پہلی دفعہ ناصر انکل سے جان پہچان/بات چیت کا آغاز کب اور کیسے ہوا یا ابھی تک بات چیت کا آغاز نہیں ہوا ؟؟؟
زندگی نام ہے حادثات کا۔ ایسا ہی حادثہ جان لیجئے جو سرِ محفل وقوع پذیر ہو گیا۔ کہ اس بھیڑ بھاڑ میں ہماری شاہ جی سے مڈھ بھیڑ ہو گئی۔
انتباہ: یہاں آپ لسانی اشکالات کا شکار ہونا چاہیں تو ہماری طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں، تاہم اپنے اخذ کرنا معانی کی ذمہ داری آپ کو خود اٹھانا ہو گی۔ اپنی چُٹیا کا زور دیکھ لیجئے گا پھر نہ کہنا ہمیں ۔۔ ۔۔ ۔۔ مثال کے طور پر: حادثہ ہر واقع ہونے والی شے یا امر کو کہتے ہیں؛ ضروری نہیں کہ اس سے ایکسیڈنٹ ہی مراد لیا جائے؛ ڈنٹ شنٹ بھی تو زندگی کا حصہ ہیں۔ بھاڑ کے معانی بھی یہاں لازم نہیں کہ بھاڑ جھونکنے یا بھاڑ میں جھونکنے کے ہی لئے جائیں۔ بھیڑ ہو تو بھاڑ کے معانی بھی بدل جاتے ہیں۔
خیر، ایسے چھوٹے بڑے حادثے ہوتے رہتے ہیں اور شاید یہی زندگی میں تحرک قائم رکھتے ہیں۔ پوری تفصیل تو ازبر نہیں کسی پوسٹ کر شومیء قسمت سے (شومی کا تعلق نہ مجھ سے ہے نہ شاہ جی سے) میرے اور شاہ جی کے خیالات میں یک جہتی پائی گئی اور پھر کتنی ہی یک جہتیاں یکے بعد دیگرے وارد ہوتی رہیں۔ دو جہتیاں، سہ جہتیاں، چہار جہتیاں بھی رہی ہوں گی مگر چار سے زیادہ نہیں! کہ بات خطرے کی بھی ہو سکتی ہے۔
رہی بات بات چیت کی تو اگر اپنے اور شاہ جی کے "چٹے دھولے" کا خیال عنان گیر نہ ہوتا تو "چیت" کے نیچے پانچ کی بجائے چھ نقطے ہوتے (معانی کھل جائیں تو لطف لیجئے گا، اور نہ کھلیں تو اور بھی اچھی بات ہے)۔ کُجراں آلا سے گوجرانوالہ بلکہ چِڑیاں والا، سوئیاں والا تک کی داستانیں تو لبِ عالم لوہار پر بھی آ چکی ہوتیں اگر مرحوم کو "چڑا ہائے متلو" یعنی تلے ہوئے چڑے کھانے کا اتفاق ہوا ہوتا۔ سوئیاں والا سے تو ہمارا دھیان بھی سُوئی کی طرف گیا تھا اور ہم محوِ استغراق تھے کہ سوئی گیس سے ہاتھ کی سوئی تک یہاں کون کون سی سوئیاں مراد ہیں۔ طوالتِ تحریر سے بچنے کے لئے ہم یہاں "ہاؤس وائف" کا قصہ گول کر جاتے مگر ۔۔۔ شاہ جی کا کہنا ہے کہ اس نام کا مادہ سُوئی نہیں سوئے ہیں! وہی سوئے جو سگھڑ سیانی ہاؤس وائفیں سرسوں کا ساگ بناتے ہوئے اس میں ڈالا کرتی ہیں۔ ساگ کے نام پر اگر وہی کھلا منہ جس کا ذکر پہلے ہو چکا اور بھی کھل جائے اور کوئی رال وغیرہ تک بات جا پہنچے تو ظاہر ہے جہاں سوئے پائے جاتے ہیں سرسوں بھی پائی جاتی ہو گی، پالک، میتھی، چلائی، ہری مرچ بھی اور ان سب کا کامپلیکس ہول (مرکبِ اعظم) یعنی ساگ بھی دست یاب ہو گا؛ مکئی بھی ہو لاگی۔ مکھن کی عدم دست یابی کا مسئلہ اپنے شاہ جی کو یوں درپیش نہیں آ سکتا کہ ان کے گاؤں میں کالی بھوری کنڈلے چپٹے سینگوں والی بھینسیں بہتات سے دستیاب ہیں ہیں؛ جو وہاں واقع یونین کونسل کے دفتر میں بندھی ہوتی ہیں۔ کہ فی زمانہ بابو لوگ تو نایاب ہو چکے۔ ایک اپنے شاہ جی بچ رہے تھے سو اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات اور نانِ جویں کے چکر میں شہرِ پیشہ وران (پشاور) میں جا بسے۔
شنید ہے کہ آئندہ میٹھی عید وہ "کوہ مری پہاڑ" کے دامن میں منانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ منانے کے سارے لوازمات کا مذکور ضروری بھی تو نہیں، نا!۔