اشتہارات

شمشاد

لائبریرین
خواتین و حضرات اشتہار کم الفاظ میں اس لیے چھپوائے جاتے ہیں کہ لاگت کم آئے۔

آپ اپنے تبصرے جاری رکھیں۔
 
علمدار نے کہا:
راہبر نے کہا:
شکر ہے پوسٹ مین جاننے والا تھا۔۔۔ (آپ کے شوق کا بھی پتا چل گیا۔۔۔۔) :p :)


:!:
بھائی یہ بچپن کی بات ہے اس وقت آتش جوان تھا :)
چلیں کوئی بات نہیں۔ چلتا ہے۔۔۔۔۔ :wink:
ویسے “آتش جوان تھا“۔ یہ کچھ عجیب سا جملہ نہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
نہیں عجیب نہیں بقول

ایک ٹیچر بچوں کو فعل ماضی، حال اور مستقبل کے معتلق پڑھا رہی تھی تو اس نے پوچھا “ میں خوبصورت ہوں “ کون سا فعل ہے تو ایک بچی نے جواب دیا “ فعل ماضی“
 

علمدار

محفلین
شمشاد نے کہا:
نہیں عجیب نہیں بقول

ایک ٹیچر بچوں کو فعل ماضی، حال اور مستقبل کے معتلق پڑھا رہی تھی تو اس نے پوچھا “ میں خوبصورت ہوں “ کون سا فعل ہے تو ایک بچی نے جواب دیا “ فعل ماضی“

اب شمشاد بھائی نے بھی کچھ عجیب سی بات نہیں کر دی؟ :roll:
 

محمد وارث

لائبریرین
صرف اتنا عرض کرنا چاہوں‌ گا کہ کارل مارکس نے ایڈورٹائزنگ کو ایک شیطانی اور دنیا کا بد ترین کام قرار دیا تھا، یہ مارکس کی رائے ہے جس سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن اس میں‌ کہیں نہ کہیں کوئی صداقت ہے سہی۔
 

جیہ

لائبریرین
اخبار تو میں روز پڑھتی ہوں وہ بھی صرف سرخیوں کی حد تک۔ آج نہ جانے کیوں اخبار کا مختصر اشتہارات والے صفحے پر نظر پڑھی تو لکھا تھا: " تمام اشتہارات نیک نیتی کے جذبہ سے شائع کیے جاتے ہیں" سوچا میں بھی دیکھوں نیک نیتی کا جذبہ۔ پہلا ہی اشتہار چیخ چیخ کہہ رہا تھا کہ یہ ہے جذبۂ نیک نیتی۔
اشتہار کسی مس طیبہ کی طرف سے تھا، جس نے صرف موبائل نمبر دیا تھا پتہ کوئ نہیں تھا۔ عنوان تھا " ٹیلی فون دوستی"
اشتہار کا متن تھا"

ہزاروں پاکستانی، یورپی حسین لڑکیوں کے موبائل/ ٹیلی فون نمبر، تصویریں اور ایڈریس لیں۔ دنوں نہیں لمحوں دوستی، شادی کریں۔ 24 گھنٹے دل کی باتیں کریں، پیار بڑھائیں میگزین منگوائیں قیمت 350 روپے"

بقول غالب: ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

ایک اور اشتہار تھا " تبدیلئ نام" کے حوالے سے۔

لکھا تھا میں نے اپنا نام نورجہان بیگم سے تبدیل کرکے جویریہ رکھ لیا ہے لہٰذا سکول ریکارڈ میں تبدیلی کی جائے۔
جویریہ دخترِ دہشت خیل سکنہ ترخہ کہوئ ضلع کرک۔


اب میں اسے کیسے کہلا بھیجوں کہ بی بی نورجہان بیگم بہت اچھا نام ہے تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر تبدیل کرنا ہی تھا تو والد کا نام تبدیل کرتے ۔ بھلا دہشت خیل بھی کوئ نام ہے۔ اس سے اچھا نام تو شربت خان ہے۔
آجا اوپر
 

شمشاد

لائبریرین
لگتا ہے آج گھر میں کوئی کام وام نہیں ہے تو گڑھے مردے اکاڑنے پر لگی ہے۔
اچھا ہے۔ پرانی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
اصل میں دیکھا جائے تو اشتہارات ہر دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو حقیقی ضرورت مندوں کی طرف سے حقیقی ضرورت مندوں کے لیے شائع کیے جاتے ہیں اور دوسرے و قسم جن کے الفاظ و مخاطب کچھ ہوتا ہے اور بین السطور کچھ اور ہوتا ہے جو شائع تو نیک نیتی کے جذبے کے تحت ہی کیے جاتے ہیں مگر یہ جذبہ اخبار والوں کی حد تک صادق ہوتا ہے کیوں کہ انھوں نے تو اپنا روزگار چلانا ہوتا ہے مگر شارع کا اصل مقصد پڑھنے والے کو سبز باغ دکھا کر اپنے دام میں پھنسانا ہوتا ہے۔
اب نام بدلنے والے اشتہارات مزاحیہ تو ہو سکتے ہیں مگر انھوں غلط نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اسی طرح نام کی درستگی والے اشتہارات ہیں۔
اصل مسئلہ ایسے اشتہارات کا ہے جن کا مقصد کسی بھی طریقے سے دولت حاصل کرنا اور اگلے کے جیب پر ڈاکا ڈالنا ہے۔ ایسے اشہارات اخلاقی اور معاشرتی طور پر غلط ہوتے ہیں اور بعد ازاں آگے چل کر غیر قانونی بھی ہو جاتے ہیں اور کسی نہ کسی چھوٹے بڑے جرم کی بنیاد بنتے ہیں۔
 
col9.gif

col8.gif

col8.gif
 

سیما علی

لائبریرین
اب میں اسے کیسے کہلا بھیجوں کہ بی بی نورجہان بیگم بہت اچھا نام ہے تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر تبدیل کرنا ہی تھا تو والد کا نام تبدیل کرتے ۔ بھلا دہشت خیل بھی کوئ نام ہے۔ اس سے اچھا نام تو شربت خان ہے۔
بہت زبردست بہت زبردست
جیہ جیتی رہیے بہت مزا آیا :in-love::in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
 

سیما علی

لائبریرین
لاہور‘ میں ایک اعلی کاروباری گروپ کے مالک نے اپنی صاحبزادی کے لیے رشتے کا اشتہار دیا ہے جسے لوگ اپریل فول سے بھی تعبیر کر رہےہیں۔ اخبار میں چھپنے والے اشتہار نے بہت سارے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔

پاکستان کے مشہور اخبار ‘ میں رشتے کا اشتہار حقیقت ہے یا لوگوں کو ساتھ اپریل فول منایا گیا ہے۔ یکم اپریل ساری دنیا میں ’اپریل فول‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اخبار کے اشتہار میں جو تفصیلات دی گئی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ آج ’اپریل فول‘ منایا گیا ہے۔
اشتہار کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک بڑے کاروباری گروپ کے مالک کو اپنی صاحبزادی کے لیے رشتہ درکار ہے۔ بیٹی کی عمر 38 سال ہے، غیرشادی شدہ ہے اور بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہے۔ شادی کے لیے درخواست دینے والے شخص کی عمر 34 سے زیادہ ہو اور متوسط طبقے کے افراد بھی درخواست دینے کے اہل ہیں۔

لڑکے کا کسی بھی اچھے کالج یا یونیورسٹی سے گریجوایٹ ہونا لازمی ہے۔ لڑکا پُرکشش اور جاذب نظر شخصیت کا مالک ہونا چاہیے۔
 
آخری تدوین:
Top