہر حال رہا کرتے تھے
مل کے لڑتے تھے کبھی گردشِ ایام سے لوگ
سچ کہا کرتے تھے خائف نہ تھے آئینوں سے
کم ڈرا کرتے تھے اندیشۂ انجام سے لوگ
اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ
آنکھ میں شرم تھی اور دل میں حیا ہوتی تھی
خود نمائی سے بہت دور تھے زر فام سے لوگ
سرخیِ رنگِ حیا پر تھی وفا کی شبنم
تروتازہ نظر آتے تھے گل اندام سے لوگ
۔ق۔
ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ
جانے کیوں تم کو عزیز اس قدر آخر ہیں ظہیرؔ
ٹوٹے پھوٹے سے ، یہ مجبور سے ، ناکام سے لوگ
***
ظہیرؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2020