تمام ملک کا فوج بنانا
بہرحال 15 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کا ایک مستقل محکمہ قائم کرنا چاہا۔ اس باب میں ان کی سب سے زیادہ قابل لحاظ جو تجویز تھی وہ تمام ملک کا فوج بنانا تھا، انہوں نے اس مسئلے کو کہ ہر مسلمان فوجِ اسلام کا ایک سپاہی ہے۔ باقاعدہ طور سے عمل میں لانا چاہا۔ لیکن چونکہ ابتدأ میں ایسی تعلیم نہ تھی۔ اول قریش اور انصار سے شروع کیا۔ مدینہ منورہ میں اس وقت تین شخص بہت بڑے نساب اور حساب کتاب کے فن میں استاد تھے۔ مخرمہ بن نوفل، جبیر بن مطعم، عقیل بن ابی طالب علم الانساب عرب کا موروثی فن تھا اور خاص کر یہ تینوں بزرگ اس فن کے لحاظ سے تمام عرب میں ممتاز تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو بلا کر یہ خدمت سپرد کی کہ تمام قریش اور انصار کا ایک دفتر تیار کریں جس میں ہر ایک کا نام و نسب مفصلاً درج ہو ان لوگوں نے ایک نقشہ بنا کر پیش کیا۔ جس میں سب سے پہلے بنو ہاشم پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خاندان پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قبیلہ تھا۔ یہ ترتیب ان لوگوں نے خلافت و حکومت کے لحاظ سے قرار دی تھی۔ لیکن اگر وہ قائم رہتی تو خلافت خود غرضی کا آلہ کار بن جاتی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ " یوں نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے شروع کرو۔ اور درجہ بدرجہ لوگ جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوتے گئے ہیں۔ اسی ترتیب سے ان کا نام آخر میں لکھتے جاؤ۔ یہاں تک کہ جب میرے قبیلے تک نوبت آئے تو میرا نام بھی لکھو۔"
اس موقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ خلفائے اربعہ میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نسب سب سے اخیر میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے، غرض اس ہدایت کے موافق رجسٹر تیار ہوا۔ اور حسب ذیل تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ (تنخواہوں کی تفصیل میں مختلف روایتیں ہیں۔ میں نے کتاب الخراج صفحہ 24 و مقریزی جلد اول صفحہ 92 و بلاذری صفحہ 248 و یعقوبی صفحہ 1175 و طبری صفحہ 2411 کے بیانات کو حتی الامکان مطابق کر کے لکھا ہے)۔
|
جو لوگ جنگ بدر میں شریک تھے۔|5 ہزار درہم
مہاجرین جش اور شرکائے جنگ احد۔|4 ہزار درہم
فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے ہجرت کی۔|۳ ہزار درہم
جو لوگ فتح مکہ میں ایمان لائے۔|2 ہزار درہم
جو لوگ جنگ قادسیہ اور یرموک میں شریک تھے۔|2 ہزار درہم
اہل یمن|4 سو درہم
قادسیہ اور یرموک کے بعد کے مجاہدین|3 سو درہم
بلا امتیار مراتب |2 سو درہم
جن لوگوں کے نام درج دفتر ہوئے ان کی بیوی اور بچوں کی تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ چنانچہ مہاجرین اور انصار کی بیویوں کی تنخواہ 200 سے 400 درہم تک اور اہل بدر کی اولاد ذکور کی دو ہزار درہم مقرر ہوئی۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جن لوگوں کی جو تنخواہ مقرر ہوئی ان کے غلاموں کی بھی وہی تنخواہ مقرر ہوئی۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک غلاموں کا کیا درجہ تھا۔
جس قدر آدمی درج رجسٹر ہوئے (اس موقع پر ایک امر نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے ظاہر بینوں کا خیال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام عرب کی جو تنخواہیں مقرر کیں اس کو فوجہ صیغے سے چنداں تعلق نہیں بلکہ یہ رفاہ عام کی غرض سے تھا لیکن یہ نہایت غلط خیال ہے۔ اولاً جہاں مؤرخوں نے اس واقعہ کا شان نزول بیان کیا ہے لکھا ہے کہ ولید بن ہشام نے حضرت عمر سے کہا کہ قد ذھبت الشام فرائیت ملوکھا تدو نوادیواناً و جندوا جنداً فدون دیوانا و جند جندا فاخذ بقولہ۔ یعنی میں نے شام کے بادشاہوں کو دیکھا کہ وہ دفتر اور فوج رکھتے ہیں آپ بھی دفتر بنائے اور فوج مرتب کیجئے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ولید کے قول پر عمل کیا۔
دوسرے یہ کہ جن لوگوں سے جنگی خدمت نہیں لی جاتی تھی اور قیدیم جنگی خدمتوں کا استحقاق بھی نہیں رکھتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی تنخواہ نہیں مقرر کرتے تھے اسی بنأ پر مکہ کے لوگوں کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ فتوح البلدان میں ہے ان عمر کان لایعطی اھل مکۃ عطأ ولا یضرب علیھم بعث فتوح صفحہ 458۔ یہی وجہ تھی کہ جب صحرا نشین بدوؤں نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے تنخواہ کی تقرری کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک آبادی میں رہنے والوں کی تنخواہیں مقرر نہ ہو جائیں۔ صحرا نشینوں کا روزینہ نہیں مقرر ہو سکتا۔
البتہ اس میں شک نہیں کہ اول اول فوج کے رجسٹر میں اور بھی بہت سی قسم کے لوگ شامل تھے مثلاً جو لوگ قرآن مجید حفظ کر لیتے تھے یا کسی فن میں صاحبِ کمال تھے۔ لیکن استقرأ سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ غلط مبحث جو بضرورت اختیار کیا گیا تھا مٹتا گیا چنانچہ اس مضمون میں آگے اس کی بحث آتی ہے۔) اگرچہ سب درحقیقت فوج کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی دو قسمیں قرار دی گئیں۔
(1) جو ہر وقت جنگی مہمات میں مصروف رہتے تھے گویا یہ فوج نظام یعنی باقاعدہ فوج تھی۔
(2) جو معمولاً اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ لیکن ضرورت کے وقت طلب کئے جا سکتے تھے۔ ان کو عربی میں مطوعۃ کہتے ہیں اور آج کل کی اصلاح میں اس قسم کی فوج کو فالنٹیر کہا جاتا ہے۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ آج کل والنٹیر تنخواہ نہیں پاتے۔
فوجی نظم و نسق کا یہ پہلا دیباچہ تھا اور اس وجہ سے اس میں بعض بے ترتیبیاں بھی تھیں۔ سب سے بڑا خلط مبحث یہ تھا کہ تنخواہوں کے ساتھ پولٹیکل تنخواہیں بھی شامل تھیں اور ان دونوں کا ایک ہی رجسٹر تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یعنی 21 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس صیغے کو اس قدر مرتب اور منظم کر دیا کہ غالباً اس عہد تک کہیں اور کبھی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ہم ایک ایک جزئی انتظام کو اس موقع پر نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ عرب کے ابتدائے تمدن میں انتظامات فوجی کی اس قدر شاخیں قائم کرنی اور ایک ایک شاغ کا اس حد تک مرتب اور باقاعدہ کرنا اسی شخص کا کام تھا جو فاروق اعظم کا لقب رکھتا تھا۔
اس صیغے میں سب سے مقدم اور اصولی انتظام، ملک کا جنگی حیثیت سے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ 20 ہجری میں ملکی حیثیت سے ملک کی دو تقسیمیں کیں۔ ملکی اور فوجی، ملکی کا حال دیوانی انتظامات کے ذکر میں گزر چکا ہے۔