لطیفہ
ایک دفعہ مغیرہ بن شعبہ کو حکم بھیجا کہ کوفہ میں جس قدر شعرأ ہیں ان کے کے وہ اشعار جو انہوں نے زمانہ اسلام میں کہے ہیں لکھوا کر بھیجو۔ مغیرہ نے پہلے اغلب عجلی کو بلوایا۔ اور شعر پڑھنے کی فرمائش کی۔ اس نے یہ شعر پڑھا۔
لقد طلبت ھنیاً موجوداً
ار جزاً تریدام قصیداً
"تم نے بہت آسان چیز کی فرمائش کی ہے، بولو قصیدہ چاہتے ہو یا رجز؟"
پھر لبید کو بلا کر یہ حکم سنایا۔ وہ سورۃ بقرہ لکھ کر لائے کہ خدا نے شعر کے بدلے مجھ کو یہ عنایت کیا ہے۔ مغیرہ نے یہ پوری کیفیت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھ کر بھیجی۔ وہاں سے جواب آیا کہ " اغلب کے روزینے میں سے گھٹا کر لبید کے روزینے میں پانسو کا اضافہ کر دو" اغلب نے حضرت عمر کی خدمت میں عرض کیا کہ بجا آوری حکم کا یہ صلہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لبید کے اضافہ کے ساتھ اس کی تنخواہ بھی بحال رہنے دی۔ اس زمانے میں جس قدر اہل کمال تھے مثلاً شعرأ، خطبأ، نساب، بہادر سب ان کے دربار میں آئے اور ان کی قدردانی سے مشکور ہوئے۔ اس زمانہ کا سب سے بڑا شاعر متمم بن نویرہ تھا جس کے بھائی کو ابو بکر صدیق کے زمانے میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعہ نے اس کو اس قدر صدمہ پہنچایا کہ ہمیشہ رویا کرتا اور مرثیے کہا کرتا۔ جس طرف نکل جاتا، زن و مرد اس کے گرد جمع ہو جاتے اور اس سے مرثیے پڑھوا کر سنتے۔ مرثیے پڑھنے کے ساتھ خود روتا جاتا تھا اور سب کو رولاتا جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضرہوا تو آپ نے مرثیہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ اس نے چند اشعار پڑھے۔اخیر کے شعر یہ تھے۔
و کنا کندمأ جذیمۃ حقبۃ
من الدھر حتی قبل لن یتصدعا
فلما تفرقنا کانی وما لکاً
لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا
"ایک مدت تک ہم دونوں جذیمہ (ایک بادشاہ کا نام ہے) کے ندیممو کے مثل رہے، یہاں تک کہ لوگوں نے کہا اب یہ جدا نہ ہوں گے، پھر جب ہم دونوں جدا ہو گئے تو گویا ایک رات بھی ہم دونوں نے ساتھ بسر نہیں کی تھی۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے متمم سے خطاب کر کے کہا کہ اگر مجھ کو ایسا مرثیہ کہنا آتا تو میں اپنے بھائی زید کا مرثیہ کہتا۔ اس نے کہا امیر المومنین! اگر میرا بھائی آپ کے بھائی کی طرح (یعنی شہید ہو کر) مارا جاتا تو میں ہر گز اس کا ماتم نہ کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ " متمم نے جیسی میری تعزیت کی کسی نے نہیں کی۔"
اسی زمانے میں ایک اور بڑی مرثیہ گو شاعرہ خنسا تھی۔ اس کا دیوان آج بھی موجود ہے جس میں مرثیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنسأ کا مثل نہیں پیدا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو کعبہ میں روتے اور چیختے دیکھا۔ پاس جا کر تعزیت کی۔ اور جب اس کے چار بیٹے جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے تو چاروں کی تنخواہیں اس کے نام جاری کر دیں۔
پہلوانی اور بہادری میں دو شخص طلیحہ بن خالد اور عمرو معدی کرب تمام عرب میں ممتاز تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دونوں کو اپنے دربار میں بار دیا۔ اور قادسیہ کے معرکے میں جب ان کو بھیجا تو سعد بن وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھا کہ میں دو ہزار سوار تمہارے مدد کو بھیجتا ہوں۔ عمرو معدی کرب پہلوانی کے ساتھ ساتھ خطیب اور شاعر بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سے فنون حرب کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جلسہ میں قبائل عرب اور اسلحہ جنگ کی نسبت جو سوالات کئے اور عمرو معدی کرنے ایک ایک کی نسبت جن مختصر اور بلیغ فقروں میں جواب دیئے اس کو اہل عرب نے عموماً اور مسعودی نے مروج الذہب میں بتفصیل لکھا ہے۔ چنانچہ نیزہ کی نسبت پوچھا تو کہا۔
اخوک و ربما خانک
"یعنی تیرا بھائی ہے لیکن کبھی کبھی دغا دے جاتا ہے۔"
پھر تیروں کی نسبت پوچھا تو کہا۔
برد المنایا خطی و تصیب
"یعنی موت کے قاصد ہیں کبھی منزل تک پہنچتے ہیں اور کبھی بہک جاتے ہیں۔"
ڈھال کی نسبت کہا۔
علیہ تدور الدوائر
اسی طرھ ایک ایک ہتھیار کی نسبت عجب عجب بلیغ فقرے استعمال کئے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس طریق عمل نے عرب کے تمام قابل آدمیوں کو دربار خلافت میں جمع کر دیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی قابلیتوں سے بڑے بڑے کام لئے۔