اشاعت اسلام کا طریقہ
اس صیغے کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا۔ اشاعت اسلام کے یہ معنی نہیں کہ لوگوں کو تلوار کے زور سے مسلمان بنایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس طریقے کے بالکل خلاف تھے اور جو شخص قرآن مجید کی اس آیت پر لا اکراہ فی الدین (یہ روایت طبقات ابن سعد میں موجود ہے جو نہایت معتبر کتا ہے۔ دیکھو کنز العمال جلد پنجم صفحہ 49 مطبوعہ حیدر آباد دکن) بلا تاویل عمل کرنا چاہتا ہے وہ ضرور اس کے خلاف ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک موقع پر یعنی جب ان کا غلام باوجود ہدایت و ترغیب کے اسلام نہ لایا تو فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین۔
اشاعت اسلام کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا کو اسلام کی دعوت دی جائے اور لوگوں کو اسلام کے اصول اور مسائل سمجھا کر اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جس ملک پر فوجیں بھیجتے تھے تاکید کرتے تھے کہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی ترغیب دلائی جائے اور اسلام کے اصول و عقائد سمجھائے جائیں۔ چنانچہ فاتح ایران سعد بن وقاص کو جا خط لکھا اس میں یہ الفاظ تھے۔ وقد کنت امرتک ان تدعوا من لقیتہ الی الاسلام قبل القتال۔ قاضی ابو یوست صاحب نے لکھا ہے کہ "حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معمول تھا کہ جب ان کے پاس کوئی فوج مہیا ہوتی تو ان پر ایسا افسر مقرر کرتے تھے جو صاحب علم اور صاحب فقہ ہوتا۔" یہ ظاہر ہے کہ فوجی افسروں کے لئے علم و فقہ کی ضرورت اسی تبلیغ اسلام کی ضرورت سے تھی۔ شام و عراق کی فتوحات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ ایرانیوں اور عیسائیوں کے پاس جو اسلامی سفارتیں گئیں انہوں نے کس خوبی اور صفائی سے اسلام کے اصول و عقائد ان کے سامنے بیان کئے۔
اشاعت اسلام کی بڑی تدبیر یہ ہے کہ غیر قوموں کو اسلام کا جو نمونہ دکھلایا جائے وہ ایسا ہو کہ خود بخود لوگوں کے دل اسلام کی طرف کھینچ آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اپنی تربیت اور ارشاد سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا دیا تھا۔ اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں۔ لوگوں کو خواہ مخواہ ان کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ کیونکہ چند بادیہ نشینوں کا دنیا کی تسخیر کو اٹھنا حیرت اور استعجاب سے خالی نہ تھا۔ اس طرح جب لوگوں کو ان سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی اور سادگی اور پاکیزگی جوش اور اخلاص کی تصویر نظر آتا تھا۔ یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دل کو کھینچتی تھیں اور اسلام ان کے دل میں گھر کر جاتا تھا۔ شام کے واقعات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ رومیوں کا سفیر جارج ابو عبیدہ کی فوج میں جا کر کس اثر سے متاثر ہوا۔ اور کس طرح دفعتہً قوم اور خاندان سے الگ ہو کر مسلمان ہو گیا۔ شطا جو مصر کی حکومت کا بہت بڑا رئیس تھا، مسلمانوں کے حالات ہی سن کر اسلام کا گریدہ ہو گیا۔ اور آخر دو ہزار آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ (تاریخ مقریزی صفحہ 226 میں ہے۔ فخرج شطا فی الفین من اصحابہ ولحق بالمسلمین و قد کان قبل ذلک یحب الخیر و یمیل الی ما یسمعہ من سیرۃ اھل الاسلام)۔
اسلامی فتوحات کی بوالعجبی نے بھی اس خیال کو قوت دی، یہ واقعہ کہ چند صحرا نشینوں کے آگے بڑی بڑی قدیم اور پرزور قوموں کا قدم اکھڑتا جاتا ہے۔ خوش اعتقاد قوموں کے دل میں خود بخود خیال پیدا کرتا تھا کہ اس گروہ کے ساتھ ئائید آسمانی شامل ہے۔ یزدگرد شہنشاہ فارس نے جب خاقان چین کے پاس استمداد کی غرض سے سفارت بھیجی تو خاقان نے اسلامی فوج کے حالات دریافت کئے اور حالات سن کر یہ کہا کہ " ایسی قوم سے مقابلہ کرنا بے فائدہ ہے۔