ویکسین سے دو سال میں مرنے والی خبر ہے تو انتہائی فضول اور بیہودہ ۔۔۔ لیکن پھر بھی کچھ تشریح ضروری ہے۔
فائزر اور موڈرنا ویکسین نئی ٹیکنالوجی یعنی ایم آر این اے ویکسین ہیں۔
اس کے دو اجزا ہیں۔ ایک جز ویزیکل (یا گاڑی) ہوتی ہے جو ویکسین کو لے کر پورے جسم میں گھومتی ہے ۔ وہ ویزیکل یا کیریئر لپوسوم liposome کہلاتا ہے اور کینسر تھراپی میں کافی عرصے سے زیر استعمال ہے۔ لپوسوم نامی مخلوق ہمارے جسم کے ہر خلیے میں پہلے سے ہی موجود سیل میمبرن کی چھوٹی کاپی ہے۔ اسلیے اس سے کوئی خطرہ نہیں۔
دوسری چیز وائرس کا آر این اے یا کوڈ ہے۔ جس کے زریعے جسم کرونا کے خلاف قوت مدافعت بناتا ہے۔ اس میں کوئی ایسا کیمیکل موجود نہیں جو جسم کے اندر جا کر دو سال بعد ایکٹو ہو کر بندہ مار دے گا۔ ہماری اپنی تحقیق کے مطابق لپوسوم اور اس جیسے نینو پارٹیکلز ایک چوہے کے جسم کے اندر ایک ہفتے سے زیادہ رہ نہیں سکتے۔ اسلیے انسان پر اس ویکسین کا جو اثر ہونا ہے وہ دو سے تین ہفتے کے اندر اندر ہو جانا ہے۔ اس کے بعد لپوسوم جسم سے نکل چکے ہوتے ہیں۔
چائنیز ویکسین تو ہے ہی پرانی طرز کی ویکسین۔ اس سے کوئی خطرہ تو ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اس قسم کی کئی ویکسین دہائیوں سے استعمال میں ہیں اور امت مسلمہ کی آبادی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
جہاں تک مقناطیسی چپ کا تعلق ہے تو میگنیٹک نینو پارٹیکلز ابھی اس حد تک ہی پہنچے ہیں کہ انھیں لپوسوم کے زریعے جسم میں انجیکٹ کر کے کینسر تھراپی پر ریسرچ کی جائے۔ لیکن وہ ریسرچ اتنے ابتدائی مراحل میں ہے کہ ابھی اس پر کئی دہائیوں تک کام ہونا ہے۔ اور اس سے انسان میں مقناطیسی قوت پھر بھی پیدا نہیں ہوگی۔ بلکہ ایک مقناطیس کے ذریعے دوائی کو کینسر کی جگہ تک لے جانے کا عمل ہی سرانجام دیا جائے گا۔ اس کا فائدہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کینسر جسم میں پھیل چکا ہو۔ لیکن اس سے کوئی جاسوسی نہیں ہو سکتی۔
اسلیے مرنا آپ نے تب ہی ہے جب وقت آئے گا۔ اس کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں۔