غزل
اقبال (مستری)
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے
یہ بات نہیں کہ مجھ کو اس ہر یقیں نہیں
بس ڈر گیا خود کو صاحب ایماں کہتے کہتے
توفیق نہ ہوئی مجھ کو اک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا موزن اذاں کہتے کہتے
کسی کافر نے جو پوچھا کہ یہ کیا ہے مہینہ
شرم سے پانی ہوا میں رمضاں کہتے کہتے
میرے شیلف میں جو گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا
میں گڑھ کیا زمیں میں قرآں کہتے کہتے
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے
جناب خلیل صاحب!!!!
بہت اعلی۔ اقبال (مستری) بالکل صحیح اتنا افسوس ہوتا اور سب سے دل دکھانے والی شاعری جو تفرقہ پھیلاتی ہے۔وہ علامہ سے منسوب کی جاتی ہے
پھر ایسے اشعار ہیں جو ہیں تو وزن میں مگر الفاظ کے چناؤ کے لحاظ سے کوئی خاص معیار نہیں رکھتے یا کم از کم اقبال کے معیار/اسلوب کے قریب نہیں ہیں۔ مثالیں
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہِ شبیری
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہگار بو ترابی ہے
وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ وجاوید کا ماتم نہیں کرتے
اکثر تو طویل بحث کے بعد قائل کرنا پڑا اور کچھ تو نام نہاد ادبی مان کے ہی نہی دیتے بحث برائے بحث کرتے ہیں تو صبر اور شکر کے علاوہ کوئی اور راستہ نہی۔ اور خاص کر ان لوگوں کے لئے جو علامہ اقبال رح کی شاعری سے عقیدت کی حد تک محبت کرتےہیں اور مجھے بھی عقیدت وعشق ہے اور اس عقیدت و عشق پر فخر بھی۔۔۔۔۔۔۔