"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جو لوگ اسلام لائے

16 ہجری کے اخیر میں جب جلولا فتح ہوا تو بڑے بڑے رؤسا اور نواب اپنی خوشی سے مسلمان ہو گئے۔ ان میں سے جو زیادہ صاحب اختیار اور نامور تھے، ان کے یہ نام ہیں : جمیل بن بصبیری، بسطام بن نرسی، رفیل (فتوح البلدان صفحہ 665)، فیروز، ان رئیسوں کے مسلمان ہو جانے سے ان کی رعایا میں خود بخود اسلام کو شیوع ہوا۔

قادسیہ کے معرکے کے بعد چار ہزار ویلم کی فوج جو خسرو پرویز کی تربیت یافتہ تھی اور امپیریل گارڈ (شاہی رسالہ) کہلاتی تھی، کل کی کل مسلمان ہو گئی (فتوح البلدان صفحہ 280)۔

یزدگرد کے مقدمۃ الجیش کا افسر ایک مشہور بہادر تھا جس کا نام سیاہ تھا۔ یزدگرد جب اصفہان کو روانہ ہوا تو اس نے سیاہ کو بلا کر تین سو بڑے بڑے رئیس اور پہلوان ساتھ کئے اور اصطخر کو روانہ کیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ راہ میں ہر شہر سے عمدہ سپاہی انتخاب کر کے ساتھ لیتا جائے۔ اسلامی فوجیں جب تستر پہنچیں تو سیاہ اپنے سرداروں کے ساتھ ان اطراف میں مقیم تھا۔ ایک دن اس نے تمام ہمرائیوں کو جمع کر کے کہا کہ ہم لوگ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ (عرب) ہمارے ملک پر غالب آ جائیں گے۔ اس کی روز بروز تصدیق ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ اسلام قبول کر لیں۔ چنانچہ اسی وقت سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ یہ لوگ اسادرۃ کہلاتے تھے۔ کوفہ میں ان کے نام سے نہر اسادرہ مشہور ہے۔ ان کے اسلام لانے پر سیابجہ، زط، اندغار بھی مسلمان ہو گئے۔ تینوں قومیں اصل میں سندھ کی رہنے والی تھیں۔ جو خسروپرویز کے عہد میں گرفتار ہو کر آئی تھیں۔ اور فوج میں داخل کی گئی تھیں۔

مصر میں اسلام کثرت سے پھیلا۔ عمرو بن العاص نے جب مصر کے بعض قصبات کے لوگوں کو اس بنا پر کہ وہ مسلمانوں سے لڑتے تھے، گرفتار کر کے لونڈی غلام بنایا۔ اور وہ فروخت ہو کر تمام عرب میں پھیل گئے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بری قدغن کے ساتھ ہر جگہ سے انکو واپس لے کر مصر بھیج دیا اور لکھ بھیجا کہ ان کو اختیار ہے خواہ اسلام لائیں، خواہ اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ چنانچہ ان میں سے قصبہ بلھیب کے رہنے والے کل کے کل اپنی خواہش سے مسلمان ہو گئے۔ دمیاط کی فتح کے بعد جب اسلامی فوجیں آگے بڑھیں تو بقارہ اور ورادۃ سے لیکر عسقلان تک جو شام میں داخل ہے، ہر جگہ اسلام پھیل گیا۔ (مقریزی صفحہ 184 میں ہے) ولما فتح المسلمون الفرس بعد ما افتحوا دمیاط و تنیس ساروا الی بقارۃ فاسلم من بھاو ساروا منھا الی الوردۃ فدخل اھلھا فی الاسلام و صاحولھا الی عسقلان)۔

شطا مصر کا ایک مشہور شہر ہے جہاں کے کپڑے مشہور ہیں۔ یہاں کا رئیس مسلمانوں کے حالات سن کر پہلے ہی اسلام کی طرف مائل تھا۔ چنانچہ جب اسلامی فوجیں دمیاط میں پہنچیں تو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ شطا سے نکل کر مسلمانوں سے آ ملا۔ اور مسلمان ہو گیا۔ (مقریزی جلد اول)۔

فسطاط جس کو عمرو بن العاص نے آباد کیا تھا اور جس کی جگہ اب قاہرہ دارالسلطنت ہے یہاں تین بڑے بڑے محلے تھے جہاں زیادہ تر نومسلم آباد کرائے گئے۔ ایک محلہ بنو نبہ کے نام سے آباد تھا جو ایک یونانی خاندان تھا، مسلمان ہو گیا تھا۔ اور مصر کے معرکے میں اس خاندان کے سو آدمی اسلامی فوج کے ساتھ شامل تھے۔

دوسرا محلہ بنو الارزق کے نام پر تھا یہ بھی ایک یونانی خاندان تھا اور اس قدر کثیر النسل تھا کہ مصر کی جنگ میں اس خاندان کے 400 بہادر شریک تھے۔

تیسرا محلہ ربیل کے نام سے آباد تھا۔ یہ لوگ پہلے یرموک و قیساریہ میں سکونت رکھتے تھے۔ پھر مسلمان ہو کر عمرو بن العاص کے ساتھ مصر چلے آئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا یہودی خاندان تھا۔ مصر کی فتح میں ہزار آدمی اس خاندان کے شامل تھے۔ (اس کے متعلق پوری تفصیل مقریزی صفحہ 298 جلد اول میں ہے)۔

فسطاط میں ایک اور محلہ تھا جہاں صرف نو مسلم مجوسی آباد کرائے گئے تھے۔ چنانچہ یہ محلہ انہی کے نام پر پارسیوں کا محلہ کہلاتا تھا۔ یہ لوگ اصل میں باذان کی فوج کے آدمی تھے جو نوشیرواں کی طرف سے یمن کا عامل تھا جب اسلام کا قدم شام میں پہنچا تو یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور عمرو بن العاص کے ساتھ مصر ائے۔ اسی طرح اور جستہ جستہ مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر جگہ کثرت سے اسلام پھیل گیا تھا۔ مؤرخ بلاذری نے بالس کے ذکر میں لکھا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہاں وہ عرب آباد کرائے جو شام میں سکونت رکھتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ (بلاذری صفحہ 150)۔ مؤرخ ازدی جنگ یرموک کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب رومیوں کی فوجیں یرموک میں اتریں تو وہ لوگ جاسوس بنا کر بھیجے جاتے تھے جو وہیں کے رہنے والے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کو تاکید تھی کہ اپنا اسلام ظاہر نہ کریں تا کہ رومی ان سے بدگمان نہ ہونے پائیں۔ مؤرخ نے سن 14 ہجری کے واقعات میں لکھا ہے کہ اس لڑائی میں بہت سے اہل عجم نے مسلمانوں کو مدد دی جن میں سے کچھ لڑائی سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے اور کچھ لڑائی کے بعد اسلام لائے۔ ان واقعات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مبارک عہد میں اسلام کثرت سے پھیلا اور تلوار سے نہیں بلکہ اپنے فیض و برکت سے پھیلا۔ اشاعت اسلام کے بعد اصول مذہب، اعمال مذہبی کی ترویج یعنی جن چیزوں پر اسلام کا دارومدار ہے ان کا محفوظ رکھنا اور ان کی اشاعت اور ترویج کرنا۔ اس سلسلے میں سب سے مقدم قرآن مجید کی حفاظت اور اس کی تعلیم و ترویج تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے متعلق جو کوششیں کیں ان کی نسبت شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت صحیح لکھا کہ " امروز ہر کہ قرآن میخواند از طوائف مسلمین، منت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ در گردن اوست۔"
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن مجید کی جمع و ترتیب میں جو کوششیں کیں

یہ مسلم ہے کہ اسلام کی اصل قرآن مجید ہے اور اس سے انکار بھی نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید کا جمع کرنا، ترتیب دینا، صحیح نسخہ لکھوا کر محفوظ کرنا، تمام ممالک میں اس کا رواج دینا، جو کچھ ہوا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اہتمام اور توجہ سے ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک قرآن مجید مرتب نہیں ہوا تھا۔ متفرق اجزأ متعدد صحابہ کے پاس تھے وہ بھی کچھ ہڈیوں پر، کچھ کھجور کے پتوں پر، کچھ پتھر کی تختیوں پر لکھا ہوا اور لوگوں کو پورا حفظ یاد بھی نہ تھا۔ کسی کو کوئی سورت یاد تھی کسی کو کوئی۔ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں جب مسیلمہ کذاب سے لڑائی ہوئی تو سینکڑوں صحابہ شہید ہوئے جن میں بہت سے حفاظِ قرآن بھی تھے۔ لڑائی کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس جا کر کہا کہ اگر اسی طرح حفاظِ قرآن اٹھتے گئے تو قرآن جاتا رہے گا۔ اس لئے ابھی سے اس کی جمع و ترتیب کی فکر کرنی چاہیے۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جو کام رسول اللہ نے نہیں کیا تو میں کیوں کروں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بار بار اس کی مصلحت اور ضرورت بیان کی۔ یہاں تک کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی رائے سے متفق ہو گے۔ صحابہ میں سے وحی لکھنے کا کام سب سے زیادہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا تھا۔ چنانچہ وہ طلب کئے گئے اور اس خدمت پر مامور ہوئے کہ جہاں جہاں سے قرآن کی سورتیں یا آیتیں ہاتھ آئیں یکجا کی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجمع عام میں اعلان کیا کہ جس نے قرآن کا کوئی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہو میرے پاس لے کر آئے۔ اس بات کا التزام کیا گیا کہ جو شخص کوئی آیت پیش کرتا تھا اس پر دو شخصوں کی شہادت لی جاتی تھی کہ ہم نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قلمبند کرتے دیکھا تھا۔ غرض اس طرح جب تمام سورتیں جمع ہو گئیں تو چند آدمی مامور ہوئے کہ ان کی نگرانی میں پورا قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں لکھا جائے۔

سعید بن العاص بتاتے جاتے تھے اور زید بن ثابت لکھتے جاتے تھے مگر ان لوگوں کو حکم تھا کہ کسی لفظ کے تلفظ و لہجہ میں اختلاف پیدا ہو تو قبیلہ مضر کے لہجہ کے مطابق لکھا جائے کیونکہ قرآن مجید، مضر ہی کی خاص زبان میں اترا ہے۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 279 اور نقان 12)،
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن مجید کی حفاظت اور صحتِ الفاظ و اعراب کی تدبیریں

اس وقت قرآن مجید کی حفاظت اور صھت کے لیے چند امور نہایت ضروری تھے۔ اول یہ کہ نہایت وسعت کے ساتھ اس کی تعلیم شروع کی جائے اور سینکڑوں ہزاروں آدمی حافظ قرآن بنا دیئے جائیں تا کہ تحریف و تغیر کا احتمال نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ اعراب اور الفاظ کی صحت نہایت اہتمام کیساتھ محفوظ رکھی جائے۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید کی بہت سی نقلیں ہو کر ملک میں شائع کی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان تینوں امور کو اس کمال کے ساتھ انجام دیا کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام

تمام ممالک مفتوحہ میں ہر جگہ قرآن مجید کا درس جاری کیا۔ اور معلم و قاری مقرر کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ چنانچہ یہ امر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اولیات میں شمار کیا جاتا ہے کہ انہوں نے معلموں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ (سیرۃ العمر لابن الجوزی میں ہے ان عمر بن الخطاب و عثمان بن العفان کان یرزقان المودین والائمہ والمعلمین)۔ تنخواہیں اس وقت کے حالات کے لحاظ سے کم نہ تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
مکاتب قرآن

مثلاً خاص مدینہ منورہ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لئے جو مکتب تھے ان کے معلموں کی تنخواہیں پندرہ پندرہ درہم ماہوار تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بدوؤں کو جبری تعلیم

خانہ بدوش بدوؤں کے لیے قرآن مجید کی تعلیم جبری طور پر لازم کی۔ چنانچہ ایک شخص کو جس کا نام ابو سفیان تھا، چند آدمیوں کے ساتھ مامور کیا کہ قبائل میں پھر پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآن مجید کا کوئی حصہ یاد نہ ہو اس کو سزا دے۔ (آغاتی جزو 16 صفحہ 58۔ اصابہ فی احوال الصحابہ میں بھی یہ واقعہ منقول ہے)۔
 

شمشاد

لائبریرین
کتاب کی تعلیم

مکاتب میں لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا۔ عام تور پر تمام اضلاع میں احکام بھیج دیئے تھے کہ بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم دی جائے۔ ابو عامر جو رواۃ حدیث میں ہیں، ان کی زبان روایت ہے کہ میں بچپن میں گرفتار ہو کر مدینہ میں آیا۔ یہاں مجھ کو مکتب میں بٹھایا گیا۔ معلم مجھ سے جب میم لکھواتا تھا اور میں اچھی طرح نہیں لکھ سکتا تھا تو کہتا تھا گول لکھو جس طرح گائے کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ (معجم البلدان لغت حاضر، منجم میں اس روایت کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد کی نسبت لکھا لیکن خود صاحب معجم نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس وقت تک یہ مقامات فتح نہیں ہوئے تھے)۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرأ صحابہ کا تعلیم قرآن کے لئے دور دراز مقامات پر بھیجنا

صحابہ میں سے 5 بزرگ تھے جنہوں نے قرآن مجید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے میں پورا حفظ کر لیا تھا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابو ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ ان میں خاص کر ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سید القرأ تھے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں ان کی مدح کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سب کو بلا کر کہا کہ شام کے مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ آپ لوگ جا کر قرآن کی تعلیم دیجیئے۔ ابو ایوب ضعیف اور ابی بن کعب بیمار تھے اس لئے نہ جا سکے۔ باقی تین صاحبوں نے خوشی سے منظور کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہدایت کی کہ حمص کو جائیں۔ وہاں کچھ دنوں قیام کر کے جب تعلیم پھیل جائے تو ایک شخص کو وہیں چھوڑ دیں، باقی دو صحابیوں میں سے ایک دمشق اور ایک صاحب فلسطین جائیں۔ چنانچہ یہ سب لوگ پہلے حمص گئے۔ وہاں جب اچھی طرح بندوبست ہو گیا تو عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہیں قیام کیا۔ اور ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ دمشق اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ فلسطین کو روانہ ہوئے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے طاعون عمواس میں وفات پائی۔ (یہ تمام تفصیل کنز العمال جلد اول صفحہ 281 میں ہے اور اصل روایت طبقات ابن سعد کی ہے)۔ لیکن ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت تک زندہ اور دمشق میں مقیم رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تعلیم قرآن کا طریقہ

ابو دردأ کی تعلیم کا طریقہ جیسا کہ علامہ ذہبی نے طبقات القرأ میں لکھا ہے، یہ تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر جامع مسجد میں بیٹھ جاتے تھے۔ گرد قرآن پڑھنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ دس آدمیوں کی الگ الگ جماعت کر دیتے تھے اور ہر جماعت پر ایک قاری کو مقرر کرتے تھے۔ کہ ان کو قرآن پڑھائے۔ خود ٹہلتے جاتے تھے اور پڑھنے والوں پر کان لگائے رہتے تھے۔ جب کوئی طالب علم پورا قرآن یاد کر لیتا تھا تو ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ خود اس کو اپنی شاگردی میں لے لیتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
دمشق کی مسجد میں طلبہ قرآن کی تعداد

ایک دن ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شمار کرایا تو سولہ سو طالب علم ان کے حلقہ درس میں موجود تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اشاعت قرآن کے وسائل​

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن مجید کی زیادہ اشاعت کے لئے ان تدبیروں کے ساتھ اور بہت سے وسائل اختیار کئے۔ ضروری سورتوں یعنی بقرہ، نسأ، مائدہ اور نور کی نسبت یہ حکم دیا کہ سب لوگ اس قدر قرآن ضرور سیکھیں کیونکہ ان میں احکام و فرائض مذکور ہیں (کنز العمال جلد اول صفحہ 224)۔ عمال کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ قرآن سیکھیں ان کی تنخواہیں مقرر کر دی جائیں۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 217)۔ (بعد میں جب ضرورت نہ رہی تھی تو یہ حکم منسوغ کر دیا)۔ اہل فوج کو جو ضروری ہدایتیں لکھ کر بھیجا کرتے تھے ان میں یہ بھی ہوتا تھا کہ قرآن مجید پڑھنا سیکھیں۔ وقتاً فوقتاً قرآن خوانوں کا رجسٹر منگواتے رہتے تھے۔ ان تدبیروں کا یہ نتیجہ ہوا کہ بیشمار آدمی پڑھ گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حافظوں کی تعداد​

ناظرو خوانوں کا شمار تو نہ تھا۔ لیکن حافظوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں تک پہنچ گئی۔ فوجی افسروں کو جب اس مضمون کا خط لکھا کہ حفاظان قرآن کو میرے پاس بھیج دو تا کہ میں ان کو قرآن کی تعلیم کے لیے جابجا بھیجو، تو سعد وقاص نے جواب میں لکھا کہ صرف میری فوج میں تین سو حفاظ موجود ہیں۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 288)۔
 

شمشاد

لائبریرین
صحت اعراب کی تدبیریں

تیسرا امر یعنی صحتِ اعرات و صحت تلفظ، اس کے لیے بھی نہایت اہتمام کیا۔ اور درحقیقت یہ سب سے مقدم تھا۔ قرآن مجید جب مرتب و مدون ہوا تھا تو اعراب کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے قرآن مجید کا شائع ہونا کچھ زیادہ مفید نہ تھا۔ اگر صحت اعراب و تلفظ کا اہتمام نہ کیا جاتا تو اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کیں۔ سب سے اول یہ کہ ہر جگہ تاکیدی احکام بھیجے کہ قرآن مجید کے ساتھ صحت الفاظ و صحت اعراب کی بھی تعلیم دی جائے۔ ان کے خاص الفاظ حسب روایت ابن الابناری یہ ہیں " تعلموا اعراب القران کما تعلمون حفظہ" اور مسند دارمی میں یہ الفاظ ہیں " تعلمون الفرائض واللحن والسنن کما تعلمون القرآن"۔
 

شمشاد

لائبریرین
ادب اور عربیت کی تعلیم

دوسرے یہ کہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ ادب اور عربیت کی تعلیم بھی لازمی کر دی تا کہ خود لوگ اعراب کی صحت و غلطی کی تمیز کر سکیں۔ تیسرے یہ حکم دیا کہ کوئی شخص جو لغت کا عالم نہ ہو قرآن نہ پڑھانے پائے۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 288)۔ قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ آتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اگرچہ حدیث کی ترویج میں نہایت کوشش کی۔ لیکن احتیاط کو ملحوظ رکھا اور یہ ان کی دقیقہ سنجی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ وہ بجز مخصوص صحابہ کے عام لوگوں کو روایت حدیث کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حدیث کی تعلیم

شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں، " چنانچہ فاروق اعظم رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ رابا جمعے بکوفہ فرستادو معقل بن یسار رضی اللہ تعالٰی عنہ و عبد اللہ بن مغفل و عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ، رلبہ بصرہ و عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ و ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ – رابشام و بہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ از حدیث ایشان تجاوز نہ کند" (ازالتہ الخفأ صفحہ 6 – موطا امام محمد صفحہ 227)۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت حدیث کے متعلق جو اصول قائم کئے تھے وہ ان کی نکتہ سنجی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ان کے ذاتی حالات میں ان کے فضل و کمال کا جہاں ذکر آئے گا ہم اس کے متعلق نہایت تفصیل سے کام لیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فقہ

حدیث کے بعد فقہ کا رتبہ ہے اور چونکہ مسائل فقہیہ سے ہر شخص کو ہر روز کام پڑتا ہے، اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو اس قدر اشاعت دی کہ آج باوجود بہت سے نئے وسائل پیدا ہو جانے کے یہ نشر و اشاعت ممکن نہیں۔ مسائل فقہیہ کی ترویج کے لیے یہ تدبیریں اختیار کیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
مسائل فقہ کی اشاعت

جہاں تک وقت و فرصت مساعدت کر سکتی تھی خود بالمشافہ احکام مذہبی کی تعلیم کرتے تھے۔ جمعہ کے دن جو خطبہ پڑھتے تھے اس میں تمام ضروری احکام اور مسائل بیان کرتے تھے۔ حج کے خطبے میں حج کے مناسک اور احکام بیان فرماتے تھے۔ موطأ امام محمد میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرفات میں خطبہ پڑھا اور حج کے تمام مسائل تعلیم کئے۔ اسی طرح شام و بیت المقدس وغیرہ کے سفر میں وقتاً فوقتاً جو مشہور اور پراثر خطبے پڑھے ان میں اسلام کے تمام مہمات اصول اور ارکان بیان کئے اور چونکہ ان موقعوں پر بے انتہا مجمع ہوتا تھا اس لئے ان مسائل کا اس قدر اعلان ہو جاتا تھا کہ کسی اور تدبیر سے ممکن نہ تھا۔ دمشق میں بمقام جلبیہ جو مشہور خطبہ پڑھا، فقہا نے اس کو بہت سے مسائل فقہیہ کے حوالے سے جابجا نقل کیا ہے۔

وقتاً فوقتاً عمال اور افسروں کو مذہبی احکام اور مسائل لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ مثلاً نماز پنجگانہ کے اوقات کے متعلق جس کے تعین میں مجتہدین آج تک مختلف ہیں۔ تمام عمال کو ایک مفصل ہدایت نامہ بھیجا۔ امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مؤطا میں بعینہ اس کی عبارت نقل کی ہے۔ اسی مسئلہ کے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو تحریر بھیجی اس کو بھی امام مالک نے بالفاظہا نقل کیا ہے۔ وہ نمازوں کے جمع کرنے کی نسبت تمام ممالک مفتوحہ میں تحریری اطلاع بھیجی کہ جائز ہے (موطا امام محمد صفحہ 129)۔

سن 14 ہجری میں جب نماز تراویح جماعت کے ساتھ قائم کی، تمام اضلاع کے افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ زکوٰۃ کے متعلق تمام احکام مفصل لکھ کر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دیگر افسران ملک کے پاس بھیجے۔ اس تحریر کا عنوان جیسا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے یہ تھا ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ھذا کتاب الصدقہ الغ قضا اور شہادت کے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو تحریر بھیجی تھی اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ مہمات مسائل کے علاوہ فقہ کے مسائل جزیہ بھی عمال کو لکھ لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایک دفعہ ایک خط لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ مسلمان عورتیں حماموں میں جا کر عیسائی عورتوں کے سامنے بے پردہ نہاتی ہیں۔ لیکن مسلمان عورت کو کسی غیر مذہب والی عورت کے سامنے بے پردہ ہونا جائز نہیں۔ روزہ کے متعلق تمام عمال کو تحریری حکم بھیجا کہ لا تکونوا من المسرفین لفطر کم۔ زید وہب کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان ہم لوگوں کے پاس آیا کہ ان المراۃ لا تصوم تطوعا الا باذن زوجھا۔ ابو وائل کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہم لوگوں کو لکھا کہ ان لا ھلۃ بعضھا اکبر من بعض۔ اسی طرح کی اور بہت سے بے شمار مثالیں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
مسائل فقہیہ میں اجماع

یہ بات بھی لحاظ کے قابل ہے کہ جو فقہی احکام حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرامین کے ذریعہ شائع کرتے تھے، چونکہ شاہی دستور العمل کی حیثیت رکھتے تھے، اس لئے یہ احتیاط ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی کہ وہ مسائل اجماعی اور متفق علیہ ہوں۔ چنانچہ بہت سے مسائل جن میں صحابہ کا اختلاف تھا ان کو مجمع صحابہ میں پیش کر کے پہلے طے کرا لیا۔ مثلاً چور کی سزا جس کی نسبت قاضی ابو یوسف کتاب الخراج میں لکھتے ہیں۔ ان عمر استشار فی السارق فاجمعوا الخ (کتاب مذکور صفحہ 106)، غسل جنابت کی نسبت جب اختلاف ہوا تو تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور یہ مسئلہ پیش کر کے سب سے رائے طلب کی۔ لوگوں نے مختلف رائے دیں۔ اس وقت فرمایا انتم اصحاب بدر وقدا خلفتم فمن بعد کم اشد اختلافاً۔ یعنی جب آپ لوگ اصحاب بدر میں ہو کر آپس میں مختلف الرائے ہیں تو آئندہ آنے والی نسلوں میں اور سخت اختلاف ہو گا۔ چنانچہ ازواج مطہرات سے یہ مسئلہ دریافت کیا گیا۔ اور ان کی رائے قطعی پا کر شائع کی گئی۔ (ازالۃ الخفأ صفحہ 88)۔

جنازہ کی تکبیر میں نہایت اختلاف تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صحابہ کو جمع کیا اور متفق بات طے ہو گئی یعنی چار تکبیر پر اتفاق ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مسائل فقہیہ میں اجماع

اضلاع کے عمال اور افسر جو مقرر کرتے تھے ان کی یہ حیثیت بھی ملحوظ رکھتے تھے کہ عالم اور فقہیہ ہوں، چنانچہ بہت سے مختلف موقعوں پر اس کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

ایک دفعہ مجمع عام میں خطبہ دیا، جس میں یہ الفاظ تھے۔ الی اشھد کم علی امر الا مصار الی لم ابعثھم الا لیفقھوا الناس فی دینھم یعنی تم لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے افسروں کو اس لیے بھیجا ہے کہ لوگوں کو مسائل اور احکام بتائیں، یہ التزام ملکی افسروں تک محدود نہ تھا بلکہ فوجی افسروں میں بھی اس کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ قاضی ابو یوسف لکھتے ہیں ان عمر بن الخطاب کان اذا جعمع الیہ جیش من اھل الایمان بعث علیھم رجلاً من اھل الفقہ والعلم۔ (کتاب الخراج صفحہ 67)۔ یہی نکتہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد کے فوجی اور ملکی افسروں میں ہم حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ، معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ کا نام پاتے ہیں جو ملکی اور فوجی قابلیت کے ساتھ علم و فضل میں بھی ممتاز تھے۔ اور حدیث و فقہ میں اکثر ان کا نام آتا ہے۔ تمام ممالک محروسہ میں فقہا اور معلم متعین کئے کہ لوگوں کو مذہبی احکام کی تعلیم دیں، مؤرخین نے اگرچہ اس امر کو کسی خاص عنوان کے تحت نہیں لکھا اور اس وجہ سے ان معلموں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فقہ کی تعلم کا انتظام

تاہم جستہ جستہ تصریحات سے اندازہ ہو سکتا ہے ہر شہر میں متعدد فقہاٗ اس کام پر مامور تھے۔ مثلاً عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات میں صاحب اسد الغابہ نے لکھا ہے کہ " یہ منجملہ ان دس بزرگوں کے ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بصرہ بھیجا تھا کہ فقہ کی تعلیم دیں۔ (اصل عبارت یہ ہے کان احد العشرۃ الذین بعثھم عمر الی البصرۃ یفقھون الناس 14)۔ عمران بن الحصین رضی اللہ تعالٰی عنہ جو بہت بڑے رتبہ کے صحابی تھے، ان کی نسبت علامہ ذہبی طبقات الحفاظ میں لکھتے ہیں۔

و کان ممن بعثھم عمر بن الخطاب الی احل البصرۃ لیفقھھم یعنی ان لوگوں میں ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بصرہ میں فقہ کی تعلیم کے لیے شام بھیجا تھا۔ عبد الرحمنٰ بن غنم رضی اللہ تعالٰی کے حال میں "طبقات الحفاظ" میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو تعلیم فقہ کے لیے شام بھیجا تھا اور صاحب اسد الغابہ نے انہی کے حالات میں لکھا ہے "یہی وہ شخص ہیں کہ جنہوں نے شام میں تابعین کو فقہ سکھائی۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حال میں لکھا ہے کہ جب شام فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو دردأ کو شام میں بھیجا تا کہ لوگوں کو قرآن پڑھائیں اور فقہ سکھائیں۔ جلال الدین سیوطی نے حسن المحاضرہ فی اخبار المصر والقاہرہ میں حسان بن ابی جبلتہ کی نسبت لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو مصر میں فقہ کی تعلیم پر مامور کیا تھا۔ ان فقہا کے درس کا طریقہ یہ تھا کہ مساجد کے صحن میں ایک طرف بیٹھ جاتے تھے۔ اور شائقین نہایت کثرت سے ان کے گرد حلقے کی صورت میں جمع ہو کر فقہی مسائل پوچھتے جاتے تھے۔ اور وہ جواب دیتے جاتے تھے۔ابو مسلم خولانی کا بیان ہے کہ میں حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ 30 بڑے بڑے صحابہ وہاں تشریف رکھتے تھے۔ اور مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ لیکن جب ان کو کسی مسئلہ میں شک پڑتا تو ایک نوجوان شخص کی طرف رجوع کرتے تھے۔ میں نے لوگوں سے اس نوجوان کا نام پوچھا تو پتہ چلا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ لیث بن سعد کا بیان ہے کہ ابو دردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب مسجد میں آتے تھے تو ان کے ساتھ لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوتا تھا جیسے بادشاہ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ سب لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ ترجمتہ معاذ بن جبل 12)۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top