"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
فوجی نظام رومن ایمپائر میں

کہ ملک میں جو لوگ نام و نمود کے ہوتے تھے اور سپہ گری سپہ سالاری کا جوہر رکھتے تھے۔ ان کو بڑی بڑی جاگیریں دی جاتی تھیں اور یہ عہد لیا جاتا تھا کہ جنگی مہمات کے وقت اس قدر فوج لے کر حاضر ہوں گے۔ یہ لوگ تمام ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور خاص خاص تعداد کی فوجیں رکھتے تھے لین ان فوجوں کا تعلق براہ راست سلطنت سے نہیں ہوتا تھا۔ اور اس وجہ سے اگرچہ کبھی علم بغاوت بلند کر دیتے تھے تو ان کی فوج ان کے ساتھ ہو کر خود سلطنت کا مقابلہ کرتی تھی۔ اس طریقہ کا نام فیوڈل سسٹم تھا اور یہ فوجی افسر بیرونی کہلاتے تھے۔ اس طریقے نے یہ وسعت حاصل کی کہ بیرونی لوگ بھی اپنے نیچے اسی قسم کے جاگیردار اور علاقہ دار رکھتے تھے اور سلسہ بسلسلہ بہت سے طبقے قائم ہو گئے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوجی نظام فارس میں

ایران میں بھی قریب قریب یہی دستور تھا۔ فارسی میں جن کو مرزبان اور دہقان کہتے ہیں وہ اسی قسم کے جاگیردار اور زمیندار تھے۔ اس طریقے نے روم کی سلطنت کو دراصل برباد کر دیا تھا۔ آج عام طور پر مسلم کہ یہ نہایت برا طریقہ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوجی نظام فرانس میں

فرانس میں 511 عیسوی تک فوج کی تنخواہ یا روزینہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ فتح کی لوٹ میں جو مل جاتا تھا وہی قرعہ ڈال کر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ اس زمانے کے بعد کچھ ترقی ہوئی تو وہی روم کا فیوڈل سسٹم قائم ہو گیا۔ چنانچہ اسلام کے بعد 741 عیسوی تک یہی طریقہ جاری رہا۔

عرب میں شاہان یمن وغیرہ کے ہاں فوج کا کوئی منظم بندوبست نہیں تھا۔ اسلام کے آغاز تک اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں صرف اس قدر ہوا کہ خلافت کے پہلے سال غنیمت سے جس قدر بچا وہ سب لوگوں کو دس دس روپے کے حساب سے تقسیم کر دیا گیا۔ دوسرے سال آمدنی زیادہ ہوئی تو یہ تعداد دس سے بیس تک پہنچ گئی۔ لیکن نہ فوج کی کچھ تنخواہ مقرر ہوئی، نہ اہل فوج کا کوئی رجسٹر بنا، نہ کوئی محکمہ جنگ قائم ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اوائل خلافت تک بھی یہی حال رہا۔ لیکن 15 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس صیغے کو اس قدر منظم اور باقاعدہ کر دیا کہ اس وقت کے لحاظ سے تعجب ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فوجی نظام

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے توجہ کرنے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ عام روایت میں یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جو بحرین کے حاکم مقرر کئے گئے تھے۔ پانچ لاکھ درہم لے کر مدینہ ائے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس کی اطلاع دی۔ پانچ لاکھ کی رقم اس وقت اس قدر عجوبہ چیز تھی کی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ خیر ہے! کہتے کیا ہو؟ انہوں نے پھر پانچ لاکھ کہا۔ حضرت عرم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تم کو گنتی بھی آتی ہے؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا ہاں، یہ کہہ کر پانچ دفعہ لاکھ لاکھ کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یقین آیا تو مجلس شوریٰ منعقد کی اور رائے پوچھی کہ اس قدر زرکثیر کیونکر صرف کیا جائے؟ حضرت علی، حضرت عثمان اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے مختلف تجویریں پیش کیں۔ ولید بن ہشام نے کہا کہ میں نے شام کے والیان ملک کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں فوج کا دفتر اور رجسٹر مرتب رہتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ رائے پسند آئی اور فوج کی اسم نویسی اور ترتیب دفتر کا خیال پیدا ہوا۔ (مقریزی صفحہ 92 اور فتوح البلدان صفحہ 449)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رائے دہندہ نے سلاطین عجم کا حوالہ دیا اور یہی روایت قرین قیاس ہے کیونکہ جب دفتر مرتب ہوا تو اس کا نام دیوان رکھا گیا۔ اور یہ فارسی لفظ ہے دبستان، دبیر، دفتر، دیوان سب ایک مادہ کے لفظ ہیں جن کا مشترک مادہ " دب" ایک پہلوی لفظ ہے جس کے معنی نگاہ رکھنے کے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
تمام ملک کا فوج بنانا

بہرحال 15 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کا ایک مستقل محکمہ قائم کرنا چاہا۔ اس باب میں ان کی سب سے زیادہ قابل لحاظ جو تجویز تھی وہ تمام ملک کا فوج بنانا تھا، انہوں نے اس مسئلے کو کہ ہر مسلمان فوجِ اسلام کا ایک سپاہی ہے۔ باقاعدہ طور سے عمل میں لانا چاہا۔ لیکن چونکہ ابتدأ میں ایسی تعلیم نہ تھی۔ اول قریش اور انصار سے شروع کیا۔ مدینہ منورہ میں اس وقت تین شخص بہت بڑے نساب اور حساب کتاب کے فن میں استاد تھے۔ مخرمہ بن نوفل، جبیر بن مطعم، عقیل بن ابی طالب علم الانساب عرب کا موروثی فن تھا اور خاص کر یہ تینوں بزرگ اس فن کے لحاظ سے تمام عرب میں ممتاز تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو بلا کر یہ خدمت سپرد کی کہ تمام قریش اور انصار کا ایک دفتر تیار کریں جس میں ہر ایک کا نام و نسب مفصلاً درج ہو ان لوگوں نے ایک نقشہ بنا کر پیش کیا۔ جس میں سب سے پہلے بنو ہاشم پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خاندان پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قبیلہ تھا۔ یہ ترتیب ان لوگوں نے خلافت و حکومت کے لحاظ سے قرار دی تھی۔ لیکن اگر وہ قائم رہتی تو خلافت خود غرضی کا آلہ کار بن جاتی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ " یوں نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے شروع کرو۔ اور درجہ بدرجہ لوگ جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوتے گئے ہیں۔ اسی ترتیب سے ان کا نام آخر میں لکھتے جاؤ۔ یہاں تک کہ جب میرے قبیلے تک نوبت آئے تو میرا نام بھی لکھو۔"

اس موقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ خلفائے اربعہ میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نسب سب سے اخیر میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے، غرض اس ہدایت کے موافق رجسٹر تیار ہوا۔ اور حسب ذیل تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ (تنخواہوں کی تفصیل میں مختلف روایتیں ہیں۔ میں نے کتاب الخراج صفحہ 24 و مقریزی جلد اول صفحہ 92 و بلاذری صفحہ 248 و یعقوبی صفحہ 1175 و طبری صفحہ 2411 کے بیانات کو حتی الامکان مطابق کر کے لکھا ہے)۔

|
جو لوگ جنگ بدر میں شریک تھے۔|5 ہزار درہم
مہاجرین جش اور شرکائے جنگ احد۔|4 ہزار درہم
فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے ہجرت کی۔|۳ ہزار درہم
جو لوگ فتح مکہ میں ایمان لائے۔|2 ہزار درہم
جو لوگ جنگ قادسیہ اور یرموک میں شریک تھے۔|2 ہزار درہم
اہل یمن|4 سو درہم
قادسیہ اور یرموک کے بعد کے مجاہدین|3 سو درہم
بلا امتیار مراتب |2 سو درہم

جن لوگوں کے نام درج دفتر ہوئے ان کی بیوی اور بچوں کی تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ چنانچہ مہاجرین اور انصار کی بیویوں کی تنخواہ 200 سے 400 درہم تک اور اہل بدر کی اولاد ذکور کی دو ہزار درہم مقرر ہوئی۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جن لوگوں کی جو تنخواہ مقرر ہوئی ان کے غلاموں کی بھی وہی تنخواہ مقرر ہوئی۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک غلاموں کا کیا درجہ تھا۔

جس قدر آدمی درج رجسٹر ہوئے (اس موقع پر ایک امر نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے ظاہر بینوں کا خیال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام عرب کی جو تنخواہیں مقرر کیں اس کو فوجہ صیغے سے چنداں تعلق نہیں بلکہ یہ رفاہ عام کی غرض سے تھا لیکن یہ نہایت غلط خیال ہے۔ اولاً جہاں مؤرخوں نے اس واقعہ کا شان نزول بیان کیا ہے لکھا ہے کہ ولید بن ہشام نے حضرت عمر سے کہا کہ قد ذھبت الشام فرائیت ملوکھا تدو نوادیواناً و جندوا جنداً فدون دیوانا و جند جندا فاخذ بقولہ۔ یعنی میں نے شام کے بادشاہوں کو دیکھا کہ وہ دفتر اور فوج رکھتے ہیں آپ بھی دفتر بنائے اور فوج مرتب کیجئے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ولید کے قول پر عمل کیا۔

دوسرے یہ کہ جن لوگوں سے جنگی خدمت نہیں لی جاتی تھی اور قیدیم جنگی خدمتوں کا استحقاق بھی نہیں رکھتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی تنخواہ نہیں مقرر کرتے تھے اسی بنأ پر مکہ کے لوگوں کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ فتوح البلدان میں ہے ان عمر کان لایعطی اھل مکۃ عطأ ولا یضرب علیھم بعث فتوح صفحہ 458۔ یہی وجہ تھی کہ جب صحرا نشین بدوؤں نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے تنخواہ کی تقرری کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک آبادی میں رہنے والوں کی تنخواہیں مقرر نہ ہو جائیں۔ صحرا نشینوں کا روزینہ نہیں مقرر ہو سکتا۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ اول اول فوج کے رجسٹر میں اور بھی بہت سی قسم کے لوگ شامل تھے مثلاً جو لوگ قرآن مجید حفظ کر لیتے تھے یا کسی فن میں صاحبِ کمال تھے۔ لیکن استقرأ سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ غلط مبحث جو بضرورت اختیار کیا گیا تھا مٹتا گیا چنانچہ اس مضمون میں آگے اس کی بحث آتی ہے۔) اگرچہ سب درحقیقت فوج کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی دو قسمیں قرار دی گئیں۔

(1) جو ہر وقت جنگی مہمات میں مصروف رہتے تھے گویا یہ فوج نظام یعنی باقاعدہ فوج تھی۔

(2) جو معمولاً اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ لیکن ضرورت کے وقت طلب کئے جا سکتے تھے۔ ان کو عربی میں مطوعۃ کہتے ہیں اور آج کل کی اصلاح میں اس قسم کی فوج کو فالنٹیر کہا جاتا ہے۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ آج کل والنٹیر تنخواہ نہیں پاتے۔

فوجی نظم و نسق کا یہ پہلا دیباچہ تھا اور اس وجہ سے اس میں بعض بے ترتیبیاں بھی تھیں۔ سب سے بڑا خلط مبحث یہ تھا کہ تنخواہوں کے ساتھ پولٹیکل تنخواہیں بھی شامل تھیں اور ان دونوں کا ایک ہی رجسٹر تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یعنی 21 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس صیغے کو اس قدر مرتب اور منظم کر دیا کہ غالباً اس عہد تک کہیں اور کبھی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ہم ایک ایک جزئی انتظام کو اس موقع پر نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ عرب کے ابتدائے تمدن میں انتظامات فوجی کی اس قدر شاخیں قائم کرنی اور ایک ایک شاغ کا اس حد تک مرتب اور باقاعدہ کرنا اسی شخص کا کام تھا جو فاروق اعظم کا لقب رکھتا تھا۔

اس صیغے میں سب سے مقدم اور اصولی انتظام، ملک کا جنگی حیثیت سے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ 20 ہجری میں ملکی حیثیت سے ملک کی دو تقسیمیں کیں۔ ملکی اور فوجی، ملکی کا حال دیوانی انتظامات کے ذکر میں گزر چکا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوجی صدر مقامات

فوجی حیثیت سے چند بڑے برے فوجی مراکز قرار دیئے جن کا نام جند رکھا (جند کی تحقیقات کے لئے دیکھو فتوح البلدان صفحہ 32۔ مؤرخ یعقوبی نے واقعات 20ھ میں لکھا ہے کہ اس سال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوجی صدر مقامات قائم کئے۔ لیکن مؤرخ مذکور نے صرف فلسطین، جزیرہ، موصل اور قفسرین کا نام لکھا ہے۔ یہ صریح غلطی ہے)۔ اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔ کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، مصر، دمشق، حمص، اردن، فلسطین۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں فتوحات کی حد اگرچہ بلوچستان کے ڈانڈے سے مل گئی تھی۔ لیکن جو ممالک آئینی ممالک کہے جا سکتے تھے۔ وہ صرف عراق، مصر، جزیرہ اور شام تھے۔ چنانچہ اسی اصول پر فوجی صدر مقامات بھی انہی ممالک میں قائم کئے گئے۔ موصل جزیرہ کا صدر مقام تھا۔ شام کی وسعت کے لحاظ سے وہاں متعدد صدر مقام قائم کرنے ضروری تھے اس لئے دمشق، فلسطین، حمص، اردن چار صدر مقام قرار دیئے۔ فسطاط کی وجہ سے جو اب قاہرہ سے بدل گیا ہے۔ تمام مصر پر اثر پڑتا تھا۔ بصرہ، کوفہ، یہ دو شہر فارس اور خوزستان اور تمام مشرق کی فتوحات کے دروازے تھے۔ ان صدر مقامات میں جو انتظامات فوج کے لئے تھے وہ حسب ذیل تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوجی بارکیں

فوجوں کے رہنے کے لیے بارکیں تھیں۔ کوفہ، بصرہ، فسطاط، یہ تینوں شہر تو دراصل فوج کے قیام اور بود و باش کے لئے ہی آباد کئے گئے تھے۔ موصل میں عجمیوں کے زمانے کا ایک قلعہ چند گرجے اور معمولی مکانات تھے۔ ہرثمہ بن عرفجہ ازدی (گورنر موصل) نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہدایت کے بموجب داغ بیل ڈال کر اس کو شہر کی صورت میں آباد کیا۔ اور عرب کے مختلف قبیلوں کے لیے جدا جدا محلے بسائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گھوڑوں کی پرداخت​

ہر جگہ بڑے اصطبل خانے تھے جن میں چار چار ہزار گھوڑے ہر وقت ساز و سامان کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ صرف اس غرض سے مہیا رکھتے جاتے تھے کہ دفعتہً ضرورت پیش آ جائے تو 32 ہزار سواروں کا رسالہ تیار ہو جائے۔ (تاریخ طبری صفحہ 2504 میں ہے کان لعمر اربعۃ الاف فرس عدۃ لکون ان کان یشتیھا فی قبلۃ قصر الکوفتہ و بالبصرہ نحو منھا قیم علیھا جزین معاویہ و فی کل مصر من الامصار الثمانیۃ علی قدر ھافان نابتھم فائبۃ رکب قوم و تقدموا الی ان یستعد الناس)۔ 17 ہجری میں جزیرہ والوں نے دفعتاً بغاوت کر دی تو یہی تدبیر کلید ظفر ٹھہری۔ ان گھوڑوں کی پرداخت اور ترتیب میں نہایت اہتمام کیا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ کا انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خود اپنے اہتمام میں رکھا تھا۔ شہر سے چار منزل پر ایک چراگاہیں تیار کرائی تھی (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش اور پرداخت کے لئے عرب میں متعدد چراگاہیں تیار کرائیں تھیں۔ سب سے بڑی چراگاہ ربذہ میں تھی جو مدینہ منورہ سے چار منزل کے فاسلے پر جندے کے ضلع میں واقع ہے۔ یہ چراگاہ دس میل لمبی اور اسی قدر چوڑی تھی اور دوسری مقام ضریہ میں تھی جو مکہ معظمہ سے سات منزل پر ہے۔ اس کی وسعت ہر طرف سے چھ چھ میل تھی۔ اس میں تقریباً چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے۔ ان چراگاہوں کو پوری تفصیل خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ مطبوعہ مصر صفحہ 255 تا 256 میں ہے۔) اور خود اپنے غلام کو جس کا نام ہنی تھا اس کی حفاظت اور نگرانی کے لئے مقرر کیا تھا۔ ان گھوڑوں کی رانوں پر داغ کے ذریعے سے یہ الفاظ لکھتے جاتے تھے۔ جیش فی سبیل اللہ (کنز العمال جلد 2 صفحہ 326)۔ کوفہ میں اس کا اہتمام سلمان بن ربیعہ الباہلی سے متعلق تھا جو گھوڑوں کی شناخت اور پرداخت میں کمال رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے نام میں یہ خصوصیت داخل ہو گئی تھی اور سلمان الخیل نام سے پکارے جاتے تھے۔ جاڑوں میں یہ گھوڑے اصطبل خانے میں رکھے جاتے تھے۔ چنانچہ چوتھی صدی تک یہ جگہ آری کے نام سے مشہور تھی جس کے معنی اصطبل خانے کے ہیں اور اسی لحاظ سے عجمی اس کو آخور شاہ کہتے تھے۔ بہار میں یہ گھوڑے ساحل فرات پر عاقوں کے قریب شاداب چراگاہوں میں چرائے جاتے۔ سلمان ہمیشہ گھوڑوں کی ترتیب میں نہایت کوشش کرتے تھے اور ہمیشہ سال میں ایک دفعہ گھوڑ دوڑ بھی کراتے تھے۔

خاص کر عمدہ عمدہ نسل کے گھوڑوں کو انہوں نے نہایت ترقی دی۔ اس سے پہلے اہل عرب، نسل میں ماں کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ سب سے پہلے سلمان نے یہ امتیاز قائم کیا۔ چنانچہ جس گھوڑے کی مان عربی نہیں ہوتی تھی دوغلا قرار دے کر تقسیم غنیمت میں سوار کو حصہ سے محروم کر دیتے تھے (کتب رجال میں سلمان بن ربیعہ کا تذکرہ دیکھو)۔

بصرہ کا اہتمام جزر بن معاویہ سے متعلق تھا جو صوبہ اہواز کے گورنر رہ چکے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوج کا دفتر

فوج کے متعلق ہر قسم کے کاغذات اور دفتر انہی مقامات میں رہتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
رسد کا غلہ

رسد کے لئے جو غلہ اور اجناس مہیا کی جاتی تھیں وہ انہی مقامات میں رکھی جاتی تھیں۔ اور یہیں سے اور مقامات کو بھیجی جاتی تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوجی چھاؤنیاں

ان صدر مقامات کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بڑے بڑے شہروں اور مناسب مقامات میں نہایت کثرت سے فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور عرب کو تمام ممالک مفتوحہ میں پھیلا دیا۔ اگرچہ یہ ان کا عام اصول تھا کہ جو شہر فتح ہوتا تھا اسی وقت ایک مناسب تعداد کی فوج وہاں متعین کر دی جاتی تھی جو وہاں سے ٹلتی نہ تھی۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب شام فتح کیا تو ہر ہر ضلع میں ایک عامل مقرر کیا جس کے ساتھ ایک معتدبہ فوج رہتی تھی لیکن امن و امان قائم ہونے پر بھی کوئی بڑا ضلع یا شہر ایسا نہ تھا جہاں فوجی سلسلہ قائم نہیں کیا گیا۔

17 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب شام کا سفر کیا تو ان مقامات میں جہاں ملک کی سرحد دشمن ملک سے ملتی تھی، یعنی دلوک فج، رعیان، قورس، تیزین، انطاکیہ وغیرہ (عربی میں ان کو فروج یا ثغور کہتے ہیں) ایک ایک شہر کا دورہ کیا اور ہر قسم کا فوجی نظم و نسق اور مناسب انتظامات کئے جو مقامات دریا کے کنارے پر واقع تھے وہ بلادسا حلیہ کہلاتے تھے۔ یعنی عسقلان، یا قاقیساریہ، ارسوف عکا، صور، بیروت، طرطوس، صعیدا، ایاس لاذقیہ، چونکہ رومیوں کی بحری طاقت کی زد پر تھے اس لئے ان کا مستقل جداگانہ انتظام کیا اور اس کا افسر کل عبد اللہ بن قیس کو مقرر کیا۔ بالس چونکہ غربی فرات کے ساحل پر تھا اور عراق سے ہمسر حد تھا، وہاں فوجی انتظام کے ساتھ اس قدر اضافہ کیا کہ شامی عرب جو اسلام قبول کر چکے تھے آباد کئے۔

(فتوح البلدان صفحہ 150 میں ہے ورتب ابو عبیدہ ببالس جماعۃ من المقاتلۃ و اسکنھا قوما من العرب الذین کانوا بالشام فاسلموا بعد قدوم المسلمین الشام)۔

19 ہجری میں جب یزید بن ابی سفیان کا انتقال ہوا تو ان کے بھائی معاویہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اطلاع دی کہ سواحل شام پر زیادہ تیاری کی ضرورت ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی وقت حکم بھیجا کہ تمام قلعوں کی نئے سرے سے مرمت کرائی جائے اور ان میں فوجیں مرتب کی جائیں۔ اس کے ساتھ تمام دریائی منظر گاہوں پر پہرہ والے تعینات کئے جائیں اور آگ روشن رہنے کا انتظام کیا جائے۔ (فتوح البلدان صفحہ 128 میں ہے۔ ان معاویۃ کتب الی عمر بن الخطاب بعد موت اخیہ یزید الحلل السواحل فکتب الیہ فی مرمۃ حصونھا اور ترتیب المقاتلۃ فیھا و اقامۃ الحوس علی مناظرھا و اتخاذ المواقید لھا)۔

اسکندریہ میں یہ انتظام تھا کہ عمرو بن العاص کی افسری میں جس قدر فوجیں تھیں اس کی ایک چوتھائی اسکندریہ کے لئے مخصوص تھی۔ ایک چوتھائی ساحل کے مقامات میں رہتی تھی۔ باقی آدھی فوج خود عمرو بن العاص کے ساتھ فسطاط میں اقامت رکھتی تھی۔ یہ فوجیں بڑے بڑے وسیع ایوانوں میں رہتی تھیں اور ہر ایوان میں ان کے ساتھ ایک عریف رہتا تھا جو ان کے قبیلہ کا سردار ہوتا تھا اور جس کی معرفت ان کو تنخواہیں تقسیم ہوتی تھیں۔ ایوانوں کے آگے صحن کے طور پر وسیع افتادہ زمین ہوتی تھی۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 167 میں ہے و کان لکل عریف قصر ینزل بمن معہ من اصحابہ اتخذوافیہ اخایذ)۔

16 ہجری میں جب ہرقل نے دریا کی راہ سے مصر پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام سواحل پر فوجی چھاؤنیاں قائم کر دیں۔ یہاں تک کہ عمرو بن العاص کی ماتحتی میں جس قدر فوج تھی اس کی ایک چوتھائی انہی مقامات کے لیے مخصوص کر دی۔ (تاریخ طبری صفحہ 2523۔ اصل عبارت یہ ہے۔ قسم عمر الا رزاق و سمی الشواتی والصنوالف و سدفروج الشام و سالحھا و اخذو ربھا و سمی ذلک فی کل کورۃ و استعمل عبد اللہ بن قیس علی السواحل من کل کورۃ۔) عراق میں بصرہ کوفہ اگرچہ محفوظ مقامات تھے چنانچہ خاص کوفہ میں چالیس ہزار سپاہی ہمیشہ رہتے تھے اور انتظام یہ تھا کہ ان میں سے 10 ہزار بیرونی مہمات میں مصروف رکھے جائیں۔ (تاریخ طبری صفحہ 2805 میں ہے و کان بالکوفۃ اذ ذاک اربعون الف مقاتل و کان یغز و ھذین الثفرین (ای الری واذر بیجان) ھم عشرۃ الاف فی کل سنہ فکان الرجل یصیبہ فی کل الربع سنین غزوۃ)۔ تاہم ان اضلاع میں عجمیوں کی جو فوجی چھاؤنیاں پہلے سے موجود تھیں، از سر نو تعمیر کر کے فوجی قوت سے مضبوط کر دی گئیں۔ خربیہ اور زابوقہ میں سات چھوٹی چھوٹی چھاؤنیاں تھیں وہ سب نئے سرے سے تعمیر کر دی گئیں۔ (فتوح البلدان صفحہ 350)۔ صوبہ خوزستان میں نہایت کثرت سے فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں۔ چنانچہ نہر تیری، مناذر، سوق الاہواز، سرق، ہرمزان، سوس، بنیان، جندی، سابور، مہر، جانقدق یہ تمام فوجوں سے معمور ہو گئے (طبری صفحہ 2650)۔ رے اور آذر بائیجان کی چھاؤنیوں میں ہمیشہ 10 ہزار فوجیں موجود رہتی تھیں۔

اسی طرح اور سینکڑوں چھاؤنیاں جابجا قائم کی گئیں جن کی تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں۔ البتہ اس موقع پر بات لحاظ کے قابل ہے کہ اس سلسلے کو اس قدر وسعت کیوں دی گئی تھی۔ اور فوجی مقامات کے انتخاب میں کیا اصول ملحوظ تھے؟ اصل یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی فوجی قوت نے اگرچہ بہت زور اور وسعت حاصل کر لی تھی لیکن بحری طاقت کا کچھ سامان نہ تھا، ادھر یونانی مدت سے اس فن میں مشاق ہوتے آتے تھے۔ اس وجہ سے شام، مصر میں اگرچہ کسی اندرونی بغاوت کا کچھ اندیشہ نہ تھا۔ کیونکہ اہل ملک باوجود اختلاف مذہب کے مسلمانوں کو عیسائیوں سے زیادہ پسند کرتے تھے۔ لیکن رومیوں کے بحری حملوں کا ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ایشیائے کوچک ابھی تک رومیوں کے قبضے میں تھا اور وہاں ان کی قوت کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ ان وجوہ سے ضرورتی تھا کہ سرحدی مقامات اور بندرگاہوں کو نہایت مستحکم رکھا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوجی چھاؤنیاں کس اصول پر قائم تھیں؟

یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس قدر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں انہیں مقامات میں کیں جو ساحل پر واقع تھے یا ایشیائے کوچک کے ناکے پر تھے۔ عراق کی حالت اس سے مختلف تھی کیونکہ وہاں سلطنت کے سوا ملک کے بڑے بڑے رئیس جو مرزبان کہلاتے تھے اپنی بقائے ریاست کے لئے لڑتے رہتے تھے اور دب کر مطیع بھی ہو جاتے تھے لیکن ان کی اطاعت پر اطمینان نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے ان ممالک میں ہر جگہ فوجی سلسلہ کا قائم رکھنا ضروری تھا کہ مدعیان ریاست بغاوت کا خواب نہ دیکھنے پائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوجی دفتر کی وسعت

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سلسلے کے ساتھ انتظامات کے اور صیغوں پر بھی توجہ کی اور ایک ایک صیغے کو اس قدر منظم کر دیا کہ اس وقت کے تمدن کے لحاظ سے ایک معجزہ سا معلوم ہوتا ہے۔ فوجوں کی بھرتی کا دفتر جس کی ابتدأ مہاجرین اور انصار سے ہوئی تھی وسیع ہوتے ہوتے قریباً تمام عرب کو محیط ہو گیا۔ مدینہ سے عسفان تک جو مکہ معظمہ سے دو منزل ادھر ہے، جس قدر قبائل آباد تھے ایک ایک کی مردم شماری ہو کر رجسٹر بنے۔ بحرین جو عرب کا انتہائی صوبہ ہے بلکہ عرب کے جغرافیہ نویس اس کو عراق کے اضلاع میں شمار کرتے ہیں، وہاں کے تمام قبائل کا دفتر تیار کیا گیا۔ کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، جیزہ وغیرہ میں جس قدر عرب آباد ہو گئے تھے سب کے رجسٹر مرتب ہوئے۔ اس بے شمار گروہ کی علٰی قدر مراتب تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ اور اگرچہ ان سب کا مجموعی شمار تاریخوں سے معلوم نہیں ہوتا، تاہم قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم آٹھ دس لاکھ ہتھیار بند آدمی تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہر سال 30 ہزار نئی فوج تیار ہوتی تھی

ابن سعد کی روایت ہے کہ ہر سال 30 ہزار نئی فوج فتوحات پر بھیجی جاتی تھی۔ کوفہ کی نسبت علامہ طبری نے تصریح کی ہے کہ وہاں ایک لاکھ آدمی لڑنے کے قابل بسائے گئے جن میں سے 40 ہزار باقاعدہ فوجی تھے یعنی ان کو باری باری سے ہمیشہ رے اور آذر بائیجان کی مہمات میں حاضر رہنا ضروری تھا۔

یہی نظام تھا جس کی بدولت ایک مدت تک تمام دنیا پر عرب کا رعب و داب قائم رہا۔ اور فتوحات کا سیلاب برابر بڑھتا گیا۔ جس قدر اس نظام میں کمی ہوتی گئی عرب کی طاقت میں ضعف آتا گیا۔ سب سے پہلے امیر معاویہ نے اس میں تبدیلی کی یعنی شیرخوار بچوں کی تنخواہ بند کر دی۔ عبد المالک بن مروان نے اور بھی اس کو گھٹایا اور معتصم باللہ نے سرے سے فوجی دفتر میں سے عرب کے نام نکال دیئے اور اسی دن درحقیقت حکومت بھی عرب کے ہاتھ سے نکل گئی۔

یہ ایک اتفاقیہ جملہ بیچ میں آ گیا تھا۔ ہم پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فوجی نظام کی طرف واپس آتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوجی دفتر کو یہاں تک وسعت دی کہ اہل عجم بھی اس میں داخل کئے گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فوج میں عجمی رومی ہندوستانی اور یہودی داخل تھے

یزدگرد شاہنشاہ فارس نے ویلم کی قوم سے ایک منتخب دستہ تیار کیا تھا جس کی تعداد چار ہزار تھی اور جند شاہنشاہ یعنی فوج خاصہ کہلاتا تھا۔ یہ فوج قادسیہ میں کئی معرکوں کے بعد ایرانیوں سے علیحدہ ہو کر اسلام کے حلقے میں آ گئی۔ سعد ابن ابی وقاص گورنر کوفہ نے ان کو فوج میں داخل کر لیا اور کوجہ میں آباد کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کر دیں (فتوح البلدان صفحہ 280)۔ چنانچہ اسلامی فتوحات میں ان کا نام بھی جابجا تاریخوں میں آتا ہے۔ یزدگرد کی فوج ہراول کا سردار ایک بڑا نامی افسر تھا جو سیاہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔

17 ہجری میں یزدگرد اصفہان کو روانہ ہوا تو سپاہ کو تین سو سواروں کے ساتھ جن میں ستر بڑے نامی پہلوان تھے، اصطخر کی طرف بھیجا کہ ہر شہر سے چند بہادر منتخب کر کے ایک دستہ تیار کرے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب 20 ہجری میں سوس کا محاصرہ کیا تو یزدگرد نے سپاہ کو حکم دیا کہ اس چیدہ رسالے کے ساتھ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقابلے کو جائے۔ سوس کی فتح کے بعد سپاہ نے مع تمام سرداروں کے ابو موسیٰ سے چند شرائط کے ساتھ امن کی درخواست کی۔ ابو موسیٰ گو ان شرائط پر راضی نہ تھے لیکن کیفیت واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لکھ بھیجا کہ تمام شرانط منظور کر لئے جائیں۔ چنانچہ ۔۔۔۔۔ وہ سب کے سب بصرہ میں آباد کئے گئے اور فوجی دفتر میں نام لکھا کر ان کی تنخواہیں مقرر ہو گئیں۔ ان میں سے چھ افسروں کے جن کے نام یہ تھے، سیاہ، خسرو، شہریار، شیرویہ، افرودین کی ڈھائی ڈھائی ہزار اور سو بہادروں کی دو ہزار تنخواہ مقرر ہوئی۔ تستر کے معرکے میں سیاہ ہی کی تدبیر سے فتح حاصل ہوئی۔ (طبری واقعات 17 ہجری ذکر فتح سوس و فتوح البلدان از صفحہ 272 تا 275)۔

باذان، نوشیروان کی طرف سے یمن کا گورنر تھا۔ اس کی رکاب میں جو ایرانی فوج تھی، ان میں سے اکثر مسلمان ہو گئے۔ ان کا نام بھی دفتر میں لکھا گیا۔ تعجب یہ ہے کہ فاروقی لشکر ہندوستان کے بہادروں سے بھی خالی نہ تھا۔ سندھ کے جاٹ جن کو اہل عرب زط کہتے تھے، یزدگرد کے لشکر میں شامل تھے۔ سوس کے معرکے کے بعد وہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اور فوج میں بھرتی ہو کر بصرہ میں آباد کئے گئے (فتوح البلدان صفحہ 275)۔

یونانی اور رومی بہادر بھی فوج میں شامل تھے چنانچہ فتح مصر میں ان میں سے پانچ سو آدمی شریک جنگ تھے اور جب عمرو بن العاص نے فسطاط آباد کیا تو یہ جداگانہ محلے میں آباد کئے گئے۔ یہودیوں سے بھی یہ سلسلہ خالی نہ تھا، چنانچہ مصر کی فتح میں ان میں سے ایک ہزار آدمی اسلامی فوج میں شریک تھے (مقریزی صفحہ 298 میں ان سب کے حالات کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں)۔

غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صیغئہ جنگ کو جو وسعت دی تھی اس کےلئے کسی قوم اور کسی ملک کی تخصیص نہ تھی۔ یہاں تک کہ مذہب و ملت کی بھی کچھ قید نہ تھی۔ والنٹیر فوج میں تو ہزاروں مجوسی شامل تھے جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے۔ فوجی نظام میں بھی مجوسیوں کا پتہ ملتا ہے۔ چنانچہ اس کی تفصیل غیر قوموں کے حقوق کے ذکر میں آئے گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صیغئہ جنگ کی یہ وسعت جس میں تمام قوموں کو داخل کیا گیا تھا، صرف اسلام کی ایک فیاضی تھی۔ ورنہ فتوحات ملکی کے لئے عرب کو اپنی تلوار کے سوا اور کسی کا کبھی ممنون ہونا نہیں پڑا۔ البتہ اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ جس قوموں سے مقابہ تھا انہی کے ہم قوموں کو ان سے لڑانا فن جنگ کا بڑا اصول تھا۔

کہ خرگوش ہر مز ذرا بے شگفت
سگ آں ولایت تواند گرفت​

جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ ابتدائے انتظام میں فوجی صیغہ صاف صاف جداگانہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ یعنی جو لوگ اور اور حیثیت سے تنخواہیں پاتے تھے، ان کے نام بھی فوجی رجسٹر میں درج تھے اور اس وقت یہی مصلحت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اب یہ پردہ بھی اٹھا دینا چاہا۔ شروع شروع میں تنخواہ کی کمی بیشی میں قرآن خوانی کے وصف کا بھی لحاظ ہوتا تھا لیکن چونکہ اس کو فوجی امور سے کچھ تعلق نہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو صیغئہ تعلیم کر کے اس دفتر سے الگ کر دیا۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاص کو یہ الفاظ لکھ بھیجے " لا لفظ علی القراں احداً۔
 

شمشاد

لائبریرین
تنخواہوں میں ترقی

اس کے بعد تنخواہوں کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ چونکہ وہ فوج کو زراعت، تجارت اور اس قسم کے تمام اشغال سے بزور باز رکھتے تھے، اس لئے ضروری تھا کہ ان کی تمام ضروریات کی کفالت کی جائے۔ اس لحاظ سے تنخواہوں میں کافی اضافہ کیا۔ ادنٰی سے ادنٰی شرح جو 200 سالانہ تھی 300 کر دی۔ افسروں کی تنخواہ سات ہزار سے لے کر دس ہزار تک بڑھا دی۔ بچوں کی تنخواہ دودھ چھوڑنے کے بعد سے مقرر ہوتی تھی۔ اب حکم دے دیا کہ پیدا ہونے کے دن سے مقرر کر دی جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
رسد کا انتظام

رسد کا بندوبست پہلے صرف اس قدر تھا کہ فوجیں مثلاً قادسیہ میں پہنچیں تو آس پاس کے دیہات پر حملہ کر کے جنس اور غلہ لوٹ لائیں۔ البتہ گوشت کا بندوبست دارالخلافہ سے تھا۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ منورہ سے بھیجا کرتے تھے (فتوح البلدان صفحہ 256، اصل عبارت یہ ہے فاذا احتا جوا الی العلف والطعام اخرجوا۔ حلولاً فی البر فاغارت علی اسفل الفرات و کان عمر یبعث الیھم من المدینہ الغنم والجرز)۔ پھر یہ انتظام ہوا کہ مفتوح قوموں سے جزیہ کے ساتھ فی کس 25 اثار غلہ لیا جاتا تھا۔ مصر میں غلہ کے ساتھ روغن زیتون، شہد اور سرکہ بھی وصول کیا جاتا تھا جو سپاہیوں کے سالن کا کام دیتا تھا۔ جزیرہ میں بھی یہی انتظام تھا۔ لیکن اس میں رعایا کو زحمت ہوتی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آخر اس کے بجائے نقدی مقرر کر دی (فتوح البلدان صفحہ 178 – 216)۔ جس کو رعایا نے نہایت خوشی سے قبول کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
رسد کا مستقل محکمہ

رفتہ رفتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسد کا ایک مستقل محکمہ قائم کیا جس کا نام اہرأ تھا (تاریخ طبری صفحہ 265۔ اہرا کے معنی اور مفہوم کے لئے دیکھو لسان العرب اور فتوح البلدان صفحہ 208)۔ چنانچہ شام میں عمر بن عتبہ اس محکمے کے افسر مقرر ہوئے۔ اہرأ ہری کی جمع ہے۔ ہری ایک یونانی لفظ ہے۔ جس کے معنی گودام کے ہیں۔ چونکہ رسد کے یکجا جمع ہانے اور وہاں سے تقسیم ہونے کا یہ طریقہ یونانیوں سے لیا گیا تھا اس لئے نام میں بھی وہی یونانی لفظ قائم رہا۔ تمام جنس اور غلہ ایک وسیع گودام میں جمع ہوتا تھا۔ اور مہینے کی پہلی تاریخ فی سپاہی 1 من اثار کے حساب سے تقسیم ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ فی کس 2 اثار روغن زیتون اور 2 اثار سرکہ بھی ملتا تھا۔ اس کے بعد اور بھی ترقی ہوئی یعنی خشک اجناس کی بجائے پکا پکایا کھانا ملتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
خوراک، کپڑا اور بھتہ​

چنانچہ مؤرخ یعقوبی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سفر کے ذکر میں اس کی تصریح کی ہے۔ تنخواہ اور خوراک کے علاوہ کپڑا بھی دربار خلافت سے ملتا تھا۔ جس کی تفصیل وردی کے باب میں آئے گی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ بھتہ بھی مقرر تھا جس کو عربی میں مغوتہ کہتے ہیں۔ سواری کا گھوڑا سواروں کو اپنے اہتمام سے تیار کرنا ہوتا تھا۔ لیکن جو شخص کم سرمایہ ہوتا تھا اور اس کی تنخواہ بھی ناکافی ہوتی تھی۔ اس کو حکومت کی طرف سے گھوڑا ملتا تھا۔ چنانچہ خاص اس غرض کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے خود دارالخلافہ میں چار ہزار گھوڑے ہر وقت موجود رہتے تھے۔ (کتاب الخراج صفحہ 27۔ اصل عبار ہے کان لعمر بن الخطاب اربعۃ الاف فرس فاذا کان فی عطأ الرجل خفۃ او کان محتاجا اعطاہ الفرس)۔
 

شمشاد

لائبریرین
تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ

بھتہ و تنخواہ وغیرہ کی تقسیم کے اوقات مختلف تھے۔ شروع محرم میں تنخواہ، فصل بہار میں بھتہ اور فصل کے کٹنے کے وقت خاص خاص جاگیروں کی آمدنی تقسیم ہوتی تھی۔ (طبری صفحہ 6486۔ اصل عبارت یہ ہے وامر لھم بمعادلھم فی الربیع من کل سنۃ و باعطیاتھم فی المحرم من کل سنۃ و بفتیھم عند طلوع الشعری فی کل سنۃ و ذلک عند ادراک الفلات)۔ تنخواہ کی تقسیم کی یہ طریقہ تھا کہ ہر قبیلے کے ساتھ ایک عریف یعنی مقدم یا رئیس ہوتا تھا۔ فوجی افسر جو کم سے کم 10 – 10 سپاہیوں پر افسر ہوتے تھے اور جو امرأ الاعشار کہلاتے تھے، تنخواہ دی جاتی تھی۔ وہ عریف کے حوالے کرتے تھے اور عریف اپنے قبیلہ کے سپاہیوں کے حوالے کرتے تھے۔ ایک ایک عریف سے متعلق ایک ایک لاکھ درہم کی تقسیم تھی۔ چنانچہ کوفہ، بصرہ میں سو عریف تھے۔ جن کے ذریعے سے ایک کروڑ کی رقم تقسیم ہوتی تھی۔ اس انتظام میں نہایت احتیاط اور خبر گیری سے کام لیا جاتا تھا۔ عراق میں امرأ اعشار نے تنخواہوں کی تقسیم میں بے اعتدالی کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرب کے بڑے بڑے نساب اور اہل الرائے مثلاً سعید بن عمران، مشعلہ بن نعیم وغیرہ کو بلا کر اس کی جانچ پر مقرر کیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوبارہ نہایت تحقیق اور صحت کے ساتھ لوگوں کے عہدے اور روزینے مقرر کئے اور دس دس کے بجائے سات سات سپاہی پر ایک ایک افسر مقرر کیا۔ (یہ واقعات نہایت تفصیل کے ساتھ طبری صفحہ 2495 تا 2496 و مقریزی صفحہ 93 میں ہیں)۔ عریف کا تقرر بھی فاروقی ایجادات سے تھا جس کی تقلید مدتوں تک کی گئی۔ کنز العمال باب الجہاد میں علامہ بیہقی کی روایت ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top