یوسفی اقوالِ یوسفی

شمشاد

لائبریرین
پہاڑ اور ادھیڑ عورت دراصل آئل پینٹنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں ذرا فاصلے سے دیکھنا چاہیے۔ (خاکم بدہن)
 

شمشاد

لائبریرین
35 تک پہنچتے پہنچتے عورت مصرف SPHINX (ابو الہول) ہو جاتی ہے۔ چہرہ عورت کا اور دھڑ وغیرہ شیر ببر کا۔ (زرگزشت)
 

شمشاد

لائبریرین
تنگ دستی نہ ہو تو تندرست آدمی کی تمنا کا دوسرا قدم گرہستی حدود کے باہر پڑتا ہے۔ (زر گزشت)
 

شمشاد

لائبریرین
عورت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی۔ (زرگزشت)
 
مشتاق احمد یوسفی

ایک چشم دید واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ اس صدی کی تیسری دہائی میں ایک خاتون نے جو اردو میں معمولی شد بد رکھتی تھی، اس زمانے کا مقبول عام ناول “شوکت آرا بیگم” پڑھا، جس کی ہیروئن کا نام شوکت آرا اور معاون کردار کا نام فردوس تھا۔ ان کے جب بیٹیاں ہوئیں تو دونوں کے یہی نام رکھے گئے۔ ایک کردار کا نام ادریس اور دوسرے خدائی خوار کا اچھن تھا۔ یہ دونوں انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو بطور نام اور عرفیت بخش دیے۔ بچے کل چار دستیاب تھے جبکہ ناول میں ہیرو کو چھوڑ کر ابھی ایک اور اہم کردار پیارے میاں نامی ولن باقی رہ گیا تھا۔ چنانچہ ان دونوں ناموں اور دہرے رول کا بوجھ بڑے بیٹے کو ہی اٹھانا پڑا جس کا نام ہیرو کے نام پر مشتاق احمد رکھا گیا تھا۔ یہ سادہ لوح خاتون میری ماں تھی۔ بحمداللہ! ناول کی پوری کاسٹ، باستثنائے شوکت آرا، جس کا طفولیت میں ہی انتقال ہو گیا تھا، زندہ و سلامت ہے۔ والدہ کی بڑی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں اور عرب جا کر بدوؤں کا مفت علاج کروں، اس لیے کہ ناول کے ہیرو نے یہی کیا تھا۔ مولا کا بڑا کرم ہے کہ ڈاکٹر نہ بن سکا۔ ورنہ اتنی خراب صحت رکھنے والے ڈاکٹر کے پاس کون پھٹکتا۔ ساری عمر کان میں اسٹیتھس کوپ لگائے اپنے ہی دل کی دھڑکنیں سنتے گزرتی۔ البتہ ادھر دو سال سے مجھے بھی سعودی عرب، بحرین، قطر، عمان اور عرب امارات کی خاک نہیں تیل چھاننے اور شیوخ کی خدمت کی سعادت نصیب ہوتی رہی ہے۔ ناول کے بقیہ پلاٹ کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو ادب کبھی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوا وہ ذرا دیدہ عبرت نگاہ سے اس عاجز کو دیکھیں۔ یہ ہے کچا چٹھا۔
 
Top