وہ پہلے نادرا جاکے بے فارم بنوایں گے
اپنے ہی گھر جانے کے لئے سکونت کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔ جن بچوں کے شناختی کارڈ نہیں بنے وہ گھر کیسے جائیں گے؟
انہوں نے اتفاق فونڈری کو بھی اسی طرح چلایا تھا جس طرح اب ملک چلا رہے ہیں۔۔۔ اتفاق فونڈری سے ہی انہوں نے ملک میں اپنی لاتعداد شوگر ملیں، پیپر ملیں اور ٹیکسٹائل ملیں قائم کیں اور خود اتفاق فونڈری کا دیوالیہ نکل گیا۔۔۔ اور پاکستان سے بھی انہوں نے بیشمار پیسہ باہر نکال کر کئی ملکوں میں اپنی بزنس ایمپائرز کھڑی کردیں اور قیمتی جائیدادیں بنالیں، لیکن ملک کی حالت کی بھی وہی کردی ہے جو اس وقت اتفاق فونڈریز کی ہے۔۔۔
یہ اک تصویر ہزار خبروں پہ بھاری ہے ۔۔۔۔
شہری کنٹینرز کے نیچے رینگنے پر مجبور
اس ساری صورتحال کا ذمہ دار طاہرالقادری ہے۔ جو مسلسل اپنے کارکنوں کو فساد برپا کرنے پر اکسا رہا ہے۔ کنٹینروں کے بارے میں عدالت یہ فیصلہ دے چکی ہےیہ اک تصویر ہزار خبروں پہ بھاری ہے ۔۔۔۔
منتخب حکومت کی بوکھلاہٹ اور نا اہلی کی دلیل ۔
اتنی ذلت و تکلیف تو فلسطینی اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزرتے بھی نہیں پاتے ۔۔۔۔
شہری کنٹینرز کے نیچے رینگنے پر مجبور
بلاشک اس دن جو کہ عدل و انصاف کا دن ہوگا یہ جسٹس صاحب اپنے فیصلے کی جزا پائیں گے ۔۔۔۔۔اس ساری صورتحال کا ذمہ دار طاہرالقادری ہے۔ جو مسلسل اپنے کارکنوں کو فساد برپا کرنے پر اکسا رہا ہے۔ کنٹینروں کے بارے میں عدالت یہ فیصلہ دے چکی ہے
کنٹینرز لگانے کیخلاف عوامی تحریک کی درخواست خارج
Print VersionAugust 09, 2014 - Updated 1450 PKT
لاہور......لاہور ہائی کورٹ نے لاہور اور دیگر شہروں میں یوم شہداء روکنے کے لیے کنٹینرز کھڑے کرنے کے خلاف 2 درخواستیں مسترد کر دیں،عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سڑکوں پرکنٹینر کھڑے کرنے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے ،دو شہریوں منظور احمد اور محمد عالم نے یوم شہداء روکنے کیلیے مختلف شہروں جبکہ حسن اویس نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں کنٹینر اور رکاوٹیں کھڑی کرنےکے اقدام کولاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا ،عدالت نے منظور احمد اور محمد عالم کی درخواستیں مسترد جبکہ تیسری درخواست پر کارروائی 11 اگست تک ملتوی کر دی ،جسٹس خالد محمود نے ریمارکس دئیے کہ سڑکوں پر کنٹینرز کھڑے کرنے سے شہریوں کے حقوق متاثر نہیں ہوئے ،پولیس ماڈل ٹاؤن اور ملحقہ علاقوں میں شہریوں کو آمدورفت کی سہولتیں فراہم کرے ،عدالت نے پٹرول پمپوں کی بندش کے خلاف ایک درخواست کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
مندرجہ ذیل خبر ملاحظہ کرلیںزرداری کی سیاست کو سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف کا کرپٹ عدلیہ کی بحالی کا مارچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا کہ
قادری صاحب کا اسلام آباد کا دھرنا ۔۔۔۔۔
اس مہارت سے سامنا کیا کہ نہ تو کوئی ادارہ بدنام ہوا نہ ہی کوئی معصوم شہری یا سرکاری اہلکار اپنی جان سے گیا ۔
قادری صاحب کے کارکن تو ظلم سہتے اپنے اپنے شہروں میں یوم شہداء منانے لگے ۔
اوراب عمران خان کے انقلاب مارچ نے رہی سہی نیندیں اڑا دیں حکمرانوں کی ۔۔
یہ ہیں وہ خوف زدہ حکمران جو کہ اک بھاری مینڈیٹ رکھتے ہیں ۔۔۔
کیا تھا جو یوم شہداء منانے دیا جاتا ۔ راستہ کھول عوام کو دکھا دیا جاتا کہ قادری صاحب اور ان کے کارکنان کس قدر " فسادی " ہیں ۔
اب تو لاکھ بہانے کرے حکومت مگر قادری صاحب اور ان کے کارکنان معصوم ثابت ہو چکے ۔ اور حکومت کی اصلیت کھل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت نے یہ کنٹینر شوق سے نہیں لگائے۔ان جسٹس صاحب کی نگاہ میں عوام کس کھیت کی مولی ہیں ۔ جو کہ حقوق بھی رکھتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔؟
ان قابل " جسٹس صاحب " کو یہ تصویر دکھاتے ان سے پوچھا جاتا کہ اس تصویر میں موجود خواتین اگر ان کی ماں یا بہن یا بیٹی ہوتی ۔ توبھی یہی فیصلہ کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ تصویر جسٹس صاحب کے فیصلے پر اک طمانچہ ہے ۔
بلاشک اس دن جو کہ عدل و انصاف کا دن ہوگا یہ جسٹس صاحب اپنے فیصلے کی جزا پائیں گے ۔۔۔۔۔
جو بھی پچھلے ہفتے سے سوشل میڈیا پر نگاہ رکھے ہوئے ہے وہ اس خبر کی حقیقت سے آگاہ ہے کہ یہ " معصوم اہلکار " کن کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھا ۔۔مندرجہ ذیل خبر ملاحظہ کرلیں
’عوامی تحریک کے کارکنوں کے ہاتھوں پولیس اہلکار ہلاک‘
راحیل خان
طاہر القادری نے اپنے کارکنان کو اپنے اپنے شہروں میں ہی ’یوم شہدا‘ منانے کے احکامات جاری کیے ہیں
پنجاب پولیس کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے ایلیٹ پولیس کے ایک سپاہی کو ہلاک اور سو سے زائد پولیس اہکاروں کو زخمی کر دیا ہے جبکہ 22 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا ہے۔
انسپیکٹر جنرل پولیس پنجاب کے ترجمان کی طرف سے سنیچر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان عوامی تحریک کے کارکن گذشتہ 24 گھنٹوں سے پنجاب پولیس پر حملے کر رہے ہیں جس میں 34 سالہ سپاہی محمد فیاض ہلاک جبکہ 130 پولیس افسر اور حکام زخمی ہوئے ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ 22 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا جبکہ بہت سے اہلکار لاپتہ ہیں۔
پنجاب پولیس کے بیان کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے پولیس سٹیشنوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ہے اور سرکاری ریکارڈ کو بھی جلا دیا ہے۔
بیان میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن پولیس پر حملوں میں، کیل دار ڈنڈے، غلیل، پتھر، چاقو اور دیگر اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔
آئی جی پی پنجاب کی ترجمان کی طرف سے جاری کردہ بیان میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شدید زخمیوں میں گجرانوالہ کے ضلعی پولیس افسر وقار نذیر، ڈی ایس پی اسد سندھو، رانا رفیق، ڈی ایس پی عابد غنی، انسپکٹر غضنفر، انسپکٹر خادم، صفدر، ایس آئی ارشاد حسین، ایس آئی ریاض حسین، ایس آئی احمد شبیر شامل ہیں۔
بیان کے مطابق لاہور میں 9، گجرانوالہ میں 55، اوکاڑہ میں ایک، بھکر میں 25، جھنگ میں 14 ، راولپنڈی میں 13، سرگودھا میں نو، اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
ادھر انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلا عضنفر نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی جی کے حکم پر بند سڑکوں کو کھولا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان عوامی تحریک کی لاہور میں کنٹینرز کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے خلاف درخواست مسترد کر دی تھی۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق عدالت نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے عمل کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی نہیں قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرے۔
عدالتی فیصلے کے بعد عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو اپنے اپنے شہروں میں ہی ’یوم شہدا‘ منانے کے احکامات جاری کیے مگر بعد میں اسے واپس لے کر انہیں ہر حال میں لاہور پہنچے کا حکم جاری کیا۔