"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
تنخواہوں کی ترقی

تنخواہوں میں قدامت اور کارکردگی کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ قادسیہ میں زہرہ، عصمتہ، جنتی وغیرہ نے بڑے بڑے مردانہ کام کئے تھے اس لئے ان کی تنخواہیں دو، دو ہزار سے ڈھائی ڈھائی ہزار ہو گئیں۔ مقرره رقموں كے علاوہ غنیمت سے وقتاً فوقتاً جو ہاتھ آتا تھا اور علٰی قدر مراتب فوج پر تقسیم ہوتا تھا۔ اس کی کچھ انتہا نہ تھی۔ چنانچہ جلولا میں نو نو ہزار، نہاوند چھ چھ ہزار درہم ایک ایک سوار کے حصے میں آئے تھے۔

صحت اور تندرستی قائم رکھنے کے لئے حسب ذیل قاعدے مقرر تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اختلاف موسم کے لحاظ سے فوج کی تقسیم

جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے لڑائی کی جہتیں متعین کر دی تھیں، یعنی جو سرد ملک تھے ان پر گرمیوں میں اور گرم ملکوں پر جاڑوں میں فوجیں بھیجی جاتی تھیں اس تقسیم کا نام شاتیہ اور صافیہ رکھا اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے مؤرخین مغربی مہمات اور فتوحات کو صرف صوائف کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 17 ہجری میں کیا تھا۔ علامہ طبری لکھتے ہیں۔ و سمی الشبواتی والصوائف و سمی ذلک فی کل کورۃ۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہار کے زمانے میں فوجوں کا قیام

فسل بہار میں فوجیں ان مقامات پر بھیج دی جاتی تھیں جہاں کی آب و ہوا عمدہ اور سبزہ و مرغزار ہوتا تھا۔ یہ قاعدہ اول اول 17 ہجری میں جاری کیا گیا۔ جبکہ مدائن کی فتح کے بعد وہاں کی خراب آب و ہوا نے فوج کی تندرستی کو نقصان پہنچایا تھا۔ چنانچہ عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ ہمیشہ جب بہار کا موسم آئے تو فوجیں شاداب اور سرسبز مقامات میں چلی جائیں۔ (تاریخ طبری صفحہ 2486 میں ہے و کتب عمر الی سعد بن مالک و الی عتبہ بن غزوان یتربھا بالناس فی کل حین ربیع فی اطیب ارلھم)۔ عمرو بن العاص گورنر مصر، موسم بہار کے آنے کے ساتھ ہی فوج کو باہر بھیج دیتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ سیر و شکار میں بسر کریں اور گھوڑوں کو چرا کر فربہ بنا کر لائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آب و ہوا کا لحاظ

بارکوں کی تعمیر اور چھاؤنیوں کے بنانے میں ہمیشہ عمدہ آب و ہوا کا لحاظ کیا جاتا تھا اور مکانات کے آگے کھلے ہوئے خوش فضا صحن چھوڑے جاتے تھے۔ فوجوں کے لئے جو شہر آباد کئے گئے مثلاً کوفہ، بصرہ، فسطاط وغیرہ ان میں صحت کے لحاظ سے سڑکیں اور کوچے اور گلیاں نہایت وسیع ہوتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس میں اس قدر اہتمام تھا کہ مساحت اور وسعت کی تعیین بھی خود لکھ کر بھیجی تھی۔ چنانچہ اس کی تفصیل ان شہروں کے ذکر میں گزر چکی۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوچ کی حالت میں فوج کے آرام کا دن

فوج جب کوچ پر ہوتی تھی تو حکم تھا کہ ہمیشہ جمعہ کے دن مقام کرے اور ایک شب و روز قیام رکھے تاکہ لوگ دم لیں اور ہتھیاروں اور کپڑوں کو درست کر لیں۔ یہ بھی تاکید تھی کہ ہر روز اسی قدر مسافت طے جس سے تھکنے نہ پائیں اور پڑاؤ وہیں کیا جائے جہاں ہر قسم کی ضروریات مہیا ہوں۔ چنانچہ سعد بن وقاص کو جو فرمان فوجی ہدایتوں کے متعلق لکھا، اس میں اور اہم باتوں کے ساتھ ان تمام جزئیات کی تفصیل بھی لکھی۔ (عقد الفرید جلد اول صفحہ 49 میں یہ فرمان بعینہ منقول ہے)۔
 

شمشاد

لائبریرین
رخصت کے قاعدے

رخصت کا بھی باقاعدہ انتظام تھا۔ جو فوجیں دور دراز مقامات پر مامور تھیں ان کو سال میں ایک دفعہ ورنہ دو دفعہ رخصت ملتی۔ بلکہ ایک موقع پر جب انہوں نے ایک عورت کو اپنے شوہر کی جدائی میں دردناک اشعار پڑھتے سنا تو افسروں کو احکام بھیج دیئے کہ کوئی شخص چار مہینے سے زیادہ باہر رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

لیکن یہ تمام آسانیاں اسی حد تک تھیں جہاں تک ضرورت کا تقاضا تھا۔ ورنہ آرام طلبی، کاہلی، عیش پرستی سے بچنے کے لئے سخت بندشیں تھیں۔ نہایت تاکید تھی کہ اہل فوج رکاب کے سہارے سے سوار نہ ہوں، نرم کپڑے نہ پہنیں، دھوپ کھانا نہ چھوڑیں، حماموں میں نہ نہائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوج کا لباس

تاریخوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کے لئے کوئی خاص لباس جس کو وردی کہتے ہیں قرار دیا تھا۔ فوج کے نام اس کے جو احکام منقول ہیں ان میں صرف اس قدر ہے کہ لوگ عجمی لباس نہ پہنیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کی تعمیل پر چنداں زور نہیں دیا گیا کیونکہ 21 ہجری میں جب مصر پر ذمیوں پر جزیہ مقرر ہوا، فوج کے کپڑے بھی اس میں شامل تھے۔ اور وہ یہ تھے اون کا جبہ، لمبی ٹوپی یا عمامہ، پاجامہ (فتوح البلدان صفحہ 315) موزہ، حالانکہ اول اول پاجامہ اور موزہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتصریح منع کیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوج میں خزانچی و محاسب و مترجم

فوج کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اور بہت سی ایجاد ہیں جن کا عرب میں کبھی وجود نہ ملا تھا۔ مثلاً ہر فوج کے ساتھ ایک افسر خزانہ، ایک محاسب، ایک قاضی اور متعدد مترجم ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ متعدد طبیب اور جراح ہوتے تھے۔ چنانچہ جنگ قادسیہ میں عبد الرحمٰن بن ربیعہ قاضی، زیاد بن ابی سفیان محاسب، ہلال ہجری مترجم تھے۔ (طبری واقعات 14 ہجری صفحہ 226)۔ فوج میں محکمہ عدالت سررشتہ حساب و مترجمی اور ڈاکٹری کی ابتدأ بھی اسی زمانے سے ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فن جنگ میں ترقی

فوجی قواعد کی نسبت ہم کو صرف اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فوجی افسروں کو جو احکام بھیجتے تھے ان میں چار چیزوں کے سیکھنے کی تاکید ہوتی تھی، تیرنا، گھوڑے دوڑانا، تیر لگانا، ننگے پاؤں چلنا۔ اس کے سوا ہم کو معلوم نہیں کہ فوج کو اور کسی قسم کی قواعد بھی سکھائی جاتی تھی۔ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں سابق کی نسبت فن جنگ نے بہت ترقی کی۔

عرب میں جنگ کا پہلا طریقہ یہ تھا کہ دونوں طرف کے غول بے ترتیب کھڑے ہو جاتے تھے۔ پھر دونوں طرف سے ایک ایک سپاہی نکل کر لڑتا تھا۔ اور باقی تمام فوج چپ کھڑی رہتی تھی۔ اخیر میں عام حملہ ہوتا تھا۔ اسلام کے آغاز میں صف بندی کا طریقہ جاری ہوا تھا۔ اور فوج کے مختلف حصے قرار پائے مثلاً میمنہ، میسرہ، وغیرہ لیکن ہر حصہ بطور خود لڑتا تھا۔ یعنی تمام فوج کسی ایک سپہ سالار کے نیچے رہ کر نہیں لڑتی تھی۔ سب سے پہلے 15 ہجری میں یرموک کے معرکہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بدولت تعبیہ کی طرز پر جنگ ہوئی (علامہ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں فصل فی الحروب کے عنوان سے عرب اور فارس و روم کے طریقہ جنگ پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ تعبیہ کا طریقہ اول اول مروان بن الحکم نے قائم کیا۔ لیکن یہ غلط ہے۔ طبری اور دیگر مؤرخین نے بتصریح لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں اول اول خالد نے تعبیہ کی طرز پر صف آرائی کی تھی)۔ یعنی کل فوج جس کی تعداد چالیس ہزار کے قریب تھی، 36 صفوں میں تقسیم ہو کر حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ماتحتی میں کام کرتی تھی اور وہ تمام فوج کو تنہا لڑاتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوج کے مختلف حصے

|
قلب | سپہ سالار اسی حصے میں رہتا تھا۔
مقدمہ | قلب کے آگے کچھ فاصلے پر ہوتا تھا۔
میمنہ | قلب کے دائیں ہاتھ پر رہتا تھا۔
میسرہ | بائیں ہاتھ پر۔
ساقہ | سب کے پیچھے۔
طلیعہ | گشت کی فوج جو دشمن کی فوجوں کی دیکھ بھال رکھتی تھی۔
روء | جو ساقہ کے پیچھے رہتی تھی تا کہ دشمن عقب سے حملہ نہ کر سکے۔
رائد | جو فوج کے چارہ اور پانی تلاش کرتی تھی۔
رکبان | شتر سوار۔
فرسان | گھوڑا سوار۔
راجل | پیادہ۔
رماۃ | تیر انداز۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہر سپاہی کو جو ضروری چیزیں ساتھ رکھنی پڑتی تھیں​

ہر سپاہی کو جنگ کی ضرورت کی تمام چیزیں اپنے ساتھ رکھنی پڑتی تھیں۔ فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ کثیر بن شہاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک فوجی افسر تھے) کی فوج کا ہر سپاہی اشائے ذیل ضرور اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ سوئیاں، سوا، ڈورا، قینچی، سوتالی، توبڑا، چھلنی (فتوح البلدان صفحہ 18)۔
 

شمشاد

لائبریرین
قلعہ شکن آلات

قلعوں پر حملہ کرنے کے لیے منجیق کا استعمال اگرچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شروع ہو چکا تھا، چنانچہ سب سے پہلے 8 ہجری میں طائف کے محاصرے میں اس سے کام لیا گیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں اس کو بہت ترقی ہوئی اور بڑے بڑے قلعے اس کے ذریعہ سے فتح ہوئے۔ مثلاً 16 ہجری میں بہرہ شہر کے محاصرے میں 20 منجیقیں استعمال کی گئیں۔ محاصرے کے لئے ایک اور آلہ تھا جس کو دبابہ کہتے تھے۔ یہ ایک لکڑی کا برج ہوتا تھا جس میں اوپر تلے ککئی درجے ہوتے تھے اور نیچے پہیئے لگے ہوتے تھے۔ سنگ اندازوں اور نقیب زنوں اور تیر اندازوں کو اس کے اندر بٹھا دیا جاتا تھا اور اس کو ریلتے ہوئے آگے بڑھاتے چلتے تھے۔ اس طرح قلعہ کی جڑ میں پہنچ جاتے تھے اور قلعہ کی دیواروں کو آلات کے ذریعے سے توڑ دیتے تھے۔ بہرہ شہر کے محاصرہ میں یہ آلہ بھی استعمال کیا گیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سفر مینا

راستہ صاف کرنا، سڑک بنانا، پل باندھنا، یعنی جو کام آج کل سفر مینا کی فوج سے لیا جاتا ہے اس کا انتظام بھی نہایت معقول تھا اور یہ کام خاص کر مفتوحہ قوموں سے لیا جاتا تھا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے یہ شرط منظور کی کہ فوج اسلام جدھر کا رخ کرتے گی سفر مینا کی خدمت مصری انجام دیں گے۔ ( مقریزی صفحہ 163 میں ہے۔ فخرج عمر بالمسلمین و خرج معہ جماعتہ من رؤسأ القبط و قد اصلحوا لھم الطریق و اقاموا الھم الجسور والا سواق)۔ چنانچہ عمرو بن العاص جب رومیوں کے مقابلہ کے لئے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو خود مصری منزل بمنزل پل باندھتے، سڑک بناتے اور بازار لگاتے تھے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ کر لیا تھا، اس واسطے قبطی خود بڑی خوشی سے ان خدمتوں کو انجام دیتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خبر رسانی اور جاسوسی

جاسوسی اور خبر رسانی کا انتظام نہایت خوبی سے کیا گیا تھا اور اس کے لئے قدرتی سامان ہاتھ آ گئے تھے۔ شام و عراق میں کثرت سے عرب آباد تھے اور ان میں سے ایک گروہ کثیر نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ چونکہ مدت سے ان ممالک میں رہتے تھے۔ اس لئے کوئی واقعہ ان سے چھپ نہیں سکتا تھا۔ ان لوگوں کو اجازت دی کہ اپنا اسلام لوگوں پر ظاہر نہ کریں اور چونکہ یہ لوگ ظاہر وضع قطع سے پارسائی یا عیسائی معلوم ہوتے تھے اس لئے دشمن کی فوجوں میں جہاں چاہتے تھے چلے جاتے تھے۔ یرموک، قادسیہ، تکریت میں انہی جاسوسوں کی بدولت بڑے بڑے کام نکلے۔ (تاریخ شام الماذری صفحہ 154، طبری 2349 و 2475۔ ازی کی عبارت یہ ہے لما نزلت الروم منزلھم الذی نزلوابہ وسسنا الیھم رجالاً من اھل البلد کانو انصاری و حسن اسلامھم و امرنھم ان یدخلوا عسکرھم و یکتموا اسلامھم و یاگوا باخبارھم)۔

شام میں ہر شہر کے رئیسوں نے خود اپنی طرف سے اور اپنی خوشی سے جاسوس لگا رکھے تھے جو قیصر کی فوجی تیاریاں اور نقل و حرکت کی خبریں پہنچاتے تھے۔ قاضی ابو یوسف صاحب کتاب الخراج میں لکھتے ہیں۔ (کتاب مذکور صفحہ 80)۔

فلمارای اھل الذمۃ وفاء المسلمین لھم و حسن السیرۃ فیھم صاروا اشدآء علی عدو المسلمین و عوناً للمسلمین علی اعد آنھم فبعث اھل کل مدینۃ ممن جری الصلح بینھم و بین المسلمین رجالاً من قبلھم یتجسسون الاخبار عن الروم عن ملکھم وما یریدون ان یضووا۔
 

شمشاد

لائبریرین
خبر رسانی اور جاسوسی

اردن اور فلسطین کے اصلاع میں یہودیوں کا ایک فرقہ رہتا تھا جو سامرہ کہلاتا تھا۔ یہ لوگ جاسوسی اور خبررسانی کے کام کے لئے مقرر کئے گئے اور اس کے صلے میں ان کی مقبوضہ زمنیں ان کو معافی میں دے گئیں (فتوح البلدان صفحہ 158)۔ اسی طرح جزاجمہ کو قوم اس خدمت پر مامور ہوئی کہ ان کو بھی خراج معاف کر دیا گیا۔ فوجی انتظام کے سلسلے میں جو چیز سب سے بڑھ کر حیرت انگیز ہے یہ ہے کہ باوجودیکہ اس قدر بے شمار فوجیں تھیں اور مختلف ملک، مختلف قبائل، مختلف طبائع کے لوگ اس سلسلے میں داخل تھے۔ اس کے ساتھ وہ نہایت دور دراز مقامات تک پھیلی ہوتی تھیں۔ جہاں سے دارالخلافہ تک سینکڑوں ہزاروں کوس کا فاصلہ تھا۔ تاہم تمام فوج اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبضہ قدرت میں تھیں کہ گویا وہ خود ہر جگہ فوج کے ساتھ موجود ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
پرچہ نویسوں کا انتظام

اس کا عام سبب تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سطوط اور ان کا رعب و داب تھا۔ لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہر فوج کے ساتھ پرچہ نویس لگار رکھے تھے اور فوج کی ایک ایک بات کی انکو خبر پہنچتی رہتی تھی۔ علامہ طبری ایک ضمنی موقع پر لکھتے ہیں کہ :

و کانت تکون لعمرا لعیون فی جیش فکتب الی بما کان فی فلک الغزاۃ و بلغہ الذی قال عتبۃ۔ (طبری صفحہ 2308)۔

ایک اور موقع پر لکھتے ہیں۔

و کان عمر لا یخفیٰ علیہ شئی فی عملہ۔ (طبری صفحہ 2308)۔

اس انتظام سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ کام لیتے تھے کہ جہاں فوج میں کسی شخص سے کسی قسم کی بے اعتدالی ہو جاتی تھی۔ ایران کی فتوحات میں عمرو معدی کرب نے ایک دفعہ اپنے افسر کی شان میں گستاخانہ کلمہ کہہ دیا تھا۔ فوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کو خبر ہوئی اور اسی وقت انہوں نے عمرو معدی کرب کو تحریر کے ذریعے سے ایسی چشم نمائی کی کہ پھر ان کو کبھی ایسی جرات نہیں ہوئی۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں جن جا استقصاء نہیں ہو سکتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صیغہ تعلیم

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اگرچہ تعلیم کو نہایت ترقی دی تھی۔ تمام ممالک مفتوحہ میں ابتدائی مکاتب قائم کئے تھے جن میں قرآن مجید، اخلاقی اشعار اور امثال عرب کی تعلیم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے علمائے صحابہ اضلاع میں حدیث و فقہ کی تعلیم کے لئے مامور کئے تھے۔ مدرسین اور معلمین کی تنخواہیں بھی مقرر کی تھیں۔ لیکن چونکہ تعلیم زیادہ تر مذہبی تھی، اس لئے اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ صیغہ مذہبی کے بیان میں آئے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صیغہ مذہبی

خلیفہ کی حیثیت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا جو اصلی کام تھا وہ مذہب کی تعلیم و تلقین تھی اور در حقیقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کارناموں کا طغرا یہی ہے۔ لیکن مذہب کی روحانی تعلیم، یعنی توجہ الی اللہ، استغراق فی العبادۃ صفائے قلب، قطع علائق خضوع و خشوع یہ چیزیں کسی محسوس اور مادی رشتہ انتظام کے تحت میں نہیں آ سکتیں۔ اس لئے نظام حکومت کی تفصیل میں ہم اس کا ذکر نہیں کر سکتے۔ اس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ذاتی حالات میں آئے گا۔ البتہ اشاعت اسلام، تعلیم قرآن و حدیث، احکام مذہبی کا اجراء اس قسم کے کام انتظام کے تحت میں آ سکتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے متعلق جو کچھ کیا اس کی تفصیل ہم اس موقع پر لکھتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اشاعت اسلام کا طریقہ

اس صیغے کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا۔ اشاعت اسلام کے یہ معنی نہیں کہ لوگوں کو تلوار کے زور سے مسلمان بنایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس طریقے کے بالکل خلاف تھے اور جو شخص قرآن مجید کی اس آیت پر لا اکراہ فی الدین (یہ روایت طبقات ابن سعد میں موجود ہے جو نہایت معتبر کتا ہے۔ دیکھو کنز العمال جلد پنجم صفحہ 49 مطبوعہ حیدر آباد دکن) بلا تاویل عمل کرنا چاہتا ہے وہ ضرور اس کے خلاف ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک موقع پر یعنی جب ان کا غلام باوجود ہدایت و ترغیب کے اسلام نہ لایا تو فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین۔

اشاعت اسلام کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا کو اسلام کی دعوت دی جائے اور لوگوں کو اسلام کے اصول اور مسائل سمجھا کر اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جس ملک پر فوجیں بھیجتے تھے تاکید کرتے تھے کہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی ترغیب دلائی جائے اور اسلام کے اصول و عقائد سمجھائے جائیں۔ چنانچہ فاتح ایران سعد بن وقاص کو جا خط لکھا اس میں یہ الفاظ تھے۔ وقد کنت امرتک ان تدعوا من لقیتہ الی الاسلام قبل القتال۔ قاضی ابو یوست صاحب نے لکھا ہے کہ "حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معمول تھا کہ جب ان کے پاس کوئی فوج مہیا ہوتی تو ان پر ایسا افسر مقرر کرتے تھے جو صاحب علم اور صاحب فقہ ہوتا۔" یہ ظاہر ہے کہ فوجی افسروں کے لئے علم و فقہ کی ضرورت اسی تبلیغ اسلام کی ضرورت سے تھی۔ شام و عراق کی فتوحات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ ایرانیوں اور عیسائیوں کے پاس جو اسلامی سفارتیں گئیں انہوں نے کس خوبی اور صفائی سے اسلام کے اصول و عقائد ان کے سامنے بیان کئے۔

اشاعت اسلام کی بڑی تدبیر یہ ہے کہ غیر قوموں کو اسلام کا جو نمونہ دکھلایا جائے وہ ایسا ہو کہ خود بخود لوگوں کے دل اسلام کی طرف کھینچ آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اپنی تربیت اور ارشاد سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا دیا تھا۔ اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں۔ لوگوں کو خواہ مخواہ ان کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ کیونکہ چند بادیہ نشینوں کا دنیا کی تسخیر کو اٹھنا حیرت اور استعجاب سے خالی نہ تھا۔ اس طرح جب لوگوں کو ان سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی اور سادگی اور پاکیزگی جوش اور اخلاص کی تصویر نظر آتا تھا۔ یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دل کو کھینچتی تھیں اور اسلام ان کے دل میں گھر کر جاتا تھا۔ شام کے واقعات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ رومیوں کا سفیر جارج ابو عبیدہ کی فوج میں جا کر کس اثر سے متاثر ہوا۔ اور کس طرح دفعتہً قوم اور خاندان سے الگ ہو کر مسلمان ہو گیا۔ شطا جو مصر کی حکومت کا بہت بڑا رئیس تھا، مسلمانوں کے حالات ہی سن کر اسلام کا گریدہ ہو گیا۔ اور آخر دو ہزار آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ (تاریخ مقریزی صفحہ 226 میں ہے۔ فخرج شطا فی الفین من اصحابہ ولحق بالمسلمین و قد کان قبل ذلک یحب الخیر و یمیل الی ما یسمعہ من سیرۃ اھل الاسلام)۔

اسلامی فتوحات کی بوالعجبی نے بھی اس خیال کو قوت دی، یہ واقعہ کہ چند صحرا نشینوں کے آگے بڑی بڑی قدیم اور پرزور قوموں کا قدم اکھڑتا جاتا ہے۔ خوش اعتقاد قوموں کے دل میں خود بخود خیال پیدا کرتا تھا کہ اس گروہ کے ساتھ ئائید آسمانی شامل ہے۔ یزدگرد شہنشاہ فارس نے جب خاقان چین کے پاس استمداد کی غرض سے سفارت بھیجی تو خاقان نے اسلامی فوج کے حالات دریافت کئے اور حالات سن کر یہ کہا کہ " ایسی قوم سے مقابلہ کرنا بے فائدہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اشاعت اسلام کے اسباب

فارس کے معرکہ میں جب پارسیوں کا ایک مشہور بہادر بھاگ نکلا اور سردار فوج نے اس کو گرفتار کر کے بھاگنے کی سزا دینی چاہی تو اس نے ایک بڑی پتھر کو تیر سے توڑ کر کہا کہ یہ " تیر بھی جس لوگوں پر اثر نہیں کرتے خدا ان کے ساتھ ہے۔ اور ان سے لڑنا بیکار ہے (طبری واقعات جنگ فارس)۔ ابو رجاء فارسی کے دادا کا بیان ہے کہ قادسیہ کی لڑائی میں میں حاضر تھا اور اس وقت تک میں مجوسی تھا۔ عرب نے جب تیر اندازی شروع کی تو ہم نے تیروں کو دیکھ کر کہا کہ " تکلے ہیں۔" لیکن ان ہی تکلوں نے ہماری سلطنت برباد کر دی۔" مصر پر جب حملہ ہوا تو اسکندریہ کے بشپ نے قبطیوں کو لکھا کہ " رومیوں کی سلطنت ختم ہو چکی ہے۔ اب تم مسلمانوں سے مل جاؤ۔" (مقریزی جلد اول صفحہ 280)۔

ان باتوں کے ساتھ کچھ اور اسباب بھی اسلام کے پھیلنے کا سبب ہوئے۔ عرب کے قبائل جو عراق اور شام میں آباد تھے اور عیسائی ہو گئے تھے فطرۃً جس قدر ان کا میلان ایک نبی عربی کی طرف ہو سکتا تھا غیر قوم کی طرف نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ جس قدر زمانہ گزرتا گیا وہ اسلام کے حلقے میں آتے گئے۔ یہی بات ہے کہ اس عہد کے نومسلم جس قدر عرب تھے اور قومیں نہ تھیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض بڑے بڑے پیشوائے مذہبی مسلمان ہو گئے تھے۔ مثلاً دمشق جب فتح ہوا تو وہاں کا بشپ جس کا نام اردکون تھا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ پر اسلام لایا (معجم البلدان ذکر قطرۃ سنان)۔ ایک پیشوائے مذہب کے مسلمان ہونے سے اس کے پیروؤں کو خواہ مخواہ اسلام کی طرف رغبت ہوئی ہو گی۔

ان مختلف اسباب سے نہایت کثرت کے ساتھ لوگ ایمان لائے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مؤرخین نے کسی موقع پر اس واقعہ کو مستقل عنوان سے نہیں لکھا۔ اس کی وجہ سے ہم تعداد کا اندازہ نہیں بتا سکتے۔ تاہم ضمنی تذکروں سے کسی قدر پتہ لگ سکتا ہے چنانچہ ہم ان کو اس موقع پر بیان کرتے ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top