فدک کا مسئلہ
اسی سلسلے میں باغ فدک کا معاملہ بھی ہے جو مدت تک معرکتہ الآرأ رہا ہے۔ ایک فرقہ کا خیال ہے کہ باغ خالص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد تھی۔ کیونکہ اس پر چڑھائی نہیں ہوئی تھی، بلکہ وہاں کے لوگوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا تھا اور اس وجہ سے وہ اس آیت کے تحت داخل ہے۔
وما افآٔ اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ، علی من یشأ واللہ علی کل شئی قدیر۔
یعنی " جو کچھ خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے دلوایا تو تم لوگ اس پر اونٹ یا گھوڑے دوڑا کر نہیں گئے تھے۔ لیکن خدا اپنے پیغمبر کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔"
اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مملوکہ خاص ٹھہری تو اس میں وراثت کا عام قاعدہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے جاری ہو گا۔ اور آنحضرت کے ورثہ اس کے مستحق ہوں گے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے باوجود حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طلب و تقاضا کے آل نبی کو اس سے محروم رکھا۔
یہ بحث اگرچہ طرفین کی طبع آزمائیوں میں بہت بڑھ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات نہایت مختصر تھی اور اب جبکہ سیاست مدن کے اصول زیادہ صاف اور عام فہم ہو گئے ہیں، یہ مسئلہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ بحث کے دائرہ میں لایا جائے۔ اصل یہ ہے کہ نبی یا امام، یا بادشاہ کے قبضے میں جو مال یا جائیداد ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک مملوکہ خاص جس کے حاصل ہونے میں نبوت اور امامت و بادشاہت کے منصب کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔ مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بنا کر معاش حاصل کرتے تھے یا عالمگیر قرآن لکھ کر بسر کرتا تھا۔ یہ آمدنی ان کی ذاتی آمدنی تھی۔ اور اس پر ہر طرح کا ان کو اختیار تھا۔ دوسری مملوکہ حکومت مثلاً داؤد علیہ السلام کے مقبوضہ ممالک جو حضرت حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضے میں آئے۔
اس دوسری قسم میں وراثت نہیں جاری ہوتی۔ جو شخص پیغمبری یا امامت یا بادشاہت کی حیثیت سے جانشین ہوتا ہے وہی اس کا مالک ہوتا ہے، یہ مسئلہ آج کل کے مذاق کے موافق بالکل ایک بدیہی بات ہے۔ مثلاً سلطان عبد الحمید خان کے بعد ان کے ممالک مقبوضہ یا ان کی جاگیر خالصتہً ان کے بیٹے بھائی، ماں، بہن وغیرہ میں تقسیم نہیں ہو گی بلکہ جو تخت نشین ہو گا اس پر قابض ہو گا۔ مذہبی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے ہر فرقہ میں یہ قاعدہ ہمیشہ مسلم رہا۔ مثلاً جو لوگ فدک کو درجہ بدرجہ آئمہ اثنا عشر کا حق سمجھتے ہیں وہ بھی اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جاری کرتے۔ مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے زمانے میں اس کے مالک ہوئے تو یہ ہوا کہ ان کی وفات کے بعد وراثت کا قاعدہ جاری ہوتا اور حسین و عباس و محمد بن حنیفیہ و زینت کو جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وارث تھے اس کا کچھ کچھ حصہ اس کے پڑتہ سے ملتا۔ بلکہ صرف حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبضہ میں آیا کیونکہ امامت کی حیثیت سے وہی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جانشین تھے۔
غرض یہ عام اور مسلم قاعدہ ہے کہ جو جائیداد نبوت یا امامت یا بادشاہت کے منصب سے حاصل ہوتی ہے، وہ مملوکہ خاص نہیں ہوتی۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ باغ فدک کیونکر حاصل ہوا تھا۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر کی فتح سے پھرے، تو محیصہ بن مسعود انصاری کو فدک والوں کے پاس تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا، فدک یہودیوں کے قبضہ میں تھا اور ان کا سردار یوشع بن نون ایک یہودی تھا۔ یہودیوں نے صلح کا پیغام بھیجا اور معاوضہ صلح میں آدھی زمین دینی منظور کی (فتوح البلدان۔ بلاذری، ذکر فدک)۔ اس وقت سے یہ باغ اسلام کے قبضہ میں آیا۔
اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی جائیداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مملوکہ خاص کیونکر ہو سکتی ہے۔ فدک کی ملکیت خاص کا دعویٰ اس بنأ پر کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کے ذریعے فتح نہیں ہوا۔ بلکہ اس آیت کے مصداق ہے فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب لیکن کیا جو ممالک صلح کے ذریعے سے قبضے میں آتے ہیں اور امام یا بادشاہ کی ملکیت خاص قرار پاتے ہیں؟ عرب کے اور مقامات بھی اس طرح قبضہ میں آئے کہ ان پر چڑھائی نہیں کرنی پڑی۔ کیا ان کو کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت سمجھا؟ البتہ یہ امر غور طلب ہے کہ جب اور مقامات مفتوحہ کی نسبت کسی نے اس قسم کا خیال نہیں کیا تو فدک میں کیا خصوصیت تھی جس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مفتوحہ زمینیں علانیہ وقف عام رہیں، لیکن فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مصارف کے لئے مخصوص کر لیا تھا۔ اس سے اس خیال کا موقع ملا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد خاص ہے۔ اس خیال کی تائید اس سے ہوئی کہ فدک پر لشکر کشی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس پر لوگوں کو کسی قسم کا حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن یہ خیال دراصل صحیح نہیں۔ فدک کو بے شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی مصارف کے لیے خاص کر لیا تھا۔ لیکن کیونکر؟ اس کے متعلق تفصیلی روایتیں موجود ہیں۔
فکان نصف فدک خالصاً لرسول اللہ و کان یصرف مایاتیۃ منھا الی ابنأ السبیل۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 29)
یعنی " آدھا فدک خاص رسول اللہ کا تھا۔ آنحضرت اس میں سے مسافروں پر صرف کرتے تھے۔"
ایک اور روایت میں ہے۔
ان فدک کانت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فکان ینفق منھا و یاکل و یعود علیٰ فقرآٔ بنی ھاشم و یزوج ایمھم۔ (فتوح البلدان صفحہ 31)۔
یعنی "فدک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آپ اس میں سے خرچ کرتے تھے اور فقرآئے بنی ہاشم کو دیتے تھے۔ اور ان کی بیواؤں کی شادی کرتے تھے۔"
بخاری وغیرہ میں تصریح مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر کا اپنا خرچ اس میں سے لیتے تھے۔ باقی عام مسلمین کے مصالح میں دیتے تھے۔
ان روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فدک کا مملوکہ نبوت ہونا ایسا ہی تھا جیسا کہ سلاطین کے لئے کوئی جائیداد خالص کر دی جاتی ہے۔ اس بنأ پر باوجود مخصوص ہونے کے وقف کی حیثیت اس سے زائل نہیں ہوتی۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ان اصولوں سے واقف تھے؟ اور اسی بنأ پر انہوں نے فدک میں وراثت نہیں جاری کی یا نکات بعد الوقوع ہیں؟
عراق و شام کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صحابہ کے مجمع میں تقریر کی تھی۔ اس میں قرآن مجید کی اس آیت سے ما افآٔ اللہ علیٰ رسولہ من اھل القریٰ فللہ الخ سے استدلال کر کے صاف کہہ دیا تھا کہ مقامات مفتوحہ کسی خاص شخص کی ملک نہیں ہیں، بلکہ عام ہیں چنانچہ فے کے ذکر میں یہ بحث گزر چکی ہے، البتہ یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت سے پہلے جو آیت ہے، اس سے فدک وغیرہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص جائیداد ہونا ثابت ہوتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے یہی معنی قرار دیتے تھے۔ آیت یہ ہے۔
[ayah]وما افآٔ اللہ علیٰ رسولہ منھم فما او جفتم من خیل ولا رکاب و ککن اللہ یسلط رسلہ علیٰ من یشأ۔[/ayah]
"اور جو ان لوگوں سے (یعنی یہود بنی نضیر سے) خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا تو تم لوگ اس پر چڑھ کر نہیں گئے تھے بلکہ خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔"
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس آیت کو پڑھ کر کہا تھا کہ فکانت خالصہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ واقعہ صحیح بخاری، باب الخمس اور باب المغازی اور باب المیراث میں بتفصیل مذکور ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی بنأ پر فدک وغیرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خالصہ سمجھتے تھے لیکن اس قسم کا خالصہ جو ذاتی ملکیت نہیں ہوتا جس طرح سلاطین کے مصارف کے لئے کوئی زمین خاص کر دی جاتی ہے کہ اس میں میراث کا عام قاعدہ نہیں جاری ہوتا بلکہ جو شخص جانشین سلطنت ہوتا ہے، تنہا وہی اس سے متمتع ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس خیال کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے جب آیت مذکورہ بالا کی بنأ پر فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خالصہ کہا تو ساتھ ہی یہ الفاظ فرمائے جیسا کہ صحیح بخاری باب الخمس و باب المغاذی وغیرہ میں مذکور ہے۔
فکان رسول اللہ ینفق علیٰ اھلہ نفقۃ سنتھم من ھذہ المال ثم یاخذ مابقی فیجعلہ کجعل مال اللہ فعمل رسول اللہ بذلک حیاتہ چم توفی اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ابو بکر انا ولی رسول اللہ فقبضھا ابو بکر فعمل فیھا بما عمل رسول اللہ ثم توفی اللہ ابابکر فکنت انا ولی ابی بکر فقبضتھا سنتین من امارتی اعمل فیھا ما عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و بما عمل فیھا ابو بکر۔
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ لیتے تھے۔ باقی کو خدا کے مال کے طور پر خرچ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اسی پر عمل فرمایا ۔ پھر وفات پائی تو ابو بکر نے کہا کہ میں ان کا جانشین ہوں۔ پس اس پر قبضہ کیا اور اسی طرح کاروائی کی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ پھر انہوں نے وفات پائی تو میں ابو بکر کا جانشین ہوا پس میں نے اس پر دو برس قبضہ رکھا اور وہی کاروائی کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر کرتے تھے۔"
اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ باوجود اس کے کہ فدک وغیرہ کو خالصہ سمجھتے تھے تاہم آنحضرت کی ذاتی جائیداد نہیں سمجھتے تھے (جس میں وراثت جاری ہو) اور اس وجہ سے اس کے قبضہ کا مستحق صرف اس کو قرار دیتے تھے۔ جو رسول اللہ کا جانشین ہو۔ چنانچہ حضرت ابو بکر اور خود اپنے قبضہ کی یہی وجہ بتائی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ تقریر اس وقت فرمائی تھی جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہم ان کے پاس فدک کے دعویدار ہو کر آئے تھے اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جاری ہو سکتا۔
حاصل یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک فدک وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خالصہ بھی تھے اور وقف بھی تھے۔ چنانچہ عراق کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی آیت کو جس سے آنحضرت کا خالصہ ہونا پایا جاتا ہے، پڑھ کر یہ الفاظ کہے فھذہ عامۃ فی القربی کلھا یعنی جو حکم اس آیت میں ہے وہ انہی مواضع (فدک وغیرہ) پر محدود نہیں بلکہ تمام آبادیوں کو شامل ہے۔
اصل یہ ہے کہ فدک کا ذو جہتیں ہونا ہی تمام غلط فہمی کی اصل وجہ تھا۔ چنانچہ حافظ بن القیم نے زاد المعاد میں نہایت لطیف پیرایہ میں اس بات کو ادا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
فھوملک یخالف حکم غیرہ من المالکین و ھذا النوع من الاھوال ھو القسم الذی وقع بعدہ فیہ من النزاع ما وقع الی الیوم ولولا اشکال امرہ علیھم لما طلبت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میراثھا من ترکتہ و ظنت انہ یورث عنہ ما کان مالکالہ کسائر المالکین و خفی علیھا رضی اللہ عنھا حقیقۃ الملک لیس مما یورث عنہ۔ (زاد المعاد صفحہ 143 جلد دوم)۔
ان واقعات سے تم اندازہ کر سکتے ہو کہ ان مسائل کو جو ابتدأ سے آج تک معرکہ آرأ رہے ہیں۔ اور جن میں بڑے بڑے اکابر صحابہ کو اشتباہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کس خوبی سے طے کیا کہ ایک طرف قرآن و حدیث کا صحیح محل وہی ہو سکتا ہے اور دوسری طرف اصول سلطنت و نظام تمدن سے بھی بالکل مطابقت رکھتا ہے۔