اصل فاتح اعظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یا الکزنڈر ؟

نیلم

محفلین
اصل فاتح اعظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ


ہم نے بچپن میں پڑھا تھا کہ مقدونیہ کا الکزنڈر ٢٠ سال کی عمر میں بادشاہ بنا، ٢٣ سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا، سب سے پہلے یونان فتح کیا پھر ترکی میں داخل ہوا، پھر ایران کے دارا کو شکست دی، پھر شام میں داخل ہوا اور وہاں سے یروشلم اور بابل کا رخ کیا اور پھر مصر پہنچا- وہاں سے ہندوستان آیا اور راجہ پورس کو شکست دی، اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا اور پھر مکران کے راستے واپسی کے سفر میں ٹائیفوا یڈ میں مبتلا ہو کر بخت نصر کے محل میں ٣٣ سال کی عمر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا- دنیا کو بتایا گیا کہ وہ اپنے وقت کا عظیم فاتح جنرل اور بادشاہ تھا اور اسی وجہ سے دنیا اس کو الکزنڈر دی گریٹ یعنی سکندر اعظم - بمعنی فاتح اعظم - کے لقب سے یاد کرتی ہے

آج اکیسویں صدی میں دنیا کے مورخین کے سامنے یہ سوال رکھا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوے کیا واقعی الکزنڈر فاتح اعظم کے لقب کا حقدار ہے ؟ سوچئے، الکزنڈر جب بادشاہ بنا تو اسے بہترین ماہروں نے گھڑ سواری اور تیراندازی سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی اور جب ٢٠ سال کا ہوا تو تخت و تاج پیش کر دیا گیا - حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سات پشتون میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا اور وہ اونٹ چراتے چراتے جوان ہوئے تھے- آپ نے نیزہ بازی اور تلوار چلانے کا ہنر بھی کسی استاد سے نہیں سیکھا تھا - الکزنڈر نے ایک منظم فوج کے ساتھ دس برسوں میں ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی بڑی منظم فوج کے دس برسوں میں ٢٢ لاکھ مربع میل کا علاقہ زیرنگوں کیا جس میں روم اور ایران کی دو عظیم مملکت بھی شامل ہیں

یہ تمام علاقہ جو گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہو کر فتح ہوا اس کا انتظام و انصرام بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بہترین انداز میں چلایا- الکزنڈر نے جنگوں کے دوران بے شمار جرنیلوں کا قتل بھی کرایا اور اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں- ہندوستان میں اسکی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کیا لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی کو انکے کسی حکم کی سرتابی کی جرات نہ تھی وہ ایسے جرنیل تھے کہ عین میدان جنگ میں حضرت خالد بن ولید جیسے سپہ سالار کو معزول کیا، حضرت سعد بن ابی وقاص کو کوفے کی گورنری سے ہٹایا، حضرت حارث بن کعب سے گورنری واپس لی، حضرت عمرو بن العاص کا مال ضبط کرنے کا حکم دیا اور حرص کے علاقے کے ایک اور گورنر کو واپس بلا کر سزا کے طور اونٹ چرانے پر لگا دیا- آپ کے ان تمام سخت فیصلوں کے خلاف کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہوئی سب کو معلوم تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ فیصلہ صرف عدل کی بنیاد پر کرتے ہیں اور عدل کے خلاف وہ کچہ برداشت نہیں فرماتے

الکزنڈر نے ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا لیکن دنیا کو کوئی نظام نہ دے سکا - حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے دنیا کو ایسے ایسے نظام دیے جو آج تک تک کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہیں - دینی فیصلوں میں آپ نے فجر کی اذان میں أصلوأة خير من النوم کا اضافہ فرمایا، آپ کے عہد میں با قاعدہ تراویح کا سلسلہ شروع ہوا، شراب نوشی کی سزا مقرر ہوئی اور آپ نے سنہ ہجری کا آغاز کروایا، موذنوں کی تنخواہ مقرر کی اور تمام مسجدوں میں روشنی کا بندوبست فرمایا - دنیاوی فیصلوں میں آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام تشکیل دیا اور جیل کا تصّور دیا، آبپاشی کا نظام بنایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا با قاعدہ محکمہ قائم کیا- پ نےدنیا بھر میں پہلی مرتبہ دودھ پیتے بچوں، بیواؤں اور معذوروں کے لئے وظایف مقرر کیئے

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں ہوتے تھے، سفر کے دوران نیند کے وقت زمین پر اینٹ کا تکیہ بنا کر سو جایا کرتے تھے، آپ کے کرتے پر کئی پیوند رہا کرتے تھے، آپ موٹا کھردرا کپڑا پہنا کرتے تھے اور آپ کو باریک ملایم کپڑے سے نفرت تھی - آپ جب بھی کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو تاکید کرتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا - آپ فرماتے تھے کہ عادل حکمران بے خوف ہو کر سوتا ہے - آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھا 'عمر - نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے
'
آپ فرماتے 'ظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے کے برابر ہے'، اور آپ کا یہ فقرہ آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے چارٹر کا درجہ رکھتا ہے کہ ' مائیں اپنے بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے کب سے انہیں غلام بنا لیا؟ ' آپ کے عدل کی وجہ سے رسول الله صل اللہ علیہ وسلّم نے آپ کو 'فاروق' کا لقب دیا اور آج دنیا میں عدل فاروقی ایک مثال بن گیا ہے - حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ وصیّت کے مطابق آپ کا مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کیا گیا

اگر آج دنیا بھر کے مورخین الکزنڈر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موازنہ کرتے ہیں تو انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پہاڑ جیسی شخصیت کے سامنے الکزنڈر ایک کنکر سے زیادہ نہیں معلوم ہوتا کیونکہ الکزنڈر کی بنائی سلطنت اسکے مرنے کے پانچ سال بعد ہی ختم ہو گئی تھی جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جس جس خطّے میں اسلام کا جھنڈا لگایا وہاں آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سنائی دیتی ہے - الکزنڈر کا نام آج صرف کتابوں میں ملتا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دئیے ہوے نظام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے ٢٤٥ ملکوں میں رائج ہیں - آج بھی جب کبھی کوئی خط کسی ڈاک خانے سے نکلتا ہے، یا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، یا وہ چھٹی پر جاتا ہے، یا پھر کوئی معذور یا بیوہ حکومت سے وظیفہ پاتے ہیں تو بلا شبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت تسلیم کرنی پڑتی ہے

تقسیم ہند کے دوران لاہور کے مسلمانوں نے ایک مرتبہ انگریزوں کو دھمکی دی کہ 'اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جائے گا' .. اس پر جواھر لال نہرو نے کہا کہ 'افسوس یہ مسلمان بھول گئے کہ ان کی تاریخ میں کوئی عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی تھا'... اور واقعی آج ہم یہ بھولے ہوے ہیں کہ رسول الله صل اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا تھا کہ "اگر میرے بعد کوئی
نبی ہوتا تو وہ عمربن خطاب ہی ہوتا""
 

نیلم

محفلین
اچھا مضمون ہے لیکن اس میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں، جیسا کہ
مطلب آپ کو اس کا حوالہ چایئے؟
آپ نے آج سے پہلے کبھی یہ نہیں پڑھا ایسا کیا؟
میں نے تو کافی دفعہ پڑھا اور سنا ہے لیکن حوالہ یاد نہیں ہے ،،،
کسی کو معلوم ہو تو پلیز ضرور شئیر کیجئے
 

قیصرانی

لائبریرین
مطلب آپ کو اس کا حوالہ چایئے؟
آپ نے آج سے پہلے کبھی یہ نہیں پڑھا ایسا کیا؟
میں نے تو کافی دفعہ پڑھا اور سنا ہے لیکن حوالہ یاد نہیں ہے ،،،
کسی کو معلوم ہو تو پلیز ضرور شئیر کیجئے

پڑھا میں نے بہت جگہ ہے لیکن کہیں سے اس حدیث کا حوالہ نہیں مل سکا۔ نبی پاک ص نے جو فرمایا، وہ حدیث ہی ہے نا :)
 

قیصرانی

لائبریرین
جی اور میں بھی یہ ہی فرما رہی ہوں مجھے معلوم نہیں ۔۔لیکن اتنا معلوم ہے کہ یہ مستند حدیث ہے ضعیف نہیں :)

جو مستند حدیث ہے، اس کا حوالہ تو فوری ملنا چاہیئے۔ چونکہ آپ یہ کنفرم فرما رہی ہیں کہ یہ مستند حدیث ہے تو اسے آپ کہیں حدیث کی کتاب میں بھی دیکھ چکی ہیں نا، اتنا کافی ہے۔ مجھے آپ کی بات پر اعتبار ہے
 

نیلم

محفلین
جو مستند حدیث ہے، اس کا حوالہ تو فوری ملنا چاہیئے۔ چونکہ آپ یہ کنفرم فرما رہی ہیں کہ یہ مستند حدیث ہے تو اسے آپ کہیں حدیث کی کتاب میں بھی دیکھ چکی ہیں نا، اتنا کافی ہے۔ مجھے آپ کی بات پر اعتبار ہے
بہت سی احادیث کو ہم بچپن سے سُنتے آتے ہیں کبھی کسی کورس کی کتاب میں کبھی کسی عالم کے بیان میں کبھی کسی بھی کتاب میں لیکن ہمیں ڈائریکٹ حوالے یاد نہیں رہتے لیکن ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہاں یہ صیحح ہے کیونکہ ہم پہلے بھی پڑھ اور سُن چکے ہوتے ہیں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت سی احادیث کو ہم بچپن سے سُنتے آتے ہیں کبھی کسی کورس کی کتاب میں کبھی کسی عالم کے بیان میں کبھی کسی بھی کتاب میں لیکن ہمیں ڈائریکٹ حوالے یاد نہیں رہتے لیکن ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہاں یہ صیحح ہے :)

میں نے بچپن سے سنی جانے والی بہت ساری احادیث کو فالو اپ کیا ہے لیکن اکثریت کا کوئی حوالہ نہیں مل سکا
 

نیلم

محفلین
میں نے بچپن سے سنی جانے والی بہت ساری احادیث کو فالو اپ کیا ہے لیکن اکثریت کا کوئی حوالہ نہیں مل سکا
خیر اس کا بہتر جواب تو آپ کو کوئی عالم یا شیخ الحدیث ہی دے سکتا ہے لیکن پھر بھی میں اپنی ناقص عقل کا کچھ استعمال کرتی ہوئے مشہورہ دیتی ہوں کہ
اس کے لئے آپ ،
سنن الترمذی
صحیح البخاری
صحیح مسلم
سنن أبی داود
کا مطالعہ کریں :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایسے لنکس جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہوتے ہیں، تلاش کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے ۔۔۔
آپ یہی الفاظ جو حدیث کے ترجمے کے تھے، گوگل پر لکھتے تو آپ کو بھی یہ حوالہ مل جاتا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اصل فاتح اعظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے یا الیگزینڈر ۔۔۔
یہ تاریخی سوال ہے اور تاریخ ہی اس کا بہترین جواب پیش کرسکتی ہے۔۔
تاہم جو حقائق آپ نے بیان فرمائے، وہ درست ہیں تو فیصلہ حضرت عمر فاروق کے حق میں ہی جانا چاہئے ۔۔۔
 

نیلم

محفلین
واہ نیلم بٹیا کیا لاجواب مضمون لکھا ہے۔ بہت داد قبول فرمائیے۔ فاروقِ اعظمؓ ہماری پسندیدہ ترین شخصیت ہیں۔
بہت شکریہ انکل ،،،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ میری بھی پسندیدہ ترین شخصیت ہیں ان کے بارے میں مجھے پڑھنا اور جاننا بہت اچھا لگتا ہے میں جہاں کہیں بھی ان کے حوالے سے کچھ پڑھتی ہوں تو میری یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ اس عظیم شخصیت کے بارے میں سب جانے اسی لیے میں ضرور شئیر کرتی ہوں ۔۔اور یہ تحریر میں نے نہیں لکھی نیٹ ہی پہ پڑھی ہے :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سکندر مقدونی کے تقابل سے قطع نظر سکندر مقدونی کی شخصیت مسلمان مؤرخین اور مفسرین قران کے نزدیک اس لیے بھی مختلف آراء کی زد میں آتی رہی ہے کہ کچھ لوگ سکندر مقدونی کو ذوالقرنین قرار دیتے ہیں۔ ذوالقرنین ایک بزرگ ہستی اور عظیم الشان سلطنت فتح کرنے اور اس پر بہترین عدل قائم کرنے والی شخصیت کا لقب ہے جس کا ذکر سورۃ کہف میں آیا ہے۔ یہ ذوالقرنین ہی تھا جس نے یاجوج ماجوج کی یلغار کو روکنے کے لیے فولاد اور تانبے کی دیوار تعمیر کروائی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق ذوالقرنین کے لیے بیان کی گئی صفات ہرگز سکندر مقدونی پر فٹ نہیں بیٹھتیں جو کہ درحقیقت ایک ظالم بادشاہ تھا اور جو اپنی فتوحات کے دوران شہروں اور بستیوں کو اجاڑتا رہا تھا۔ ابوالکلام کے نزدیک قدیم ایرانی بادشاہ کورش اعظم جسے سائرس دی گریٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی شخصیت اور حالات ذوالقرنین سے بہت ملتے ہیں اور قرین قیاس یہی ہے کہ اصل میں کورش ہی ذوالقرنین تھا۔ واللہ اعلم۔
 

نایاب

لائبریرین
اک اچھی شراکت محترم نیلم بہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا شبہ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا اپنا اک مقام ہے اصحاب رسول میں ۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے اپنے عہد میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو کہ دور نبوت اور پہلے خلیفہ کی خلافت میں ممکن نہ ہوئے ۔
اور سکندر اعظم مجہول شناخت کا حامل اک فاتح دنیا ۔۔۔۔۔
دونوں شخصتیوں کا تقابل ہی غیر مناسب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک تخت پر بیٹھی حکم جاری کرتی رہی جہاد کا انتظام و انصرام فرماتی رہی ۔۔۔۔
اور اک گھوڑے کی پیٹھ پر جنگ کے میدانوں میں مصروف رہی ۔
 
Top