مہوش علی
لائبریرین
حال ہی میں ایک اور موضوع پر انگلش فورم میں گفتگو ہوتے ہوئے اس بات پر ضمنا بحث چلی جو بعد میں ضمنی بحث سے تفصیلی بحث میں تبدیل ہو گئی۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے اس پوری گفتگو کا اردو ترجمہ کر کے اسے آرٹیکل کی شکل دی جا رہی ہے۔
غیر مسلموں سے معاہدے کے تحت سلوک کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ اصولوں پر فوقیت ہونا
جب نماز روزہ، طلاق، شادی بیاہ جیسے معاملات آتے ہیں [جنہیں عرف عام میں پرسنل لاء کہا جاتا ہے] تو اس معاملے میں شریعت کے اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور جو ایسا کرے گا وہ نئی بدعت ضلالت میں مبتلا ہو جائے گا۔
مگر جہاں تک بات ہے سٹیٹ لاء کی، تو اس میں جمود نہیں اور سٹیٹ کو بہت سی باتیں وقت اور حالات کے مطابق طے کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں سے ایک مسئلہ غیر مسلموں سے سلوک کا ہے اور اُنکے حقوق کا ہے۔
مثال کے طور پر اسلام میں غلامی کا مسئلہ تیرہ سو سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ غیر مسلم جو اسلام پر انتہائی تنقید کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہی غلامی کا مسئلہ ہے خصوصا کنیز عورت کا مسئلہ کہ ایک آقا اُسکی مرضی کے بغیر بھی اُس سے ہمبستری کر سکتا ہے، اور پھر خود ہمبستری کر کے اُسے آگے دوسرے آقا کے ہاتھ بیچ سکتا ہے جو پھر اُس سے اُسکی مرضی کے بغیر دوبارہ ہمبستری کر سکتا ہے اور پھر آگے بیچ سکتا ہے۔۔۔۔۔
مگر پھر پچھلی صدی میں ایک وقت آیا جب تمام اقوام عالم اس غلامی کے مسئلے کے خلاف متحدہ ہو گئے اور اس معاملے پر رضامند ہو گئے کہ اس چیز کو ختم کرنا ہے اور جنگوں میں قیدی بنائے جانے والوں کو اب غلام نہیں بنایا جائے گا۔
چنانچہ یہ چیز مسلمان حکومتوں کے لیے بھی حلال ہو گئی کہ وہ شریعت کے اس قانون میں تبدیلی وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی کریں، کیونکہ شریعت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ غیر مسلموں سے معاہدے کے تحت سلوک کرنے کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ By Default والے اصولوں پر فوقیت حاصل ہے۔
چنانچہ غلامی کا خاتمہ شریعت میں اپنی طرف سے نئی بدعت و ضلالت کرنا نہیں ہے، بلکہ عین شریعت کے مطابق ہے۔
غیر مسلموں سے جزیہ اور انکی عبادتگاہوں کی تعمیر
اگر ہم نے ان انتہا پسندوں کے ہاتھ میں پاکستان کے امور چھوڑ دیے تو اگلے دن پاکستان کی تمام اقلیتوں سے جزیہ ٹیکس لینے نظر آئیں گے، حالانکہ آج کی دنیا کی صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو رہنے کے لیے کہیں پر بھی جذیہ نہیں دینا پڑتا۔
کیا آپ کو طالبان یاد ہیں جنہوں نے حال ہی میں پاکستان کی اورکزئی ایجنسی میں اقلیتی سکھ کمیونٹی پر کڑوڑوں کا جزیہ نافذ کر دیا اور نہ دینے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی دی، اور اسی وجہ سے یہ پاکستانی سکھ شہری اپنے آبائی گھر چھوڑ کر وہاں سے ہجرت کر گئے۔
پاکستان کی عوام کی اکثریت ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ فکر کے علماء نے بھی بڑھ چڑھ کر طالبان کی مذمت کی۔ کیوں؟ جواب یہ ہے کہ اگرچہ کہ جزیہ کا وجود اسلامی شریعت میں موجود ہے، مگر آج کی دنیا کے حالات کے مطابق یہ ٹیکس غیر مسلم آبادی پر نہیں لگایا جا سکتا۔
جہاں تک غیر مسلم اقلیتوں کی اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کا تعلق ہے، تو اسکا مسئلہ جزیے سے کچھ زیادہ گھمبیر ہے۔ اگرچہ زبانی کلامی کہا تو جاتا ہے کہ غیر مسلموں کو اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت ہے، مگر عملی طور پر جب بھی اقلیتیں کسی علاقے میں اپنی عبادتگاہ تعمیر کرنا چاہیں تو انتہا پسند اسکے خلاف متحرک ہو جاتے ہیں اور پاکستان میں اقلیتوں کے لیے اپنی نئی عبادتگاہ تعمیر کرنا جوئے شیر لانا ہے۔
نوٹ:
بہت سے انتہا پسند صاف کہتے ہیں اقلیتوں کی جو پرانی عبادتگاہیں ہیں، بس وہی باقی رہیں گی اور انہیں کوئی نئی عبادتگاہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کچھ ذرا زیادہ کھلے ذہین کے ہیں، تو وہ کہتے ہیں جو نئے شہر مسلمان آباد کرتے ہیں جیسے کوفہ و بصرہ تو ان میں غیر مسلموں کو اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں [مولانا مودودی، کتاب اسلامی ریاست، صفحہ 502 تا 510]
اب یہ حیرت کی بات ہی ہے کہ آج کی تاریخ میں اسلام آباد کا شہر مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے تو اب غیر مسلموں کو اجازت ہی نہیں کہ اس میں اپنی کوئی عبادتگاہ تعمیر کر کے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گذار سکیں۔ ایسا ہی تھا تو یہ بھی حرام قرار دیتے کہ مسلمانوں کے بسائے ہوئے شہر میں غیر مسلم بس نہیں سکتے۔
تو مولانا مودودی ہوں یا کوئی اور، ان سے عاجزانہ گذارش اور درخواست ہے کہ اپنے فتوؤں پر نظر ثانی فرمائیں، آج کی دنیا کے حالات کو سمجھیں کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت ہے، لہذا آپ بھی اپنے ملک میں غیر مسلموں کو برابر کے حقوق دیں اور صدیوں پرانے انہی فتوؤں پر عمل نہ کرتے رہیں جن کا آج کے حالات سے کوئی تعلق نہیں۔
غیر مسلموں کو تبلیغ کی اجازت اور مرتد کا مسئلہ
اور پھر آخر میں سب سے گھمبیر اور خطرناک مسئلہ جس میں دونوں انتہائیں extremes پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف مرتد کی سزا قتل کی بھرپور طریقے سے مخالفت ہوتی ہے تو دوسری طرف انتہائی سختی سے مرتد کو قتل کر دینے کے مؤقف کا دفاع کیا جاتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صدیوں پرانے حالات کے مطابق بنائے گئے معاشرتی قوانین جوں کے توں آج نافذ نہیں ہو سکتے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے مرتد کی جو سزا تھی وہ اُس وقت کے حالات کے مطابق تھی کہ اُس دور میں کفار اپنے علاقوں میں کسی کو اسلام قبول کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے، اور اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو اُس پر تشدد اور اذیت دینا شروع کر دیتے تھے۔ جناب عمار یاسر کے والدین اسلام کی تاریخ کے پہلے شہداء میں تھے اور اُن کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کفار کے علاقوں میں اسلام قبول کیا تھا اور اسی جرم کی پاداش میں انہیں اذیتیں دے دے کر مارا گیا۔
اسی طرح خاص حالات کےتحت ایک واقعہ وہ ہے جب فتح مکہ کے بعد کفار کو جزیہ قبول کرنے کی کوئی چوائس نہیں دی گی، بلکہ ان کو یا تو اسلام قبول کرنا تھا یا پھر انہیں قتل کر دیا جانا تھا۔ یہ فیصلہ صرف اور صرف اُس وقت کے خاص حالات کے تحت کیا گیا اور اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہر کافر ملک کو فتح کرنے کے بعد انہیں زبردستی مسلمان بنانا ہے یا پھر قتل کر دینا۔ بلکہ دوسرے حالات میں ان کفار کو اس بات کی اجازت بھی ہے کہ وہ جزیہ دے کر اسلامی حکومت کی پناہ میں آ جائیں اور پھر اپنے عقیدے پر قائم رہیں اور اس پر عمل کریں۔
آج کی دنیا کے حالات مگر مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو تبلیغ کی کھلی اجازت ہے۔ آج اس تبلیغ کے نتیجے میں ہر شخص اسلام قبول کرنے کی آزادی رکھتا ہے اور اس کو اذیتوں سے دوچار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی قتل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ تمام مسلم ممالک کو آج کے حالات کا جائزہ لینا چاہیے، انہیں سمجھنا چاہیے اور اسی کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ آج جب مسلمان یکطرفہ ٹریفک چلاتے ہوئے اپنی تبلیغ کا حق تو مانتا ہے، دوسروں کو اسلام میں داخل کرنے کا حق تو مانتا ہے، مگر جب اسکی اپنی باری آتی ہے تو غیر مسلموں کو تبلیغ کی اجازت ہے اور نہ کسی مسلمان کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی بلکہ ان پر قتل کی سزا ہے، تو یہ چیز اسلام پر بہت بُرا نام لاتی ہے اور اسکی بدنامی کا باعث ہے اور اسلام دشمنوں کو یہ الزام لگانے کا موقع ملتا ہے کہ اسلام فقط تلوار اور زور زبردستی کے بل بوتے پر پھیلا ہے۔
فیصلہ ہمیں آج کرنا ہے کہ ہم آج کی دنیا کے حالات کے تناظر میں خود کو، مسلمان قوم کو کس صورت میں پیش کرتے ہیں۔ یا تو ہم پاکستان کے آئین کا احترام کر لیں جو اقلیتوں کو مسلمان شہریوں کے برابر کے حقوق عطا کر رہا ہے، ورنہ پھر مذہبی انتہا پسند آئین پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے ان اقلیتیوں کی وہ انسانی تذلیل اور بے عزتی کریں گے کہ بس اللہ کی پناہ۔ طالبان کی طرح کپڑوں سے لیکر ٹوپی اور ہر ہر میدان میں انکا استحصال کیا جائے گا اور ہم انکے ساتھ وہی سلوک ہوتا دیکھیں گے جس کی کوشش انڈیا میں ہندو انتہا پسند دیگر اقلیتیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔
معاہدے پر عمل کرنا واجب ہے
ان انتہا پسند حضرات کے مؤقف کے بالکل برعکس، آج کے حالات میں جو اسلامی ممالک ہیں، وہی اپنی اپنی مملکتوں میں اسلامی نظام کے نفاظ کے ذمہ دار ہیں۔ چاہے جزیہ کا مسئلہ ہو یا غلامی کا۔ اور اگر انہوں نے ان چیزوں کو رد کیا ہے تو یہ آج کے حالات کے مطابق کیا گیا ہے اور عین اسلامی قانون کے مطابق ہے۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
نیک لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
(البقرة 2:177) (نیک لوگ وہ ہیں جو) نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور جب وعدہ کریں تو اس کی پابندی کرتے ہیں۔
(آل عمران 3:76)ہاں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اللہ سے ڈرا تو اللہ تقوی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ان وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری ہر صورت میں لازم ہے حتی کہ یہاں تک کہ اگر کہیں غیر مسلم، مسلمانوں پر ظلم بھی کر رہے ہوں تو دنیا کے دوسرے مسلمانوں پر ان کی مدد اسی صورت میں کرنا لازم ہے جب ان کے اور اس غیر مسلم قوم کے مابین صلح کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔
(الانفال 8:72) وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں مگر انہوں نے ابھی ہجرت نہیں کی، ان کے ساتھ تمہارا ولاء (ایک دوسرے کی حفاظت) کا رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو تمہارے لئے ان کی مدد کرنا ضروری ہے، مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن کے اور تمہارے مابین معاہدہ ہو۔ (یاد رکھو) کہ جو تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
عرب کے وہ مشرکین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ابتدائی مخاطب تھے، انہیں اللہ تعالی کے عذاب کے قانون کے تحت آپ کا انکار کرنے کی پاداش میں موت کی سزا دے دی گئی تھی۔ ان میں سے بھی جن لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے تھے، ان کی پابندی کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا۔
صلح حدیبیہ میں رسول ص کا معاہدے کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ اصولوں پر ترجیح دینا
اسی طرح کا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے۔ جب کفار کسی مسلمان پر ظلم و ستم کر رہے ہوں تو شریعت کی رو سے واجب ہو جاتا ہے کہ جہاد کر کے ان مسلمانوں کی مدد کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے وقت کفار مکہ مسلمانوں پر انتہائی ظلم و ستم توڑے ہوئے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریعت کے اس جہاد کے حکم کے برعکس کفار سے صلح کر رہے ہیں اور اس میں ایسی شقوں کو مان رہے ہیں جو اسلامی شریعت کے بائی ڈیفالٹ قوانین کے خلاف ہیں، مثلا یہ کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر آئے گا تو اُسے واپس کر دیا جائے گا، مگر اسکا الٹ صحیح نہ ہو گا۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو بالکل کھل کر یہ معاہدہ کر کے روز قیامت تک یہ پیغام دے دیا کہ کفار سے نہ صرف یہ کہ سٹیٹ لیول پر معاہدہ ہو سکتا ہے، بلکہ اس معاہدے کی شقوں کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ قوانین پر اُس وقت تک فوقیت بھی حاصل رہے گی جب تک کہ یہ معاہدہ چلتا رہے گا۔
اس سلسلے میں ایک اور آیت:
لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن
(الممتحنہ:۸)
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
یہ آیت کریمہ صاف طور پر حربی کافر اور غیر حربی کافر میں فرق کر رہی ہے، اور اسکے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کا کہہ رہی ہے۔
مذہبی آزادی کا حق
سید جلال الدین عمری صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے "اسلام اور انسانی حقوق" کے نام سے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں۔
"حقوق انسانی کے علم بردار مذہبی آزادی کو بھی انسان کا ایک حق قرار دیتے ہیں ۔ اسلام نے بہت واضح الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو اپنے دین کا پابند بنا دیتا کہ کوئی اس سے بغاوت نہ کرتا، لیکن اللہ نے مذہب کے معاملے میں اس کو آزادی دی ہے اور اس کی یہ آزادی باقی رہنی چاہیے۔ اسی میں اس کا امتحان ہے۔ حضور ﷺ کے قلب میں فطری طور پر یہ تمنا موج زن تھی کہ آپ کے مخاطبین میں سے ہر ایک کو راہ ہدایت مل جائے۔ آپ سے کہا گیا:
لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدَاھُمْ وَ لٰ۔کِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ (البقرۃ: ۲۷۲)
آپ کی ذمے داری نہیں ہے کہ لازماً انھیں راہِ راست پر لے آئیں ، بلکہ یہ اللہ کا کام ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
یہ اصول بھی بیان ہوا ہے کہ:
لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرۃ:۲۵۶)
دین کے سلسلے میں کوئی جبر نہیں ہے، ہدایت اور ضلالت واضح ہو چکی ہے۔
یعنی اب یہ آدمی کا اختیار ہے کہ وہ جس راہ کو چا ہے اختیار کرے۔
فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ(الکہف:۲۹)
جس کا جی چا ہے ایمان لائے اور جس کا جی چا ہے انکار کر دے۔
قرآن مجید نے کہا کہ مذہب پر گفتگو بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ گفتگو تہذیب کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ ہدایت ہے: وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ(النحل:۱۲۵) یعنی مذہب پر گفتگو ہو تو سلیقے اور تہذیب سے ہو، اس کے لیے غلط اور ناشائستہ انداز نہ اختیار کیا جائے۔ ہمارے علما نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم، اسلامی ریاست میں علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتا، محمد ﷺ کو اللہ کا رسول نہیں تسلیم کرتا تو بھی اسلامی حکومت اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی۔ ہاں اگر وہ بدزبانی پر اتر آئے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں یا حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ یا کسی بھی پیغمبر کی شان میں گستاخی ایک قابل تعزیر جرم ہے، اس کے ارتکاب پر اسلامی ریاست قتل کی سزا تک دے سکتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی مذہب کے بانی یا اس کی محترم شخصیات کی توہین و تحقیر اور اس کے متعلق بد کلامی، سزا کی مستحق ہو گی اور قانون کے مطابق اس پر سزا دی جائے گی۔"
پاکستان کا آئین
عقل کی رہنمائی
غلاموں اور کنیزوں کا مسئلہ ہو، یا پھر آج کے حالات کے تحت جزیہ کا معاملہ ہو، یا پھر مذہب کی تبلیغ کی آزادی یا تبدیلی مذہب کا مسئلہ ہو۔۔۔۔۔ ان سب معاملات میں آپ کی عقل آپ کی مکمل رہنمائی کر رہی ہو گی کہ یہ چیزں انسانیت اور انصاف کے خلاف ہیں۔
چنانچہ اگرچہ غلامی ختم کرنے کے معاملے میں اسلامی شریعت میں کوئی بنیادی اصول یا حکم موجود نہیں، مگر عقل بتاتی ہے کہ آج کے حالات کے تحت اگر تمام اقوام عالم اس غلامی کے خلاف معاہدہ کرتے ہیں تو انسانیت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان حکومتیں بھی اس معاہدے پر دستخط کریں اور جب تک یہ معاہدی قائم ہے، اُسوقت تک اسکی شرائط کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ اصولوں پر فوقیت حاصل ہے۔
یہی حال جزیے، اور تبلیغ کی آزادی اور تبدیلی مذہب کا ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہے "انصاف" کی حکمرانی۔ اللہ قران میں فرماتا ہے:
لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (الممتحنہ:۸)
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
آپ کی عقل آپ کو یہ بات بتلا رہی ہو گی کہ آج کے حالات بدل چکے ہیں اور یہ چیز ناانصافی ہے کہ خود تو مسلمان آزادی لے لیں کہ پوری دنیا میں تبلیغ کر سکیں اور لوگوں کو دین اسلام میں داخل کر سکیں، مگر غیر مسلموں کو اپنی ریاست میں تبلیغ کی اجازت دیں اور نہ کسی کو غیر مذہب قبول کرنے کی۔
اعتراض ہوتا ہے کہ کیا آپ برداشت کر لیں گے کہ کوئی احمدی جماعت آ کر آپ کے گھر تبلیغ کر رہی ہو۔ تو جوابا عرض ہے کہ آپ کو احمدی حضرات کی تبلیغ سے اتنا ڈر کیوں ہے؟ اگر وہ ایک جماعت تبلیغ کے لیے بھیجتے ہیں تو آپ سو جماعتیں تبلیغ کے لیے بھیجئے۔ اگر آپ سچے ہیں تو پھر اس میں ڈرنے یا پریشنان ہونے والی بات کون سی ہے؟
یاد رکھئیے اسلام پر آج یہ الزام اسی لیے ہے کہ اسلام تلوار و زور زبردستی کی بنیاد پر پھیلا ہے کیونکہ یہ انتہا پسند حضرات آج کے حالات کو عقل کے مطابق سمجھ کر اس سے انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔
انتہا پسند حضرات کی جانب سےجوابی دلائل
کچھ انتہا پسند حضرات تو فقط بے پر کی اڑاتے رہے، مگر پھر ان میں سے ایک صاحب نے ان عالمی معاہدوں کی تردید کی کوشش کی۔ انکے جواب کا خلاصہ یہ ہے:
جب کوئی اسلامی ریاست ہی نہیں تو پھر مرتد کے متعلق معاہدے پر عمل کیوں نہیں؟
چنانچہ جب جزیے کا معاملہ آتا، اور جب غلامی کا معاملہ آتا ہے تو انہی انتہا پسندوں کا بہانہ ہوتا ہے آج کے حالات کے مطابق ایک بھی اسلامی ریاست نہیں اور نہ ہی کوئِی امیر المومنین ہے، اور آج جزیہ اسی لیے نہیں ہے۔ اور غلامی اس لیے نہیں کیونکہ جہاد نہیں کیونکہ جہاد اسلامی ریاست اور امیر المومنین کے نہ ہونے کی وجہ سے آج بند ہے۔
مگر جب مسئلہ آتا ہے تبلیغ کی اجازت اور مذہب تبدیل کرنے کا ۔۔۔۔۔ تو پھر یہی انتہا پسند ہوتے ہیں، اور پھر یہی کہتے نظر آتے ہیں یہ آج مسلمانوں کے ملک اسلامی ریاستیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی معاہدہ وغیرہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان کو یورپ و امریکہ میں تبلیغ کی اجازت تو بالکل ٹھیک مگر ہم کسی غیر مسلم کو پاکستان میں تبلیغ کی اجازت نہیں دیں گے۔۔۔۔۔ امریکہ و یورپ و دنیا میں ہر کوئی آزاد کہ اسلام قبول کر لے، مگر اگر کوئی مسلمان دوسرا مذہب قبول کرنا چاہے تو ہم اُسے قتل کر دیں گے۔
پتا نہیں انکو شرم کیسے نہیں آتی ایسی دھٹائی سے ان منافقانہ دو رخے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے۔
ان انتہا پسندوں کا طرز عمل دیکھتے ہوئے بھیڑ کے بچے اور بھیڑئیے کی کہانی یاد آ جاتا ہے جب بہتی ندی کے کنارے بھیڑیا مسلسل جھوٹے بہانہ بناتا ہے اور آخر میں یہ بھیڑ کو ہڑپ کر ہی جاتا ہے۔ یہی معاملہ ان انتہا پسند جنونیوں کا ہے، چاہے یہ مسلم انتہا پسند ہو یا ہندو انتہا پسند یا یہودی و عیسائی انتہا پسند۔ یہ سب کے سب ایک ہی جیسے ظالم ہیں۔
آج یہ انتہا پسند دوبارہ غلامی کو جاری کر دیں تو کیا ہو؟
تو اگر آج ان جہاد کر کے غلام بنانے والوں کی باتوں میں آ کر ان معاہدوں کو غیر اسلامی قرار دے کر توڑدیتے ہیں، تو کل یہ خود محکوم بنے پڑے ہوں گے یا مفرور ہوں گے اور انکی عورتیں بچیاں یورپ و امریکہ کے بازاروں میں بیچی جا رہی ہوں گی۔ [اللہ نہ کرے]
اسی لیے جب ان انتہا پسند جنونیوں کو ایسی حرکتیں کرتا دیکھیں، تو اللہ سے دعا کیا کریں کہ وہ ہمیں دانا دشمن دے دے، مگر ان نادان انتہا پسند جنونیوں سے محفوظ رکھے (امین) کہ جو تباہی و بربادی یہ امت پر لائیں گے وہ کوئی غیر کیا ہی لا سکے گا۔
ذرا یاد کریں وہ وقت جب امریکی طیارے طالبان پر بمباری کر رہے تھے اور طالبان جہاد وغیرہ بھول کر پہاڑوں کی غاروں میں فرار ہوتے، چھپتے پھر رہے تھے، اور وہ بھی اس حالت میں کہ اپنی نہتی معصوم شہری آبادی، عورتوں اور بچوں کو امریکی طیاروں کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ کر۔ تو اگر یہ عالمی معاہدے نہ ہوتے تو سوچیں پھر کہ اس معصوم شہری آبادی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔
کم علمی کے نام پر ہماری "عقلوں" کو طعنے
آخری حربہ ان انتہا پسندوں کا ہے کہ دوسروں پر طرح طرح کے الزامات کی بارش کر دی جائے جس میں سب سے بڑا طعنہ ہے تم چپ رہو تمہارے پاس کوئی علم نہیں اور تمہیں اسلام کا علم ہی نہیں۔
معذرت کے ساتھ کوئی ان علم کا گھمنڈ کرنے والوں اور شیخیاں بگھارنے والوں کو جا کر بتائےکہ شیطان ابلیس تم سب انتہا پسند علم کی شیخی بگھارنے والوں سے زیادہ علم رکھنے والا تھا۔ مگر ایسے علم کا کیا فائدہ کہ جسے شیطان ابلیس فقط ایسے لولے لنگڑے بہانے لانے کے لیے پیش کر رہا تھا کہ"میں افضل کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا"۔
تو جناب، یہ علم نہیں تھا، بلکہ یہ عقل تھی جو بتا رہی تھی کہ شیطان ابلیس اپنے علم کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر غلطی کر رہا ہے۔ علم میں تو وہ تمام فرشتوں سے آگے تھا اور بہت عالم و فاضل تھا، مگر پھر بھی اپنی عقل کا استعمال نہ کر سکا اور یہ نہ دیکھ سکا کہ بے شک علمی دلیل کے مطابق وہ آگ سے بنا ہو، مگر جب اُس کو بنانے والا اللہ اُسے سجدے کا حکم دے رہا ہے تو پھر اسکے آگے کوئی دلیل و حجت نہیں چل سکتی، اور اللہ ایسا علیم ہے جسکا کوئی مقابلہ ہی نہیں اور وہ جو بات جانتا ہے وہ کسی اور کو خبر نہیں۔
اور آج ہزاروں لاکھوں پادری و ربی و عیسائی ہیں جنکا علم بہت سے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے، مگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے، مگر ان کی نسبت ایک بہت کم علم رکھنے والا شخص اسلام قبول کر لیتا ہے۔ کیوں؟ یہ شخص اپنے زیادہ علم کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنی عقل کی وجہ سے اللہ کو پہنچاننے اور اسلام کو صحیح راستہ جان جاتا ہے۔ تو دیں اب ان ہزاروں لاکھوں نو مسلموں کو بے علمی کا طعنہ مگر یہ اللہ کی ودیعت کردہ عقل ہے جو صراط مستقیم کی رہنمائی کر رہی ہوتی ہے۔
اگر آپ کو دعوی ہے کہ مرتد کی سزا کے آج کے حالات کے مطابق آپ کے پاس زیادہ علم ہے، تو لائیے اپنی دلیل اور ہم اسے عقل کے میزان پر پرکھنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔
مگر جب جواب میں علمی دلیل لانے کی بجائے آپ اپنے منافقانہ دوغلے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کریں تو یہ چیز ہماری عقل کے میزان کو دھوکا نہیں دے سکتی، بالکل ایسے ہی جیسے شیطان ابلیس کی یہ لولی لنگڑی دلیل ہماری عقلوں کو دھوکہ نہیں دے سکتی کہ وہ آگے سے بنا تھا اس لیے افضل تھا۔
چنانچہ اپنے ان منافقانہ دوغلے رویوں اور لولے لنگڑے عذروں و بہانوں کو آپ اسلام یا علم کا نام دے کر دھوکہ نہ دیں اور شیطان ابلیس کی سنت کے اس معاملے میں پیروکار نہ بنیں جب وہ اسی علم کے گھمنڈ میں آ کر لنگڑی لولی دلیل دیتا ہے کہ وہ آگ سے بنا ہونے کی وجہ سے افضل ہے۔
یاد رکھئیے، شیطان ابلیس بے شک بہت عالم و فاضل ہو، مگر Final Verdict belongs to AQL یعنی آخری فیصلہ عقل نے کرنا ہے اور انصاف کے میزان پر پورا اترنا ہے۔
[سورۃ البقرہ: 111] ۔۔۔ اگر تم سچے ہو تو دلیل لاؤ۔
تو اب یہ حضرات اپنے علم کی ڈینگیں مارنے کی بجائے لائیں دلیل کہ غیر مسلم اقوام سے معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔
[سورۃ ص: 29] کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے وہ برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور عقلمند لوگ نصیحت حاصل کریں۔
چنانچہ صرف قرآن کو پڑھ کر اسکا علم حاصل کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ اس میں غور و فکر کرنا اور عقل استعمال کر کے نصیحت حاصل کرنے کا حکم ہے۔
[سورۃ یونس: 100] جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ انہیں پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
چنانچہ قرآن تو عقل استعمال کرنے کا حکم دے، مگر یہ انتہا پسند حضرات اپنے علم کی ڈینگیں مار کر عقل کے استعمال کو حرام قرار دیں۔
مذہب تبدیل کرنے والے پر بغاوت کا الزام
مزیہ یہ کہ یہ لوگ برملا یہ الزام لگاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اسلام کو چھوڑ کر غیر مذہب کو قبول کر لے تو وہ بغاوت کا مرتکب ہو گیا ہے اور اس لیے قتل کر دیا جائے گا۔
یاد رکھئے، یہ بہانہ اسلام نے نہیں پیش کیا ہے بلکہ بعد میں آنے والے مسلمان نسلوں کے علماء نے اپنی طرف سے اپنی دلیل کو وزن دینے کے لیے گھڑا ہے۔ چنانچہ اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اور اگر یہ لوگ یہ لولا لنگڑا بہانہ پیش کرنے سے آج کے حالات کے تناظر میں باز نہیں آتے تو پھر یہ ان تمام نو مسلموں کو بغاوت کے جرم میں ایک دن قتل کروا دیں گے جو غیر مسلم ممالک میں اسلام قبول کرتے ہیں (حالانکہ آج کوئی ان نو مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر اذیت کا نشانہ نہیں بناتا اور نہ ہی قتل کرتا ہے)
مودودی صاحب اپنی کتاب "اسلامی ریاست" (صفحہ 510) میں اقلیتوں پر بحث کرتے ہیں اور اسی ضمن میں مرتدوں کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔
چہارم یہ کہ وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ہر قسم کے مرتد کو ہر حال میں ضرور قتل ہی کیا جائے گا۔ حالانکہ ایک جرم کی انتہائی سزا شدید ترین نوعیت جرم پر دی جاتی ہے نہ کہ مجرد جرم پر۔ ایک شخص محض عقائد کی حد تک اسلام سے منحرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ دوسرا شخص اسلام کو اعلانیہ طور پر چھوڑ کر دوسرے مذہب میں جا ملتا ہے۔ تیسرا شخص مرتد ہونے کے بعد اسلام کی مخالفت میں عملی سرگرمیاں دکھانے لگتا ہے۔ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی قانون اس طرح کے تمام مختلف آدمیوں کو ہر حال میں ایک ہی نگاہ سے دیکھے گا؟
کچھ عجیب ہی مولانا صاحب نے لکھا ہے۔ کاش کہ وہ پوری بات بیان کرتے کہ ان تینوں قسموں کے لوگوں کی کیا سزا ہے۔
بہرحال کم از کم یہ لگتا ہے کہ مولانا صاحب پہلے دو قسم کے مرتدوں کو قتل کرنے کے حق میں نہیں۔
تیسری قسم کے متعلق بھی انکی عبارت غیر واضح ہے۔ کیا اسلام کے خلاف سرگرمیاں دکھانے سے انکی مراد مذہب اسلام کے خلاف دلائل دینا ہیں یا پھر "اسلامی ریاست" کے خلاف سازشیں کرنا ہے؟ اگر کوئی اسلامی ریاست کے خلاف سازش کرتا ہے تو پھر تو اس پر بغاوت کا جرم بنتا ہے، مگر بقییہ چیزوں کے متعلق آج کے حالات کے مطابق اجتہاد کرنے کہ اشد ضرورت ہے تاکہ ناانصافی کا خاتمہ کیا جا سکے اور مذہب اسلام کے خلاف غلامی و جزیہ و ارتداد کے قتل جیسی سزاؤں پر پھیلی نفرت کا خاتمہ کیا جا سکے اور اس الزام کا بھی خاتمہ ہو کہ اسلام تلوار کے زور پر زبردستی پھیلا ہے۔
غیر مسلموں سے معاہدے کے تحت سلوک کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ اصولوں پر فوقیت ہونا
جب نماز روزہ، طلاق، شادی بیاہ جیسے معاملات آتے ہیں [جنہیں عرف عام میں پرسنل لاء کہا جاتا ہے] تو اس معاملے میں شریعت کے اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور جو ایسا کرے گا وہ نئی بدعت ضلالت میں مبتلا ہو جائے گا۔
مگر جہاں تک بات ہے سٹیٹ لاء کی، تو اس میں جمود نہیں اور سٹیٹ کو بہت سی باتیں وقت اور حالات کے مطابق طے کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں سے ایک مسئلہ غیر مسلموں سے سلوک کا ہے اور اُنکے حقوق کا ہے۔
مثال کے طور پر اسلام میں غلامی کا مسئلہ تیرہ سو سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ غیر مسلم جو اسلام پر انتہائی تنقید کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہی غلامی کا مسئلہ ہے خصوصا کنیز عورت کا مسئلہ کہ ایک آقا اُسکی مرضی کے بغیر بھی اُس سے ہمبستری کر سکتا ہے، اور پھر خود ہمبستری کر کے اُسے آگے دوسرے آقا کے ہاتھ بیچ سکتا ہے جو پھر اُس سے اُسکی مرضی کے بغیر دوبارہ ہمبستری کر سکتا ہے اور پھر آگے بیچ سکتا ہے۔۔۔۔۔
Sahih Muslim, Book 008, Number 3371:
Abu Sirma said to Abu Sa'id al Khadri (may Allah be pleased with him): 0 Abu Sa'id, did you hear Allah's Messenger (may peace be upon him) mentioning al-'azl? He said: Yes, and added: We went out with Allah's Messenger (may peace be upon him) on the expedition to the Bi'l-Mustaliq and took captive some excellent Arab women; and we desired them, for we were suffering from the absence of our wives, (but at the same time) we also desired ransom for them (by selling them further). So we decided to have sexual intercourse with them but by observing 'azl (Withdrawing the male sexual organ before emission of semen to avoid-conception). But we said: We are doing an act whereas Allah's Messenger is amongst us; why not ask him? So we asked Allah's Messenger (may peace be upon him), and he said: It does not matter if you do not do it, for every soul that is to be born up to the Day of Resurrection will be born.
غیر مسلموں کا اسلام پر یہ سب سے بڑے اعتراضوں میں سے ایک اعتراض ہے، اور یقینا کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا، مگر جو یہ غیر مسلم دیکھنے کے قابل نہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ یہ حکم صرف اور صرف اُس خاص وقت کے لیے تھا کیونکہ کفار اگر جنگ میں فتح پاتے تھے تو وہ بھی مسلمان عورتوں کو یا تو قتل کر دیتے تھے یا پھر کنیزیں بنا کر یہی سلوک، بلکہ اس سے بھی برا سلوک کرتے تھے۔ چنانچہ اسلام کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اس وقت ان کفار عورتوں کو مکمل آزادی دے دیتا اور جواب میں کفار کو اپنے پیچھے اپنی عورتوں کا کوئی خوف نہ رہتا اور وہ مزید بڑھ چڑھ کر مسلمانوں پر حملے کرتے۔مگر پھر پچھلی صدی میں ایک وقت آیا جب تمام اقوام عالم اس غلامی کے مسئلے کے خلاف متحدہ ہو گئے اور اس معاملے پر رضامند ہو گئے کہ اس چیز کو ختم کرنا ہے اور جنگوں میں قیدی بنائے جانے والوں کو اب غلام نہیں بنایا جائے گا۔
چنانچہ یہ چیز مسلمان حکومتوں کے لیے بھی حلال ہو گئی کہ وہ شریعت کے اس قانون میں تبدیلی وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی کریں، کیونکہ شریعت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ غیر مسلموں سے معاہدے کے تحت سلوک کرنے کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ By Default والے اصولوں پر فوقیت حاصل ہے۔
چنانچہ غلامی کا خاتمہ شریعت میں اپنی طرف سے نئی بدعت و ضلالت کرنا نہیں ہے، بلکہ عین شریعت کے مطابق ہے۔
غیر مسلموں سے جزیہ اور انکی عبادتگاہوں کی تعمیر
اگر ہم نے ان انتہا پسندوں کے ہاتھ میں پاکستان کے امور چھوڑ دیے تو اگلے دن پاکستان کی تمام اقلیتوں سے جزیہ ٹیکس لینے نظر آئیں گے، حالانکہ آج کی دنیا کی صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو رہنے کے لیے کہیں پر بھی جذیہ نہیں دینا پڑتا۔
کیا آپ کو طالبان یاد ہیں جنہوں نے حال ہی میں پاکستان کی اورکزئی ایجنسی میں اقلیتی سکھ کمیونٹی پر کڑوڑوں کا جزیہ نافذ کر دیا اور نہ دینے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی دی، اور اسی وجہ سے یہ پاکستانی سکھ شہری اپنے آبائی گھر چھوڑ کر وہاں سے ہجرت کر گئے۔
پاکستان کی عوام کی اکثریت ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ فکر کے علماء نے بھی بڑھ چڑھ کر طالبان کی مذمت کی۔ کیوں؟ جواب یہ ہے کہ اگرچہ کہ جزیہ کا وجود اسلامی شریعت میں موجود ہے، مگر آج کی دنیا کے حالات کے مطابق یہ ٹیکس غیر مسلم آبادی پر نہیں لگایا جا سکتا۔
جہاں تک غیر مسلم اقلیتوں کی اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کا تعلق ہے، تو اسکا مسئلہ جزیے سے کچھ زیادہ گھمبیر ہے۔ اگرچہ زبانی کلامی کہا تو جاتا ہے کہ غیر مسلموں کو اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت ہے، مگر عملی طور پر جب بھی اقلیتیں کسی علاقے میں اپنی عبادتگاہ تعمیر کرنا چاہیں تو انتہا پسند اسکے خلاف متحرک ہو جاتے ہیں اور پاکستان میں اقلیتوں کے لیے اپنی نئی عبادتگاہ تعمیر کرنا جوئے شیر لانا ہے۔
نوٹ:
بہت سے انتہا پسند صاف کہتے ہیں اقلیتوں کی جو پرانی عبادتگاہیں ہیں، بس وہی باقی رہیں گی اور انہیں کوئی نئی عبادتگاہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کچھ ذرا زیادہ کھلے ذہین کے ہیں، تو وہ کہتے ہیں جو نئے شہر مسلمان آباد کرتے ہیں جیسے کوفہ و بصرہ تو ان میں غیر مسلموں کو اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں [مولانا مودودی، کتاب اسلامی ریاست، صفحہ 502 تا 510]
اب یہ حیرت کی بات ہی ہے کہ آج کی تاریخ میں اسلام آباد کا شہر مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے تو اب غیر مسلموں کو اجازت ہی نہیں کہ اس میں اپنی کوئی عبادتگاہ تعمیر کر کے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گذار سکیں۔ ایسا ہی تھا تو یہ بھی حرام قرار دیتے کہ مسلمانوں کے بسائے ہوئے شہر میں غیر مسلم بس نہیں سکتے۔
تو مولانا مودودی ہوں یا کوئی اور، ان سے عاجزانہ گذارش اور درخواست ہے کہ اپنے فتوؤں پر نظر ثانی فرمائیں، آج کی دنیا کے حالات کو سمجھیں کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو اپنی عبادتگاہیں تعمیر کرنے کی اجازت ہے، لہذا آپ بھی اپنے ملک میں غیر مسلموں کو برابر کے حقوق دیں اور صدیوں پرانے انہی فتوؤں پر عمل نہ کرتے رہیں جن کا آج کے حالات سے کوئی تعلق نہیں۔
غیر مسلموں کو تبلیغ کی اجازت اور مرتد کا مسئلہ
اور پھر آخر میں سب سے گھمبیر اور خطرناک مسئلہ جس میں دونوں انتہائیں extremes پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف مرتد کی سزا قتل کی بھرپور طریقے سے مخالفت ہوتی ہے تو دوسری طرف انتہائی سختی سے مرتد کو قتل کر دینے کے مؤقف کا دفاع کیا جاتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صدیوں پرانے حالات کے مطابق بنائے گئے معاشرتی قوانین جوں کے توں آج نافذ نہیں ہو سکتے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے مرتد کی جو سزا تھی وہ اُس وقت کے حالات کے مطابق تھی کہ اُس دور میں کفار اپنے علاقوں میں کسی کو اسلام قبول کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے، اور اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو اُس پر تشدد اور اذیت دینا شروع کر دیتے تھے۔ جناب عمار یاسر کے والدین اسلام کی تاریخ کے پہلے شہداء میں تھے اور اُن کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کفار کے علاقوں میں اسلام قبول کیا تھا اور اسی جرم کی پاداش میں انہیں اذیتیں دے دے کر مارا گیا۔
اسی طرح خاص حالات کےتحت ایک واقعہ وہ ہے جب فتح مکہ کے بعد کفار کو جزیہ قبول کرنے کی کوئی چوائس نہیں دی گی، بلکہ ان کو یا تو اسلام قبول کرنا تھا یا پھر انہیں قتل کر دیا جانا تھا۔ یہ فیصلہ صرف اور صرف اُس وقت کے خاص حالات کے تحت کیا گیا اور اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہر کافر ملک کو فتح کرنے کے بعد انہیں زبردستی مسلمان بنانا ہے یا پھر قتل کر دینا۔ بلکہ دوسرے حالات میں ان کفار کو اس بات کی اجازت بھی ہے کہ وہ جزیہ دے کر اسلامی حکومت کی پناہ میں آ جائیں اور پھر اپنے عقیدے پر قائم رہیں اور اس پر عمل کریں۔
آج کی دنیا کے حالات مگر مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو تبلیغ کی کھلی اجازت ہے۔ آج اس تبلیغ کے نتیجے میں ہر شخص اسلام قبول کرنے کی آزادی رکھتا ہے اور اس کو اذیتوں سے دوچار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی قتل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ تمام مسلم ممالک کو آج کے حالات کا جائزہ لینا چاہیے، انہیں سمجھنا چاہیے اور اسی کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ آج جب مسلمان یکطرفہ ٹریفک چلاتے ہوئے اپنی تبلیغ کا حق تو مانتا ہے، دوسروں کو اسلام میں داخل کرنے کا حق تو مانتا ہے، مگر جب اسکی اپنی باری آتی ہے تو غیر مسلموں کو تبلیغ کی اجازت ہے اور نہ کسی مسلمان کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی بلکہ ان پر قتل کی سزا ہے، تو یہ چیز اسلام پر بہت بُرا نام لاتی ہے اور اسکی بدنامی کا باعث ہے اور اسلام دشمنوں کو یہ الزام لگانے کا موقع ملتا ہے کہ اسلام فقط تلوار اور زور زبردستی کے بل بوتے پر پھیلا ہے۔
فیصلہ ہمیں آج کرنا ہے کہ ہم آج کی دنیا کے حالات کے تناظر میں خود کو، مسلمان قوم کو کس صورت میں پیش کرتے ہیں۔ یا تو ہم پاکستان کے آئین کا احترام کر لیں جو اقلیتوں کو مسلمان شہریوں کے برابر کے حقوق عطا کر رہا ہے، ورنہ پھر مذہبی انتہا پسند آئین پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے ان اقلیتیوں کی وہ انسانی تذلیل اور بے عزتی کریں گے کہ بس اللہ کی پناہ۔ طالبان کی طرح کپڑوں سے لیکر ٹوپی اور ہر ہر میدان میں انکا استحصال کیا جائے گا اور ہم انکے ساتھ وہی سلوک ہوتا دیکھیں گے جس کی کوشش انڈیا میں ہندو انتہا پسند دیگر اقلیتیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔
معاہدے پر عمل کرنا واجب ہے
ان انتہا پسند حضرات کے مؤقف کے بالکل برعکس، آج کے حالات میں جو اسلامی ممالک ہیں، وہی اپنی اپنی مملکتوں میں اسلامی نظام کے نفاظ کے ذمہ دار ہیں۔ چاہے جزیہ کا مسئلہ ہو یا غلامی کا۔ اور اگر انہوں نے ان چیزوں کو رد کیا ہے تو یہ آج کے حالات کے مطابق کیا گیا ہے اور عین اسلامی قانون کے مطابق ہے۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
نیک لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
(البقرة 2:177) (نیک لوگ وہ ہیں جو) نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور جب وعدہ کریں تو اس کی پابندی کرتے ہیں۔
(آل عمران 3:76)ہاں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اللہ سے ڈرا تو اللہ تقوی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ان وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری ہر صورت میں لازم ہے حتی کہ یہاں تک کہ اگر کہیں غیر مسلم، مسلمانوں پر ظلم بھی کر رہے ہوں تو دنیا کے دوسرے مسلمانوں پر ان کی مدد اسی صورت میں کرنا لازم ہے جب ان کے اور اس غیر مسلم قوم کے مابین صلح کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔
(الانفال 8:72) وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں مگر انہوں نے ابھی ہجرت نہیں کی، ان کے ساتھ تمہارا ولاء (ایک دوسرے کی حفاظت) کا رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو تمہارے لئے ان کی مدد کرنا ضروری ہے، مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن کے اور تمہارے مابین معاہدہ ہو۔ (یاد رکھو) کہ جو تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
عرب کے وہ مشرکین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ابتدائی مخاطب تھے، انہیں اللہ تعالی کے عذاب کے قانون کے تحت آپ کا انکار کرنے کی پاداش میں موت کی سزا دے دی گئی تھی۔ ان میں سے بھی جن لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے تھے، ان کی پابندی کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا۔
صلح حدیبیہ میں رسول ص کا معاہدے کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ اصولوں پر ترجیح دینا
اسی طرح کا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے۔ جب کفار کسی مسلمان پر ظلم و ستم کر رہے ہوں تو شریعت کی رو سے واجب ہو جاتا ہے کہ جہاد کر کے ان مسلمانوں کی مدد کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے وقت کفار مکہ مسلمانوں پر انتہائی ظلم و ستم توڑے ہوئے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریعت کے اس جہاد کے حکم کے برعکس کفار سے صلح کر رہے ہیں اور اس میں ایسی شقوں کو مان رہے ہیں جو اسلامی شریعت کے بائی ڈیفالٹ قوانین کے خلاف ہیں، مثلا یہ کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر آئے گا تو اُسے واپس کر دیا جائے گا، مگر اسکا الٹ صحیح نہ ہو گا۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو بالکل کھل کر یہ معاہدہ کر کے روز قیامت تک یہ پیغام دے دیا کہ کفار سے نہ صرف یہ کہ سٹیٹ لیول پر معاہدہ ہو سکتا ہے، بلکہ اس معاہدے کی شقوں کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ قوانین پر اُس وقت تک فوقیت بھی حاصل رہے گی جب تک کہ یہ معاہدہ چلتا رہے گا۔
اس سلسلے میں ایک اور آیت:
لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن
(الممتحنہ:۸)
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
یہ آیت کریمہ صاف طور پر حربی کافر اور غیر حربی کافر میں فرق کر رہی ہے، اور اسکے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کا کہہ رہی ہے۔
مذہبی آزادی کا حق
سید جلال الدین عمری صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے "اسلام اور انسانی حقوق" کے نام سے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں۔
"حقوق انسانی کے علم بردار مذہبی آزادی کو بھی انسان کا ایک حق قرار دیتے ہیں ۔ اسلام نے بہت واضح الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو اپنے دین کا پابند بنا دیتا کہ کوئی اس سے بغاوت نہ کرتا، لیکن اللہ نے مذہب کے معاملے میں اس کو آزادی دی ہے اور اس کی یہ آزادی باقی رہنی چاہیے۔ اسی میں اس کا امتحان ہے۔ حضور ﷺ کے قلب میں فطری طور پر یہ تمنا موج زن تھی کہ آپ کے مخاطبین میں سے ہر ایک کو راہ ہدایت مل جائے۔ آپ سے کہا گیا:
لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدَاھُمْ وَ لٰ۔کِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ (البقرۃ: ۲۷۲)
آپ کی ذمے داری نہیں ہے کہ لازماً انھیں راہِ راست پر لے آئیں ، بلکہ یہ اللہ کا کام ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
یہ اصول بھی بیان ہوا ہے کہ:
لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرۃ:۲۵۶)
دین کے سلسلے میں کوئی جبر نہیں ہے، ہدایت اور ضلالت واضح ہو چکی ہے۔
یعنی اب یہ آدمی کا اختیار ہے کہ وہ جس راہ کو چا ہے اختیار کرے۔
فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ(الکہف:۲۹)
جس کا جی چا ہے ایمان لائے اور جس کا جی چا ہے انکار کر دے۔
قرآن مجید نے کہا کہ مذہب پر گفتگو بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ گفتگو تہذیب کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ ہدایت ہے: وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ(النحل:۱۲۵) یعنی مذہب پر گفتگو ہو تو سلیقے اور تہذیب سے ہو، اس کے لیے غلط اور ناشائستہ انداز نہ اختیار کیا جائے۔ ہمارے علما نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم، اسلامی ریاست میں علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتا، محمد ﷺ کو اللہ کا رسول نہیں تسلیم کرتا تو بھی اسلامی حکومت اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی۔ ہاں اگر وہ بدزبانی پر اتر آئے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں یا حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ یا کسی بھی پیغمبر کی شان میں گستاخی ایک قابل تعزیر جرم ہے، اس کے ارتکاب پر اسلامی ریاست قتل کی سزا تک دے سکتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی مذہب کے بانی یا اس کی محترم شخصیات کی توہین و تحقیر اور اس کے متعلق بد کلامی، سزا کی مستحق ہو گی اور قانون کے مطابق اس پر سزا دی جائے گی۔"
پاکستان کا آئین
Freedom to profess religion and to manage religious institutions.
Subject to law, public order and morality:-
(a) every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion; and
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions
پاکستان کا آئین ابھی تک زبانی کلامی ہی سہی، مگر کھل کر ہر شہری کو اپنے عقائد کی تبلیغ کا حق دے رہا ہے اور ہر عقیدہ قبول کرنے کا بھی حق دے رہا ہے۔Subject to law, public order and morality:-
(a) every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion; and
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions
عقل کی رہنمائی
غلاموں اور کنیزوں کا مسئلہ ہو، یا پھر آج کے حالات کے تحت جزیہ کا معاملہ ہو، یا پھر مذہب کی تبلیغ کی آزادی یا تبدیلی مذہب کا مسئلہ ہو۔۔۔۔۔ ان سب معاملات میں آپ کی عقل آپ کی مکمل رہنمائی کر رہی ہو گی کہ یہ چیزں انسانیت اور انصاف کے خلاف ہیں۔
چنانچہ اگرچہ غلامی ختم کرنے کے معاملے میں اسلامی شریعت میں کوئی بنیادی اصول یا حکم موجود نہیں، مگر عقل بتاتی ہے کہ آج کے حالات کے تحت اگر تمام اقوام عالم اس غلامی کے خلاف معاہدہ کرتے ہیں تو انسانیت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان حکومتیں بھی اس معاہدے پر دستخط کریں اور جب تک یہ معاہدی قائم ہے، اُسوقت تک اسکی شرائط کو شریعت کے بائی ڈیفالٹ اصولوں پر فوقیت حاصل ہے۔
یہی حال جزیے، اور تبلیغ کی آزادی اور تبدیلی مذہب کا ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہے "انصاف" کی حکمرانی۔ اللہ قران میں فرماتا ہے:
لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (الممتحنہ:۸)
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
آپ کی عقل آپ کو یہ بات بتلا رہی ہو گی کہ آج کے حالات بدل چکے ہیں اور یہ چیز ناانصافی ہے کہ خود تو مسلمان آزادی لے لیں کہ پوری دنیا میں تبلیغ کر سکیں اور لوگوں کو دین اسلام میں داخل کر سکیں، مگر غیر مسلموں کو اپنی ریاست میں تبلیغ کی اجازت دیں اور نہ کسی کو غیر مذہب قبول کرنے کی۔
اعتراض ہوتا ہے کہ کیا آپ برداشت کر لیں گے کہ کوئی احمدی جماعت آ کر آپ کے گھر تبلیغ کر رہی ہو۔ تو جوابا عرض ہے کہ آپ کو احمدی حضرات کی تبلیغ سے اتنا ڈر کیوں ہے؟ اگر وہ ایک جماعت تبلیغ کے لیے بھیجتے ہیں تو آپ سو جماعتیں تبلیغ کے لیے بھیجئے۔ اگر آپ سچے ہیں تو پھر اس میں ڈرنے یا پریشنان ہونے والی بات کون سی ہے؟
یاد رکھئیے اسلام پر آج یہ الزام اسی لیے ہے کہ اسلام تلوار و زور زبردستی کی بنیاد پر پھیلا ہے کیونکہ یہ انتہا پسند حضرات آج کے حالات کو عقل کے مطابق سمجھ کر اس سے انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔
انتہا پسند حضرات کی جانب سےجوابی دلائل
کچھ انتہا پسند حضرات تو فقط بے پر کی اڑاتے رہے، مگر پھر ان میں سے ایک صاحب نے ان عالمی معاہدوں کی تردید کی کوشش کی۔ انکے جواب کا خلاصہ یہ ہے:
- انہوں نے غلامی کے متعلق ان عالمی معاہدوں کو اسلام کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ اسلام میں غلامی بالکل جاری و ساری ہے اور آجکل یہ اس لیے بند ہے کیونکہ اسلامی ریاست اور امیر المومنین موجود نہیں ہیں۔ اور صرف اس کی وجہ سے آج جہاد رکا ہوا ہے۔ تو جیسے ہی یہ اسلامی حکومت قائم ہوتی اور امیر المومنین کا قیام ہوتا ہے، تو پھر سے جہاد شروع ہو جائے گا اور جنگی قیدیوں کو غلام اور کنیز بنایا جائے گا۔
- اور دوسرا طعنہ ان کی طرف سے ہمیشہ کی طرح یہ ہے کہ تم لوگ کم علم ہو۔۔۔ اور پھر اس کم علمی کے طعنے کے بعد اور بہت سے الزامات لگا کر برا بھلا کہا جاتا ہے جیسے اسلام دشمن ہونا، دل سے اسلام کے خلاف ہونا (یعنی منافق)، استعمار کا ایجنٹ ہونا وغیرہ وغیرہ۔
جب کوئی اسلامی ریاست ہی نہیں تو پھر مرتد کے متعلق معاہدے پر عمل کیوں نہیں؟
چنانچہ جب جزیے کا معاملہ آتا، اور جب غلامی کا معاملہ آتا ہے تو انہی انتہا پسندوں کا بہانہ ہوتا ہے آج کے حالات کے مطابق ایک بھی اسلامی ریاست نہیں اور نہ ہی کوئِی امیر المومنین ہے، اور آج جزیہ اسی لیے نہیں ہے۔ اور غلامی اس لیے نہیں کیونکہ جہاد نہیں کیونکہ جہاد اسلامی ریاست اور امیر المومنین کے نہ ہونے کی وجہ سے آج بند ہے۔
مگر جب مسئلہ آتا ہے تبلیغ کی اجازت اور مذہب تبدیل کرنے کا ۔۔۔۔۔ تو پھر یہی انتہا پسند ہوتے ہیں، اور پھر یہی کہتے نظر آتے ہیں یہ آج مسلمانوں کے ملک اسلامی ریاستیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی معاہدہ وغیرہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان کو یورپ و امریکہ میں تبلیغ کی اجازت تو بالکل ٹھیک مگر ہم کسی غیر مسلم کو پاکستان میں تبلیغ کی اجازت نہیں دیں گے۔۔۔۔۔ امریکہ و یورپ و دنیا میں ہر کوئی آزاد کہ اسلام قبول کر لے، مگر اگر کوئی مسلمان دوسرا مذہب قبول کرنا چاہے تو ہم اُسے قتل کر دیں گے۔
پتا نہیں انکو شرم کیسے نہیں آتی ایسی دھٹائی سے ان منافقانہ دو رخے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے۔
ان انتہا پسندوں کا طرز عمل دیکھتے ہوئے بھیڑ کے بچے اور بھیڑئیے کی کہانی یاد آ جاتا ہے جب بہتی ندی کے کنارے بھیڑیا مسلسل جھوٹے بہانہ بناتا ہے اور آخر میں یہ بھیڑ کو ہڑپ کر ہی جاتا ہے۔ یہی معاملہ ان انتہا پسند جنونیوں کا ہے، چاہے یہ مسلم انتہا پسند ہو یا ہندو انتہا پسند یا یہودی و عیسائی انتہا پسند۔ یہ سب کے سب ایک ہی جیسے ظالم ہیں۔
آج یہ انتہا پسند دوبارہ غلامی کو جاری کر دیں تو کیا ہو؟
تو اگر آج ان جہاد کر کے غلام بنانے والوں کی باتوں میں آ کر ان معاہدوں کو غیر اسلامی قرار دے کر توڑدیتے ہیں، تو کل یہ خود محکوم بنے پڑے ہوں گے یا مفرور ہوں گے اور انکی عورتیں بچیاں یورپ و امریکہ کے بازاروں میں بیچی جا رہی ہوں گی۔ [اللہ نہ کرے]
اسی لیے جب ان انتہا پسند جنونیوں کو ایسی حرکتیں کرتا دیکھیں، تو اللہ سے دعا کیا کریں کہ وہ ہمیں دانا دشمن دے دے، مگر ان نادان انتہا پسند جنونیوں سے محفوظ رکھے (امین) کہ جو تباہی و بربادی یہ امت پر لائیں گے وہ کوئی غیر کیا ہی لا سکے گا۔
ذرا یاد کریں وہ وقت جب امریکی طیارے طالبان پر بمباری کر رہے تھے اور طالبان جہاد وغیرہ بھول کر پہاڑوں کی غاروں میں فرار ہوتے، چھپتے پھر رہے تھے، اور وہ بھی اس حالت میں کہ اپنی نہتی معصوم شہری آبادی، عورتوں اور بچوں کو امریکی طیاروں کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ کر۔ تو اگر یہ عالمی معاہدے نہ ہوتے تو سوچیں پھر کہ اس معصوم شہری آبادی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔
کم علمی کے نام پر ہماری "عقلوں" کو طعنے
آخری حربہ ان انتہا پسندوں کا ہے کہ دوسروں پر طرح طرح کے الزامات کی بارش کر دی جائے جس میں سب سے بڑا طعنہ ہے تم چپ رہو تمہارے پاس کوئی علم نہیں اور تمہیں اسلام کا علم ہی نہیں۔
معذرت کے ساتھ کوئی ان علم کا گھمنڈ کرنے والوں اور شیخیاں بگھارنے والوں کو جا کر بتائےکہ شیطان ابلیس تم سب انتہا پسند علم کی شیخی بگھارنے والوں سے زیادہ علم رکھنے والا تھا۔ مگر ایسے علم کا کیا فائدہ کہ جسے شیطان ابلیس فقط ایسے لولے لنگڑے بہانے لانے کے لیے پیش کر رہا تھا کہ"میں افضل کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا"۔
تو جناب، یہ علم نہیں تھا، بلکہ یہ عقل تھی جو بتا رہی تھی کہ شیطان ابلیس اپنے علم کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر غلطی کر رہا ہے۔ علم میں تو وہ تمام فرشتوں سے آگے تھا اور بہت عالم و فاضل تھا، مگر پھر بھی اپنی عقل کا استعمال نہ کر سکا اور یہ نہ دیکھ سکا کہ بے شک علمی دلیل کے مطابق وہ آگ سے بنا ہو، مگر جب اُس کو بنانے والا اللہ اُسے سجدے کا حکم دے رہا ہے تو پھر اسکے آگے کوئی دلیل و حجت نہیں چل سکتی، اور اللہ ایسا علیم ہے جسکا کوئی مقابلہ ہی نہیں اور وہ جو بات جانتا ہے وہ کسی اور کو خبر نہیں۔
اور آج ہزاروں لاکھوں پادری و ربی و عیسائی ہیں جنکا علم بہت سے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے، مگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے، مگر ان کی نسبت ایک بہت کم علم رکھنے والا شخص اسلام قبول کر لیتا ہے۔ کیوں؟ یہ شخص اپنے زیادہ علم کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنی عقل کی وجہ سے اللہ کو پہنچاننے اور اسلام کو صحیح راستہ جان جاتا ہے۔ تو دیں اب ان ہزاروں لاکھوں نو مسلموں کو بے علمی کا طعنہ مگر یہ اللہ کی ودیعت کردہ عقل ہے جو صراط مستقیم کی رہنمائی کر رہی ہوتی ہے۔
اگر آپ کو دعوی ہے کہ مرتد کی سزا کے آج کے حالات کے مطابق آپ کے پاس زیادہ علم ہے، تو لائیے اپنی دلیل اور ہم اسے عقل کے میزان پر پرکھنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔
مگر جب جواب میں علمی دلیل لانے کی بجائے آپ اپنے منافقانہ دوغلے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کریں تو یہ چیز ہماری عقل کے میزان کو دھوکا نہیں دے سکتی، بالکل ایسے ہی جیسے شیطان ابلیس کی یہ لولی لنگڑی دلیل ہماری عقلوں کو دھوکہ نہیں دے سکتی کہ وہ آگے سے بنا تھا اس لیے افضل تھا۔
چنانچہ اپنے ان منافقانہ دوغلے رویوں اور لولے لنگڑے عذروں و بہانوں کو آپ اسلام یا علم کا نام دے کر دھوکہ نہ دیں اور شیطان ابلیس کی سنت کے اس معاملے میں پیروکار نہ بنیں جب وہ اسی علم کے گھمنڈ میں آ کر لنگڑی لولی دلیل دیتا ہے کہ وہ آگ سے بنا ہونے کی وجہ سے افضل ہے۔
یاد رکھئیے، شیطان ابلیس بے شک بہت عالم و فاضل ہو، مگر Final Verdict belongs to AQL یعنی آخری فیصلہ عقل نے کرنا ہے اور انصاف کے میزان پر پورا اترنا ہے۔
[سورۃ البقرہ: 111] ۔۔۔ اگر تم سچے ہو تو دلیل لاؤ۔
تو اب یہ حضرات اپنے علم کی ڈینگیں مارنے کی بجائے لائیں دلیل کہ غیر مسلم اقوام سے معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔
[سورۃ ص: 29] کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے وہ برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور عقلمند لوگ نصیحت حاصل کریں۔
چنانچہ صرف قرآن کو پڑھ کر اسکا علم حاصل کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ اس میں غور و فکر کرنا اور عقل استعمال کر کے نصیحت حاصل کرنے کا حکم ہے۔
[سورۃ یونس: 100] جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ انہیں پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
چنانچہ قرآن تو عقل استعمال کرنے کا حکم دے، مگر یہ انتہا پسند حضرات اپنے علم کی ڈینگیں مار کر عقل کے استعمال کو حرام قرار دیں۔
مذہب تبدیل کرنے والے پر بغاوت کا الزام
مزیہ یہ کہ یہ لوگ برملا یہ الزام لگاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اسلام کو چھوڑ کر غیر مذہب کو قبول کر لے تو وہ بغاوت کا مرتکب ہو گیا ہے اور اس لیے قتل کر دیا جائے گا۔
یاد رکھئے، یہ بہانہ اسلام نے نہیں پیش کیا ہے بلکہ بعد میں آنے والے مسلمان نسلوں کے علماء نے اپنی طرف سے اپنی دلیل کو وزن دینے کے لیے گھڑا ہے۔ چنانچہ اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اور اگر یہ لوگ یہ لولا لنگڑا بہانہ پیش کرنے سے آج کے حالات کے تناظر میں باز نہیں آتے تو پھر یہ ان تمام نو مسلموں کو بغاوت کے جرم میں ایک دن قتل کروا دیں گے جو غیر مسلم ممالک میں اسلام قبول کرتے ہیں (حالانکہ آج کوئی ان نو مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر اذیت کا نشانہ نہیں بناتا اور نہ ہی قتل کرتا ہے)
مودودی صاحب اپنی کتاب "اسلامی ریاست" (صفحہ 510) میں اقلیتوں پر بحث کرتے ہیں اور اسی ضمن میں مرتدوں کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔
چہارم یہ کہ وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ہر قسم کے مرتد کو ہر حال میں ضرور قتل ہی کیا جائے گا۔ حالانکہ ایک جرم کی انتہائی سزا شدید ترین نوعیت جرم پر دی جاتی ہے نہ کہ مجرد جرم پر۔ ایک شخص محض عقائد کی حد تک اسلام سے منحرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ دوسرا شخص اسلام کو اعلانیہ طور پر چھوڑ کر دوسرے مذہب میں جا ملتا ہے۔ تیسرا شخص مرتد ہونے کے بعد اسلام کی مخالفت میں عملی سرگرمیاں دکھانے لگتا ہے۔ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی قانون اس طرح کے تمام مختلف آدمیوں کو ہر حال میں ایک ہی نگاہ سے دیکھے گا؟
کچھ عجیب ہی مولانا صاحب نے لکھا ہے۔ کاش کہ وہ پوری بات بیان کرتے کہ ان تینوں قسموں کے لوگوں کی کیا سزا ہے۔
بہرحال کم از کم یہ لگتا ہے کہ مولانا صاحب پہلے دو قسم کے مرتدوں کو قتل کرنے کے حق میں نہیں۔
تیسری قسم کے متعلق بھی انکی عبارت غیر واضح ہے۔ کیا اسلام کے خلاف سرگرمیاں دکھانے سے انکی مراد مذہب اسلام کے خلاف دلائل دینا ہیں یا پھر "اسلامی ریاست" کے خلاف سازشیں کرنا ہے؟ اگر کوئی اسلامی ریاست کے خلاف سازش کرتا ہے تو پھر تو اس پر بغاوت کا جرم بنتا ہے، مگر بقییہ چیزوں کے متعلق آج کے حالات کے مطابق اجتہاد کرنے کہ اشد ضرورت ہے تاکہ ناانصافی کا خاتمہ کیا جا سکے اور مذہب اسلام کے خلاف غلامی و جزیہ و ارتداد کے قتل جیسی سزاؤں پر پھیلی نفرت کا خاتمہ کیا جا سکے اور اس الزام کا بھی خاتمہ ہو کہ اسلام تلوار کے زور پر زبردستی پھیلا ہے۔