شائد اس قسم کا کوئی پہلے بھی دھاگہ ہو۔ میں نے تلاش نہیں کیا۔ اور ضرورت بھی نہیں سمجھی۔
اس دھاگے میں کسی شعر کو پکڑ کر اس کی مزاحیہ تشریح کی جائے۔ یا پھر اسکو واقعہ بنا کر پیش کر دیا جائے۔ تمام احباب کو طبع آزمائی کی دعوت ہے۔ بس جو بات ملحوظ خاطر رہے وہ یہ کہ مزاح میں پھکڑ پن، عامیانہ پن اور ناشائستگی نہ ہو۔
مزید یہ کہ طنز کی بجائے مزاح پر زور دیا جائے۔
تو شروع کرتے ہیں۔
آج ہی اک
فیس بک پیج پر اک زبردست سی تشریح دیکھی ہے۔ پہلے تو وہ پیش خدمت ہے۔
سرہانے" میر " کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
لڑکا:سر یہ شعر میر تقی میر کی والدہ کا ہے
کیا؟۔ استاد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا
جی سر یہ اُس وقت کی بات ہے جب میر تقی میر سکول میں پڑھتے تھے ایک دن ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے استاد نے ان کی بہت پٹائی کی جس پر وہ روتے روتے گھر آئے اور سو گئے تھوڑی دیر بعد میر صاحب کے باقی بہن بھائی کمرے میں کھیلتے ہوئے شور کرنے لگے جس پر ان کی والدہ نے یہ شعر کہا:
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
اور جو کوئی کہتا ہے کہ یہ میر تقی میر کا شعر ہے تو وہ غلط کہتا ہے کیونکہ میر تقی میر تو اس وقت سو رہے تھے اور کوئی سویا ہوا آدمی شعر نہیں کہہ سکتا
اک نمونہ تشریح کا بھی (ذاتی خیالات )
میں نے اوڑھی ہے تیرے نام کی اجرک ایسی
اب تجھے چھوڑ کر پنجاب جا نہیں سکتا (ضیا الحق قاسمی)
محبوب کو بےوفائی کا شدید شبہ ہے۔ اور شاعر نے اس کے ذہن سے یہ خلش مٹانے کے انتہائی بےکار قسم کی توجہیہ پیش کی ہے۔ جیسا کہ کسی ثقافت میں رچا بسا دوسری ثقافت میں جا کر نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح میں بھی کسے اور کے پاس نہیں جا سکتا۔ حالانکہ ملازمت وغیرہ کے حصول کے لیئے نقل مکانی عام سی بات ہے۔